پرانے زمانے کے علماء بھی انسان دوست اور Environment Friendly ھوتے تھے ،جن کے فتوے سماج دوست ھوتے تھے ،ان کے اس ایک فتوے کی برکت تھی کہ ” کنوارے ” کا جنازہ جائز نہیں ھوتا بلکہ مکروہ ھوتا ھے ،، بس جناب مائیں بچے پکڑے پکڑے گلی گلی دھکے کھاتیں تھیں جوتیاں گھس جاتی تھیں مگر رشتے ھی نہیں ملتے تھے ،بچی بارہ تیرہ سال کی ھوتی تو رشتے چلنے شروع ھو جاتے تھے ،، والدین چل چل کر تھک جاتے تو جوان نفل پڑھ پڑھ کر دعائیں مانگتے ”
گرمی چ سڑدے تے سردی چ ٹھردے !
ھائے ربا ساڈا وی جنازہ جائز کر دے !
دلہا ساس کے پاؤں پکڑ کر شکریہ ادا کرتا ،، اور راوی چین ھی چین لکھتا تھا اور بچے گنتا تھا ،،،،،،،،،
مگر آج کل نوجوانوں کی نہایت معتد بہ تعداد حادثات میں کنواری ھی چلی جاتی ھے ،، اور لڑکیاں گھروں میں بوڑھی ھو رھی ھیں ،،
اللہ پاک آج کے علماء کی مغفرت فرمائے ،، آمین ثمہ آمین