گھر والوں سے قلبی تعلق کے لئے نبئ کریمﷺ کا آئیڈل رویہ

احادیث میں آتا ھے کہ نبئ کریم ﷺ نماز کے بعد دائیں طرف گھوم جایا کرتے تھے یوں قبلہ آپ کے بائیں طرف اور چہرہ اقدس نمازیوں کی طرف ھو جاتا تھا ،،مگر زیادہ تر آپ بائیں جانب گھوم جایا کرتے تھے ، جیسا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی متفق علیہ حدیث … Read more

نادیدہ زنجیریں، Invisible chains

خیال کی زنجیـــــــــــر میں جکـــــــــــــــڑے ھاتھـــــــی کامران کے والد رائل انڈین ائیر فورس میں کیپٹن تھے جنہیں جب بھی چھٹیاں ملتیں تو وہ اپنے دو بیٹوں اور ایک بیٹی کولے کر کسی پر فضا مقام کیطرف نکل جاتے،اللہ کا دیا بہت تھا اور وہ اسے اولاد پر خرچ کرنا واجب بھی سمجھتے تھے،خود ھندوستان میں … Read more

معوذتین اور جادو

معوذتین اور جادو ! پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا ! August 26, 2013 at 6:29am سورہ الفلق اور سورہ الناس جن کو جوڑ کر معوذتین کہا جاتا ھے،،یعنی وہ دو سورتیں جن میں مختلف خطرات سے اللہ کی پناہ حاصل کی جاتی ھے، یہ سورتیں ابتدائی مکی دور میں جب کہ نبی … Read more

علم کی تقسیم اور اس کی تباہ کاریاں

اللہ پاک نے جب انسان کو پیدا فرمانے کا اعلان فرمایا تو فرشتوں نے عرض کیا کہ مالک کیا ھم سے عبادت میں کوئی کوتاھی ھو گئ  جو نئی تخلیق کی ضرورت پڑی ،ھم صبح شام آپکی تسبیح و تحمید کر تو رھے ھیں، ارشاد باری تعالی ھوا کہ میں وہ جانتا ھوں جو تم … Read more

بخاری شریف اور موسی علیہ السلام کے کپڑے !

بخاری شریف اور موسی علیہ السلام کے کپڑے !

