نکاح کی کم سے کم عمر اور قرآن !

April 11, 2014 at 9:34pm

وسعت اللہ خان کا وہ سوال جس کے جواب کے بعد ان کی طرف سے کیئے گئے باقی ضمنی سوالات کی ضرورت ھی نہیں رھتی،،مندرجہ ذیل ھے !!

سوال !

کچھ عرض کرنے سے پہلے یہ گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ ایک عام سے مسلمان کی طرح میں بھی دین کے بنیادی اصولوں سے واقف ضرور ہوں مگر ان کی باریکیوں اور شرح سے نابلد ہوں۔چنانچہ اسلامی نظریاتی کونسل کے واجب الاحترام علمائے کرام سے بلا تخصیصِ فرقہ و فقہ رہنمائی کا طلب گار ہوں۔ A-کیا شادی کے لیے لڑکے اور لڑکی کی کم ازکم عمر متعین ہے یا پھر اس بارے میں احکامات ِشرعیہ کا لبِ لباب یہ ہے کہ جنسمانی بلوغت کا معلوم ہوتے ساتھ ہی لڑکے لڑکی کا نکاح پڑھا دیا جائے یا پھر مراد یہ ہے کہ شادی کے لیے جسمانی بلوغت کی شرط لازم ہے ؟ A/1 -کیا نکاح کے لیے جسمانی بلوغت کو ہی معیار بنایا گیا ہے یا ذہنی بلوغت کو بھی اس ضمن میں ضروری اہمیت دی گئی ہے ؟ اگر ایسا ہے تو پھر جس طرح جسمانی بلوغت کا ایک پیمانہ رکھا گیا ہے کیا ذہنی بلوغت کا بھی کوئی پیمانہ مقرر ہے کہ جس پر پورا اترے بغیر شادی میں جلد بازی نہ کی جائے ؟ اور یہ کہ شادی کے لیے لڑکے اور لڑکی کی رضامندی سے کیا مراد ہے ؟ کیا یہ رضا مندی بلا دباؤ ہونی چاہیے ؟ اگر ہاں تو پھر جبری رضا مندی اور اس کے نتیجے میں ہونے والے نکاح کے بارے میں شرعی احکامات کیا ہیں ؟ اور شرعاً ایک لڑکے اور لڑکی کو عمر کے کس دور سے باہوش و حواس عاقلانہ و آزادانہ فیصلہ کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کرنے کے قابل سمجھا جا سکتا ہے لیکن اگر محض جسمانی بلوغت ہی نکاح کا پیمانہ ہے تو ایسے بچے جو روزمرہ ضروریات یا حصولِ تعلیم یا کسی اور سبب والدین یا رشتے داروں کے زیرِ کفالت ہیں ان کی بعد از نکاح کفالت کے تقاضوں کے بارے میں کیا احکامات ہیں ؟ کیا جسمانی بلوغت کے فوراً بعد شادی شدہ زندگی کا معاشی بار وہ خود اٹھائیں گے یا اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے تک یہ ذمے داری والدین اور دیگر رشتے داروں پر عائد ہوگی ؟ الجواب ! حامداً و مصلیاً !! گزارش یوں ھے کہ یہ کس طرح ممکن ھے کہ ایک ایسا دین جو رھتی دنیا تک کے لئے آخری دین ھے ،، اور ایک ایسی کتاب جو انسانیت سے اللہ پاک کا آخری خطاب ھے ،،وہ اللہ جو آنے والے زمانوں سے بھی اسی طرح واقف ھے جس طرح گزرے زمانوں سے واقف ھے،، جس کے لئے آنے والا مستقبل بھی ویسا ھی اٹل اور دو ٹوک ھے،، جس طرح گزرا ماضی !! وہ اللہ ایک ایسے معاملے میں جو کہ ھر گھر کا ، ھر فرد کا اور ھر روز کا معاملہ ھے ،،کوئی واضح ھدایت نہ دے ،، اور معاملہ بھی وہ جس پر نوع انسانیت کی بیخ و بنیاد رکھی گئ ھے ! اللہ پاک نے یہ مسئلہ سورہ النساء کی ابتدا میں ھی حل کر دیا ھے اور اس شان سے بیان کیا ھے اور اتنے ذومعنی الفاظ استعمال فرمائے ھیں کہ ان میں ھر اس سوال کا جواب دے دیا گیا ھے کہ جو کسی عاقل شخص کے ذھن میں پیدا ھو سکتے ھیں ! اورجو ایک ایک کر کے وسعت اللہ خان نے پوچھے ھیں ! سب سے پہلی بات یہ کہ اللہ پاک نے وراثت کی تقسیم کی عمر کا پیمانہ نکاح کی عمر کو بنایا ھے کہ !! یتیموں کو تقسیم وراثت سے پہلے آزماتے رھو یہانتک کہ وہ ” نکاح کی عمر ” کو پہنچ جائیں ! (سورہ النساء 6 ) اگر نکاح کی عمر ھی نامعلوم تھی اور معاشرے میں کسی کو پتہ ھی نہیں تھا کہ "کم سے کم "نکاح کی عمر کیا ھے تو اللہ پاک کا اس کو پیمانے کے طور پر استعمال کرنا ” چہ معنی دارد ؟” اللہ کوئی پاکستان سے تو سعودیہ نہیں گیا تھا کہ وہ وھاں کے معاشرتی حالات کو نہیں جانتا تھا ،، نیز اس پر بہت سارے سوال آنے چاھیئے تھے کہ جناب یہ نکاح کی عمر کتنے سال سے شروع ھوتی ھے ؟ اور جب اس بارے میں کوئی سوال نہیں اٹھایا گیا تو اس کا مطلب یہ ھے کہ یہ عمر لوگوں میں اتنی معروف تھی کہ اللہ نے اسی کو پیمانہ ٹھہرایا ! پھر لفظ بلوغ اور بالغ بھی اسی وجہ سے مستعمل ھے کہ کسی کا کسی مقصد یا مطلوب تک پہنچ جانا ،،، اور وہ مقصود یا مطلوب یا منزل معلوم ھونا ضروری ھے ! مثلاً حتی یبلغ الھدیُ محلہ ” یہانتک کہ ھدی یعنی قربانی اپنے محل کو پہنچ جائے ! یعنی حلال ھونے کی جگہ پہنچ جائے ،، اب یہ ھی معلوم نہیں کہ قربانی کا محل کیا ھے تو ساری زندگی بکرا ساتھ لئے پھرتے رھو ؟ یا جہاں چاھے حلال کر دو ؟ گویا بلوغ کے لئے منزل کا معلوم ھونا ضروری ھے،، احرام میں جانور کے قتل کرنے پر کفارے میں ویسا ھی جانور کا کعبے پہنچا کر ذبح کرنا ضروری ھے،، الفاظ استعمال فرمائے ” ھدیاً بالغ الکعبۃ،، وہ ھدی جو کعبہ پہنچائی جائے ،، اب کعبہ ھی نامعلوم ھو گا تو انسان اس جانور کو لئے بھٹکتا رھے گا ! بایں معنی اللہ پاک کا یہ فرمانا کہ حتی اذا بلغوا النکاح ” یہانتک کہ وہ یتیم نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں ،،اتنا ھی معلوم تھا جتنا قربانی کے لئے منی اور کعبہ معلوم تھے،، اگر ان میں کوئی شک نہیں تھا تو نکاح کی عمر میں بھی کوئی شک نہیں تھا ! پھر نکاح کی عمر آخری حد ھے ! یتیموں کے عقل و فراست اور رشد و ھدایت کا امتحان اور ٹیسٹ اس سے پہلے لیتے رھنا ھے ،،جب ان میں عقل و فراست اور معاملہ فہمی معلوم ھو جائے تو ان کا مال اسی وقت ان میں بانٹ دینا چاھئے ،، مگر نکاح کی عمر تک پہنچ کر تو ھر حال میں ان کو سونپ دینا چاھئے ! پہلے اس آیت کا انگریزی ترجمہ پڑھ لیجئے تا کہ بات مزید واضح ھو جائے پھر بقیہ نکات کی طرف چلیں گے ! Make Trail of Orphans until they reach the Age of marriage, If then you find sound judgement in them,release their property to them,( al,nisaa-6 ) translation of Abdulla Yousaf, اس آیت کے تحت حاشیہ نمبر 512 میں وہ لکھتے ھیں ! the age of marriage is the age when they reach their majority, سید ابوالاعلی مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے ترجمے میں کچھ یوں ھے ! and go Observing and Testing The Orphans until they reach the marriageable age , then if you Perceive That They have become capble,, اسی آیت کی تشریح میں حاشیہ نمبر 4 میں وہ لکھتے ھیں ! That is ” when they approaching puberty,keep an eye on them to assess their mental development in Order to see how Far they are becoming responsible and capable of managing and looking After their own affairs, اس انگریزی ترجمے اور پھر تشریح کو آپ پڑھیں گے تو آپ کو نکاح کی عمر اور عقلی بلوغت کی شرائط صاف صاف نظر آئیں گی اور ان سارے سوالوں کا جواب صرف اس ایک آیت کے ترجمے پر غور کرنے سے ھی مل جاتا ھے ! پھر اللہ پاک نے وراثت اور نکاح کی عمر کو اس طرح جوڑا ھے کہ اللہ پاک کی حکمت پر دل عش عش کر اٹھتا ھے ! وراثت ذمہ داریوں کا سلسلہ ھے،، اھم فیصلے لینے کا معاملہ ھے،، یہ ایک مردے کی اتاری ھوئی قمیص سے شروع ھوتا ھے اور لاکھوں کروڑوں کی جائداد تک جاتا ھے،،کون کس طرف والی دکانیں لے گا،، کون کسی حصے کو لے کر باقی سے دستبردار ھو گا،، یہ سب فیصلے عقل و شعور کے طالب ھیں،، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ھے کہ علم الفرائض یعنی وراثت کا علم دین کے علوم کے تین حصے ھیں ! ( میرا تخصص وراثت ھی ھے ) باقی سارے علوم چوتھا حصہ ھیں ،، اسی طرح نکاح کا معاملہ بھی کئ زندگیوں اور نسلوں کا معاملہ ھے یہاں نہایت سوچ سمجھ کر اور مشورہ کر کے فیصلے لینے ھوتے ھیں ! ایک چھ سالہ لڑکی اپنے باپ کی اتاری گئ قمیص کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں لے سکتی جب تک کہ وہ نکاح کی عمر کو نہ پہنچ جائے تو اپنی اور اپنی نسلوں کی زندگی کا فیصلہ کیسے کر سکتی ھے ؟ وراثت کے تین فرض ھیں یا تین شرطیں ھیں ! 1- وجود الکل،، سارے وارث موجود ھوں یعنی زندہ ھوں ! 2- بلوغ الکل ،، سارے وارث بالغ ھوں ،،ایک کے نابالغ ھونے کی صورت میں بھی وراثت کی تقسیم رک جائے گی ! 3- رضا الکل- کسی بھی تقسیم میں سب کی رضا شامل ھو، ایک بھی راضی نہ ھوا تو تقسیم رک جائے گی ! مردے کی جو قمیص یا بنیان اتاری جاتی ھے وہ بھی جس کو دینی ھے، چاھے امام صاحب کو صدقہ کی جائے یا مسجد کے پانی بھرنے والے کو ،،یہ سب کی رضا سے ھو گا ! اگر بچی اپنے والد کی قمیص نشانی کے طور پر لینا چاھتی ھے تو اسے صدقہ نہیں کیا جا سکتا ! یاد رکھئے کہ یتامی صرف لڑکے نہیں لڑکیاں بھی یتیم ھیں اور ان کا بھی ٹیسٹ اور امتحان لیا جاتا رھے گا جب تک کہ وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں،، جیسا کہ قرآن کا حکم ھے،، اب کیا کوئی چھ سال کی بچی جائداد کی وارث بن سکتی ھے ؟ اگر نکاح چھ سال کی عمر میں ھو گیا ھے تو پھر طے ھو گیا کہ جائداد کی تقسیم کی عمر چھ سال ھے ؟ میں نے پانچ سال ایک لڑکی کی وراثت کا کیس گجرات کچہری میں لڑا ھے،، ایک پلاٹ لیا گیا تھا روات پولیس ھاؤسنگ اسکیم میں 90 ھزار کا ،، لڑکی کا والد فوت ھو گیا تھا،، پلاٹ نام لگوانے کے لئے لڑکی کا consent درکار تھا،،جج صاحب مان نہیں رھے تھے،، بچی کی شادی 13 سال کی عمر میں کر دی گئ اس کے دو بچے ھو گئے ،، 2 بچے بھی ثبوت کے طور پر ساتھ لے کر عدالت میں پیش کر دی کہ جج صاحب یقین کر لو ” کُڑی ” بالغ ھو گئ ھے،مگر جج صاحب نے 16 سال پورے کر کے ڈگری دی ، اس دوران وہ پلاٹ 10 لاکھ کا ھو چکا تھا،، جو کہ منت ترلا کر کے 5 لاکھ ادا کر کے نام لگوایا گیا ! جن لوگوں نے بھی قرآن کے اس واضح حکم کو گڈ مڈ کیا اور خود بھی مخمصے میں پڑے اور پوری امت کو بھی مخمصے میں ڈال رکھا ھے ،، انہوں نے صرف ایک حدیث کی بنیاد پر قرآن کو مفلوج کر کے رکھ دیا ھے ! اور طے نہیں کر پا رھے کہ نکاح کی کم سے کم عمر کیا ھے ! ان کے نزدیک اس حدیث کی بنیاد سے ثابت ھوتا ھے کہ قرآن کے اس حکم کی سب سے پہلی اور آخری خلاف ورزی ( معاذاللہ ) اللہ کے رسول ﷺ نے ھی کی ھے ،، اس کے بعد پوری 1434 سالہ اسلامی تاریخ میں کوئی اور مائی کا لعل یہ کارنامہ سرانجام نہیں دے سکا ! نہ خود عمل کرتے ھیں اور نہ اس کو قرآن پر پیش کر کے رد کرتے ھیں،، یہ ان کے گلے کا چھچھوندر بن کر رہ گئ ھے ،، حدیث قرآن کو ماننے نہیں دیتی اور ضمیر اس حدیث پر عمل نہیں کرنے دیتا ! اب ولی کے کندھے پر بندوق رکھی گئ کہ جناب ولی تو بالغ ھوتا ھے لہذا وہ اپنی بیٹی کا نکاح جب چاھے کر سکتا ھے !