وَقالَ الرَّسولُ يا رَبِّ إِنَّ قَومِي اتَّخَذوا هٰذَا القُرآنَ مَهجورًا- ( الفرقان 30)،، جس دن رسول ﷺ استغاثہ کریں گے کہ یا رب میری اس قوم نے قرآن کو چھوڑ رکھا تھا ( پکڑا ھوا تھا چھوڑے ھوئے جیسا – جس طرح ایک شوھر نہ عورت کو بساتا ھے کہ اس کے حقوق ادا کرے اور نہ اسے طلاق دیتا ھے کہ کوئی اور اس کے حقوق ادا کرے ) منکرین قرآن نہ خود قرآن کو ریفرینس بناتے ھیں اور نہ کسی اور کو بنانے دیتے ھیں ،شریعت میں قانون سازی کا سب سے پہلا ریفرینس کتاب اللہ ھے ،، جیسا کہ معاذ ابن جبلؓ نے یمن بطور گورنر جاتے ھوئے اللہ کے رسول ﷺ کو جواب دیا تھا کہ میں سب سے پہلے قرآن میں اس مسئلے کا جواب دیکھوں گا ، وھاں نہ ملا تو پھر نبی ﷺ کی سنت میں دیکھونگا ،وھاں نہ ملا تو پھر اجتہاد کروں گا ،،، اھلِ حدیث اصحاب، فقہ پہ الزام رکھتے ھیں کہ وہ حدیث کی موجودگی میں حدیث کو ریفرنس نہیں بناتے بلکہ اپنی رائے دیتے ھیں جب کہ خود قرآن کی جان حدیث کے ذریعے نکالتے ھیں ،پہلے قران کو پیمانہ نہیں بناتے ،، السنۃ قاضیۃۤ علی القرآن کسی نے کیا کہہ دیا تھا کہ انہوں نے اس کو ایمان بنا لیا کہ قران کا فیصلہ سنت کرے گی ،باالفاظِ دیگر سنت قرآن کی جان نکال دیتی ھے ،، ” فوکزہ موسی فقضی علیہ ” موسی نے اسے مکا مارا اور اس کی جان نکال دی ،، اس کا قصہ ھی چکا دیا ،،
مشرق ھو یا مغرب ،، عرب ھو یا عجم ،، ملحدین کے منہ میں قران کے خلاف یہ اعتراض اھلِ سنت اور اھلِ حدیث نے ٹھونسا ھے کہ ” یہ ثابت کرو کہ یہ قرآن وھی ھے جو محمد ﷺ پہ نازل ھوا تھا ”
کسی حدیث پہ شک کرنا یا اس پہ اعتراض وارد کرنا اھل حدیث اور نام نہاد اھل سنت کو اس پر آمادہ کر دیتا ھے کہ ” پھر ھم قرآن پر بھی اعتراض وارد کریں گے ،،
حیقت یہ ھے کہ ان کے مدارس میں اور مسائل کے اخذ کرنے میں قرآن کا مقام اتنا ھی ھے جتنا ان کے منہ سے ابل ابل کر نکلتا ھے ، قرآن کی اھمیت پہ کوئی مضمون لکھا جائے تو فوراً فتوی آ جاتا ھے کہ آپ منکرِ حدیث تو نہیں ؟ گویا حدیث کو قرآن کی سوکن بنا لیا ھے ان لوگوں نے فوراً ان کے اندر کا چور جاگ اٹھتا ھے – اگر قرآن حدیث کے ذریعے منتقل ھوا ھوتا ،، یا حدیث کی کسی کتاب میں پایا جاتا تب تو شاید ان کا یہ اعتراض کوئی اخلاقی جواز بھی رکھتا ، جب پلٹ کر پوچھو کہ اچھا حدیث کی کن کتابوں نے قرآن کو امت میں رائج کرنے کا فریضہ سر انجام دیا اور حدیث کی کن کتابوں میں یہ کہاں پایا جاتا ھے تو پھر بغلیں جھانکتے ھیں ،، منکرِ حدیث ھونا تو عیب کی بات ھے مگر منکر قران ھونا بڑے فخر کی بات ھے ،، حدیث نے سوائے قرآن کے بارے میں شکوک پیدا کرنے کے اور کوئی کام نہیں کیا ،، قرآن اپنے پاؤں پہ خود کھڑا ھے اسے امت نے اپنے نبی ﷺ سے لیا ھے اور امت ھی کے کندھوں پہ سوار ھو کر سفر کر رھا ھے ، اسی لئے اس میں قال قال نہیں ھے ، یہ پانچ سات یا دس راویوں کے کندھے کا سوار نہیں ھے -جب بخاریوں ،ترمذیوں ،نسائیوں کی پیدائش بھی نہیں ھوئی تھی اللہ کی قسم یہ اس وقت بھی اتنا ھی صحیح تھا جتنا آج صحیح ھے ،، قرآن اپنی بنیاد ھی ” ذالک الکتاب لا ریب فیہ ” پر رکھتا ھے اور انا نحن نزلنا الذکر و انا لہ لحافظون کی چھت ڈالتا ھے ،، اس لئے کوئی ضعیف قران نہیں ، کوئی حسن غریب قرآن نہیں اور کوئی موضوع قرآن نہیں جبکہ حدیث کی دسیوں قسمیں ھیں ،، حدیثوں میں سے خود محدثین نے جھوٹی ثابت کی ھیں اور کئ پر شک کا اظہار کر کے انہیں ضعیف کہا ھے ،کسی حدیث پر شک کرنے سے کوئی کافر نہیں ھوتا اور نہ ھی کسی ایک حدیث کا انکار ،ساری حدیثوں کا انکار قرار پاتا ھے ، ورنہ صحابہ سمیت سارے منکرِ حدیث قرار پاتے ،مگر قرآن کی ایک آیت پر شک کرنا پورے قرآن پر شک کرنا ھے اور قرآن کی ایک آیت کا انکار پورے قرآن کا انکار ھے،، کیا خدا اور رسول کا تقابل کیا جا سکتا ھے ؟ کیا کلام اللہ اور انسان کے کلام کا تقابل کیا جا سکتا ھے ؟ ساری کتابیں قرآن کی محتاج ھیں جبکہ یہ کسی کتاب کا محتاج نہیں ھے -ساری کتابیں اس سے متعلق ھیں یہ ساری کتابوں کی ماں کتاب ھے ،یہ ام الکتاب ھے ، جب یہ نہیں تھا تو محمد ﷺ کی رسالت سمیت کوئی چیز بھی نہیں تھی ، اسی نے محمد بن عبداللہ کو محمد رسول اللہ بنایا ھے ، یہ محمد رسول ﷺ کے ایمان کی بنیاد ھے اور قیامت تک آنے والے ھر انسان کا ریفرینس بھی یہی ھے ” ما کنت تدری ما الکتابُ ولا الایمانُ ،، آپﷺ نہیں جانتے ھوتے تھے کہ کتاب کیا چیز ھے اور ایمان کیا چیز ھے ،، ولٰکن جعلناہ نوراً ،، مگر ھم نے اس کتاب کو وہ نور بنایا ،، جس کے ذریعے ھم جس کو چاھتے ھیں ھدایت دیتے ھیں اپنے بندوں میں سے ،، و انک لتھدی الی صراطٍ مستقیم ،، اور یقیناً آپ (یقیناً اسی کتاب کے ذریعے ) سیدھی راہ کی طرف گائیڈ کرتے ھیں ،،،،،،،،
مَا كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ وَلَٰكِنْ جَعَلْنَاهُ نُورًا نَهْدِي بِهِ مَنْ نَشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا ۚ وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ ..( شوری -52 )