ھمارے ابا حضور سبزی اگایا کرتے تھے ، کوئی دس کنال زمین پر تمام سبزیاں اگائی جاتی تھیں ،، ھمیں بیلوں کے پیچھے لگے شہتیر پہ بٹھایا جاتا ، بیل بلکہ گائے ھماری وجہ سے چلتی رھتی اور پانی بھی چلتا رھتا ،،، سبزی تیار ھوتی تو گدھی پہ لاد کر ارد گرد کے گاؤں میں بیچنے جاتے ،، گاؤں کے لوگ بڑے دیانتدار ھوتے ھیں ، عام طور پہ خود کوئی گناہ کرنے کی بجائے بچوں سے کرا لیتے ھیں کیونکہ اتنا علم تو انہیں ھے کہ ان کا اکاؤنٹ ابھی اللہ کے یہاں نہیں کھلا – لہذا چھوٹی موٹی واردات عموماً بچوں سے کرا لی جاتی ھے ، مائیں بچیوں کو بھیجتیں کہ ” باوا ملیارا امی کہتی ھے ذرا مرچیں دکھانا ،، دھنیہ ذرا دکھانا ،، بھنڈیاں دکھانا ،،،،،،، اب ابا حضور تھے سیدھے سادھے آدمی ،، جس گھر کے چار پانچ بچے ھوتے وہ ھانڈی کی سبزی سیمپل دیکھنے میں ھی گھسیٹ لے جاتے ،،جب خسارہ بڑھ گیا تو ھمیں مدد کے لئے طلب کیا گیا اور ھم گدھی پہ بن سنور کر سوار ھو جاتے ، سیمپل لے کر جانے والے بچوں کے ساتھ جاتے اور سیمپل واپس لے کر آتے ، ساتھ رپورٹ کرتے کہ سیمپل ایک ھی گھر میں چار بار گیا ھے ،، تین بار کا واپس آ گیا ھے چوتھی بار والے کے لئے تلاشی وارنٹ چاھیئے ،، چوری چالاکی کرنے والے بچوں اور بچیوں کے لئے ایک نہایت بےضرر سی گالی ھمیں سکھا دی گئ تھی، جسے سن کر ھی خواتین کا ھاسا نکل جاتا اور وہ بار بار اصرار کر کے اسے دوبارہ سہ بارہ سنتیں اور لطف اندوز ھوتیں ،، بعد میں برادری میں ھماری وہ گالی ضرب المثل کے طور پہ استعمال ھونا شروع ھو گئ ،، حالانکہ وہ صرف بھولے بھالے 5 سات سال کے بچے کے منہ سے ھی اچھی لگتی تھی ،،بڑوں نے اس کا حلیہ ھی بگاڑ دیا ،،،،،،،،،،،،،،،
امارات میں بھی والدہ اور والد نے ھمارے لئے تجارت کا پیشہ ھی سوچا ،چنانچہ ھمیں ریڈی میڈ گارمنٹس کی دکان ڈال کر دی گئ ،، ایک بلوچ کو جو کہ یہی کام کرتا تھا اور ھماری دکان کے سامنے ھی اس کی دکان تھی ،، ھمیں کام سکھانے کے لئے ھمارا اتالیق مقرر کیا گیا ،، سامان والد صاحب ھفتہ وار دبئ پرانی مارکیٹ سے گاڑی بھر کر لاتے اور ھم ھفتے میں ھی دکان خالی کر کے دکھا دیتے ،،،،،،،،
ھماری دکان پہ آنے والی خواتین جونہی زنانہ چیزوں والے شیلف کی طرف جاتیں تو ھمارا منہ شرم و حیاء سے سرخ ھو جاتا اور ھم منہ پھیر کر کھڑے ھو جاتے ،، کئ ایک بچیوں کو تو ھم منع بھی کرتے کہ تم ابھی بچی ھو اس طرف تمہارے مطلب کی کوئی چیز نہیں ،، اور وہ ھمیں مومو کی طرح ھش شاواشئ کہہ کر دھکیل دیتی ،، جب سامان کی قیمت لگانے کی باری آتی تو ھم زنانہ سامان کی طرف نگاہ بھی نہ کرتے اور نہ ھی ان کا ذکر کرتے ،،، خاتون جب بھی اس کا ذکر شروع کرتی ھم فوراً کہہ دیتے کہ اس کی بات نہ کریں گولی