سنت کی موجودگی میں آخر اصحابِ صحاح و مسانید کو حدیث جمع کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ھوئی ؟
اس سوال کا بہتر جواب خود ان محدثین سے بڑھ کر کوئی نہیں دے سکتا ـ امام بخاری سے لے کر تمام محدثین کی تصانیف کا دیباچہ دیکھ لیجئے ، کسی نے بھی یہ نہیں لکھا کہ ” نمازیں غلط پڑھی جا رھی تھیں – عبادات مِٹ گئی تھیں ،عقائد فاسد ھو گئے تھے لہذا ھمیں صحراء صحراء جا کر ،بستی بستی دروازے بجا کر لوگوں سے پوچھ پوچھ کر انہیں دوبارہ ” Rewrite ” پڑا،، ——– یا یہ کہ ھم نے مٹتے اور نیست و نابود ھوتے اللہ کے دین کو بچانے کا بیڑا اٹھایا ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
مسلمانوں میں آپس کے جنگ و جدال نے دو کام کیئے ،، ایک تو سیاسی بنیادوں پر ایک دوسرے کی مذمت اور اپنی مدح میں حدیثیں وضع کروانے کا رواج ھو گیا ،ھر فریق یہ چاھتا تھا کہ مسلمان اسے حق پر سمجھیں اور دوسرے شخص کو سوادِ اعظم سے الگ فرقہ سمجھیں ،، زیادہ تر موضوع حدیثیں اسی قبیل سے تعلق رکھتی ھیں ،، دوسرا آپس کے جنگ وجدال نے کہ جس میں امت کا ایک بڑا حصہ اس قتال کی شرعی حیثیت کے بارے میں مخصمصے کا شکار رھا ،، بہت سی نفیس روحوں کو صوفیت کی طرف مائل کر دیا ، وہ اس قتال کو دنیا داری اور حکومت کے لئے قتال سمجھتے تھے ، اس دنیا داری کے ری ایکشن میں وہ دوسری انتہا پر چلے گئے اور سب کچھ ترک کر کے بوریا سنبھال لیا ،، یہ وہ لوگ ھیں جنہوں نے ترغیب و ترھیب میں حدیثیں وضع کیں ،، اتنے نفل پڑھو تو اتنا ثواب ،جنت کے ستر ھزار دروازے ھر دروازے کے سامنے ستر ھزار محل ھر محل میں ستر ھزار حوریں ،وغیرہ ،،نیز ترھیب میں یعنی ڈرانے کے لئے اگر کسی نے نماز تاخیر سے پڑھی تو اتنے سال جھنم میں جلنا پڑے گا ،، اگر قضا کر دی تو 40 سال کا غوطہ لگایا جائے گا،، چونکہ ان احادیث کا حلت و حرمت سے کوئی تعلق نہیں تھا ، نہ ھی ضروریاتِ دین ان کا موضوع تھا تو ابتدائی طور پر ان کی طرف توجہ نہیں دی گئ، اور کچھ یوں سمجھ لیا گیا کہ چلو ،، اتنا ثواب نہیں ھو گا تھوڑا کم سہی مگر ھو گا تو سہی ،،،
عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے زمامِ حکومت سنبھالتے ھی نہ صرف سیاسی اصلاحات کی طرف توجہ دی بلکہ مجرد 27 ماہ کی حکومت کے دوران علماء کو خط لکھ لکھ کر ،احادیث کے مجموعوں کی چھان پھٹک اور ان میں سے ضعیف و موضوع احادیث نکالنے کی ترغیب دی ،، اور علماء اس کام پہ لگ گئے ،،،،،، اصول وضع کیئے گئے ،اسماء الرجال کی چھان پھٹک کی گئ اور ان کے تعارف و ترجمے کو ایک باضابطہ شکل دی گئ ،،
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 210 ھجری میں اپنے علمی سفر کا آغاز کیا ، آپ کی نیت پہلے سے مرتب مجموعوں کی چھان پھٹک کرنے کی تھی ،مگر چند ماہ میں ھی آپ کو اندازہ ھو گیا کہ پرانے کو ادھیڑ کر درست کرنے سے نیا کپڑا سینا زیادہ آسان ھے ، آپ نے بسم اللہ کر کے اپنی تصنیف کا آغاز کر دیا ،، راویوں پر جرح میں امام بخاری نہایت پرتشدد تھے ،اس لئے کہا جاتا ھے کہ جسے امام بخاری ثقہ قرار دے دیں وہ دریا پار کر جاتا ھے ،، الا ما شاء اللہ ،،،،،
ملحدین کے بچگانہ سوالات ،،،،،،،،،،،،
1- امام بخاری نے 3 لاکھ احادیث میں سے صرف ڈھائی ھزار کو ھی معتبر ٹھہرایا ،یوں 99٪ حدیثیں جعلی نکلنے سے باقی کا وجود بھی مشکوک ھو گیا !!
