دنیا میں سب سے پہلے کیا جانے والا گناہ ” تکبر ” ھے جس کی وجہ ” انا ” ھے اور جس کا شارٹ کٹ ” ناک ” ھے ،، جس کی چابی ” میری مرضی ” ھے جس کی بھٹی کا ایندھن ” مال و اسباب، قوم و قبیلہ ، حسن اور صلاحیت ، نیکی اور عبادت ،، ھے –
انا ایک ایسی بلا ھے جو ھر چیز کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے اور پتھر اور انسان دونوں کو یکساں طور پر جلا کر توانائی حاصل کرنے کا فن جانتی ھے ،، آپ نیک پاک ،نمازی پرھیز گار ،تہجد گزار اور حافظ و قاری ھوں یا مولانا اور قاضی ، اس کے لئے آپ کی یہ سب صورتیں اور مقامات اس کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ھوتے ،ایک پل میں یہ سب کو ھڑپ کرنے کی صلاحیت رکھتی ھے ،،
ابلیس نے تکبر کیا اور اس کا سبب اس کی انا بنی ،، صدیوں کی عبادت اور زمین و آسمان کے چپے چپے پر سجدے بھی ” انا ” کا کچھ نہ بگاڑ سکے ،، اللہ پاک چاھتا تو ابلیس سے مزید صدیوں سجدے کرواتا رھتا ،،مگر اللہ نے انا کی بدبو کو مزید برداشت کرنے کی بجائے ابلیس کو اس کا اصل چہرہ دکھا دیا ، آدم علیہ السلام کے سامنے فرشتوں سمیت تمام مخلوق کو Bow Down کرانے کا مقصد ھی ابلیس کو اس کا ویک پؤائنٹ دکھانا تھا ،، ابلیس کی مصنوعی مسکینی اور عاجزی کا پول کھل گیا تو اس نے اپنی اصلاح کی بجائے بغاوت کی روش کو اپنایا اور اس فعلِ شنیع پر بھی اسے اس کی ” انا ” نے ھی آمادہ کیا ،، اس کے برعکس آدم علیہ السلام نے خطا سرزد ھونے کے باوجود بغاوت کی بجائے عاجزی اور مسکینی کی راہ اختیار کی اور اپنی انا سے دستبردار ھو کر سرخ رو ھو گئے ،، توبہ کرنا خالہ جی کا گھر نہیں ، توبہ کرنا اتنا آسان ھوتا تو ابلیس جھٹ پٹ کر لیتا ،، یہ توبہ ھی تھی جس نے ابلیس پر آدم کی فوقیت کو ثابت کیا اور وہ علم الاسماء کے امتحان کے بعد انا کے امتحان میں بھی جیت گئے –
انسان کی ساری زندگی انا کا امتحان ھے اور آخری سانس تک ھے – یہ "انا "بھیس بدل بدل کر رھتی ھے ،بعض دفعہ ایسا ھوتا ھے کہ انسان سمجھتا ھے کہ اس میں تو ” انا ” نام کی کوئی چیز ھے ھی نہیں جبکہ ” انا ” اس کی ھڈیوں کے گودے میں بھی سرائیت کر چکی ھوتی ھے ، تمام اسباب انا کا سورس آف انرجی ھیں تو عبادات اس کا ٹیسٹ ھیں اگر ھم سمجھ کر عبادت کریں تب ،،،،،،،،،،،،
اللہ پاک نے جنت کو اس طرح بنایا ھے کہ ایک اینٹ سونے کی اور ایک چاندی کی استعمال فرمائی ھے ھیرے اس کی بجری ھے اور کستوری اس کا گارا ھے ،، اسے تیار کرنے کے بعد قسم کھا کر فرمایا ” تجھ میں متکبر کو داخل نہیں ھونے دوں گا ،، یہ تکبر "انا "کی وجہ سے ھوتا ھے ،، اور اس انا کا جنت میں کوئی کام نہیں ھے ،، عبداللہ بن عمرؓ بیٹھے رو رھے تھے اور عبداللہ بن زبیرؓ ان کے پاس سے اٹھ کر جا رھے تھے کہ کسی نے عبداللہ بن عمرؓ سے رونے کا سبب پوچھا ،، آپ نے فرمایا یہ جو اٹھ کر جا رھا ھے یعنی ابن زبیرؓ اس نے بتایا ھے کہ اللہ کے رسول نے قسم کھا کر فرمایا ھے کہ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ھو گا وہ جنت میں داخل نہیں ھو سکے گا !
۔
انا کے اسمگلر !!
———————
حج سب سے زیادہ ہمہ جہتی عبادت ھے جس میں انا کے بہت سارے ٹیسٹ ھوتے ھیں، اور انسان کی زندگی تبدیل کرنے کے لئے ایک ھی حج کافی ھے اگر اسے حج سمجھ کر کیا جائے ، اللہ کے رسولﷺ نے ایک ھی حج کیا ھے ،، ھم حج کرتے نہیں بلکہ سلاد سمجھ کر کھاتے ھیں ،،،،،،،، مگر زمیں جنبد نہ جنبد گُل محمد ،،، کی کیفیت ھے !
انا کا داخلہ نہ صرف جنت میں بلکہ حرم میں بھی منع ھے کیونکہ "انا ” شرک ھے اور مشرک پر جنت حرام ھے
” : إِنَّهُ مَنْ یُشْرِکْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَیْهِ الْجَنَّةَ ( المائدہ 72 )
اللہ پاک نے فرمایا ھے کہ ” يا أيها الذين آمنوا إنما المشركون نجس فلا يقربوا المسجد الحرام بعد عامهم هذا ( توبہ 28 )
،،،،،،،،،،،،،،،،،، انا کی تلاشی !!
حرم کی حدود میں داخلے سے پہلے حاجیوں کی تلاشی لی جاتی ھے کہ وہ انا ساتھ لے کر تو حرم میں داخل نہیں ھو رھے ،، اس کے لئے احتیاطاً ان کے کپڑے اتروا لیئے جاتے ھیں کیونکہ یہ اپنی اپنی مرضی اور اپنے اپنے سوشل اسٹیٹس ،، اپنی اپنی قومیت اور اپنی اپنی نیشنلیٹی کے کپڑے ،، انا کا پہلا مظہر ھیں ،، یہانتک کہ جوتے بھی اتروا لیئے جاتے ھیں ، اٹالین شوز انا کے لئے بڑا فرینڈلی ماحول بنا دیتے ھیں ،، سب کو قینچی چپل اور اللہ کی مرضی کی دو چادریں پہنا دی جاتی ھیں ،، اپنی اپنی مرضیاں میقات پر چھوڑ کر آگے جاؤ ،یہ مرضیاں ھی انا کی چابیاں ھیں ،، شلوار قمیص خلی ولی ،، پینٹ شرٹ خلی ولی ،، کندورہ جبہ خلی ولی ،،، دو چادریں پہنو کفن کی دو چادریں ، اس میقات سے آگے صرف مردہ بن کر جانا ھے ،،، مرضی نکل جائے تو بندہ مردہ ھی بن جاتا ھے :
مرن تو پہلاں مر گئے باھو تاں مطلب نوں پایا ھُو !
"فمن فرض فیھن الحج ” جو ان مہینوں میں حج کا احرام باندھ لے تو یہ جان لے کہ مردے کسی سے سیکس نہیں کرتے ، فلا رفث،،، مردے کوئی گناہ نہیں کرتے ” ولا فسوق ” مردے کسی سے لڑائی نہیں کرتے ” ولا جدال فی الحج ،،،
مرد کی انا پر انوکھا وار ،،،،،،
ھم بیویوں کو پردہ اللہ کا حکم سمجھ کر کراتے ھیں یا مردانہ اور راجپوتانہ غیرت کی وجہ سے کراتے ھیں ، اس کا بھی ایک ٹیسٹ لے لیا جاتا ھے تا کہ کہیں انا اس بھیس میں حرم میں داخل نہ ھو جائے !!
