دعا ایک مستقل عبادت ھے جس طرح نماز روزہ زکوۃ اور حج ھے – اللہ سے دعا کرنا بھی اسی طرح فرض کیا گیا ھے جس طرح اللہ کی نماز پڑھنا فرض کیا گیا ھے- قال ربکم ادعونی،استجب لکم،، تمہارا رب کہتا ھے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا( المومن ) اس میں دعا کا حکم بلا امتیاز سب کو دیا گیا ھے،یعنی نیک و بد سب کو ،جسطرح نماز روزے کا حکم سب کے لئے ھے،نیک ھو یا بد،، اس آیت میں قبولیت کا وعدہ بھی سب سے بلا امتیاز کیا گیا ھے،،نیک ھو یا بد – ماں جس بچے سے ناراض ھوتی ھے،اس کا حصہ ضرور دوسروں سے چھپا کر رکھ دیتی ھے- محروم کبھی نہیں کرتی پھر جو ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ھے وہ کیسے اپنے بندے کو محروم کر سکتا ھے،، دعا کا حکم نماز سے زیادہ بار دیا گیا ھے،، بلکہ دعا ھر عبادت کا جوھر ھے، الدعاء مخ العبادہ اور الدعاء ھو العبادہ ،، ارشادات نبوی ﷺ ھیں ! ھمارے یہاں ھر چیز کی طرح دعا کے بارے مین بھی عجیب عجیب تصورات قائم ھیں،، 1- دعا کے لئے ایک نیک انسان کی تلاش – یہ بالکل ایسے ھی ھے جیسے بیمار تو میں ھوں مگر دوا کے لئے مجھے کسی صحتمند آدمی کی تلاش ھے تا کہ اسے دو ڈھکن دوا پلا سکوں،،دعا تو پکار ھے وہ پکار جو ماں سے سرِ بازار بچھڑ جانے والے بچے کے منہ سے نکلتی ھے،،وہ دردناک پکار فلم مین بھی سنی جائے تو رونگھٹے کھڑے ھو جاتے ھیں،، وہ درد بھری پکار کسی گنہگار کے منہ سے ھی نکل سکتی ھے،، میں نے پہلی دلی دعا میدانِ عرفات میں الیاس کاشمیری اداکار کے پیچھے 1982 میں کی تھی،، میں عصر کے بعد خیمے سے جبلِ رحمت جانے کے لئے نکلا ،ابھی تھوڑا دور گیا ھوں گا کہ رونے اور ڈکرانے کی آواز آئی ،، ساہڈ پر دیکھا تو ایک لمبا دھڑنگا آدمی مچل مچل کر رو رھا تھا،اور لوگ بھی اس کے پیچھے آہ و زاری میں مشغول تھے،، میں نے اس کا مچلنا تڑپنا اور اس کے الفاظ سنے ،فریادوں کی بے ترتیبی بتا رھی تھی کہ کسی مولوی سے قافیے سیکھ کر نہیں آیا،، سب کچھ اندر سے نکل رھا ھے،میں سمجھ گیا کہ رحمت ادھر برس رھی ھے،، میں نے خاک کی مٹھی اٹھائی اور اپنے سر پر ڈال لی اور پھر اس کے پیچھے کھڑا ھو گیا،، کیا آپ یقین کریں گے کہ مین آج تک اس دعا کے ثمرات لوٹ رھا ھوں ؟ اس کے بعد میں حج اور عمروں پر بار بار گیا ھوں مگر الیاس کاشمیری مرحوم کی دعا والی فریکوئنسی مجھے پھر نہیں ملی،، اگر عرش ھلانے والی دعا کرنی ھے تو کسی نیک کی تلاش نہ کریں کسی گنہگار کی تلاش کریں،منت ترلا کر کے اسے دعا پر آمادہ کر لیں اور پھر اس کے ہیچھے صرف آمین کریں،دیکھیں وہ کیسے عرش کو ھلاتا ھے ! جس درد سے بیمار اور گنہگار روتا ھے، اس درد سے صحتمند اور پرھیزگار رو ھی نہیں سکتا،،اور آپ کو پتہ ھے کہ ماں بچے کی تکلیف کا اندازہ اس کے رونے کی کیفیت سے لگاتی ھے،،اسے پتہ ھوتا ھے کہ یہ رونا دودھ کا رونا ھے،بچے کو بھوک لگی ھے اور یہ رونا کوئی اوپرا رونا ھے ،تکلیف کا رونا ھے،،گنہگار کے رونے سے صرف