حضرت اسماء بنت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہا اپنی بہن عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے دس سال بڑی تھیں ایسا علم الرجال کی سب کتابوں میں لکھا ہے, حضرت اسماء تہتر ھجری میں سو سال کی عمر میں فوت ہوئیں،یہ بھی مشکوٰۃ سمیت سب کتابوں میں لکھا ہے،اب سو میں سے تہتر نکالیں تو پہلی ھجری میں حضرت اسماء بنت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہا کی عمر ستائیس سال اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عمر سترہ سال بنتی ہے۔ سورہ القمر کی تفسیر میں بخاری شریف میں ہی لکھا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی” والساعۃ موعدھم والساعۃ ادھی و امر” تو میں دوڑنے پھرنے والی لڑکی تھی۔ جبکہ چھ سال والی جھوٹی روایت کے مطابق تو اس وقت حضرت عائشہ صدیقہ کی پیدائش میں بھی چار سال باقی تھے۔سورہ قمر والی روایت کا کوئی راوی عراقی نہیں جبکہ چھ سال والی عراقی دجالوں کی گھڑی ہوئی کہانی ہے جو انہوں نے سٹھیائے ہوئے ھشام بن عروہ کو پکڑا دی تھی۔جبکہ ھشام جب اپنے حواس میں تھے تو فرمایا کرتے تھے کہ اگر عراقی تمہیں ھزار حدیثیں پکڑائیں تو نو سو ننانوے فورا پھینک دینا اور باقی بچنے والی ایک روایت پر بھی شک کرنا۔ ھور کوئی خدمت؟
چلو آپکی یہ دلیل بھی تسلیم کر لیتے ہیں کہ چونکہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی اس لئے احترام میں چھ سالہ بچی نکاح کے لئے پیش کر دی۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح سے قبل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا مطعم ابنِ عدی سے یہ اصرار کہ وہ اپنے بیٹے جبیر ابن مطعم کے لئے حضرت عائشہ کی رخصتی کرا لے کیونکہ میں کسی وقت بھی ھجرت کرسکتا ہوں , کا کیا مطلب ہے؟ کیا کوئی اپنی چھ سالہ بچی کی رخصتی بھی دیتا ہے؟ پھر مطعم ابنِ عدی کی بیوی کا یہ جواب کہ ہم تیری بیٹی کی رخصتی کرا لیں تا کہ وہ ہمارے بیٹے کو بھی بےدین کر دے” سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت عائشہ صدیقہ نہ صرف اس وقت جوان تھیں بلکہ تبلیغ میں بھی اپنے والد کی طرح خوب متحرک تھیں جس کی وجہ سے مطعم ابنِ عدی کے گھرانے کو اپنے بیٹے کے مسلمان ہو جانے کا خدشہ تھا؟
واضح رہے عشرہ مبشرہ میں سے چھ اصحاب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی کوشش سے مسلمان ہوئے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی رحلت کے بعد کچھ عرصے کے لئے گھریلو ذمہ داریوں اور تبلیغی سرگرمیوں کو بیک وقت نبھانے کی کوشش کی مگر بات نہیں بنی لہذا شادی کرانے والی خاتون سے کہا کہ میں چونکہ تبلیغی سرگرمیوں میں مصروف ہوں جس کی وجہ سے بچیوں پر توجہ نہیں دے سکتا لہذا کوئی ایسی خاتون دیکھو جو میری بچیوں کی دیکھ بھال کر سکے!