( جیسا کہ ابوبکر صدیقؓ نے اپنی بیٹی کا چھ سال کی عمر میں کر دیا ، یہ عرب کی تاریخ میں پہلا اور آخری ولی تھا جس نے یہ کام کیا ،، آج تین تین من کی چلتی پھرتی لاشیں جن کی ڈگریوں کے لئے بینر چھوٹے پڑ جاتے ھیں ،،پتہ نہیں کیوں ایسے فیصلے نہیں کرتے اپنی بیٹیوں کے بارے میں ؟؟) خیر یہاں بھی ان کو چین نہیں آیا کیونکہ یہاں دوسری حدیث یہ کہہ رھی ھے کہ ایک لڑکی نے نبی کریمﷺ سے آکر شکایت کی کہ میرے والد نے میری مرضی کے خلاف میرا نکاح اپنے بھائی کے بیٹے کے ساتھ کر دیا ھے،،جس پر آپ نے اس کے والد کو بلا کر تحقیق کی اور پوچھا کہ تم نے بیٹی سے پوچھے بغیر اس کا نکاح کر دیا ھے ؟ اس نے کہا کہ بیٹی سے پوچھنے کی بھلا کیا ضرورت تھی ؟ میں اس کا باپ ھوں ! آپ ﷺ نے رخِ انور لڑکی کی طرف پھیرا اور فرمایا کہ اگر تجھے قبول ھے تو یہ نکاح ھے اور اگر قبول نہیں ھے تو اس نکاح کی کوئی حیثیت نہیں ھے ! حضور ﷺ نے فرمایا ” کنواری سے اذن لیا جائے گا اور بیوہ یا مطلقہ اپنے آپ کی خود مالک ھے ” پوچھا گیا اللہ کے رسولﷺ کنواری تو شرماتی ھے ،، فرمایا اس کی خاموشی اس کا اذن ھے ! جب ثابت ھو گیا کہ اب لڑکی سے پوچھے بغیر چارہ کوئی نہیں ،، اور پوچھنا بھی اس وقت ھے جب بچی زندگی کا فیصلہ کرنے کا شعور پا چکی ھو تو اب اک نیا ضابطہ بنایا گیا جس میں لڑکی کو خواہ مخواہ  افراتفری میں ڈالنے کی کوشش کی گئ کہ ” لڑکی نے اگر مکرنا ھے تو حیض آنے کے بعد اگلی نماز کے وقت تک مکر سکتی ھے ،، اس کے بعد اس کے مکرنے کی کوئی حیثیت نہیں ھو گی ،، دوسرے صاحب نے مہربانی فرما کر حیض کے بعد پانچ نمازوں کا وقت دیا کہ ان کے اندر اندر مکر لے اگر مکرنا ھے ! مسئلہ یہ ھے کہ انسانیت کے خیر خواھو ! یہ حق آپ کو کس نے دیا ھے کہ آپ لڑکی کو ٹائم فریم دو کہ وہ زندگی بھر اور آنے والی نسلوں کا فیصلہ گھنٹے دو گھنٹے میں کر لے ؟ کیا قرآن میں کوئی ایسا حکم آیا ھے ؟ یا اللہ کے رسولﷺ نے کوئی ایسا حکم دیا ھے ؟ صرف اللہ کے رسول ﷺ سے دلیل نہیں مانگی جائے گی ،،باقی سب سے دلیل مانگی جائے گی چاھے وہ عمر ابن الخطاب ھی کیوں نہ ھوں جن سے بر سرِ منبر دلیل طلب کی گئ ! جب اللہ کے رسول ﷺ کی عدالت میں لڑکی نکاح کا شکوہ کرنے آئی تھی تو کیا ،اللہ کے رسول ﷺ نے اس سے پوچھا تھا کہ تمہیں حیض آیا ھے یا نہیں اور آیا ھے تو کتنی نمازیں گزری ھیں ؟ پھر جب فیصلہ اس بچی نے ھی کرنا ھے تو ولی کیوں تتے توے پر کھڑا ھے؟ ،اسے جوان ھو لینے دے باپ بیٹی مشورے سے فیصلہ کر لیں گے ! اس کے لئے پھر ایک دلیل بیع و شراء سے لائی گئ! سودا کرنے والے مجلس برخواست ھونے تک مکر سکتے ھیں،جب مجلس برخواست ھو گئ تو پھر مکرنے کا اختیار ختم ھو جاتا ھے،، یوں نکاح کو خرید و فروخت پر قیاس کر کے لڑکی کے لئے ٹائم فریم طے کیا گیا ! کسی کے نزدیک چونکہ اذان کے بعد مجلس برخواست ھو جاتی ھے تو نماز سے نماز تک کا وقت مجلس کا ٹائم سمجھ کر حاتم طائی کی قبر پر لات مار کر لڑکی کو دے دیا گیا کہ ھمارے نماز پڑھ کر آنے سے پہلے پہلے مکر لو ،، ھم آ گئے تو تیری مہار دوسرے کے ھاتھ میں پکڑا دیں گے ! ھوئے مر کے ھم جو رسوا ! ھـوئے کیــوں نہ غــرقِ دریا ! نہ کــــوئی جــــــنازہ اٹھتا ! نہ کہــــــــیں مــــــزار ھوتا ! اس کو کہتے ھیں دین کی مردانہ توجہیہ یا Interpretation

