انسان کو جب ارادہ یا اختیار الاٹ کیا گیا تو اس میں Ratio pro portion کا فیکٹر بھی رکھا گیا ،، ظاھر ھے اس ارادے کا غلط استعمال کرنے والے بھی ھونگے خاص طور پر جب وہ یہ دیکھے کہ ارادے کے غلط استعمال کا کوئی فوری ری ایکشن نہیں ھوتا اور نہ فوری گرفت ھوتی ھے ،، دوسری بات یہ طے کرنی تھی کہ کیا اس ارادے کے غلط استعمال پر انسان کو کمرہ امتحان سے نکال دینا چاھئے یا اسے دیئے گئے وقت کے اندر اپنی غلطی کو درست کرنے کا موقع دینا چاھئے ،،،،،،،،، یوں ندامت کے ساتھ توبہ کا دروازہ کھولا گیا جو آخری سانس کے غرغرہ بن جانے تک کھلا رھتا ھے ، جب اللہ پاک شیطان کی طرف سے مطالبات پر اسے مختلف صلاحیتوں سے نوازتے چلے جا رھے تھے ،، تو آدم علیہ السلام سراسیمہ ھو گئے ،، آپ نے فرمایا کہ اے اللہ آپ نے تو میری اولاد کو باندھ کر اس باغی کے سامنے ڈال دیا ، وہ اس سے کیسے بچیں گے ؟ مجھے اور میری اولاد کو بھی تو اس کے مقابلے کے لئے کچھ دیا جائے ،،،، اللہ پاک نے فرمایا ” آدم کیا ھم نے آپ کی اولاد کو توبہ عطا نہیں کی ،،،، مجھے اپنی عزت اور جلال کی قسم جب تک وہ توبہ کرتے رھیں گے میں انہیں بخشتا رھوں گا ،،،،،،،، قرانِ حکیم کی سورہ الفرقان میں تو ایسی بات فرما دی کہ ابن آدم کے لئے امید کا دیا ایک مینارہ نور بن گیا ،، فرمایا کہ جن لوگوں نے توبہ کی اور اس توبہ کے بعد اپنے اعمال کو درست کر لیا تو ھم ان کے گناھوں کو بھی نیکیوں میں تبدیل کر دیں گے ،،،،،،،،،،،،،،،
ان گنہگاروں کا رونا ،،،،،، بن دیکھے ڈر جانا ،، رہ رہ کر معافیاں مانگنا ،، اللہ پاک کے لئے اتنا اھم اور مزیدار ھے کہ وہ فرشتوں کو بلا بلا کر فخر سے فرماتا ھے ،ان کو ذرا دیکھو،، نہ مجھے دیکھا ،نہ میری جنت کو دیکھا ، نہ جھنم کو دیکھا ،، مگر ان کا ڈرنا اور گڑگڑانا دیکھو ،، انہیں یقین ھے کہ ان کا ایک رب ھے جو انہیں معاف کر دے گا،، تم گواہ رھو جب تک یہ توبہ کرتے رھیں گے ھم انہیں معاف کرتے رھیں گے ،، یہ رونا ،یہ معافیاں مانگنا گنہگار کا خالص اور حقیقی ھوتا ھے ،، اور اس کی طرف اللہ پاک فوری متوجہ ھوتا ھے ،، بعض بچے صرف پیسے لینے کے لئے منہ بسورتے ھیں ،، انہیں والدین بھی جانتے ھیں کہ یہ مطلبی رونا ھے ،، جب کہ گنہگار کے اندر رب کی نافرمانی ھو جانے کا احساس غالب ھوتا ھے کہ وہ مجھے یہ گناہ بس معاف کر دے ،، مسلم شریف کی آخری حدیث میں یہی فرمایا کہ ” ایسا نہیں ھے کہ اللہ جبریل جیسے معصوم بنانے چلا تھا اور بن گئے انسان جیسے گنہگار ،بلکہ خطا کر سکنے کی صلاحیت اس نے خود انسان کے اندر رکھی ھے ، یہ نہایت حکمت کا فیصلہ ھے کوئی ٹیکنکل یا مکینیکل غلطی نہیں ھے ،، اگر تم سے گناہ سر زد نہ ھوں اور تم توبہ کر کے انہیں معاف نہ کراؤ تو اللہ تمہیں صاف کر دے اور ان لوگوں کو لے کر آئے جن سے گناہ سر زد ھوں اور وہ اللہ سے معافی مانگیں اور اللہ ان کو معاف کرے ،،
قوله صلى الله عليه وسلم: والذي نفسي بيده لو لم تذنبوا لذهب الله بكم وجاء بقوم يذنبون فيستغفرون الله فيغفر لهم رواه مسلم عن أبي هريرة رفعه إلى النبي صلى الله عليه وسلم.