سوال !
سب سے پہلے تو غیر مسلموں کا آرگیومنٹ یہ تھا کہ انسان نے غلامی سے نجات اپنے تدریجی ہتہزیبی ارتقاء کے زریعہ سے کی نہ کہ کسی مزہبی یا معشرتی مصلح کہ، کئی پیغمبر وں، سنتوں، صوفیوں اورحتی کہ حکمرانوں نے بھی اسے ختم کرنے کی بات کی اور اقدامات بھی کئے جیسے اشوکا (نبی کریم ﷺ سےبھی ڈیرھ ہزار سال پہلے) نے اس کی سرزمیں (بر صغیر) سے اپنے دور میں غلامی کا خاتمہ کیا تھا اور غلام رکھنے پر سزائے موت رکھی تھی وغیرو غیرو۔ جب ہندو اشوکا کر سکتا ہے تو رسول اللہ ﷺ کیوں نہیں؟
اب آتے ہیں غیر مسلموں کے غلامی کی مسئلے میںمذہب اسلام پراٹھائے جانے والے اعتراضات پر
اگر آپ کی پوسٹ میں دئے گئے تمام دلائل کو مانتے ہوئے یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ یک لخت اس کی ممانعت معاشرے میں گمبھیر مسائل کا موجب بنتی تب بھی مندرجہ ذیل سوالات جنم لیتے ہیں۔
1-A اگر سود کو یک لخت حرام قرار دیا جا سکتا تھا (جس پر اس وقت بھی معیشت کا انحصار تھا) تو پھر غلامی جیسے قبیح فعل پر کیوں نہیں؟
1-B چلیں ایک دم نہیں تو شراب کی طرح بتدریج ہی سہی، اور نہیں تو کم سے کم اس قبیح فعل کی قرآن میں مذمت ہی کر دی جاتی چہ جائکہ قرآن اس کو رگولرائز کرتا نظرآتا ہے کہ غلام کیسے رکھا جائے لونڈی کے کیا حقوق ہیں، آزاد عورت غلام مرد سے شادی کر سکتی ہے کہ نہیں وغیرہ وغیرہ۔ کم از کم نبی ﷺ لونڈی نہ رکھتے اور کہہ دیتے کہ مجھے یہ پسند نہیں (جیسا کہ آج کے انسان کو پسند نہیں)
اس ضمن میں وہ ایک سناریو بھی آپ کے سامنے رکھا جاتا ہے کہ فرض کیجئے آپ اس دور میں کسی کافر کے گھر پیدا ہوئے ہوتے (جس پر آپ کا کوئی اختیار نہیں ہے) اب آپ اپنے قبیلے کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف کسی غزوہ میں حصہ لیتے اور منہ کی کھاتے، اب آپ کی ایک بہن اور بیوی مال غنیمت میں مسلمانوں کے ہاتھ آتی اور لونڈی بنا لی جاتی، ظاہر ہے وہ اپنی رضا سے تو کسی مسلمان سے ہمبستری نہیں کر رہی ہوتیں بلکہ غلامی کی وجہ سے کر رہی ہوتیں اور اپنے گھر اور خاندان کو یاد کر کے رویا بھی کرتی ۔ اب اگر آپ کا دل ہدائیت سے منور ہو جاتا ہے اور اسلام کی حقانیت آپ پر واضح ہو جاتی ہے اور آپ اسلام قبول کرنے کیسے اس گروہ میں جائیں گے؟ کیا کیفیت ہو گی آپ کی اور آپ کے اہل خانہ کی آپس میں مل کر؟
(نوٹ: بولڈ سوالات کے لئے معذرت خواہ ہوں پر یہ سوالات ایک لا دین فورم سے لئے گئے ہیں)
الجواب !
پہلے بھی عرض کیا گیا تھا کہ اسلام اس غلامی کا موجد نہیں ،، اسے اس سے پالا پڑا ھے اور اس نے اسے بڑی حکمت کے ساتھ ختم کیا ھے ،، سب سے پہلے اسلام کے غلام اور غیر اسلام کے غلام میں زمین آسمان کا فرق ھے ،، اسلام نے غلام بنانے کے باقی سارے طریقے غیر قانونی قرار دے دئیے ،، اور صرف ایک رستہ یا In let چھوڑا اور وہ تھا شرعی جنگ ،، ریاست کی طرف سے سرکاری طور پر بھیجا جانے والا لشکر ھی قتال اور قیدی بنانے کا مجاز ھو گا ،، کوئی دوسرا گروہ اٹھ کر یہ کام کرے گا تو یہ غیر شرعی ھو گا ،، ایک دو واقعات میں ایسا ھوا تو آپ نے اس مال کو ناجائز قرار دے کر واپس کر دیا اور مقتولین کا خون بہا ادا کیا ، پھر قیدی بنتے ھی وہ غلام یا لونڈی نہیں بن جاتے تھے بلکہ صرف قیدی ھوتے تھے ،، قیدی نہ بنانے کی صورت میں وہ مارے جاتے ،تیسرا کوئی آپشن موجود نہیں تھا ،، اس کے بعد متعلقہ قبیلے کو وقت دیا جاتا کہ وہ فدیہ دے کر اپنے قیدی واپس لے جا سکتے ھیں ،، اس کے بعد مسلمانوں کو موقع دیا جاتا کہ وہ اگر چاھئیں تو ان قیدیوں کا فدیہ دے کر اپنی قسمیں پوری کر لیں ، نذریں پوری کر لیں یا اپنے گناھوں کے بدلے ” فَکُ رَقَبہ ” کا