November 27, 2013 at 8:37pm
مفتی صاحب ! بخاری کی کمزوری کا رونا تو کوئی نہیں رو رھا،،بخاری کی اس قوت کا رونا ھے جس نے قرآن کو بھی دبا لیا ھے،بلکہ جان نکال کر رکھ دی ھے،، اسے مشکوک بنا کر رکھ دیا ھے،، ھم بخاری کا نہیں ھم تو قرآن کا مرثیہ لکھ رھے ھیں،،، کتاب اللہ وراء ظہورھم کأنھم لا یعلمون،، اگر اللہ نے اس کی حفاظت کا ذمہ نہ لیا ھوتا تو یہ علماء یہود کے علماء کی طرح کب کا اسے فارغ کر چکے ھوتے،، میں ھمیشہ یہ کہتا ھوں،جس حدیث پر حدیث سنانے والا عمل نہ کر سکے اس کے پیچھے مقدس راویوں کی کتنی بھی بڑی اور طاقتور فوج کیوں نہ ھو،، وہ حدیث سنانے والا منافقت کر رھا ھے ،اپنی ذات کے ساتھ بھی اور حدیث کے ساتھ بھی،، کسی گناھگار سے بھی یہ توقع نہیں رکھی جا سکتی کہ اسے کوئی ھرنیا کا طعنہ دے اور وہ شلوار اتار کر اپنی صفائی پیش کر دے،،پھر شرم آنی چاھئے ان لوگوں کو جو اللہ پر الزام رکھتے ھیں کہ جب موسی کو الگ تھلگ نہاتے دیکھ کر ان کی قوم نے کہا کہ ان میں کوئی جنسی عیب ھے جس کی وجہ سے وہ ھمارے ساتھ کپڑے اتار کر نہیں نہاتے تو،اللہ پاک نے اپنے اولوالعزم رسول کو حیاء کی سزا میں مجمعے کے سامنے مادرزاد ننگا کر دیا تا کہ وہ ان کے جنسی اعضاء اچھی طرح دیکھ لیں،، بلکہ ایک صاحب سے میں نے جب یہ تقاضا کیا کہ میں ان پر وھی الزام لگاتا ھوں جو قوم نے موسی علیہ السلام پر لگایا تھا،تو کیا وہ اپنی شلوار ابھی اتار کر دکھائیں گے؟ تو بولے وہ تو رسول اور اسوہ تھے،،اس لیئے ان کے کپڑے اتارے گئے،میں نے کہا کیا جنسی اعضاء مین اسوہ تھے؟؟ کوھستانی صاحب یہ ھی آپ لوگوں کی ھٹ دھرمی ھے جس کی وجہ سے لوگ ساری حدیثیں چھوڑ چھاڑ کر الگ ھو گئے ھیں،،لوگ دھریئے ھوتے نہیں،،ھم زبردستی ان کو بناتے ھیں،، ھم ان سے کہتے ھیں یا تو ساری بخاری مانو، یا ساری چھوڑ دو،، صرف 5 ،،10 حدیثوں کی خاطر اپ لوگوں نے ساری بخاری کو گندہ کر دیا ھے،، اور عمل بھی ان پر نہیں کرتے صرف درس و تدریس کے لئے رکھی ھوئی ھیں کیا بخاری ھی وہ کتاب ھے کہ جس کے بارے میں فرمایا گیا ھے” ذٰلک الکتابُ لا ریب فیہ؟ کیا بخاری کی کسی روایت کا انکار اسی طرح ھے جس طرح قرآن کی کسی آیت کا انکار پورے قرآن کا انکار ھے ؟؟؟ اس میں شک کوئی نہیں کہ مارکیٹ آپ کی ھے کیونکہ مسیت پاور ( مسجد منبر پاور ) آپ کے پاس ھے،،مگر یہی مارکیٹ کل آپ لوگوں کے گلے کا پھندہ بنے گی،،آج لوگ جس دور سے گزر رھے ھیں، آپ کو اس کا احساس نہیں،، شریعت لوگوں کو ھدایت دینے اور آگ سے بچانے آئی ھے،مگر ھم اسی کے ذریعے اندھا دھند انسانوں کو جہنم مین دھکیل رھے ھیں،، ھم لوگ کس کھیت کی مولی ھیں،، آپ لوگ تو حضرت عائشہؓ کو کوئی اھمیت نہیں دیتے،، ان کی رد کردہ حدیثوں پہ آپ فتوی دیتے ھیں ،،عورت کو آپ بھی کالے کتے اور گدھے کے برابر سمجھتے ھیں کیونکہ بخاری میں آیا ھے ،، پتہ نہیں بخاری سے پہلے جو مسلمان گزر گئے ھیں ان کا حشر کیا ھو گا؟ بخاری کے بغیر تو کوئی جنت میں نہیں جا سکتا،! آپ یہ بھی کہہ سکتے ھیں بلکہ کہتے نہیں فرماتے ھیں کہ ھمیں یہ بحث فیس بک پر نہیں کرنی چاھئے،، ھمیں طے کردہ اصولوں،جرح و تعدیل کے مسلمہ قاعدوں پر اس حدیث کو رکھ کر کھرے کھوٹے کا فیصلہ کرنا چاھئے ! پہلی بات اس لیئے غلط ھے کہ الحاد کی وبا جہاں ھے اسی فورم پر اس کی بحث ھو نی چاھئے،، آج ھوم ڈیلیوری کا زمانہ ھے،،پیزا سے لے کر بلیو پرنٹ سی ڈی تک سب گھر جا کر سپلائ کیا جاتا ھے،، مدرسے کون آئے گا حضرت ؟ مدرسے والے اکیلے ھی دوڑ کر پہلے نمبر پر آ رھے ھیں،، فیس بک پہ سامنا کرنے سے ھم سب کتراتے ھیں،، اور رپورٹ کر کے پیج بلاک کر دینے کو فتح مکہ سمجھتے ھیں مگر وھی پیج دوسرے دن دوسرے نام سے کام کر رھا ھوتا ھے،، رہ گئ جرح و تعدیل کے قواعد تو باقی سب پہ تو عمل ھو ھی جاتا ھے ،مگر قرآن پر پیش کرنے والا اصول امام مہدی کی طرح غار میں چلا گیا ھے،، حضرت عائشہؓ نے جن احادیث کو قرآن پر پیش کر کے رد کیا،،ھم نے راویوں کی قوت کے بل پر انہں بھی قبول کر لیا،، میں اسے جرح و تعدیل کے مسلمہ اصولوں میں سے پہلے اصول پر کہ کتاب اللہ کے خلاف کوئی روایت قبول نہیں کی جائے گی چاھے اس کی سند سورج کی طرح روشن ھو،، کے مطابق اللہ پر بہتان اور موسی علیہ السلام کی ذات پر تبرہ سمجھتا ھوں کہ جنہیں غصے میں اتنا خیال بھی نہیں رھتا کہ وہ مادر زاد ننگے ھیں اور عصا لے کر پتھر کو مارتے جاتے ھیں،،حالانکہ وہ اللہ کے رسول تھے اور پتھر کی اس حرکت سے رب کا منشا پا سکتے تھے،، پھر جس رسول کے بیوی بچے تھے اس پر کوئی شک کیسے کر سکتا تھا؟؟ اور کیا قرآان کی جس آیت کی تفسیر میں اسے بیان کیا جاتا ھے،، یاایہالذین امنوا لا تکونوا کالذین آذوا موسی ،فبرأہ اللہ مما قالوا و کان عنداللہ وجہیاً ( الاحزاب69 ) اے ایمان والو ! ان کی طرح مت ھو جاؤ جنہوں نے موسی کو اذیت دی تو اللہ نے اسے بری کر دکھایا اور وہ اللہ کے نزدیک بڑی وجاھت والا تھا !! کیا ان کی وجاھت جنسی اعضاء کی وجہ سے تھی یا کردار کی وجہ سے تھی ؟ کیا نبیﷺ کے کردار پر انگلیاں اٹھائی جا رھی تھیں حضرت زینب کو لے کر یا نبیﷺ کے جنسی اعضاء پر ؟؟؟؟ یہاں جنسی اعضاء کا تقابل اذیت کے کن معنوں میں استعمال فرمایا جا رھا ھے،،جب مثال دی جاتی ھے تو کوئی مماثلت ھوتی ھے جس کی وجہ سے دی جارھی ھے،، قارون نے ایک عورت کو پیسے دے کر موسی علیہ السلام پر الزام لگانے کو تیار کر لیا تھا،مگر جب وہ عورت الزام لگانے کھڑی ھوئی تو اللہ نے اس کی زبان سے ھی حقیقت بیان کروا دی،،یہ تو اللہ کا کارنامہ ھوا جس کا اللہ پاک ذکر بڑے فخر سے فرما رھے ھیں،، اور چونکہ اسی قسم کے الزام نبیﷺ کی ذات پر بھی لگائے جا رھے تھے کہ
انہوں نے زینب بنت جحشؓ زوجہ زید بن حارثہ کو نہاتے ھوئے دیکھا تو وہ ان کے دل میں اتر گئیں اور دوسری جانب زید کے دل سے اتر گئیں،، ان بکواسات کے بارے میں مومنوں کا خبردار کر کے کہا جا رھا ھے کہ ھر اولی العزم رسول پر یہ وار ھوا ھے،،تم اپنی زبانیں اس سے آلودہ نہ کرو ،،بلکہ ان اللہ و ملائکتہ یصلون علی النبی،، یا ایہاالذین امنوآ صلو علیہ و سلموا تسلیماً،، اب آیئے قران کہتا ھے کہ کپڑے شیطان اترواتا ھے اللہ ایسا بے حیائی کا کام نہیں کرتا،، سورہ الاعراف کی آیت 22 میں آدم علیہ السلام اور اماں حوا کے کپڑے اترنے اور پھر ان کی حیاء کی ادا کا ذکر کیا کہ وہ درخت کے پتوں سے اپنے کو ڈھانکنے لگ گئے،، آگے اس واقعے کو بنیاد بنا کر آیت 25 سے لباس کو موضوع بنایا ھے اور فرمایا ھے کہ اے اولادِ آدم ھم نے لباس ان مقاصد کے لئے نازل کیا ھے،اور اس لباس کی یہ یہ خصوصیات ھونی چاھیں،، اگلی آیت نمبر 26 میں فرمایا ،،اے اولادِ آدم شیطان کہیں تمہیں فتنے میں مبتلا کر کے تمہارے کپڑے اسے طرح نہ اتروا دے جس طرح تمہارے ماں باپ کے کپڑے اتروا کر انہیں جنت سے نکلوا چکا ھے،، پھر اگلی آیت میں معاملے کو ختم کیا کہ یہ لوگ ایسا ظلم کر کے جواز پیش کرتے ھیں کہ اللہ نے ھمیں حکم دیا ھے ” بخاری کے اصول سے زیادہ مسلمہ اصول دیا ” قل ان اللہ لا یامر بالفحشاء” آپ کہہ دیجئے اللہ بے حیائ کا حکم نہیں دیتا ! تو جناب،،جو اللہ لباس اتروانے کو شیطان کی طرف منسوب کرتا ھے آپ اس اللہ کو حدیث پیش کر کے یہ کہنا چاھتے ھیں کہ ” معاف کیجئے گا ھمارے ثقہ راویوں کے مطابق آپ خود بھی یہ کارنامہ موسی علیہ السلام کے ساتھ انجام دے چکے ھیں !!
ذرا پوری حدیث پڑھ لیجئے تا کہ آپ کا ایمان تازہ ھو جائے
Bazm e Raza Sheikhupura shared a status. October 27دوڑنے والا پتھر
