امام لیث ابن سعدؒ نے امام مالکؒ کو خط لکھا جس میں ابن شھاب زھری کے بارے میں ان کو خبردار کیا کہ یہ شخص ایک ہی قصہ جتنے آدمیوں کو بیان کرتا ہے ہر ایک کو ایک نئ ہی کہانی پکڑا دیتا ہے ، میں جب اس پر تنقید کرتا ھوں تو آپ ناراض ھو جاتے ہیں ،، امام لیث ابن سعدؒ امام مالک سے بڑے فقیہہ ہیں ، ابن شھاب زھری پر تنقید کے نتیجے میں بعض دفعہ امام مالک اس کا نام ذکر نہ کرتے بلکہ اشارہ کر دیتے کہ مجھے اس شخص نے بتایا ھے جس پر میں بھروسہ کرتا ہوں ـ امت مسلمہ کے لئے ابن سبا سے زیادہ خطرناک یہ شخص صحاح ستہ کا امیر المومنین فی الحدیث ہے ، شامی ھے مگر زھری نام کی وجہ سے مدنی سمجھا جاتا ھے حالانکہ وہ زھری نہیں بلکہ اس کا دادا بنوزھرہ کے ایک مبلغ کے ہاتھ پر ایمان لایا تھا اور اعزازاً زھری کہلایا تھا یعنی وہ شخص جو بنو زھرہ کے ہاتھ پر مسلمان ھوا ،،
یہ صاحب اصلی حدیث میں ایسا پنکچر لگاتے تھے کہ بڑے بڑے دانشور چکرا جاتے تھے ، محسوس تک نہیں ہونے دیتے کہ قول رسول ﷺ یا قولِ صحابیؓ کہاں ختم ھوا ہے اور پنکچر کہاں سے شروع ھوا ھے ،، جن ماھرین نے اس کی چالاکی کو پکڑا ہے انہوں نے بھی اس کی اسٹیٹ منٹ کی دو قسمیں بنا لی ہیں ، اور یہ قانون کی نظر میں بالکل ناقابل قبول پریکٹس ہے ، عدالت کی نگاہ میں ایک بیان یا تو سچ ھوتا ھے یا جھوٹ ھوتا ھے ، بیان کی کوئی تیسری قسم آج تک عدالت میں شرفِ قبولیت نہیں پا سکی کہ یہ بیان آدھا سچ اور آدھا جھوٹ ہے ھم اس کے آدھے سچ کو قبول کرتے ہیں اور جھوٹ والے حصے کو رد کرتے ہیں ،، ایسا کبھی نہیں ھوتا بیان میں ایک جملہ بھی جھوٹ ثابت ہو جائے تو سچ والے ۹۹ جملے بھی رد کر دیئے جاتے ہیں ، مگر حدیث کی دنیا میں ایسا نہیں ھوتا ،،جب جھوٹ پکڑا جائے تو کہا جاتا ہے کہ یہ بلاغات زھری میں سے ہے ،یہاں [ بلغنا ،ہم تک یہ بات اس طرح پہنچی ھے ] کہہ کر زھری جھوٹ کا پلندہ حدیث کی ایک سطر کے ساتھ جوڑ کر پوری تقریر کو حدیث میں تبدیل کر لیتا ہے ،، جب ایک بندہ بلغنا کے بعد جھوٹ بولتا ھے اور وہ جھوٹ کئ بار پکڑا بھی گیا ھے پھر ” بلغنا ” کے اس جھوٹے کو ” حدثنا ” میں سچا کس اصول پر سمجھ لیا گیا ہے ؟ اس کی ایک مثال رسول اللہ ﷺ کی خودکشی والی حدیث میں دیکھ لیجئے ـ
(( أول ما بدأ به رسول الله صلى الله عليه وسلم من الوحي الرؤيا الصادقة في النوم ، فكان لا يرى رؤيا إلا جاءت مثل فلق الصبح ، فكان يأتي حراء فيتحنث فيه ، وهو التعبد ، الليالي ذوات العدد ، ويتزود لذلك ، ثم يرجع إلى خديجة فتزوده لمثلها ، حتى فجئه الحق وهو في غار حراء ، فجاءه الملك فيه ، فقال : اقرأ ، فقال النبي صلى الله عليه وسلم : ( فقلت : ما أنا بقارئ ، فأخذني فغطني حتى بلغ مني الجهد ، ثم أرسلني فقال : اقرأ ، فقلت : ما أنا بقارئ ، فأخذني فغطني الثانية حتى بلغ مني الجهد ، ثم أرسلني فقال : اقرأ ، فقلت : ما أنا بقارئ ، فأخذني فغطني الثالثة حتى بلغ مني الجهد ، ثم أرسلني فقال: اقرأ باسم ربك الذي خلق – حتى بلغ – علم الإنسان ما لم يعلم ).