مظاھرہ کریں اور آخرت کے عذاب سے اپنی گردن چھڑا لیں ،، اس کے بعد ،،،،،،، اب ریاست کے پاس دو رستے ھیں ،، مردوں کو ایک باڑے میں بند کر دے اور انہیں مفت میں پالتی رھے ،، اور عورتوں کو دوسرے باڑے میں بند کر دے اور انہیں مفت میں کھلائے ، یا ان لوگوں کو ریاست پر بوجھ بنانے کی بجائے انہیں سرکاری طور پہ کچھ لوگوں کو دیا جائے جہاں فی گھر ایک آدھ بندہ کھپ جائے گا وہ ان گھر والوں کی کمانے میں مدد بھی کرے گا اور خود بھی کھائے گا – اس کے علاوہ مردوں اور عورتوں کی جنسی اور جذباتی ضروریات کے مدِ نظر ایک آپشن یہ رکھا گیا کہ غلام اور لونڈیاں آپس میں شادی کر لیں ،، اور ان کی اولاد آزاد ھو گی اور اولاد ھونے کے بعد اس لونڈی کی خرید و فروخت غیر شرعی ھو گی ،، یا وہ لونڈی اپنے آقا کے ساتھ جنسی تعلق قائم کر لے ، اس صورت میں بھی اس کی اولاد آزاد ھو گی ، اور اس شخص کی بیوی سے ھونے والی اولاد کے برابر حقوق رکھے گی ،جائداد میں برابر کی شریک ھو گی اور قریشی و ھاشمی و اموی بھی ھو گی ،، یوں یہ لونڈیاں جن کی دردناک تصویر سوال میں پیش کی گئ ھے وہ عباسی اور اموی ادوار میں ملکہ بھی بنیں ،، مھدی کی ملکہ خیزران اور ھادی اور ھارون کی ماں خیزران باندی ھی تھی جو کئ خلفاء کی ماں اور دادی بنی ،،، اسی طرح غلاموں کی حکومت بھی رھی ھے ،، اعتراض کرنے والے نام تو اسلامی غلامی کا لیتے ھیں مگر تصویر یورپ اور افریقہ کی غلامی کی پیش کرتی ھے ،
دنیا کے دیگر حصوں میں غلام کا بیٹا بھی غلام ھوتا تھا ،، یوں گھر گھر غلام پیدا کرنے کی فیکٹریاں لگی ھوئی تھیں ،، ایک لونڈی ھر مرد کے لئے دستیاب ھوتی تھی اور ان کے ذریعے قحبہ خانے چلائے جاتے تھے ،، جبکہ اسلام میں شوھر اپنی بیوی کی باندی سے بھی جنسی تعلق نہیں رکھ سکتا تھا ،، اگر ایسا ھو تو اسے حد ماری جاتی تھی ،،
اسلام نے کیوں اسے سیدھا سیدھا حرام نہیں کہا ،،،،،، اسلام ایک پریکٹیکل دین ھے اور رب حکیم اس میں حاکم اعلی ھے ،، اگر اسلام اس صورتحال میں بس ایک نظریاتی بات کر دیتا اور لوگ غلاموں اور لونڈیوں کو خنزیر کی طرح پلید سمجھ کر گھروں سے نکال باھر کرتے اور صحراؤں کے میلوں کے سفر میں یہ لوگ کہاں جاتے ؟ گھوم پھر کر انہیں بستیوں میں آوارہ کتوں کی طرح لوگوں کے ھاتھوں کی طرف دیکھا کرتے اور ھر کھنڈر اور باغ میں جنسی سروس میں مصروف نظر آتے اور ھر ھفتے دو چار ناجائز بچے کتوں کی خوارک بنتے نظر آتے ،، اگر یاد ھو تو اصولی طور پر آپ کی عدالت نے بھی چینی کی قیمت مقرر کی تھی ،، پھر کیا ھوا تھا ؟ حکم موجود تھا ،مخالف بھی کوئی نہ تھا مگر چینی کہیں نہیں تھی ،، سود کی مثال اس لئے متعلقہ نہیں کیونکہ سود بالکل آخر میں حرام کیا گیا تھا اور اس کی حرمت کے عواقب وہ نہیں تھے جو غلاموں اور لونڈیوں کو آزاد چھوڑ دینے کے تھے ،،
اب رہ گئ یہ بات کہ لونڈیاں جن کو بھی دی جاتی تھیں ان کی حیثیت کورٹ میرج کی سی تھی جس میں ایک جج ایک عورت کا ولی بن کر اسے دوسرے شخص کو سونپ دیتا ھے ،، اسی طرح ریاست جس شخص کو وہ عورت دیتی تھی اس میں نیم شادی کا سا کانسیپٹ تھا اور اس کی حدود و قیود مقرر تھیں ،، کسی لونڈی کی کسی غلام سے شادی کے بعد اس کے مالک کا اس عورت سے جنسی تعلق حرام اور سزاوارِ حد تھا ،، وہ صرف اس غلام کی بیوی ھو گی ،،
٭ سورہ محمد میں قیدیوں کے لئے دو آپشن رکھے گئے ھیں ، فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّىٰ إِذَا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً حَتَّىٰ تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا ۚ
پس یا تو احسان کر کے چھوڑ دو یا فدیہ لے کر چھوڑ دو ،،( محمد -4 )