ماریں اسے ،، بس اپنے ھاتھوں سے اٹھا کر شاپر میں ڈال لیں ،،،،،، خواتین نے آگے پیچھے جا کر یوں مشہور کر دیا کہ ان سے اتنے کا سامان خرید لو تو زنانہ سامان ساتھ فری میں ملتا ھے ،،،،،،، بس جناب ھماری دکان پر خواتین کے رش کا عالم کچھ یوں ھو گیا کہ گویا دکان نہ ھوئی بہشتی دروازہ ھو گیا کہ ھر ایک نے اندر ضرور ھی گھسنا ھوتا ،، جبکہ ھمارا استاد یا اتالیق سارا دن دکان کے باھر کھڑا ھماری کسٹمرز گنتا رھتا ،، خواتین پہلے آ کر چیک کرتیں کہ مطلوبہ سامان موجود ھے یا نہیں ، اگر زنانہ سامان نہ ھوتا تو وہ شام کو آنے کا کہہ کر کھسک جاتیں ،، چنانچہ ھمیں اس سامان کو ھر دم دستیاب رکھنا پڑتا تھا ،، ایک دن ھمارے استاد کے صبر کا پیمانہ لبریز ھو گیا ،،،،، اڑے یہ تو کیسے گراھکی کرتا اے نی ؟ انکل کیا ھو گیا ،،؟ ھم نے پریشان ھو کر پوچھا ،، ابے میری گراھکی کی ماں کی شادی کر کے تُو ھم سے پوچھتا ھے کیا ھو گیا نی ؟ ماں کی شادی میں نے شرعی زبان میں بولا ھے ورنہ اس نے اسے گالی کے طور پہ استعمال کیا تھا ،،،، دیکھ واجہ ھم زبردستی تیرا کوئی گاھک لے کر نہیں آیا ،،،،،، اور جو آتا ھے میں اس کو نکال نہیں سکتا ،، بس تو میرے کو یہ بتا دے کہ تو ان کو کیا کھلاتا ھے ؟ اگر تعویز کیا ھے تو وہ ھم کو بھی بتا ،،،،،،، ورنہ ھم تیرے باپ کو بولے گا ،،لڑکا عورت لوگ سے پیسہ نہیں لیتا ،،،،،،، ابے سچ میں کسم سے مجھ کو تو یہی گڑبڑ لگتا ھے کہ تو فری میں سب بانٹ رھا ھے ،،،،،مگر یار یہ تیرا باپ چریا ھو گیا ھے کیا ۔ ھر جمعرات کو گاڑی بھر کے لا دیتا ھے تجھے ، اس کا مطلب ھے تو کچھ تو کما کے اسے دیتا ھے ،پھر یہ سب میرا ماں تمہارے پاس کیوں آتا ھے ؟ سب میرا پانچ سال پرانا گراھک ھے ،مگر اب نظر بھی نہیں ملاتا ،،،، دیکھ واجہ ،، میں بچہ ھوں ،، تو مرد ھے ، عورت لوگ تیرے سے شرماتا ھے پہلے تیری دکان پہ آنا ان کی مجبوری تھی ،جب بچے کی دکان مل گئ تو اب وہ بے فکر ھو کر خریداری کرتی ھیں ،، کوئی غیر تو وھاں ھوتا نہیں سب عورتیں ھی عورتیں ھوتی ھے ،میری مائیں بہنیں ،، چل بھئ چل ،، واجہ نے غصے سے کہا ،مطلب کے لئے لوگ گدھے کو تو باپ کہتے تھے ،مگر پہلا بچہ دیکھا ھے جو مطلب کے لئے گدھی کو ماں کہنے پہ تیار بیٹھا ھے ،، واجہ غصے سے لال پیلا ھو کر چلا گیا ،اگلے دس پندرہ دن میں اس نے دکان بند کر دی ،،،،،،،،
ابا حضور تو امارات میں پھنس گئے تھے ،خط بھی لکھو تو دو ماہ آنے اور دو ماہ جانے میں لیتا تھا،، بینک سسٹم تھا نہیں ،، ایک درھم کا ایک روپیہ ھی بنتا تھا ،، پیچھے کھانے کے لالے پڑ گئے تھے ،،،،،،،،
