اسلام ، عورت اور ھمارا سماجی رویہ !
اللہ پاک نے انسان کی تربیت ماں کے حوالے فرمائی ھے،کیونکہ تربیت کے لئے جس پیار اور صبر کی ضرورت ھوتی ھے اللہ نے اس کے خزانوں سے ماں ھی کو نوازا ھے، اسی لئے طلاق کی صورت میں بھی بچوں کو ماں کے سپرد کرنے کا ھی حکم دیا گیا ھے ، مرد پر نان نفقے کی ذمہ داری عائد کر کے عورت کو اس پریشانی سے بے نیاز کر دیا ھے ،، انسان جیسی انتہائی متلون مزاج اور نازک ترین تخلیق کو ھینڈل کرنا ایک کارِ مشکل ھے ،پھر اسے نئے دور کے تقاضوں کا سامنا کرنے کے لئے تیار کرنا ،اھمیت کا حامل ٹاسک ھے،جس کے لئے دینی اور دنیاوی تعلیم کا ھونا بہت ضروری ھے، اگرچہ ھم منہ سے تو اس بات کا بڑا چرچا کرتے ھیں کہ اسلام دینِ مساوات ھے ، اور مختلف فورمز پر ھمارے علماء حضرات یہ کہتے نہیں تھکتے کہ عورت کو ھر قسم کے حقوق اسلام نے دے دئے ھیں اور این،جی،اوز ھماری عورتوں کو ورغلاتی ھیں ،،مگر عملی طور پر ایک خاموش اجماع کے تحت عورت پر دینی علوم کے دروازے صدیوں سے بند رکھے جا رھے ھیں ، اور جنسِ مؤنث کے بارے میں ھمارے اور یہود کے رویئے میں کوئی انیس ، بیس کا ھی فرق ھو گا ، اور فی الواقع عورت،کتے اور گدھے کو ایک ھی سطح پر رکھا جا رھا ھے ( جن کے نمازی کے آگے سے گزرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ھے) ویسے کام تینوں سے ھی لیا جاتا ھے اور تینوں معاشرتی ضرورت ھیں ،،،جہاں عورت کو فری ھینڈ دیا گیا اور مساوات عملاً قائم بھی کی گئی وھاں عورت چوٹی پر پہنچی ھے ،، سائنس کی بات ھو تو وہ سائنسدان بن کر خلاء سے ھو آئی ھے ! میڈیکل ھو تو اسپتال کی میڈیکل سپرنٹینڈینٹ بن گئی ھے،کاروبار کی بات ھو تو وہ بڑی بڑی بزنس ایمپائرز چلا رھی ھے،،سیاست کی بات ھو تو وزیر اعظم بن گئی ھے ،، مینیجمنٹ کی بات ھو تو ابوظہبی ائرپورٹ کی چیئرپرسن ،مس باجوہ ایک پاکستانی خاتون 90000 درھم ماہانہ تنخواہ لے رھی تھی ،ایک معمولی سی بات پر یوں استعفی دے دیا جیسے 900 درھم کی بات ھو ،،،تو جناب ِ عالی جہاں عورت کو مساوات دی گئی ھے،وھاں وہ سماج میں نظر بھی آتی ھے ، رہ گیا دین !! تو حضرت عائشہ صدیقہؓ کے بعد ھم نے کوئی خاتون 1400 سال میں پیدا نہیں کی ،، حضرت عائشہ صدیقہؓ ایسی بولڈ مفتی تھیں کہ بڑے بڑے جید صحابہؓ کے فتاوی ،ایک آیت پڑھ کر رد کر دیتی تھیں ،،اور یہ اصول آپ کا ھی وضع کردہ ھے کہ ھر حدیث قرآن پر پیش کی جائے گی ،جس کو قران رد کردے اس کی راویوں کی کوئی پرواہ نہیں کی جائے گی ،، جب آپ کے سامنے عبد اللہ ابن عمرؓ کی حدیث پیش کی گئی کہ نبیﷺ نے فرمایا ھے کہ عورت ،،کتا اور گدھا اگر انسان کے آگے سے گزر جائیں تو نماز ٹوٹ جاتی ھے،تو آپ نے فرمایا ابنِ عمر نے غلط سنا ،نبیﷺ تو بتا رھے تھے کہ یہود کہتے ھیں کہ عورت ،کتا اور گدھا آگے سے گزریں تو نماز ٹوٹ جاتی ھے ،اور اس سے یہود کا مقصد عورت کو ذلیل کرنا تھا،،نبیﷺ یہ بات کیسے کہہ سکتے تھے ،جبکہ خود میں نبیﷺ کے سامنے جنازے کی طرح لیٹی ھوتی تھی اور آپﷺ نماز پڑھ رھے ھوتے تھے،،پھر جب سجدہ مقصود ھوتا تو میرے پاؤں کو ھلاتے اور میں پاؤں سمیٹ لیتی تھی ؟ ھمارے علماء نے اس وضاحت کو قبول نہیں کیا اور نیا نقطہ نکالا کہ حضورﷺ فرض نماز کی بات کر رھے تھے کہ ٹوٹ جاتی ھے،،آپﷺ تو نفل پڑھتے تھے حجرے میں اور نفل نماز نہیں ٹوٹتی !! دیکھا آپ نے کہ جب بزرگ نہ ماننا چاھیں تو سامنے کی نہ مانیں اور ماننا چاھیں تو حدیثِ احسان میں سے یوگا کا سارا فلسفہ تصوف کے نام پر نکال کر لے آئیں جس سے خود جبرائیل بھی حیران و پریشان ھو جائیں ،،اگلی بھی سنتے جایئے کہ مساوات کا داعی یہ دین یہ بھی کہتا ھے کہ اپنی بیوی،ماں بہن بیٹی میں سے بھی کوئی اگر نماز میں آپ کے برابر کھڑی ھو جائے تو نماز ٹوٹ جاتی ھے ،،ھاں اگر وہ کوئی اور نماز پڑھ رھی ھو مثلاً نفل اور آپ کوئی اور پڑھ رھے ھوں مثلاً فرض تو پھر نہیں ٹوٹتی ،،گویا فرض ،اور فرض کا شارٹ سرکٹ ھو جاتا ھے ،،جو مائنڈ سیٹ نماز میں عورت کے برابر آ جانے پر نماز کے توڑ دینے کا حکم دیتا ھے ،چاھے وہ آپکی ماں ھو ،،وہ مساوات کو کیسے برداشت کر سکتا ھے؟،اب اگر فی الواقع عورت کو دینی علم میں فری ھینڈ دیا گیا ھے تو یہ کیسے ممکن ھے کہ ھر فیلڈ میں ٹاپ پر جا کر سانس لینے والی عورت 14 صدیوں میں ایک بھی شیخۃ الحدیث پیدا نہیں کر سکی اور کوئی ایک مفتی عورت 57 ملکوں میں تیار نہ ھو سکی ، ھر مدرسے میں مرد شیخ الحدیث ھی آ کر پردے کے پیچھے سے بچیوں کو حدیث پڑھا کر جاتا ھے ! آخر کیوں؟ میں نے اپنی بھانجیاں ،بھتیجیاں اور دیگر عزیز خواتیں میں سے تقریباً 16 بچیوں کو مختلف مدارس میں ڈال کر دیکھا مگر 4 سال لگانے کے بعد سوائے وضو اور غسل کے مسائل کے کوئی خاص چیز نہیں پڑھائی گئی ان 16 میں سے ایک بھی درسِ قرآن نہیں دے سکتی اب مجبوری ھے کہ انہیں ڈاکٹر فرحت ھاشمی کے پاس سال دو سال کے لئے بھیجا جائے تا کہ درسِ قرآن دے کر 4 سالوں کی محنت کا صلہ تو پائیں ،،بلکہ ان میں سے ایک بھانجی کی شادی کی ،فون کیا تو پتہ چلا کہ محترمہ اپنے جہیز کے کمبل اور رضائیاں15،15 منٹ اپنی نند کے اوپر ڈال کران کو استعمال شدہ بنا رھی ھیں تا کہ زکوۃ کی زد سے نکل جائیں ! میں نے کہا تمہیں 4 سال اللہ کو دھوکہ دینے کی پریکٹس سکھائی گئی ھے ؟ تو جناب اگر ایک عورت مفتی ھوگی اور دین کے خلاف پراپیگنڈے کا جواب دے گی تو اسکی آواز 1000 مرد مفتیوں کی آواز پر بھاری ھو گی،،ایک عورت مفتی سے فتوی لے کر عورت کا جو اطمینان ھو گا وہ مرد مفتی سے ممکن نہیں ھے ،اور شرعی کورٹ کی ایک عورت مفتی جج جو فیصلہ دے گی وہ مرد دے نہیں سک