 

نکاح کی کم سے کم عمر اور قرآن !

وسعت اللہ خان کا وہ سوال جس کے جواب کے بعد ان کی طرف سے کیئے گئے باقی ضمنی سوالات کی ضرورت ھی نہیں رھتی،،مندرجہ ذیل ھے !!

 

سوال !

 

کچھ عرض کرنے سے پہلے یہ گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ ایک عام سے مسلمان کی طرح میں بھی دین کے بنیادی اصولوں سے واقف ضرور ہوں مگر ان کی باریکیوں اور شرح سے نابلد ہوں۔چنانچہ اسلامی نظریاتی کونسل کے واجب الاحترام علمائے کرام سے بلا تخصیصِ فرقہ و فقہ رہنمائی کا طلب گار ہوں۔ A-کیا شادی کے لیے لڑکے اور لڑکی کی کم ازکم عمر متعین ہے یا پھر اس بارے میں احکامات ِشرعیہ کا لبِ لباب یہ ہے کہ جنسمانی بلوغت کا معلوم ہوتے ساتھ ہی لڑکے لڑکی کا نکاح پڑھا دیا جائے یا پھر مراد یہ ہے کہ شادی کے لیے جسمانی بلوغت کی شرط لازم ہے ؟ A/1 -کیا نکاح کے لیے جسمانی بلوغت کو ہی معیار بنایا گیا ہے یا ذہنی بلوغت کو بھی اس ضمن میں ضروری اہمیت دی گئی ہے ؟ اگر ایسا ہے تو پھر جس طرح جسمانی بلوغت کا ایک پیمانہ رکھا گیا ہے کیا ذہنی بلوغت کا بھی کوئی پیمانہ مقرر ہے کہ جس پر پورا اترے بغیر شادی میں جلد بازی نہ کی جائے ؟ اور یہ کہ شادی کے لیے لڑکے اور لڑکی کی رضامندی سے کیا مراد ہے ؟ کیا یہ رضا مندی بلا دباؤ ہونی چاہیے ؟ اگر ہاں تو پھر جبری رضا مندی اور اس کے نتیجے میں ہونے والے نکاح کے بارے میں شرعی احکامات کیا ہیں ؟ اور شرعاً ایک لڑکے اور لڑکی کو عمر کے کس دور سے باہوش و حواس عاقلانہ و آزادانہ فیصلہ کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کرنے کے قابل سمجھا جا سکتا ہے لیکن اگر محض جسمانی بلوغت ہی نکاح کا پیمانہ ہے تو ایسے بچے جو روزمرہ ضروریات یا حصولِ تعلیم یا کسی اور سبب والدین یا رشتے داروں کے زیرِ کفالت ہیں ان کی بعد از نکاح کفالت کے تقاضوں کے بارے میں کیا احکامات ہیں ؟ کیا جسمانی

x (x)
x (x)

الــــــــــرجی ، گیـــــس اور جاوید احمد غامدی !