تھوڑی دیر کے لئے سوچیں کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بچیاں سنبھالنے کے لئے اس خاتون نے ایک چھ سالہ بچی تجویز کی تھی تو کیا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے واضح مذاق اور استہزاء نہیں تھا؟
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی تین بیٹیاں سنبھالنے کے لئے چھ سالہ بچی سے نکاح پر تیار ہو جانا قابل فہم قدم تھا ؟
نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا تھا”مالکم لا ترجون للہ وقارا؟” تمہیں کیا ہو گیا ہے تم اللہ کے بارےمیں میں پروقار سوچ نہیں سوچ سکتے,؟
یہی سوال اس امت سے کرتا ہوں کہ تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اپنے رسول کے بارے میں پروقار سوچ نہیں سوچ سکتے؟
قاری حنیف ڈار
تھوڑی دیر کے لئے سوچیں کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بچیاں سنبھالنے کے لئے اس خاتون نے ایک چھ سالہ بچی تجویز کی تھی تو کیا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے واضح مذاق اور استہزاء نہیں تھا؟
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی تین بیٹیاں سنبھالنے کے لئے چھ سالہ بچی سے نکاح پر تیار ہو جانا قابل فہم قدم تھا ؟
نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا تھا”مالکم لا ترجون للہ وقارا؟” تمہیں کیا ہو گیا ہے تم اللہ کے بارےمیں میں پروقار سوچ نہیں سوچ سکتے,؟
یہی سوال اس امت سے کرتا ہوں کہ تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اپنے رسول کے بارے میں پروقار سوچ نہیں سوچ سکتے؟
قاری حنیف ڈار
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشتے کرانے والی سے اپنی مجبوری بیان کی تو اس نے کہا کہ بیوہ بھی ہے اور کنواری بھی,واضح رہے چھ سال کی بچی کے بارے میں کنواری نہیں کہا جاتا۔ کنواری شادی کے قابل لڑکی کے بارے میں ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کنواری کون ہے اور بیوہ کون ہے؟؟ اس نے کہا کہ کنواری تو آپ کے دوست کی بیٹی عائشہ ہے جبکہ بیوہ سودہ بنت زمعہ ہے, رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکر سے بات چلاو۔ اس خاتون نے جب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ وہ تو میرے بھائی ہیں ؟ خاتون نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی تو آپ نے فرمایا کہ وہ میرا دینی بھائی ہے نسب کا بھائی نہیں۔ یہ جواب سن کر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ۔ چونکہ عائشہ کا رشتہ مطعم ابنِ عدی کے بیٹے کے لئے دے چکا ہوں,پہلے ان سے بات کر لوں, اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ایک دن صبح صبح مطعم ابنِ عدی کے گھر تشریف لے گئے،اور اس کو کہا کہ مکے کے حالات آپ سے پوشیدہ نہیں، ان حالات کے پیشِ نظر میں کسی وقت بھی ھجرت کر سکتا ہوں، ایسے میں آپکی امانت کو کہاں ساتھ لئے پھروں گا،اگر آپ عائشہ کو رخصت کر لیں تو مناسب رہےگا، مطعم ابنِ عدی کے جواب دینے سے پہلے ہی اس کی بیوی بول پڑی جو چولہے کے پاس بیٹھی ناشتہ تیار کر رہی تھی۔ اس نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں کہ ہم آپکی بیٹی کو اپنے گھر لے آئیں تا کہ وہ ہمارے بیٹے کو بھی بے دین کر دے؟ اس پر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مطعم ابنِ عدی کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ کیا میں اس کو رشتے سے انکار سمجھوں؟ مطعم ابنِ عدی خاموش رہا جس پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ وہاں سے اٹھ کر آ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع کر دی کہ مطعم کےبیٹے سے رشتہ ختم ہو گیا ہے ۔ اس دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سودہ بنت زمعہ سے نکاح کر لیا تھا, مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بات بخوبی جانتے تھے کہ حضرتِ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا رشتہ آپکی خاطر توڑا گیا ہے, لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اخلاقی ذمہ داری سمجھتے ہوئے حضرت عائشہ صدیقہ سے فوراً نکاح کر لیا مگر رخصتی نہ لی کیونکہ بچیوں کی دیکھ بھال کے لئے آپکی فوری ضرورت حضرت سودہ کی صورت میں پوری ہو چکی تھی۔
قاری حنیف ڈار
قاری حنیف ڈار