منافق کی چار نشانیاں بیان کی گئ ھیں اور حدیثِ پاک میں ایسے فرد کو کہ جس میں یہ چاروں نشانیاں پائی جائیں ،، پکا ٹھکا 24 کیرٹ کا منافق قرار دیا گیا ھے ،،پھر جس میں تین ھیں وہ 22 کیرٹ کا ، پھر جس میں دو ھیں وہ 18 کیرٹ کا اور جس میں ایک ھے وہ 25٪ منافق ھے –
1- جب بات کرے تو جھوٹ بولے !
2- جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے !
3- جب امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے !
4- جب جگھڑا کرے تو تمام حدود و قیود کا پار کر جائے ،، یعنی پھٹ پڑے ،،،
ھم سب سے پہلے ” اذا خاصم فَجَرَ ” جب مخاصمت ھو تو پھٹ پڑے ،، کو لیتے ھیں !!
فجر ، پو پھٹنے کو کہتے ھیں ،اندھیرے کا سینہ پھاڑ کر فجر نکلتی ھے !
متفجرات ،،= Explosives
انفجار = Explosion
فاجر = پھاڑنے والا
بم کی شکل و صورت نقصان نہیں پہنچاتی اور نہ ھی اس کا حجم نقصان پہنچاتا ھے ، جب تک بم پھٹے نہ تب تک اس کی تباہ کاری کا اندازہ نہیں ھوتا ،، دھماکے سے پہلے وہ پریشر ککر بڑا معصوم سا لگتا ھے ، ناپنے والے پھٹنے کے بعد اس کی معصومیت کی تباہ کاریاں ناپتے پھرتے ھیں ،،
پھٹنے سے پہلے بندہ بھی بڑا حاجی ، نمازی ، قاضی ، قاری ، حضرت ، اعلی حضرت ،، فخرِ اولیاء ، زبدۃ العلماء ، نظر آتا ھے ،،،،،،،،،،،،، بس اس کے منہ سے نکلنے والا ایک جملہ ھی اس کی حقیقت کھول کر رکھ دیتا ھے اور اس کی زبان کا گھاؤ کسی کو زندگی بھر کا روگ دے جاتا ھے ،، لڑائی جھگڑے زندہ انسانوں میں ھی ھوتے ھیں ، والدین اور اولاد میں بھی ھو جاتے ھیں ، بہن بھائیوں میں ھو جاتے ھیں ، میاں بیوی میں ھو جاتے ھیں ،،،، کبھی ایسا کلمہ نہیں کہنا چاھئے کہ اگلے کو صلح کے بعد بھی یاد آئے تو رات کی نیند اڑ جائے اور آپ کو یاد آئے تو شرمندگی ھی شرمندگی ھو ،،،،،،، یاد رکھیں شیشہ جوڑا جا سکتا ھے ،مگر دل میں بال آ جائے تو صلح کے باوجود بس ورکنگ ریلیشن شپ ھی رہ جاتی ھے ،،،، ایک میاں بیوی کے درمیان میں نے صلح کرا دی ،، دس دن کے بعد اس کا شوھر واپس آیا ،، بکھری زلفیں پریشان چہرہ ، کہنے لگا میں پچھلے دس دن سے سو نہیں سکا ،، قاری صاحب اس نے گالی ھی ایسی دی تھی کہ جونہی یاد آتی ھے ،نیند اڑ جاتی ھے میں اٹھ کر بیٹھ جاتا ھوں ، روٹی کھاتے ھوئے یاد آئے تو بھوک مر جاتی ھے ،، اور اب تو حالت یہ ھو گئ ھے کہ اس کی شکل دیکھتا ھوں تو وہ گالی تازہ ھو جاتی ھے گویا ابھی ابھی دی ھے ، وہ بندہ نفسیاتی بن گیا تھا ، وہ گالی اس عورت کی فائل فوٹو کے ساتھ ٹیگ ھو گئ تھی ،،، آخر نفسیاتی ڈاکٹر سے تقریباً ایک سال کے علاج کے بعد اسے افاقہ ھوا تھا ،، میاں بیوی بے شک آپس میں کبھی کبھار لڑ لیا کریں ،، یہ بھی پیار کی رسمیں ھیں ،، مگر تمیز کے دائرے میں رہ کر اور یہ سوچ کر کہ گزارہ تو اسی کے ساتھ کرنا ھے لہذا آخری حد نہ کراس کی جائے ،، اسی طرح اگر مرد اپنی بیوی کو اس کے والدین کے بارے میں کوئی ایسی گالی دے دیتا ھے جسے وہ بھلا نہیں پاتی تو ، وہ اس شوھر کے ساتھ رھنے پہ مجبور تو ھے ،،،،،،، مگر محبت پہ مجبور نہیں کی جا سکتی ، وہ گالی محبت کے لئے ” Airlock ” بن جاتی ھے ،، جس طرح تالی ایک ھاتھ سے نہیں بجتی اسی طرح محبت بھی ایک فرد سے نہیں چلتی یہ دو طرفہ عمل ھے ،، بیوی اور شوھر ھر ایسی حرکت سے پرھیز کریں جو محبت کے لئے زھرِ قاتل ھو ،،،،،
والدین بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرنے میں لفظوں کا انتخاب انتہائی احتیاط سے کیا کریں ،، بچہ سب سے زیادہ خوشی والدین کی طرف سے تعریف کرنے پر محسوس کرتا ھے ، اور سب سے زیادہ دُکھ بھی والدین کی طرف سے تمسخر اڑانے یا طنز کرنے پر محسوس کرتا ھے !