رحمان نہیں چونکتا،فرشتوں کی بھی دوڑیں لگ جاتی ھیں ! میں نے دوران طواف ایک گونگے کو دیکھا جو گوں گوں کر کے رو رھا تھا کچھ کہنے کی کوشش کرتا تھا،،وہ جب اپنے اردگرد لوگوں کو ٹولیوں میں قافیوں کے ساتھ مانگتے دیکھتا تو اسے احساس ھوتا کہ یہ بولنے والے تو سارا لوٹ کر لے جائیں گے،میری کون سنے گا ،میرے پاس تو الفاظ ھی نہیں ھیں- اس کے بعد وہ بےساختہ آسمان کی طرف بے بسی سے دیکھتا اور دردناک فریاد کر کے پاگلوں کی طرح غوں غاں کرتا تھوڑی دور تک دوڑتا،، میں سمجھ گیا کہ رحمٰن نے بولنے والوں کو تو فرشتوں کے حوالے کر دیا ھے اور خود اپنی رحمت سے اس گونگے کی طرف متوجہ ھے جس کی اس کے سوا کوئی نہیں سمجھ سکتا ،میں پورا طواف اس گونگے کے پیچھے دوڑتا رھا اسی کی غوں غاں پر آمین کرتا رھا،اور ثمرات سمیٹتا رھا ! اللہ پر نیکیوں کی دھونس نہین چلتی،،نیکیاں ھم اپنے بھلے کو اپنے اکاؤنٹ مین بھیجتے ھیں رب پر کونسا احسان ھے کہ بندہ ادائیں دکھاتا پھرے، تازہ تازہ گولڈن کارڈ چلا تھا،، جو پاکستان تین لاکھ اپنے اکاؤنٹ میں بھیجے گا گولڈن کارڈ ملے گا اور کسٹم مین چھوٹ ھو گئی، نیز پاسپورٹ فری بنے گا،،گولڈن کارڈ لے کر اسلام اباد ایئرپورٹ پر اترے، کسٹم پر گزر ھوا ، ھاتھ والی سلائی مشین پاس تھی،، کسٹم لگایا گیا،، اسے کارڈ بتایا،،کہنے لگا یہ کیا ھے؟ بڑے فخر سے بتایا پاکستان 3 لاکھ روپیہ بھیجا ھے،، پلٹ کر کہنے لگا مولوی صاحب اپنے اکاؤنٹ میں بھیجا ھے، مجھ پر کوئی احسان کیا ھے؟ کسٹم والا نہین مانا،، رب کو کوئی چار سجدے کر کے تھلے کیسے لگا سکتا ھے،، ؟ دعا کا فوری اور نقد فائدہ ھی یہ ھے کہ سب سے پہلے آپ کے گناہ معاف اور صاف کیئے جاتے ھیں،،پھر آپکی دعا کا جائزہ لیا جاتا ھے کہ آپ کے لئے فوری قبولیت ٹھیک رھے گی یا اسے مؤخر کر لیا جائے یا آخرت کی ضرورت کے لئے فکس ڈیپازٹ کر لیا جائے جو بھی فیصلہ ھو گا،،آپ ھی کی فیور میں ھوگا،، آپ کی بہتری کے لئے ھو گا،،اللہ پاک کا اپنا مفاد ھے ھی نہیں کہ وہ اپنے فائدے کا سوچے گا،، ھماری عبادت اس کا کوئی فائدہ نہیں کرتی اور ھمارے گناہ اس کا کوئی نقصان نہیں کرتے،،دونوں چیزیں ھم اپنے اکاؤنٹ میں بھیجتے ھیں،، گناھوں سے شرما کر جو لوگ اللہ سے مانگنے سے رک جاتے ھیں،،انہیں وہ بار بار کہتا ھے ،میری رحمت سے مایوس مت ھو جاؤ، اللہ سارے گناہ معاف کر دے گا،، تم ان کی وجہ سے میرے پاس آنے سے کتراتے ھو ناں؟ یہ لو میں نے سارے ڈیلیٹ کر دیئے ،بلکہ ھر گناہ کے بدلے نیکی لکھ دی "یبدل اللہ سیئاتھم حسنات،، اللہ ان کے گناہ لے کر نیکیاں پکڑا دیتا ھے،،ایک ٹوکری مین گناہ ڈالو اور دوسری سے نیکی اٹھا لو،، یہ دعا کے نقد فائدے ھیں،، جب کوئی کسی بڑے سے ملنے جاتا ھے تو پتہ ھے کیا ھوتا ھے؟ بیوروکریسی کے کارندے اسے اس کے دربار کے قابل بناتے ھیں،، یہانتک کہ اگر شیخ صاحب کو سفید بال ناپسند ھوں تو مہمان کے بال سیاہ کیئے جاتے ھیں ،اسی طرح رب کے دربار کے تقاضوں سے آگاہ فرشتے اس کے حکم اور پسند کے مطابق آپ کو گناھوں سے صاف ستھرا کر کے رب کے حضور پیش کرتے ھیں !