مردے کی کوئی بیوی نہیں ھوتی ، یہ اب اللہ کی کنیز ھے اور کنیز پر پردہ نہیں ھے لہذا عورت پردہ اتار دے اور منہ ننگا کرے،،،،،،،،، ھائے او ربا ،،،،،،،،،،،،،، دو دن بس میں چھپا چھپا کے لایا ھوں ، گھور گھور کر سب کی نظریں پڑھتا رھا ھوں کہ کوئی میری بیوی کو تو نہیں تاڑ رھا،،،، اور اب حکم دیا جا رھا ھے کہ سب کو دکھا دو ؟ اگر دکھانا تھا تو چھپایا کیوں تھا ؟ شدید گرمی میں لپیٹ کر لایا ھوں گرمی دانوں سے اس کا پورا بدن بھر گیا ھے اور اب کہا جا رھا ھے نو پرابلم سب کو دکھا دو ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اگر اللہ کے حکم سے کرایا تھا تو اللہ کے حکم سے اتارنے پہ تکلیف نہیں ھونی چاھیئے ،یہیں انا کا امتحان ھو جاتا ھے ، صرف بندہ اور اس کا رب جانتا ھے کہ کس نے کراھت سے اتارا ھے اور کس نے طیبِ نفس کے ساتھ ،،
۔
” انا ” اور ھماری پرائیویسی
———————————-
ھم عام طور پہ اپنی انا کے دفاع میں ایک جملہ بولا کرتے ھیں کہ یہ میرا پرسنل معاملہ ھے ،، یہ میرا ذاتی معاملہ ھے ،، حج ھمارے اس دعوے کو ایکسپوز کر کے رکھ دیتا ھے ، انڈر شیو سے زیادہ کوئی پرائیویٹ معاملہ نہیں ھو سکتا ،، فرمایا تو ایک بال نہیں اکھاڑ سکتا ،،،،،، ایک بال کا ایک دنبہ فدیہ دینا پڑے گا ،، تیری مرضی تیری انڈر شیو پہ بھی نہیں چل سکتی ،ھماری مرضی چلے گی ،، سر تیرا ھے حکم میرا ھے مرضی میری ھے ،، تو ایک بال نہیں کاٹ سکتا ،، اس کے بعد کیا پرسنل اور پرائیویٹ رہ جاتا ھے ؟ اور کس منہ سے ھم کہتے ھیں کہ یہ میرا ذاتی معاملہ ھے ؟ اللہ پاک کے تصرف کی حد دیکھی ھے ؟ اس کی بادشاھی کہکشاھوں سے لے کر تیرے بدن کے پرائیویٹ پارٹس تک ھے ،،،
مگر ھم بھی بڑے اسمگلر ھیں ، ھم اس انا کو دل میں چھپا کر حرم کی حدود یعنی میقات سے گزر جاتے ھیں ،، اس فرعون کو اسمگل کرنے کی پاداش میں ھم چھوٹے فرعون سے بڑے فرعون بن کر آتے ھیں اور چھوٹے شیطان سے درمیانے شیطان اور تیسرے حج میں بڑے شیطان ،، اس انا کو ساتھ لے کر حرم کی حدود میں داخلے سے اس وجہ سے منع کیا گیا ھے کہ یہ اس زمین پر سب سے برکت والا ٹکڑا ھے ،جو چیز اس میں لے کر داخل ھو گے وہ زیادہ ھو جائے گی ، تقوی ساتھ لے کر آؤ گے تو تقوے میں برکت ھو گی ،فسق و فجور اور جنگ و جدال انا اور خود پرستی لے کر آؤ گے تو اس میں اضافہ کروا کر لے جاؤ گے ،، اسی وجہ سے حاجیوں کے چھَٹ بڑے مشہور ھیں ،، اللہ پاک نے جہاں جنگ و جدال اور رفث و فسوق سے روکا ھے وھیں تقوی ساتھ لے کر جانے کی نصیحت فرمائی ھے ” و تزودوا فان خیر الزادِ تقوی ،، زاد راہ ساتھ لے کر چلو اور بہترین زادِ راہ تقوی ھے !!