فرجع بها ترجف بوادره ، حتى دخل على خديجة ، فقال : ( زملوني زملوني ) ، فزملوه حتى ذهب عنه الروع ، فقال : ( يا خديجة ، ما لي ) وأخبرها الخبر ، وقال : ( قد خشيت على نفسي ) فقالت له : كلا ، أبشر ، فو الله لا يخزيك الله أبدا ، إنك لتصل الرحم ، وتصدق الحديث ، وتحمل الكل ، وتقري الضيف ، وتعين على نوائب الحق.
ثم انطلقت به خديجة حتى أتت به ورقة بن نوفل بن أسد بن عبد العزى بن قصي ، وهو ابن عم خديجة أخي أبيها ، وكان امرأ تنصر في الجاهلية ، وكان يكتب الكتاب العربي ، فيكتب بالعربية من الإنجيل ما شاء الله أن يكتب ، وكان شيخا كبيرا قد عمي ، فقالت له خديجة : أي ابن عم ، اسمع من ابن أخيك ، فقال ورقة : ابن أخي ماذا ترى ؟ فأخبره النبي صلى الله عليه وسلم ما رأى ، فقال ورقة : هذا الناموس الذي أنزل على موسى ، يا ليتني فيها جذعا ، أكون حيا حين يخرجك قومك . فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( أو مخرجي هم )، فقال ورقة : نعم ، لم يأت رجل قط بمثل ما جئت به إلا عودي ، وإن يدركني يومك أنصرك نصرا مؤزرا .
ثم لم ينشب ورقة أن توفي ، وفتر الوحي فترة حتى حزن النبي صلى الله عليه وسلم ، فيما بلغنا ، حزنا غدا منه مرارا كي يتردى من رؤوس شواهق الجبال ، فكلما أوفى بذروة جبل لكي يلقي منه نفسه تبدى له جبريل ، فقال : يا محمد ، إنك رسول الله حقا، فيسكن لذلك جأشه ، وتقر نفسه ، فيرجع ، فإذا طالت عليه فترة الوحي غدا لمثل ذلك ، فإذا أوفى بذروة جبل تبدى له جبريل فقال له مثل ذلك .
( صحيح البخاري ” برقم ( 6581 ) ، في كتاب ” التعبير ” ، باب ” أول ما بدئ به رسول الله صلى الله عليه وسلم من الوحي الرؤيا الصالحة ".))
یہ بخاری شریف کی حدیث ھے جو حضرت عائشہؓ سے مروی ھے اور ابن شہاب زھری اس کا راوی ھے یہ قصہ آپ اکثر سنتے رھتے ہیں کہ رسول اللہﷺ اور جبریل کے درمیان پہلا مکالمہ کیا ھوا تھا ، جبرائیل کے دبانے کے بعد آپ ﷺ پر اقرأ بسم ربک الذی خلق نازل بھی کی گئ ،، روایت بتا رھی ھے کہ اس وحی کو قلب پہ وصول کرنے کے باوجود رسول اللہ ﷺ کو اپنے رسول ہونے اور جبرائیل کے واقعی جبرائیل ھونے پر شک و شبہ تھا جس کا اظہار رسول اللہ ﷺ نے حضرت خدیجہ علہا السلام سے کیا جو آپ کا شک دور کرنے کے لئے آپ کو اپنے چچازاد ورقہ ابن نوفل کے پاس لے کر گئیں جنہوں نے عبرانی سیکھ رکھی تو اور عربی کا عبرانی اور عبرانی کو عربی میں ٹرانسلیٹ کیا کرتے تھے ، عمر کی زیادتی کی وجہ سے نابینا ھو گئے تھے اور قِس یا قسیس یا راھب کہلاتے تھے ،، حضرت خدیجہ علیہا السلام نے کہا کہ اپنے بھتیجے کی روئیداد سنیئے اور کچھ بتایئے ،، انہوں نے کہا کہ بھتیجے تم نے کیا دیکھا ھے ؟ آپ کا بیان سننے کے بعد اس نے تسلی دی کہ یہ واقعی وہی ناموس ھے جو موسی پر اترا تھا ، اس کے بعد ورقہ کا انتقال ھو گیا اور وحی رک گئ ،، یہاں حضرت عائشہ علیہا السلام کی بات ختم ھوتی ھے اور ابن زھری کا ابلاغ یعنی پنکچر شروع ھوتا ہے ،، مگر اس پرکاری کے ساتھ کہ یہ بلغنا حضرت عائشہ علیہا السلام کا لگتا ھے ـ
ثم لم ينشب ورقة أن توفي ، وفتر الوحي فترة حتى حزن النبي صلى الله عليه وسلم ،( فيما بلغنا ، حزنا غدا منه مرارا كي يتردى من رؤوس شواهق الجبال ، فكلما أوفى بذروة جبل لكي يلقي منه نفسه تبدى له جبريل ، فقال : يا محمد ، إنك رسول الله حقا، فيسكن لذلك جأشه ، وتقر نفسه ، فيرجع ، فإذا طالت عليه فترة الوحي غدا لمثل ذلك ، فإذا أوفى بذروة جبل تبدى له جبريل فقال له مثل ذلك )
کیوں کہ ابن شھاب یہ واردات بہت جگہ کر چکا ھے لہذا اس کے ٹریک ریکارڈ کو دیکھتے ھوئے محدثین نے اس کو زھری کی طرف منسوب کیا ھے یعنی حضرت عائشہؓ کا کلام ( پھر ورقہ بن نوفل فوت ھو گیا اور وحی ایک عرصے تک بند ھو گئ ) پر ختم ھو گیا ہے ،، آگے رسول اللہ ﷺ کی بار بار خودکشی کی کوشش والے جملے ( فيما بلغنا ، حزنا غدا منه مرارا كي يتردى من رؤوس شواهق الجبال ، فكلما أوفى بذروة جبل لكي يلقي منه نفسه تبدى له جبريل ، فقال : يا محمد ، إنك رسول الله حقا، فيسكن لذلك جأشه ، وتقر نفسه ، فيرجع ، فإذا طالت عليه فترة الوحي غدا لمثل ذلك ، فإذا أوفى بذروة جبل تبدى له جبريل فقال له مثل ذلك ) زھری کے ہیں کہ ہم تک یہ بات پہنچی ھے کہ بعض دفعہ غم کی کیفیت اس قدر بڑھ جاتی کہ آپ ﷺ پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ جاتے تا کہ اپنے آپ کو گرا دیں کہ اچانک جبرائیل سامنے آ جاتے اور کہتے کہ میں گواھی دیتا ھوں کہ آپ اللہ کے رسول ﷺ ہیں ،جس پر تھوڑی دیر کے لئے آپ کے حواس مطمئن ھو جاتے مگر پھر غم کا وھی دورہ پڑتا اور آپ پھر پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ جاتے پھر جبرائیل ظاھر ھو کر تسلی دیتے ،،