April 2, 2014 at 1:36pm

محترم قارئین ! السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ! ڈاکٹروں کو جب کسی بیماری کا سر پیر نظر نہ آئے ! تو وہ فوراً کہہ دیتے ھیں کہ الرجی ھے، اب یہ الرجی ھر قسم کی ھو سکتی ھے، جتنے باڈی پارٹس ھیں اتنی ھی الرجی کی قسمیں ھیں، بلکہ جتنے فیملی ممبرز ھیں اتنی ھی الرجی کی قسمیں ھیں،،شوھر بیوی سے الرجک تو بیوی شوھر سے الرجک،،جتنی شوھروں کی قسمیں ھیں اتنی ھی الرجیاں ھیں اور جتنی بیویوں کی عادتیں ھیں اُتنی ھی الرجیاں ھیں بلکہ والدین اولاد سے الرجک تو اولاد ماں باپ سے الرجک ! اسی سے یاد آیا یہ جو مائیں ھوتی ھیں انہیں چھاپہ مارنے کا بہت جنون ھوتا ھے،غالباً اس جنون کو دیکھتے ھوئے ھی لیڈیز پولیس کے تھانہ جات قائم کیئے گئے ھیں، جہاں بیویاں اپنی سہیلی انسپکٹر کے ذریعے شوھر کو رات بھر چھترول کروا کر اس کی الرجی نکلواتی ھیں جیسے شوھر پیر صاحب کے ڈنڈے سے بیوی کا جن یعنی الرجی نکلواتے تھے ! خیر اپنا تو کام ھی بچوں کی شرارتیں پکڑنا ھے ،کیونکہ اب ھم خود شرارت کے قابل نہیں رھے ،، عمر کے لحاظ سے نہیں عہدے اور مقام کی بات کر رھا ھوں ! خوش قسمتی سے گھر بھی کالج کے احاطے میں ھے اور ھم ھر جگہ سے شرارتی بچہ برآمد کر سکتے ھیں،، جس پر وہ پریشان ھو کر پوچھتے ھیں کہ آپ کو پتہ کیسے چلا کہ ھم یہاں بھی ھو سکتے ھیں؟ جس پر ھمیں ان کو بتانا پڑتا ھے کہ ھم بھی کبھی بچے تھے اور اسی قسم کی جگہوں سے برآمد ھوا کرتے تھے،،خیر چار پانچ بچے بیٹھے سگریٹ سے استفادہ فرما رھے تھے کہ ایک کی امی برقعے میں نمودار ھوئیں،، ان کے برقعے کا اسٹائل کچھ یوں تھا کہ وہ نقاب کو ڈھاٹے کی طرح استعمال فرماتی تھیں،، جس سے ان کی آنکھیں ننگی رھتی تھیں،، ان کو دیکھنا تھا کہ ایک بچے نے دوسرے کا نام لے کر کہا ،” اوئے ثاقب تیری امی ! پھر غصے سے کہا ” یار یہ تیری امی ننجا ٹـرٹل ( Ninja Turtle )ھر جگہ پہنچ جاتی ھے ! میں تو حیران ھوں کہ جب یہ الرجی لفظ دریافت نہیںن ھوا تھا تو ڈاکٹر اس کی جگہ کونسا لفظ استعمال کرتے ھوں گے اور شوھر بیویوں سے الرجک ھونے کی بجائے کیا ھوتے ھونگے ؟ خیر الرجی کے لئے وجہ کا ھونا ضروری نہیں،ھمیں گردن کے پیچھے دونوں شانوں کے درمیان گرمی دانے سے نکل آئے اور وہ بھی کڑاکے کی سردی کے موسم میں ، ایک دوست سے ذکر کیا بولے لیپ ٹاپ کی وجہ سے ! ھمارا طراہ جو اکثر ” تے ” کے ساتھ نکلتا تھا وہ باقاعدہ ” ط ” کی تفخیم کے ساتھ نکلا ،، ان سے پوچھا کہ حضرت یہ لیپ ٹاپ کا ھماری گردن اور شانوں کے ساتھ کیا تعلق ھے؟ خاص کر جبکہ ھم نے آپ کے سامنے لیپ ٹاپ کو تکیے پر رکھا ھوا ھے رانوں پر نہیں ؟ بولے یہی اصل وجہ ھے،،یہ تکیہ چارج ھو جاتا ھے جب آپ اسے سر کے نیچے رکھتے ھیں تو یہ چارج کی وجہ سے الرجی پیدا کر دیتا ھے ! جبکہ حقیقت یہ تھی کہ وہ لیپ ٹاپ سے الرجک تھے،جتنی دیر وہ بات کرتے رھے ھم ان باکس سوالوں کے جواب دیتے رھے،جو کہ کافی نامناسب بات تھی جس سے انہیں الرجی ھو گئ جو کہ انہوں نے پلٹا کر ھماری گردن میں ڈال دی ! طب یونانی میں حکیم صاحب کو جب کسی بیماری کی سمجھ نہ لگے یا جس کی وضاحت وہ نہ کر سکیں اسے وہ گیس کہتے ھیں،، گیس ھو گئ ھے، یہ گیس کی وجہ سے ھے،،یہ گیس آپ کے دانتوں میں بھی چڑھ سکتی ھے، دماغ کو بھی چڑھ سکتی ھے،، معدہ تو فیکٹری ھے گیس کی،، اس کے علاوہ بدن کے کسی حصے میں جانے کے لئے بھی گیس کو پاسپورٹ ویزے کے تکلف کی ضرورت نہیں،، حکمت میں جعلی عکس ڈالنے کے لئے چیزوں کے نام عربی اور فارسی رکھے جاتے ھیں،، لعوق سپستاں ،، کا مطلب ھے لسوڑے کی چاٹ ،، تخم ریحان نیاز بو کے بیج ھوتے ھیں اور عقر قرحا بھی اسی بلا کا نام ھے ! چنڈ تپھہ ،، یعنی ایسی مار جس کا نشان نہ پڑے اسے حکمت میں ” ضربِ غیر مبرھن ” کہتے ھیں ! یہ بیماری عورتوں کو اکثر رھتی ھے کیونکہ شوھر کام پر جانے سے پہلے ھاتھ کو چارج کر کے جاتے ھیں ! ریح کا درد آپ نے سنا ھو گا بلکہ اگر آپ خوش قسمت ھیں تو آپ کو ھوا بھی ھو گا ! یہ بھی اردو میں گیس ھی ھوتی ھے ! چک چکوڑا ھمارے قریب ایک گاؤں ھے وھاں ایک حکیم تھے ،، بہت مشہور تھے،ھم بھی بچے کو ان کے پاس لے گئے ،،کافی بڑا مجمع تھا لوگ مرد عورتیں سارے ایک کھلی جگہ بیٹھے تھے ،حکیم صاحب گلے میں ٹوٹی (اسٹیتھو اسکوپ ) لٹکائے پھر رھے تھے ان کی پوری کوشش تھی کہ یہ ٹوٹی کسی بندے کے بدن سے چھو نہ جائے جبکہ ٹوٹی بھی ایسی شوخ تھی کہ جھٹ اگلے کو چوم لیتی جس پر شرمندہ ھو کر حکیم صاحب کبھی اسے دائیں کندھے پہ لٹکاتے تو کبھی بائیں کندھے پر ،مگر گلاں سن کے ماھی دے نال میریاں دوپٹہ بے ایمان ھو گیا والا معاملہ لگتا تھا ٹوٹی بھی گیس کی مریض لگتی تھی !خیر حکیم صاحب جدھر رخ کرتے ایک ھی آواز آ تی جا رھی تھی ” اماں جی تساں کی گیس اے” اماں جی تساں کی وی گیس ھے” لالہ جی تساں کی وی گیس ھے ” جب ھمارے پاس پہنچے تو ھم نے خود ھی کہہ دیا کہ حکیم جی ھمارے بچے کو بھی گیس ھے ! حکیم جی بھڑک گئے کہ آپ خود حکیم بن گئے ھیں جبکہ ھم نے بال سفید کر کے حکمت حاصل کی ھے ! ھم بھی گرم ھوگئے کہ جناب ایسی حکمت تو بھنڈیاں یا چنے کی دال کھا لو تو خود بخود حاصل ھو جاتی ھے ! سوچتا ھوں جب گیس دریافت نہیں ھوئی تھی تو مریضوں کو کیا ھوتا ھو گا ! علماء کو جب کسی سوال کی سمجھ نہ لگے یا جواب نہ آئے تو وہ سائل کو غامدی نام کی بیماری تجویز کرتے ھیں ! ایک صاحب بیٹے کی شکایت لے کر جامعہ میں گئے ،، بیٹا امریکہ سے آیا تھا اور اس کو کچھ اشکالات تھے،، باتیں سنتے ھی مولانا صاحب نے والد کو بتایا کہ ان کا بیٹا غامدی ھو گیا ھے ! وہ صاحب حیران پریشان گھر واپس آئے اور اسے بتایا کہ اس کو غامدی ھو گیا ھے ! بیٹا بھی پریشان ھو گیا اور گوگل پہ بیماریوں کی لسٹ میں غامدی ڈھونڈنے لگ گیا ! کبھی چھوٹی g سے لکھتا تو کبھی بڑی G سے لکھتا ،،کبھی جی کے بعد ایچ ڈالتا اور کبھی صرف