یہ ایک ہاتھ لمبا ایک ہاتھ چوڑا چوکور پتھر تھا، جو ہمیشہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جھولے میں رہتا تھا۔ اس مبارک پتھر کے ذریعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دو معجزات کا ظہور ہوا۔ جن کا تذکرہ قرآن مجید میں بھی ہوا ہے۔ پہلامعجزہ:۔اس پتھر کا پہلا عجیب کارنامہ جو درحقیقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ تھا وہ اس پتھر کی دانشمندانہ لمبی دوڑ ہے اور یہی معجزہ اس پتھر کے ملنے کی تاریخ ہے۔ اس کا مفصل واقعہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل کا یہ عام دستور تھا کہ وہ بالکل ننگے بدن ہو کر مجمع عام میں غسل کیا کرتے تھے۔ مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام گو کہ اسی قوم کے ایک فرد تھے اور اسی ماحول میں پلے بڑھے تھے، لیکن خداوند قدوس نے اُن کو نبوت و رسالت کی عظمتوں سے سرفراز فرمایا تھا۔ اس لئے آپ کی عصمتِ نبوت بھلا اس حیا سوز بے غیرتی کو کب گوارا کرسکتی تھی۔ آپ بنی اسرائیل کی اس بے حیائی سے سخت نالاں اور انتہائی بیزار تھے اس لئے آپ ہمیشہ یا تو تنہائی میں یا تہبند پہن کر غسل فرمایا کرتے تھے۔ بنی اسرائیل نے جب یہ دیکھا کہ آپ کبھی بھی ننگے ہو کر غسل نہیں فرماتے تو ظالموں نے آپ پر بہتان لگا دیا کہ آپ کے بدن کے اندرونی حصہ میں یا تو برص کا سفید داغ یا کوئی ایسا عیب ضرور ہے کہ جس کو چھپانے کے لئے یہ کبھی برہنہ نہیں ہوتے اور ظالموں نے اس تہمت کا اس قدر اعلان اور چرچا کیا کہ ہر کوچہ و بازار میں اس کا پروپیگنڈہ پھیل گیا۔ اس مکروہ تہمت کی شورِش کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قلب نازک پر بڑا صدمہ و رنج گزرا اور آپ بڑی کوفت اور اذیت میں پڑ گئے۔ تو خداوند قدوس اپنے مقدس کلیم کے رنج و غم کو بھلا کب گوارا فرماتا۔ اور اپنے ایک برگزیدہ رسول پر ایک عیب کی تہمت بھلا خالق عالم کو کب اور کیونکر اور کس طرح پسند ہو سکتی تھی۔ اَرحم الرَّاحمین نے آپ کی برأت اور بے عیبی ظاہر کردینے کا ایک ایسا ذریعہ پیدا فرما دیا کہ دم زدن میں بنی اسرائیل کے پروپیگنڈوں اور اُن کے شکوک و شبہات کے بادل چھٹ گئے اور آپ کی برأت اور بے عیبی کا سورج آفتاب عالمتاب سے زیادہ روشن و آشکارا ہو گیا۔ اور وہ یوں ہوا کہ ایک دن آپ پہاڑوں کے دامنوں میں چھپے ہوئے ایک چشمہ پر غسل کے لئے تشریف لے گئے اور یہ دیکھ کر کہ یہاں دور دور تک کسی انسان کا نام و نشان نہیں ہے، آپ اپنے تمام کپڑوں کو ایک پتھر پر رکھ کر اور بالکل برہنہ بدن ہو کر غسل فرمانے لگے، غسل کے بعد جب آپ لباس پہننے کے لئے پتھر کے پاس پہنچے تو کیا دیکھا کہ وہ پتھر آپ کے کپڑوں کو لئے ہوئے سرپٹ بھاگا چلا جا رہا ہے۔ یہ دیکھ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی اس پتھر کے پیچھے پیچھے دوڑنے لگے کہ ثوبی حجر، ثوبی حجر۔ یعنی اے پتھر!میرا کپڑا ۔ اے پتھر میرا کپڑا۔ مگر یہ پتھر برابر بھاگتار ہا۔ یہاں تک کہ شہر کی بڑی بڑی سڑکوں سے گزرتا ہوا گلی کوچوں میں پہنچ گیا۔ اور آپ بھی برہنہ بدن ہونے کی حالت میں برابر پتھر کو دوڑاتے چلے گئے ۔اس طرح بنی اسرائیل کے ہر چھوٹے بڑے نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ سر سے پاؤں تک آپ کے مقدس بدن میں کہیں بھی کوئی عیب نہیں ہے بلکہ آپ کے جسم اقدس کا ہر حصہ حسن و جمال میں اس قدر نقطہ کمال کو پہنچا ہوا ہے کہ عام انسانوں میں اس کی مثال تقریباً محال ہے۔ چنانچہ بنی اسرائیل کے ہر ہر فرد کی زبان پر یہی جملہ تھا کہ وَاللہِ مَابِمُوْسٰی مِنْ بَاس یعنی خدا کی قسم موسیٰ بالکل ہی بے عیب ہیں۔ جب یہ پتھر پوری طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کی برأت کا اعلان کرچکا تو خود بخود ٹھہر گیا۔ آپ نے جلدی سے اپنا لباس پہن لیا اور اس پتھر کو اٹھا کر اپنے جھولے میں رکھ لیا۔ (بخاری شریف، کتاب الانبیاء، باب ۳۰،ج۲، ص۴۴۲،رقم ۳۴۰۴ ،تفسیر الصاوی،ج۵،ص۱۶۵۹،پ۲۲،الاحزاب:۶۹ ) اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کا ذکر قرآن مجید میں اس طرح بیان فرمایا کہ:۔ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ اٰذَوْا مُوۡسٰی فَبَرَّاَہُ اللہُ مِمَّا قَالُوۡا ؕ وَکَانَ عِنۡدَ اللہِ وَجِیۡہًا ﴿69﴾ ترجمہ کنزالایمان:۔ اے ایمان والو اُن جیسے نہ ہونا جنہوں نے موسیٰ کو ستایا تو اللہ نے اسے بری فرما دیا اس بات سے جو اُنہوں نے کہی۔ اور موسیٰ اللہ کے یہاں آبرو والا ہے۔(پ22،الاحزاب:69)