جواب ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
تین لاکھ نہیں بلکہ ابن حجر العسقلانی کی تحقیق کے مطابق امام بخاری کی جمع کردہ صحیح احادیث کی تعداد چھ لاکھ کے لگ بھگ ھے !
جن میں سے 2602 احادیث صحیح بخاری میں بلا مکررات شامل ھیں ،، جبکہ بار بار کے اعادے اور ایک حدیث کے ٹکڑے مختلف جگہ استعمال کرنے ،نیز معلقات اور مبلغات کے سمیت 9082 تعداد بنتی ھے ،، مگر یہ بات ملحدین کو کس نے بتائی ھے کہ جو حدیثیں امام بخاری نے ترک کی ھیں وہ جعلی اور موضوع تھیں ؟ کسی کتاب کا حوالہ جس میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا اعتراف و افشاء کیا ھو ؟ امام بخاری نے اپنی تصنیف کو مختصر رکھنے کے لئے ان احادیث کو اپنی تصنیف میں تو شامل نہیں کیا ،،مگر انہیں اپنی مختلف دیگر تصنیفات میں استعمال کر لیا ،، اگر امام صاحب کی صحیح بخاری کے نام کو ھی دیکھ لیا جاتا تو یہ راز کھُل جاتا ،،«الجامع المسند الصحيح "المختصر "من أمور رسول الله صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامه»
یہ فرض کر لینا کہ جو احادیث امام بخاریؒ نے صحیح بخاری میں نہیں داخل کیں وہ موضوع تھیں ،، ملحدین کا بہت بڑا فریب ھے جو وہ سادہ لوح مسلمانوں کو دیتے ھیں ،،
2- احادیث کی تعداد کے بارے میں دوسرا سب سے بڑا دھوکہ !
احادیث میں ھوتا یوں ھے کہ ایک ھی متن پر مشتمل حدیث جتنے راویوں سے مروی ھو گی پوری چین میں ایک راوی بھی تبدیل ھو جائے یا نیا شامل ھو جائے تو مجرد سند تبدیل ھونے سے وہ نئ حدیث گنی جاتی ھے اگرچہ متن یا واقعہ وھی ھوتا ھے ،ایک حدیث اگر ابوھریرۃؓ سے روایت ھو ، اس کا متن وھی ھو مگر ان کے 50 شاگرد اس کو روایت کریں تو وہ 50 حدیثین بن جاتی ھیں،، اب اگر ان شاگردوں کے شاگرد تبدیل ھو جائیں تو وھی حدیث 200 حدیثین بن جاتی ھیں ،، آپ اندازہ کریں کہ ابوھریرہؓ سے صرف اور صرف 1500 حدیثیں اصل میں روایت ھیں ،مگر درمیان میں راویوں کی تصریف کی وجہ سے وہ 4500 سے زیادہ بن گئ ھیں ،، یوں یہ چھ لاکھ حدیثیں بھی اپنے متن کے لحاظ سے چند ھزار ھی ھیں ،، امام بخاریؓ کو اگر ایک لاکھ حدیثیں یاد تھیں تو اصل میں وہ ایک لاکھ اسناد یاد تھیں، واقعات یا متنون چند ھزار ھی ھیں !!
ان احادیث کی بنیاد پر دین کی عمارت کو کمزور کہنا بہت بڑا مغالطہ ھے جو یہ ملحدین لوگوں کو دیتے ھیں ،، دین کتاب و سنت کی انتہائی قوی بنیاد پر کھڑا ھے !!