یوں تو اس پوری کہانی پر ھی سوالیہ نشان ھے کہ جس رسولﷺ سے جبرائیل اپنی ازلی شکل میں ظاھر ھو چکا اور قلب نے وحی بھی وصول کر لی ، اس کے باوجود ان کو جبرائیل کے جبرائیل ھونے اور اپنے آپ کے رسول ھونے پر شک ھے تو اس دوران بیچاری وحی کا کیا بنا ؟ کیا وہ شک کی حالت میں ہی بیان کی گئ اور تلاوت کی گئ ؟ کیا اپنی رسالت پر اور قرآن کی قرآنیت پر پہلا شک خود رسول اللہ ﷺ نے ہی کیا تھا ؟ کیا ورقہ بن نوفل کا کہنا کہ وہ جبرائیل تھا اور آپ اللہ کے رسول ہیں جبرائیل کے کہنے سے زیادہ صدق کا حامل تھا ؟ کیا کوئی ایسا رسول بھی گزرا ھے جس کو اللہ کے خطاب کے بعد بھی اپنی رسالت اور کلام اللہ پر شک گزرا ھو ؟
مگر اس حدیث میں زھری کا بلغنا تو قیامت ڈھا رھا ھے اور رسول ﷺ کے شک کو خودکشی تک لے کر جا رھا ھے ،، اور خودکشی بھی مراراً یعنی بار بار ،،
سوال یہ ھے کہ زھری کے جھوٹ کو کتاب میں درج کیا ھی کیوں گیا ؟ یہ بات خود کتاب کے مصنف نے کیوں نہ سوچی کہ یہاں سے زھری کا جھوٹ شروع ھو گیا ھے اس کو میری صحیح کا حصہ نہیں بننا چاھئے ، کیا امت کے سارے لوگ اس درجے کے ہیں کہ وہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی ڈالی گئ جوئیں نکال لیں گے ؟ جھوٹ کو تعلیق اور تبصرے کے طور پر داخل کر کے بری الذمہ ھو جانا کہ یہ روایت نص کے طور پر نہیں بلکہ تعلیق و تبصرے کے طور پر شامل کی گئ ھے کسی طور جائز عمل کہا جا سکتا ھے ؟،، کیا اب بھی وقت نہیں کہ مان لیا جائے کہ زھری بلاغیات کے نام پر جھوٹ کا باغ لگا گیا ھے صحاح ستہ میں جس کا پھل امت بھگت رھی ہے ـ شیخ الالبانی نے اس اضافے کے تمام طرق پر تحقیق کے بعد اس کو اپنی موضوعات میں موضوع قرار دیا ہے، سند کے لحاظ سے بھی اور متن کے لحاظ سے بھی ،،
[ أن الحديث ضعيف إسناداً ، منكر متناً ، لا يطمئن القلب المؤمن لتصديق هؤلاء الضعفاء فيما نسبوا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم من الهم بقتل نفسه بالتردي من الجبل ، وهو القائل – فيما صح عنه – : ( من تردى من جبل فقتل نفسه ؛ فهو في نار جهنم يتردى فيها خالداً مخلداً فيها أبداً ) متفق عليه – ” الترغيب ” ( 3 / 205 ) – لا سيما وأولئك الضعفاء قد خالفوا الحفاظ الثقات الذين أرسلوه .
” سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة ” ( 10 / 455 – 457 ) .
کاش یہی تحقیق امام بخاری بھی کر لیتے، اور اس رکیک اور منکر اضافے سے اپنی صحیح کو داغدار نہ کرتے ـاور اگر بخاری سے یہ غلطی ہو بھی گئ تھی تو بعد والوں نے اس کو مسترد کیوں نہ کیا، ان کا ایمان بالرسالت اس قصے کو کیسے ہضم کر لیتا ہے ؟