فقیہوں کے دشمنوں کے لئے نبیﷺ کی نصیحت !

فقیہوں کے دشمنوں کے لئے نبیﷺ کی نصیحت !

August 21, 2013 at 7:03am

أخبرنا سفیان عن عبد الملك بن عمیر عن عبد الرحمٰن بن عبد الله بن مسعود عن أبیه أن النبي ﷺقال: «نضراللهعبدًاسمعمقالتی فحفظها ووعاها و أداها فرُبّ حامل فقه غیر فقیه و ربّ حامل فقه إلىٰ من هو أفقه منه    » ”اگر کوئی شخص خبر واحد کی حجیت پر نص یا اجماع سے دلیل طلب کرے تو میں اسے دلیل دیتے ہوئے کہوں گا کہ نبی ﷺنےفرمایاہے: ”اللہتعالیٰاسشخصکوخوشوخرّمرکھےجومیریکلام سن کر اسے حفظ کرتا ہے اور پھر یاد کی ہوئی میری حدیث کو لوگوں تک پہنچاتا  ہے اور بہت سے حامل  فقہ خود غیر فقیہ ہوتے ہیں اور بہت سے حامل فقہ ایسے لوگوں تک علم پہنچا دیتے ہیں جو اُن سے زیادہ فقیہ ہوتے ہیں