تا کیونکہ وہ عورتوں کی نفسیات و احساسات سے آگاہ نہیں ھے،،ایک عورت کیا سوچ اور محسوس کر رھی ھے یہ ایک عورت ھی جان سکتی ھے ،، جس 5 سال کی بچی کو باپ نے جو کہ ٹی وی پر آ کر دین کی تبلیغ کیا کرتا تھا اس مفتی ابا جی نے ریپ کر کے اور اذیت دے کر کچھ اس طرح سے مارا کہ بچی کے ساتھ اسپتال میں سسکیاں لے کر انسانیت نے بھی دم توڑ دیا ،،اور بات بے بات سر اڑا دینے والی اور منشات کیس میں 9 سال کی بچیوں اور حاملہ عورتوں کے سر اڑا دینے والی سعودی حکومت کے مرد جج نے چند ماہ سزا سنا کر فارغ کر دیا اور ماں کو ملین درھم خون بہا ادا کرنے کا حکم دیا ،،یہ کیس کسی عورت جج کی عدالت میں پیش کر کے دیکھیں کیا فیصلہ آتا ھے،،عورت کی اذیت کو عورت ھی سمجھ سکتی ھے،،مرد کو صرف مزا یاد رھتا ھے اور وہ ایسے ظالمانہ اور شرمناک فیصلے دیتا ھے جن سے انسانیت اور اسلام منہ چھپاتے پھرتے ھیں ،،عورت کا مفتی ھونا اور شیخۃ فی الحدیث ھونا اسلام کی ایک نئی صبح ھو گی ! ھم عورت سے خوفزدہ کیوں ھیں ؟ کیوں ڈرتے ھیں اس کو براہ راست شریعت کے ذرائع تک رسائی دینے سے ،، کیا ھم خوفزدہ ھیں کہ کوئی عورت کسی حدیث کی مردانہ اینٹر پریٹیشن کو چیلنج کر دے گی ؟ آخر ھم کیوں نہیں قبول کرتے ایک عورت مفتی چیلنج؟ مدارس کے پاس انتظام نہیں تو فرحت ھاشمی کو اجازت دے دیں، پڑھنے والیاں بھی دستیاب ھو جائیں گی،مفتی بننے والیاں بھی مل جائیں گی ،بہت ساری لائق فائق خواتین بے مقصد زندگی گزار رھی ھیں ،وہ دستیاب ھیں،، بس فتوے واپس لے لئے جائیں اور انکی مخالفت نہ کی جائے ،،ورنہ اعلان کر دیا جائے کہ اسلام پر مرد کی اجارہ داری ھے ،مساوات ایک سراب ھے !! مفتی بنانا تو دور کی بات عورت کے مسجد جانے سے فتنہ پھیلنے کا ڈر ھے اسکے مسجد جانے پر بھی پابندی لگا دی ،،جمعہ عورت پر فرض نہیں ،اصلاح کا ھر دروازہ اس پر بند کردیا گیا کیونکہ فتنے کا ڈر ھے ،،عورت تو پکی پکائی تازہ روٹی دینے والی مشین ھے،،البتہ اپنے تعویزوں کی دکانیں کھلی ھیں اور تصوف کی ضربیں جاری ھیں جن سے شرک کے مرکز اور عصمت دری کے اڈے قائم و دائم ھیں ،توحید سسکیاں لے کے دم توڑ چکی ھے مگر تصوف اور تعویز سے فتنے کا کوئی ڈر نہیں کیونکہ اس میں قطب اور غوث مرد ھوتا ھے عورت نہیں ،عورت تو لُٹنے آتی ھے،اگر عورت دین سیکھ لے تو یہ اڈے بند ھو جائیں ،،اس لئے عورت کو مسجد سے روکو ،، ھاں بازار مولوی جی خود ڈراپ کر کے آتے ھیں ،شکر ھے عورت بازار میں فتنہ نہیں سارے فتنہ باز مسجد میں ھی ھوتے ھیں ،بازار تو قطبوں اور ولیوں سے بھرا پڑا ھے،،سچ کہا کسی نے ،جو چاھے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے !