ایک شریف آدمی روزانہ مغرب کی نماز کے بعد بٹ سویٹ ھاؤس کے سامنے آ کر کھڑا ھو جاتا اور اس کی مٹھائی والے تھالوں کے پاس کھڑا ھو کر ایک طویل دعا کرتا اور پھر اپنے گھر کی راہ لیتا ،، بٹ صاحب اس کی اس بے لوث دعا کے بڑے قدردان بن گئے تھے وہ نہ صرف حافظ صاحب کو بڑی عقیدت سے جھک کر ملتے بلکہ روزانہ لفافے میں کچھ نہ کچھ ڈال کر ساتھ کر دیتے ،،
جمعرات کا دن تھا دعا کے بعد بٹ صاحب نے حافظ صاحب کو روک لیا ،، اپنی دکان میں اندر لے جا کر بٹھایا اور بالائی یعنی کہ ملائی مار کے دودھ کا پیالہ دیا ،، ساتھ گرم گرم جلیباں رکھیں تا کہ حافظ صاحب اگر مناسب سمجھیں تو انہیں دودھ کے ساتھ استعمال کر لیں ،، ورنہ ساتھ گھر لے جائیں ،، بٹ صاحب نے نہایت ھی عقیدت اور اصرار کے ساتھ حافظ صاحب سے استفسار کیا کہ وہ روزانہ ان کی دکان پہ کھڑے ھو کر انہیں کن کن دعاؤں سے نوازتے ھیں ؟
حافظ صاحب نے نہایت سادگی کے ساتھ مختصر جواب دیا کہ ” میں آپ کی مٹھائی کے تھالوں پہ روزانہ بلا ناغہ اپنے دادا جی کی فاتحہ شریف پڑھ کر ان کی روح کو بخش کر جاتا ھوں ، وہ مجھ سے بہت پیار کرتے تھے ،،،،،،،،،،،،،،،،، بٹ صاحب ہکا بکا رہ گئے ،،
اس دن سے یہ محاورہ بن گیا کہ ” حلوائی کی دکان پر دادا جی کی فاتحہ ،،
مگر آج کل دوسرے کی وال پر دادا جی کی فاتحہ یعنی امر بالمعروف ھوتا ھے اور نہی عن المنکر ،، بابا اپنی اپنی وال پہ اسٹیٹس اپ ڈیٹ کرو جس میں اپنا موقف بیان کرو ،، نیکی کی طرف بلاؤ اور برائی سے روکو،، اس کے لئے آپ قلم کی بجائے کلاسنکوف سمیت ھر اسلحہ استعمال کرو ،،،،،،،،،،،،
مگر خدا را دوسرے کو اپنی وال پر اپنے مائنڈ سیٹ اور اپروچ کے ساتھ ،، امر بالمعروف کرنے دیں ،، اس وال پر جا کر دوسروں کو گمراہ ، ضال اور مضل ،کافر اور فاسق ، فتنہ اور دجال مت کہیں ،،یہ دین کی کوئی خدمت نہیں ،،،،،،، وقت کا ضیاع اور فساد فی الجدار ھے !
اپنی اپنی وال کو سب استعمال کریں دوسروں کو برائی سے روکنے اور اچھائی کی تبلیغ کے لئے ،،،،،،،،،،،،،،، کسی اور کی دکان پر دادا جی کی فاتحہ کا کوئی ثواب نہیں ،، اس وال کا مالک بخوبی جانتا ھے کہ اس نے کس کو کس حکمت کے ساتھ سمجھانا ھے ،،