الحمد للہ وحدہ، والصلوۃُ والسلامُ علی من لا نبیَۜ بعدہ،امۜا بعد ! اللہ پاک نے سورہ توبہ میں جو کہ سب سے آخر میں نازل ھونے والی سورت ھے،اس سورت کے بھی آخر میں آیت نمبر 122 میں حکم دیا ھے کہ ” یہ تو ممکن نہیں کہ مومن سارے اس کام کو نکل پڑیں ( اگرچہ یہ سب کی ضرورت ھے ) مگر ھر قبیلے میں سے کچھ لوگ ضرور نکلیں جو کہ دین میں تفقہہ حاصل کر کے پلٹیں اور اپنی قوم کو انذار کریں تا کہ وہ خبردار ھوں !!،، یوں گویا پوری بستی کی یہ ذمہ داری ٹھہری کہ یا تو وہ سارے نکلیں اور دین کی فقہ حاصل کریں،، یا پھر وہ محاسبے سے تب ھی بچ سکتے ھیں کہ کچھ لوگوں کی معاشی ذمہ داری اٹھائیں جو ان کے behalf پر دین میں فقہ سیکھ کر آئیں اور یوں بستی والوں کی دینی ضرورت کو پورا کریں ! اتنی شد و مد کے ساتھ اور خدائی مشورے اور بندوبست کے ساتھ جس علم کو سیکھنے کی دعوت دی جا رھی ھے وہ فقہ ھے ” پوری آیت کچھ یوں ھے’ وما کان المؤمنون لینفروا کآفۃ ، فلو لا نفر من کل فرقۃ طآئفۃ ” لیتفقہوا ” فی الدین،ولینذروا قومھم اذا رجعوا الیھم لعلھم یحذرون ( توبہ 122 ) آج کل کے زمانے میں عام طور پر سمجھا جاتا ھے کہ پہلے قرآن، پھر حدیث، پھر فقہ،، یعنی اگر قرآن و حدیث نے جواب دے دیا ھے تو بامرِ مجبوری اب فقہ سے کام چلایا جائے گا،، فقہ کو لوگ مطعون کرتے ھیں اور فقیہہ کو مجرم گردانتے ھیں کہ اس نے قرآن اور حدیث کے خلاف مورچہ لگایا ھوا ھے،، اور آپشن پیش کرتے ھیں کہ، تم قرآن وسنت پر چلو گے یا فقہ پر چلو گے؟ تم قرآن کی مانتے ھو یا فقہ کی مانتے ھو،، یہ اور اس قسم کی دیگر باتیں ،کم فہمی اور کم علمی نیز کج فہمی اور ضد و عناد کے سبب سے ھیں،، ورنہ قرآن اور سنت مل کر دین بناتے ھیں اور یہ دونوں ڈیم فقہ کی نہر سے ھی امت مسلمہ کو مستفید کرتے ھیں،، فقہ وہ چادر ھے جس میں قرآن و سنت لپیٹے گئے ھیں،، اس لئے فقہ کو دین کے ساتھ بیان کیا جاتا ،،صرف قرآن کے ساتھ نہیں اور نہ صرف حدیث کے ساتھ،، یعنی تفقہ فی القرآن کا لفظ اللہ پاک نے استعمال نہیں فرمایا،، اور نہ تفقہ فی الحدیث کا لفظ استعمال فرمایا ھے بلکہ ” تفقہ فی الدین ” کا لفظ استعمال فرمایا ھے،، قرآن اور حدیث کے حکم کا مناط معلوم کرنا کہ قرآن کیا چاھتا ھے؟ پھر قرآن ھی سے اس کی تفصیل متعین کرنی، پھر حدیث سے تفصیلات متعین کرنا ،پھر اس حکم کا  طے کرنا کہ یہ اپنے الفاظ سے کس مقام پر رکھا جا سکتا ھے،، یہ فرض ھے،واجب ھے، اللہ پاک کی طرف سے صرف نصیحت ھے، اس کو آئیں و قانون کی زبان میں  کہتے ھیں جو ھر ملک کی عدلیہ کے ڈے ٹو ڈے کام کو چلاتا ھے،، لاء آف انٹرپریٹیشن کے بغیر کوئی عدالت ایک گھنٹہ بھی کام نہیں کر سکتی،، ! حکم شرعی عوام کے نزدیک تو کوئی آیت یا حدیث اور اس کے الفاظ ھوتے ھیں ،جن کو پڑھ کر ماشاء اللہ ایک دوسرے پر فتوے لگائے جاتے ھیں،مگر شریعت ( عربی میں کسی بھی لاء کالج میں داخلہ” دخول فی کلیۃ الشریعۃ ” گردانا جاتا ھے،، گویا مجرد قانون شریعہ ھے،، شریعت میں الفاظ نہیں بلکہ اس آیت یا اس حدیث سے اخذ ھونے والا حکم ،، حکم شرعی ھوتا ھے،،اب ایک آیت کے الفاظ سے ایک جج کے نزدیک ایک حکم نکل رھا ھے ،جبکہ دوسرے جج کے نزدیک وہ الفاظ کوئی اور حکم بیان کر رھے ھیں،، اس اختلاف کو فقہی اختلاف کہا جاتا ھے کہ الفاظ میں اختلاف نہیں، آیت میں اختلاف نہیں،، مگر اس پر اختلاف ھے کہ یہ حکم  فرض ھے یا آپشنل ھے،، اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما کو دعا دی تو فرمایا،،” اللھم فقہہ فی الدین، و علمہ التأویل،، آپ اندازہ لگائیں کہ اللہ جس فقہ فی الدین کو حاصل کرنا فرض قرار دیتا ھے،،اور نبیﷺ جس فقہ فی الدین کی دعا دیتا ھے،، وہ فقہ آج کل کے چند پرجوش نادانوں کے نزدیک شرک اور عیب بن گئی ھے ،، اللہ نے بھی فقہ کو دین سے جوڑا ھے،پورے دین کے ساتھ،، اور نبی ﷺ نے بھی فقہ کو پورے دین کے ساتھ بیان کیا ھے۔۔،، آخر کیا بات ھے کہ اللہ اور اس کا رسولﷺ بیک زبان پورے دین کو فقہ کا محتاج بیان کرتے ھیں،، ؟ کیا ان سے معاذ اللہ غلطی ھو گئی ھے یہ سمجھنے میں کہ فقہ تو قرآن و سنت کی دشمن ھے ؟ یا یہ لوگ جو صبح کتابیں بغل میں لے کر نکلتے ھیں فقہ دشمنی کی تبلیغ کرنے ان سے بات کو سمجھنے میں غلطی ھوئی ھے؟؟ اللہ پاک نے سورہ الانعام کی ایت نمبر 98 میں فرمایا،،تحقیق ھم نے بیان کر دی ھیں آیات علم والوں کے لئے ! اگلی ھی آیت نمبر 99 میں فرمایا ” تحقیق ھم نے بیان کر دی ھیں آیات فقہ یا تفقہ والوں کے لئے ‘ گویا دستیاب علم کو اس کی اھمیت کے لحاظ سے اس کے  میں رکھنے کا نام فقہ،، اس کو سادہ مثال سے سمجھنا ھے تو تین مثالوں سے سمجھ لیجئے ! ایک میسن کے پاس چند اینیٹیں ھوتی ھیں، سیمنٹ ھوتا ھے،ریت ھوتی ھے اور چند اوزار ھوتے ھیں،، جن سے وہ دیوار بناتا ھے،، اور آپ اس کے نخرے برداشت کر کے،اور چاپلوسی کر کے،مستری جی ،مستری جی، کر کے اور ساتھ دھاڑی دے کر دیوار بنواتے ھیِ، آپ وہ سارا سامان ،اینٹ،سیمنٹ،ریت ،تیسی ،کرنڈی اور فیتہ لے لیجئے اور خود سے دیوار بنا لیجئے آخر مستری کے پاس بھی تو دو ھاتھ ھی ھیں ناں،،وہ دو ھاتھ آپ بھی رکھتے ھیں،، اب کیجئے ان ھاتھوں کو استعمال اور کیجئے اس عقل کو استعمال جو سارا دن امام ابو حنیفہ کے پیچھے پڑی رھتی ھے اور بنایئے دیوار،، آپکی عقل مستری سے زیادہ تجربہ کار ھے،کیونکہ اس غریب نے تو ابھی لاھور بھی نہیں دیکھا،، آپ امریکہ اور برطانیہ سے ھو آئے ھیں،،پھر بھی وہ آپ پر آپ کی عقل سمیت غالب ھے اور آپ مغلوب ! آپ کو اندازہ ھوا ھے کہ آپ میں اور مستری میں فرق کہاں ھے،، فقہ اور تفقہ کا فرق ھے،، سارا سامان اور اوزار مہیا ھونے کے باوجود آپ بے بس ھیں،، اسے اینٹوں کو  سے رکھنے کا فن آتا ھے،، آپ اس سے تہی دست ھیں،، آیتیں اور حدیثیں ساری وھی ھوتی ھیں،،مگر جو بات مستری ابو حنفیہ جانتا ھے وہ آپ نہیں جانتے ،وہ ان آیات و احادیث کو  میں رکھنے کا فن جانتا ھے، اس کا نام فقہ ھے،، اسی سے آپ درزی کی مثال بھی سمجھ لیں،، اور موٹر مکینک کی بھی سمجھ لیں،، آپ کو سارے پرزوں کے نام آتے ھیں اپنے پیسے سے خرید کر لاتے ھیں،، آپ انگلش کے پروفیسر ھیں،، مگر بے بسی سے بار بار اس ان پڑھ کی منتیں کرتے ھیں کہ وہ جلدی کر دے،، آپ لیٹ ھو رھے ھیں،، وھی ھاتھ آپ کے پاس بھی ھیں،،کیوں اس کی منتیں کر کے اپنی انا کو مجروح کرتے ھیں،، لیٹیئے گاڑی کے نیچے اور لگا لیجئے پرزے،، مگر آپ کو صرف پرزے کا نام پتہ ھے،، پرزے کا کام اور  پتہ نہیں ھے،، تعجب کی بات نہیں کہ ایک ان پڑھ غریب مستری اور درزی ،مکینک کی محتاجی میں آپ کو شرم محسوس نہیں ھوتی ،، مگر جب کسی آیت یا حدیث کی تشریح میں ابی حنیفہؒ یا امام شافعیؒ کا نام آ جائے تو ناک پھول کر سموسے کی طرح کیوں ھو جاتی ھے ؟ اللہ پاک نے یہود کی بیماری بیان کی ھے سورہ حشر میں کہ یہ تفقہ سے خالی قوم ھے،،13 ،، منافقوں کو روش کو بیان کیا تو فرمایا کہ یہ لوگ ایمان پا کے اسے گنوا بیٹھے کیونکہ یہ فقہ سے عاری قوم ھے -3 ،، پھر اسی سورہ المنافقون میں ایت 7 میں فرمایا،،زمین و آسمان کے خزانے اللہ کے ھی ھیں مگر منافق تفقہ نہیں کرتے،، امام ابو حنیفہؒ تو حدیث کے راوی میں بھی تفقہ کی ڈیمانڈ کرتے ھیں،، بعض دفعہ وہ تفقہ کی بنیاد پر تابعی کو صحابی پر فوقیت دیتے ھیں ،یہ تسلیم کرتے ھوئے کہ صحابی کا مقام اپنا ھے،مگر بات مسئلے کی ھے خود نبیﷺ فرما گئے کہ بعض دفعہ حدیث کا راوی بات کو نہیں سمجھتا مگر جس کو پہنچاتا ھے وہ اس سے زیادہ فقیہہ ھوتا ھے” ھو افقہ منہ” لفظ فقیہہ ھی استعمال فرمایا ھے نبی کریم نےﷺ ،،