ایک دن امی جی نے بڑے آرام سے بٹھا کر سمجھایا کہ بیٹا جی چار کلاسیں پڑھ لی ھیں یہی بہت ھے ، زیادہ تعلیم بڑے لوگوں کے چونچلے ھیں ،گھر میں فاقے ھیں اور یہ کتابوں اور یونیفارم کی عیاشی کی کوئی گنجائش نہیں ، پڑھنا وڑھنا ختم ،کل سے کہیں ھوٹل میں برتن دھونے اور چائے شائے دینے کا کام جا کر ڈھونڈو ،،،،،،،،
ساری رات سوچنے میں گزر گئ ،،،،،،، مجھے اچھی طرح یاد تھا ، ابا کہا کرتے تھے کہ میرا بیٹا ڈاکٹر بنے گا ،، دادا جی کہا کرتے تھے زمین کے مقدمے میں جو بھی وکیل کرتا ھوں فریق مخالف سے پیسے لے کر اس کے ساتھ مل جاتا ھے ،میرا پوتا وکیل بنے گا تو میں سارے مقدمے جیت جاؤں گا ،،،،،،،،، ساری رات نیند نہ آئی رہ رہ کر رونا آتا ، بس نہیں چلتا تھا کہ ابا جی کو چیخ چیخ کر بتاؤں کہ میرے ساتھ کیا ھونے جا رھا ھے” سسیئے بے خبرے تیرا لُٹیا ای شہر بھنبھور نی ” ،، صبح اسکول جانے کی بجائے کھیتوں کی طرف نکل گیا اور اپنی زمین کے ” بنے ” یعنی منڈھیر پر بیٹھ کر خوب رویا ،، جب بھڑاس نکل گئ تو سوچا ،،،،،، ماں بھی کیا کرے ؟ جو وہ کر سکتی ھے کر رھی ھے ،، میں نہیں کماؤں گا تو کون کمائے گا ؟ مگر ھوٹل اور بندے بندے کو چائے دینا ،،،،،،،،،،،،، ایسا تو نہیں ھو سکتا ،،،،،،،،،،، پورا ھفتہ میں اسکول نہ گیا ، ھفتے بعد دو ماہ کی چھٹیاں ھو گئیں ،،،،،،،،
میں نے ایک آدمی سے بات کی اور اس نے مجھے مرنڈے دس بارہ پیکٹ لا دیئے اور ماچس کے چار پانچ گُرس ،، میں صبح سورج طلوع ھونے سے پہلے جلدی جلدی کھیتوں کی طرف نکل جاتا ایک تھیلے میں ماچسیں اور دوسرے میں مرنڈے ھوتے ،، گندم کی ایک گڈی کے عوض چار مرنڈے یا ایک ماچس کا تبادلہ کرتا ،،،،،، وہ گڈی اٹھا کر اپنے کھلاڑے میں لاتا جو کہ تقریباً ایک کلومیٹر دور واقع تھا ، پھر واپس جاتا ،،پھر گڈی اٹھا کر واپس آتا یوں 20 گڈیوں کے لئے بیس پھیرے لگ جاتے ،، 8 سال کے بچے سے اس سے زیادہ کیا ھو سکتا تھا ،، ایک دن دوپہر 2 بجے کا وقت تھا ،، میں جب گڈی اٹھا کر لایا اور اپنے گھر کے پاس کھلاڑے میں اپنے بگھے کے ساتھ اس کو کھڑا کیا ،،،، تو وھی کنواں جہاں میرے والد صاحب سبزی لگایا کرتے تھے اس کے کنارے پہ نیم کا گھنا درخت لگا ھوا تھا ، مکئ کی فصل کے زمانے میں اس پہ مچان بنا کر ھم مکئ کی رکھوالی کیا کرتے تھے ،، اور میں والد صاحب کو جپھی مار کر ان کے ساتھ سوتا تھا ،، اس درخت کے نیچے بیٹھا تو تھکاوٹ کے ساتھ ساتھ ابا کی یاد بھی آ گئ ،، کافی دیر رونے کے بعد سوچا کہ مرنڈے کا پیکٹ کھلا ھوا ھے ، کل تک مرنڈے ڈھیلے پڑ جائیں گے اور کوئی لے گا نہیں لہذا ان کو آج ختم کرنا ضروری ھے ،، میں نے جب اٹھ کر کھیتوں کی طرف نظر دوڑائی تو دھکتے تندور کی سی لوُ کی لپٹیں نظر آ رھی تھیں جس کی وجہ سے سے کھیت "Blur ” ںظر آ رھے تھے ، ،،،،
تپتی راھیں مجھ کو پکاریں ،پاؤں پکڑے چھاؤں گھنیری !
والا معاملہ بن گیا تھا ،، میں پھر بیٹھ گیا ،، اچانک میں نے دیکھا کہ نیم کے درخت کی چھاؤں میں میر زمان بھٹی کا کالا کتا ” کالُو ” بھی بیٹھا ھوا ھے ،، انکل میر زمان ھمارے پڑوسی اور بہت اچھے انسان تھے ، ان کا کتا میرے ساتھ بہت مانوس تھا ،،،،،، میں نے اسے پچکارا تو وہ میرے پاس آ کر بیٹھ گیا ،، اس کی باڈی لینگویج سے لگتا تھا کہ وہ بھی بھوکا تھا ،بھوک تو مجھے بھی بہت لگی ھوئی تھی مگر مجھے تو اپنا کام ختم کر کے ھی گھر جانا تھا ،میں نے ایک مرنڈا نکالا اور اسے کتے کو پھینک دیا جو کہ اس نے جھٹ پٹ کھا لیا اور مزید کی امید میں ،، میری آنکھوں میں دیکھنا شروع کر دیا ۔۔۔
؎ اک نظر مڑ کے دیکھنے والے ،کیا یہ خیرات پھر نہیں ھوگی؟
حاتم طائی میں بھی نہیں تھا مگر میں نے اسے دوسرا مرنڈا بھی پھینک دیا ،، جو اس نے رستے سے ھی اچک لیا ،،،،،، اچانک ایک خیال میرے ذھن میں بجلی کی طرح کوندھا ،، اگلے دونوں مرنڈے میں نے کتے کو یکمشت پھینک دیئے کیونکہ سودا ھو گیا تھا ،، چار مرنڈے کتا جب کھا کر فارغ ھو گیا تو میں نے اٹھ کر گندم کی ایک گڈی انکل میر زمان کے بگھے سے اٹھا کر اپنے بگھے کے ساتھ کھڑی کر دی ، اس طرح بارہ مرنڈوں کے عوض تین عدد گڈیاں اٹھا کر اپنے بگھے کے ساتھ لگا لیں ،،،، اس طرح کتا بھی انکل کا اور گڈیاں بھی انکل کی ،،، بعد میں پھر انکل میرزمان کو بتا کر ان سے معافی بھی مانگ لی مگر یہ کوئی دس بارہ سال بعد کی بات ھے
دو ماہ کی مشقت کے دوران ھی اللہ پاک نے رستے کھول دیئے ،کسی عزیز نے والد صاحب کو طنز کے طور پہ لکھ دیا کہ تیرا ” ڈاکٹر ” آج کل مرنڈے بیچ رھا ھے ، والد صاحب نے میرے چچا کو جو کہ فوج میں سپاھی تھے کسی آدمی کے ذریعے پیغام بھیجا کہ وہ اپنی تنخواہ جو کہ مبلغ 60 روپے پاکستانی بنتی تھی، وہ ھمیں دے دیا کریں اور والد صاحب کسی آنے والے کے ھاتھ ان کو سال کے پیسے بھیج دیں گے ،، والد صاحب بھی ساٹھ درھم تنخواہ لے رھے تھے،، دوسری جانب میری دادی جان بھی میدان میں آ گئیں اور میری فیس اور یونیفارم اپنے ذمے لے لی ،یوں تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع ھوا ،، آٹھویں کے بعد 5 کلومیٹر دور قصبہ دولتالہ ھائی اسکول جانا تھا ، اور سائیکل درکار تھی ،، اسی فوجی چچا کو کہا گیا کہ وہ اپنی مونگیا کلر ( ھلکا گرین ) کی سائیکل ھمیں دے دیں ، پیسے ملاقات پر ،،،،،، سائیکل جو کہ جگہ نہ ھونے کے سبب کمرے کی چھت کے ساتھ رسیوں کی مدد سے لٹکائی ھوئی تھی ، اسے اتارا گیا اور ھمارے حوالے کر دیا گیا ،، ھم قینچی سائیکل تو چلا لیتے تھے ،،مگر کاٹھی پر بیٹھ کر چلانے کا تجربہ نہیں تھا ،، ایک اونچی جگہ کے ساتھ کھڑا کر کے ھم اس پر بیٹھ گئے اور ایک آدمی سے کہا کہ ” ھمیں ذرا دھکا دے دو ،،،،،،،، دھکا دے دیا گیا اور ھم گھنٹوں کے حساب سے ،موضع ڈھونگ ،تراٹی، دمہالی ،نڑالی ،ٹھاکرا میانہ موھڑہ مستالہ اور آھدی کے چکر لگاتے رھے ،ڈرتے کہیں رکتا بھی نہیں تھا کہ پھر دھکا کون دے گا ،، آخر کار اپنے گاؤں کی بن پر پہنچ کر گِر گیا ،،،،، حالت یہ تھی کہ ھلا نہیں جا رھا تھا ،، لاگے لگ کر زخم بن گیا تھا ،چونکہ پاؤں ذرا پیڈل سے دور تھا تو ھم دائیں بائیں لٹک کر پیڈل تک پہنچاتے تھے لہذا رانوں کے اندر کی سائڈ زخم بن چکے تھے ،، اور ٹانگیں لکڑی کی لگتی تھیں،، ھم گارڈ آف آنر والے دستے کی سلامی دلوانے والے تلوار اٹھائے ھو فوجی کی طرح ٹانگیں اکڑا کر گھسیٹ کر آگے رکھتے تھے ، اور کاٹھی،،، اللہ معاف کرے ھمیں دو تین دن تک کاٹھی اپنی پیٹھ پر ھی چپکی ھوئی لگتی تھی ،، ھم احتیاطا کروٹ کے بل سوتے کہ کہیں کاٹھی مزید نقصان نہ پہنچا دے ، ایک دو دفعہ تو باقاعدہ جا کر چیک بھی کیا ،لیطمئن قلبی ” کہ کاٹھی واقعی سائیکل کے ساتھ ھی لگی ھے ؟ ھفتے بعد ھم پھر ریہرسل کے لئے نکلے سیدھے دولتالہ کا رخ کیا اور واپسی کی راہ لی ، واپسی پہ جب ھمارے گاؤں جانے والا ” آہدی موڑ ” آیا تو ھماری سپیڈ اتنی تھی کہ موڑ مڑنا ناممکن تھا ،، اور موڑ مڑنا بھی ضروری تھا کیونکہ وہ آہدی موڑ تھا ،، کہنا بھی نہ چاھے دل ،کہنا بھی ضروری ھے ،، اس وقت ھمیں اس کی تفسیر سمجھ لگی ،، ایک بابا دولتالہ کی طرف پیٹھ کیئے مستالہ کی طرف منہ کیئے گوجرخان سے آنے والی بس کے انتظار میں پُلی پر اکڑوں بیٹھا ھوا تھا ،،،،،،،،
سائیکل نے موڑ مڑنے سے انکار کر دیا اور منہ سیدھا اس بابے کی طرف کر لیا ،،، ھمیں بابے کو یہ نوٹس دینے کا موقع بھی نہ ملا کہ ” پلٹ میری جان ،تیرے قربان ،تیرا دھیان کدھر ھے ؟ سائیکل بابا سے ٹکرانے سے پہلے جو لمبی باں ھمارے منہ سے نکلی ،، سمجھ نہیں لگتی کہ وہ بابا جی کو خبردار کرنے کی کوشش تھی، یا اپنے حق میں کوئی دعا تھی،، ھماری باں کے نتیجے میں بابا ابھی التحیات سے سلام پھیرنے کی طرح سلو موشن فلم کی طرح منہ موڑ ھی رھا تھا کہ سائیکل نے اسے منہ کے بل پُلی سے نیچے گرا دیا ،، بابا کے اوپر سائیکل اور سائیکل کے اوپر میں ،، زور زور سے رو رھا تھا ،، رونا تو بابا کو چاھیئے تھا مگر شاید بابا کی رونے کی عمر گزر گئ تھی یا رونے کے قابل ھی نہیں چھوڑا تھا اسے سائیکل نے ،،،،، ھم نے جھٹ سائیکل بابا کے اوپر سے اٹھانے کی کوشش کی ،،، ھمیں بابا کو نیچے سے نکالنے کی بجائے ،، اپنے جلدی بھاگنے کی فکر زیادہ تھی ،، سائیکل ابھی پوری طرح اٹھی بھی نہیں تھی کہ بابا کا ڈھکن کھُل گیا ، اس نے اپنی ساری زندگی کے تجربات گالیوں کی صورت اگلنا شروع کر دیئے تھے گویا ھم سے اپنی سی وی بنوا رھا ھے ،،،،،، ھم نے بابا کے اٹھنے سے پہلے سائیکل دوڑا کر اس پر سوار ھونے کی کوشش کی مگر سائیکل کا اگلا چمٹا ٹوٹ چکا تھا اور ھینڈل بھی ٹیڑھا ھو چکا تھا ،،مگر یہ باوے کا ڈر تھا کہ جس نے ھمیں سائیکل پکڑ کر بھی سائیکل کی رفتار سے دوڑا رکھا تھا ،، والد صاحب کے پاکستان آنے تک ھم نے سائیکل کو تقریباً 8 انچ کی اوسط سے جگہ جگہ ٹانکے لگوا رکھے تھے ،جن میں وہ کافی دیر تک سائیکل ڈھونڈتے رھے ،، پہلی سائیکل ،پہلی گاڑی اور پہلی بیوی ،،،،،،،،،،،،،،، تباھی کا منظر پیش کرتی ھیں ،،،،،،،، دکھ کی بات یہی ھے کہ پہلی کو تباہ کر کے نخرے دوسری کے اٹھائے جاتے ھیں