پھر بھی آپ سوزوکی بک کر کے دعا کروانے نیک کے پاس جاتے ھو،،بھائی وہ بکنگ کے پیسے کیسی مریض کی دوا کے لئے دے دو،، اور ھاتھ کھڑے کر لو،اپنے نبیﷺ کی بات کا اعتبار کرو ،،وہ عرش والا کبھی کسی کے اٹھے ھوئے ھاتھ خالی نہیں لوٹاتا ،اسی لئے تو حکم دیا گیا ھے کہ ھاتھ چہرے پر پھیر کر رب کی عطا پر شکر گزاری کا اظہار کرو ،،تیرے ھاتھ خالی نہیں لوٹے اس لئے اس بھرے ھوئے خزانے کو نیچے نہ گراؤ بلکہ ھاتھ چہرے پر مل کر نیچے کرو،، دعا کے آداب میں پہلے اللہ پاک کی تعریف پھر نبی پاکﷺ پر درود پھر اپنی بات پھر درود پر بند کر دو،، نبیﷺ فرماتے ھیں اللہ بڑا بامروت ھے ممکن نہیں کہ وہ دعا کا پہلا اور آخری حصہ تو قبول فرما لے اور درمیان والا چھوڑ دے !
دعا کے مضمرات !
دعا کر کے ھضم کر لینا خالہ جی کا گھر نہیں اس کے لئے یا تو ھمالیہ جیسا ایمان چاھئے یا کے -ٹو جتنا گناہ -جو
انسان کی گردن جھکا کر رکھے-گنہگار جب دعا مانگتا ھے تو ڈر ڈر کے مانگتا ھے،اسے اپنے گناھوں کے کلپ بار بار نظر آ رھے ھوتے ھیں،، پوری ھو جائے تو فبہا ،، نہ ھو تو وہ اپنے آپ کو ھی کوستا ھے کہ تو نے بھی کونسا کوئی اچھا کام کیا ھوا ھے ! یہ تو ھونا ھی تھا،، وہ مزید مسکینی اور عاجزی کا شکار ھو جاتا ھے ۔۔ اللہ معاف کرے نیک آدمی جب دعا مانگتا ھے تو دعا نہین مانگتا وہ تو الٹی میٹم دیتا ھے،،اپنی نمازوں ،اشراق و اوابین،، حج اور عمرے کے کلپ بار بار لگ رھے ھوتے ھیں،، جوں جوں قبولیت میں دیر ھوتی ھے موڈ خراب ھوتا جاتا ھے،، اور وہ سمجھتا ھے کہ اس کی انسلٹ کی جارھی ھے،، اور آخر بول پڑتا ھے، یار نمازیں بھی پڑھتے ھیں، صدقہ خیرات بھی کرتے ھیں مگر مصیبت نے ھمارا ھی گھر دیکھ لیا ھے،، یہ گلے شکوے کا انداز دعا کو کیا قبول کرائے گا عبادت کو بھی بے کار کر دیتا ھے،، دعا کر کے رب کی مرضی پر چھوڑ دینا چاھئے، یاد رکھئے دعا میں ٹائم فریم نہیں ھوتا،،منگتا کسی کو الٹی میٹم نہیں دیتا،، منگتا یہ نہیں کہتا کہ سرکار اتنے دو،، ڈالرز ھی دو،، وہ کشکول آگے کر دیتا ھے جو آپ کے جی میں آئے ڈال دو ،، موسی علیہ السلام کا دعا کا ادب دیکھا ھے،، درخت کے نیچے کھڑے ھو کر فرمایا ” ربِ انی لما انزلتَ الی من خیر فقیر ( القصص ) ائے میرے پالنہار میں ھر اس چھوٹی سے چھوٹی خیر کا محتاج اور قدردان ھوں جو تو میری جھولی مین ڈال دے، اس ادا پر رب کی رحمت کا ٹوٹ پڑنا دیکھو،، گھر بھی دے دیا، نوکری بھی دے دی، بیوی بھی اسی دن دے دی،، یہ ھے ھمارے رب کا مزاج ،،بلیک میلنگ اسے بالکل پسند نہیں ،، نہ وہ نسب سے بلیک میل ھوتا ھے نہ عبادت سے،، سر جھکا دو، آنکھیں نیچی کر لو، رو لو،، نہیں تو رونے کی صورت بنا لو،، پھر دیکھو وہ خود تمہاری ضرورتوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کے پورا کرے گا ! اللہ آپ کو سلامت اور اپنے در کا محتاج رکھے ! آمین