ابدال اور جھوٹی حدیثیں ! ڈوبتے کو تنکے کا سہارہ !!

ابدال اور جھوٹی حدیثیں ! ڈوبتے کو تنکے کا سہارہ !!

August 17, 2013 at 2:32am

امام أبو نعيم رحمه الله (المتوفى430)نے کہا  : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْحَسَنِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ السَّرِيِّ الْقَنْطَرِيُّ، حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ قَيْسٍ السَّامِرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ يَحْيَى الْأَرْمَنِيُّ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَارَةَ، حَدَّثَنَا الْمُعَافَى بْنُ عِمْرَانَ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : «إِنَّ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فِي الْخَلْقِ ثَلَاثَمِائَةٍ قُلُوبُهُمْ عَلَى قَلْبِ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ , وَلِلَّهِ تَعَالَى فِي الْخَلْقِ أَرْبَعُونَ قُلُوبُهُمْ عَلَى قَلْبِ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ , وَلِلَّهِ تَعَالَى فِي الْخَلْقِ سَبْعَةٌ قُلُوبُهُمْ عَلَى قَلْبِ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ , وَلِلَّهِ تَعَالَى فِي الْخَلْقِ خَمْسَةٌ قُلُوبُهُمْ عَلَى قَلْبِ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ , وَلِلَّهِ تَعَالَى فِي الْخَلْقِ ثَلَاثَةٌ قُلُوبُهُمْ عَلَى قَلْبِ مِيكَائِيلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ , وَلِلَّهِ تَعَالَى فِي الْخَلْقِ وَاحِدٌ قَلْبُهُ عَلَى قَلْبِ إِسْرَافِيلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ , فَإِذَا مَاتَ الْوَاحِدُ أَبْدَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ مَكَانَهُ مِنَ الثَّلَاثَةِ , وَإِذَا مَاتَ مِنَ الثَّلَاثَةِ أَبْدَلَ اللهُ تَعَالَى مَكَانَهُ مِنَ الْخَمْسَةِ , وَإِذَا مَاتَ مِنَ الْخَمْسَةِ أَبْدَلَ اللهُ تَعَالَى مَكَانَهُ مِنَ السَّبْعَةِ , وَإِذَا مَاتَ مِنَ السَّبْعَةِ أَبْدَلَ اللهُ تَعَالَى مَكَانَهُ مِنَ الْأَرْبَعِينَ , وَإِذَا مَاتَ مِنَ الْأَرْبَعِينَ أَبْدَلَ اللهُ تَعَالَى مَكَانَهُ مِنَ الثَّلَاثِمِائَةِ , وَإِذَا مَاتَ مِنَ الثَّلَاثِمِائَةِ أَبْدَلَ اللهُ تَعَالَى مَكَانَهُ مِنَ الْعَامَّةِ. فَبِهِمْ يُحْيِي وَيُمِيتُ , وَيُمْطِرُ وَيُنْبِتُ , وَيَدْفَعُ الْبَلَاءَ» . قِيلَ لِعَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ: كَيْفَ بِهِمْ يُحْيِي وَيُمِيتُ؟ قَالَ: لِأَنَّهُمْ يَسْأَلُونَ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ إِكْثَارَ الْأُمَمِ فَيَكْثُرُونَ , وَيَدْعُونَ عَلَى الْجَبَابِرَةِ فَيُقْصَمُونَ , وَيَسْتَسْقَوْنَ فَيُسْقَوْنَ , وَيَسْأَلُونَ فَتُنْبِتُ لَهُمُ الْأَرْضُ , وَيَدْعُونَ فَيَدْفَعُ بِهِمْ أَنْوَاعَ الْبَلَاءِ "[حلية الأولياء وطبقات الأصفياء 1/ 9 ومن طریقہ اخرجہ ابن عساکر 1/ 303] یہ حدیث موضوع اور من گھڑت ہے ۔ اس کی سند بہت ساری علتیں ہیں ۔ مثلا اس کی سند میں ’’عُثْمَانُ بْنُ عُمَارَةَ‘‘ ہے ۔ یہ مجہول ہے اوراس سند کے علاوہ کسی بھی سندمیں یہ معروف نہیں اورشدید نکارت والی حدیث بیان کررہا ہے اس لئے اس کی بیان کردہ یہ روایت موضوع ہے۔ امام ذہبی رحمہ اللہ نے میزان میں اس کا تذکرہ کرتے ہوے اس کی اس حدیث کو جھوٹی حدیث قراردیاہے دیکھئے: [ميزان الاعتدال للذهبي: 3/ 50]
_______

کیا ھم دلیل کی جنگ ھار چکے ھیں؟

کیا ھم دلیل کی جنگ ھار چکے ھیں؟

March 6, 2013 at 3:25pm
حق اپنا وجود ھمیشہ دلیل سے ثابت کرتا اور باطل سے اس کے وجود کی دلیل طلب کرتا ھے ،، آسمانی کتابیں نازل ھی اسی مقصد سے کی جاتی ھیں اور انبیاء کو دلیل دینا سکھایا جاتا ھے ،، جو امت آسمانی کتاب کھو دیتی ھے وہ حقِ تبلیغ بھی کھو دیتی ھے ، کیونکہ اس کے پاس آلہ تبلیغ نہیں ھوتا ،،اسی وجہ سے مسلمان آج پوری دنیا میں بستر اٹھائے پھرتے ھیں جبکہ دیگر کسی مذھب کو تبلیغ کی اجازت نہیں دیتے ،، باطل چونکہ  بے دلیل ھوتا ھے ،لہٰذا وہ اپنی بنیاد جبر اور ظلم پر رکھتا ھے ،یہ سورہ البروج میں بہت واضح طور پر سمجھایا گیا ھے ،کہ باطل کو کیوں آگ کی خندقوں کی ضرورت محسوس ھوئی اور کیوں عتبہ بلال کو تپتی زمین پر لٹاتا تھا ،کیونکہ عتبہ ،ربیعہ اور ابو جہل کے پاس دلیل کی طاقت نہیں تھی ، قرآن حکیم میں 400 کے لگ بھگ آیات اوامر اور نواھی یعنی قانون کی ھیں باقی سارا قرآن دلائل سے بھرا پڑا ھے،جو وجودِ باری تعالی کے علاوہ توحید کے دلائل بھی دیتا اور کفار کو چیلنچ دیتا ھے ،کہ ھاتوا برھانکم ، لاؤ اپنے دلائل اگر تم سچے ھو !! آج اھلِ سنت اکثریت میں ھونے کے باوجود دلیل کی قوت سے محروم لگتے ھیں ،اور دلیل کی بجائے اے ۔کے 47 سے کام چلانے کی کوشش کر رھے ھیں- حق اپنے اندر زبردست  کشش اور طاقتور پیغام رکھتا ھے ،،،اسے اپنا پیغام پہنچانے کے لئے لوگوں تک رسائی اور وقت چاھئے،  یہ ھی وہ دو فائدے تھے تو امام الانبیاء نے حدیبیہ کے میدان میں اپنے ھاتھ سے محمد ﷺ رسول اللہ کاٹ کر محمد بن عبد اللہ لکھ کر حاصل کیے تھے، لوگوں تک بلا روک ٹوک رسائی اور وقت !! صحابہؓ کی جزباتیت کے باوجود اللہ نے اس سہولت کو فتح مبین قرار دیا ، اور پھر وقت نے ثابت کیا کہ وہ کام جو 20 سال میں نہیں ھوا تھا وہ دو سال میں ھو گیا  اور لوگ فوج در فوج اسلام  میں داخل ھوئے، حدیبیہ میں اگر 1400 تھے تو 2 سال بعد 10،000 ھزار کا ایک لشکر مکہ میں فاتحانہ داخل ھو رھا تھا ،، کیا یہ باتیں صرف ممبر پر کہنے کو رہ گئی ھیں؟ عملی زندگی میں اسلام اپنا پیغام اور دلیل کھو چکا ھے؟ گالی دینے والے کے پاس کوئی دلیل نہیں اس لئے وہ کسی کے سامنے گالی دیتا بھی نہیں ،اور نہ ھی کوئی نفیس اور سلیم الطبع شخص گالی کو ثواب سمجھ سکتا ھے ،چاھے اس کا تعلق کسی بھی مذھب کے ساتھ ھو ،، الحمد للہ میں نے اپنی 52 سالہ زندگی میں ایک گالی بھی کسی شیعہ سے نہیں سنی ، شاید  خوش قسمتی سے میرا پالا سدا بہترین انسانوں سے ھی پڑا ، باقی میراثی ،اور بھانڈ نسل کا مولوی یا ذاکر دونوں طرف پائے جا سکتے ھیں، اور میراثی  اور گھٹیا انسان تو اپنی ماں ،بہن ،بیوی ،اور بیٹی ،بیٹے کو بھی گالیاں دیتے  ھیں ،،کسی کو دیں تو کیا گلہ ھے ،انکی وجہ سے کسی کمیونٹی کے قتلِ عام کا فتوی کوئی جاھل ھی دے سکتا ھے ،بریلوی میراثی ، دیوبندیوں کی ماں بہن منبر ِرسول پر ایک کر دیتا ھے اور اس کا وضو بھی نہیں ٹوٹتا ،، دیوبندی میراثی ،، بریلویوں کی ماں بہن کو گندی گالیاں دیتا اور ساتھ کہتا ھے بلند آواز سے کہوووووو سبحان اللہ ،، اصل میں دین معزز نسلوں اور قوموں سے نکل کر میراثیوں اور نیچ ذاتوں کے ھاتھ لگ گیا ھے ،اور رضیہ غنڈوں میں پھنس گئی ھے ،،اللہ پاک نے قومیں قبیلے بنائے ھیں تو انکی کچھ  خصوصیات بھی الگ الگ رکھی ھیں ، جسطرح ،چونسے اور سندھڑی کا فرق ھے ،،   بریلوی  دلیل کی جنگ اسی دن ھار گئے تھے جس دن انہوں نے ممتاز قادری کو اپنا ھیرو بنا لیا تھا ،اس دن انہوں نے اپنے قتلِ عام کا لائسنس طالبان کو دے دیا تھا کہ ،جس کو تم کافر سمجھو اسے مارنے کا تمہیں ای طرح حق ھے جسطرح ممتاز قادری کو سلمان تأثیر کو مارنے کا حق تھا ،، بس اس دن کے بعد پھر داتا صاحب اور پاک پتں پر انہوں نے مشرکوں کو مار کر عشقِ نبیﷺ کا حق ادا کیا ، تعجب کی بات یہ ھے کہ جس قانون کے دفاع میں سلمان تاثیر کو قتل کیا گیا ،اس قانون پر خود ان لوگوں کو اعتبار نہیں  ،اگر اعتبار تھا اور وہ قانون اتنا ھی بے غبار تھا تو تم لوگوں نے سلمان کے خلاف 295،سی کے تحت مقدمہ درج کیوں نہیں کرایا ؟ اور  اگر اعتبار نہیں تھا تو اسکی خاطر بندہ کیوں مارا؟؟ کوئی عقلی دلیل ھے تم لوگوں کے پاس؟ اسلام صراط مستقیم ھے اور  بھول بھلیوں سے نکلنے کا واحد رستہ ھے ،،اس کے باھر جس نے بھی رستہ تلاش کیا ھمیشہ بند گلی پہ جا کر کھڑا ھوگیا ، اور آج سارے فرقے بند گلی میں کھڑے ھیں ،کسی کے پاس حل نہیں ،،حل قرآن میں موجود ھے مگر ان سارے فرقوں کا قرآن سے کوئی لینا دینا نہیں سارے قرآن کو اپنے پیچھے چلاتے ھیں قرآن کے پیچھے چلنے اور قرآن کو امام بنانے کا کسی کا ارادہ نہیں ،، موجودہ حالات میں سے اگر نکلنا ھے تو سورہ توبہ میں ان تمام مسالک کے اختلافات کا حل موجود ھے ،،فھل من مدکر؟ اب جب عملماء آپس کے مسائل کو مجمعوں میں لے گئے اور علم کی بجائے کثرت اور طاقت کو  دلیل بنا لیا تو پھر ایسا ھوتا ھے کہ انسان حالات پیدا تو خود کرتا ھے مگر پھر حالات کا یرغمال بن جاتا ھے ،جسطرح ھاکس بے پر ڈوبنے والا  اپنی مرضی سے سمندر میں اترتا ھے ،،مگر پھر اپنی مرضی سے نکل نہیں سکتا ، سمندر کا اسیر ھوجاتا ھے ،،اسی طرح  علماء آج حالات کے اسیر ھیں اور دم سادھ کے اور جان بچا کے بیٹھے ھیں ،، اور مسلک کو بارودی مولویوں کے سپرد کر دیا ھے ، جس نے بھی فتوی بدلنے کی کوشش کی مار دیا گیا ، میرے پاس اس کی عملی مثالیں موجود ھیں ،، عام مسلمانوں سے گزارش ھے کہ ان قاتلوں کے لئے جواز نہ تراشیں اور نہ ان کا دفاع کریں ،، قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فری ھینڈ دیں تا کہ وہ ان سے نمٹیں ، سیاسی رابطوں سے ان کو تحفظ فراھم نہ کریں ،  اسی میں ھر فرقے کی بہتری ھ
ے اور آئندہ نسلوں کی بقا اور ملکی سلامتی کا انحصار ھے، ورنہ تیری داستاں بھی نہ ھو گی داستانوں میں !

غدیــــــــــر خم میں کیا ھوا تھا، کیـــوں ھوا تھا ؟؟

غدیر خم میں کیا ھوا تھا اور کیوں ھوا تھا ؟ غدیرِ خم کے مقام پر ایک مجلس کے واقعات کو ایک طبقہ اپنے مذھب کی بنیاد بناتا ھے،، باقاعدہ عیدِ غدیر کے نام پر جشن منایا جاتا ھے ! اس سیلاب میں عام مولوی حضرات بھی بہہ نکلے ،،اب جس طرف انجن جائے گا … Read more

فتنہ مہدیت،گزشتہ سے پیوستہ

امام مہدی دو ھیں،، ایک اھل سنت کا جو ابھی پیدا ھی نہیں ھوا ،، جبکہ دوسرا شیعہ حضرات کا جو تقریباً ساڑھے بارہ سو سال پہلے پیدا ھو کر 6 سال کی عمر میں بغیر پاجامے کے صرف ایک کرتے میں وہ قرآن ساتھ لے کر جو حضرت علیؓ پر نازل ھوا تھا اور … Read more