جی کے ساتھ گامدی لکھ کر بھی دیکھتا مگر بیماری تھی کہ مل کر نہ دی،، البتہ گوگل اسے بار بار تجویز دیتا کہ شاید آپ کو غامدی نام کے اسکالر کی تلاش ھوں،، یوں وہ غامدی تک جا پہنچا ! غامدی کی دریافت سے پہلے ھم جب اپنے استادوں کو تنگ کرتے تو وہ ھمیں ” محقق ” کا طعنہ دیا کرتے تھے ! دوران تدریس کوئی سوال اٹھتا تو شیخ فرماتے ھاں جی محقق صاحب آپ نے اگر کوئی گولہ چھوڑنا ھے تو چھوڑ دیں تاکہ ھم زخمیوں کو فوری طور پر اسپتال پہنچا کر پھر اپنی بات شروع کریں ،، کبھی کبھار ھم بھی کہہ دیتے کہ حضرت ھمارے زخمی اور ھلاک شدگان کا فوری طور پر پتہ چل جاتا ھے مگر آپ کے ایڈز کے مریضوں کا تو آخری اسٹیج پر پتہ چلتا ھے ! خیر غامدی صاحب کی دریافت کے بعد بہت آسانی ھو گئ ھے ! اب ھر سوال اٹھانے والے کو غامدی ھو جاتا ھے،، اسٹیج کا تعین بعد میں سوالات کی گہرائی دیکھ کر کیا جاتا ھے ! اتنی شہرت سنی تو ھمیں بھی غامدی دیکھنے کا شوق ھو گیا ! یہ شوق ھمیں بچپن سے تھا،، اس شوق کی تفصیل بعد میں بیان کی جائے گی ! خیر ھمیں شرف ملاقات حاصل ھوا !! اور پھر غامدی صاحب کو بھی چونکتے دیکھا ،یعنی ان کا بھی طراہ نکل گیا کہ ” دوجا چن کدھروں چڑھ آیا ” جب سے ھماری ملاقاتیں شروع ھوئی ھیں،، بس میں ھی بول رھا ھوں اور میری ابھی اے سائڈ (A Side ) بھی ختم نہیں ھوئی ،، اس دفعہ ارادہ تھا کہ غامدی صاحب کی ائے سائڈ بھی سن لی جائے مگر ان کی طبیعت ذرا ناساز تھی ! پچھلے ھفتے جماعت کی شوری کے ایک رکن سے ایک دعوت میں ملاقات ھوئی ،پرانے واقف ھیں غامدی صاحب کے بارے میں ھمارا موقف جاننے کے متمنی تھے،، وہ اپنا دل کھولنے سے پہلے غالباً ھمیں ٹٹولنا چاھتے تھے کہ ھمیں کہیں غامدی صاحب سے الرجی یا گیس ٹائپ کی کوئی چیز تو در پیش نہیں،، فرمانے لگے غامدی صاحب یوں کہتے ھیں،، ھم نے ان کے مقطعے پر جواباً پوری غزل سنا ڈالی ،، جس پر انہوں نے کہا کہ ” آپ تو غامدی صاحب سے بھی آگے کی چیز لگتے ھیں ” میں نے عرض کیا کہ ابھی بس یہی فیصلہ کرنے ھم دونوں بیٹھتے ھیں کہ کون کتنی گہرائی میں ھے،،مگر غامدی صاحب نہایت نفیس آدمی ھیں ،، جو کہ پنجابیوں میں بہت کم یہ بیماری پائی جاتی ھے ! جب کہ ھم خالص پینڈو واقع ھوئے ھیں بغیر کسی رکھ رکھاؤ کے اگلے کی تسلی گارنٹی کے ساتھ کرتے ھیں !

 

ایک عورت کئی کہانیاں

ایک عورت کئ کہانیاں ! عورت قرآن کی نظر میں March 30, 2014 at 12:07pm   ھمیں تعجب اس بات پر ھوتا تھا کہ ایک طرف برگر فیملی کی خواتین اسلام کے خلاف مظاھرے کر کے آزادی طلب کر رھی ھوتی ھیں ( حالانکہ ان کا جلوس نکالنا ھی بتا رھا ھوتا ھے کہ ان … Read more

اب بھی آ جاؤ کچھ نہیں بِگڑا، اب بھی ھم انتظار کرتے ھیں

February 15, 2014 at 6:00am

بڑی عجیب بات ھے ، بات بھی کچھ عجیب ھے !

جس نے دیا ھے دردِ دل وہ ھـی میرا طبیب ھے !

 

دَیـر و حـــــرم میں امتیاز ،شیــــوہءِ اھل دل نہـیں !

وہ بھــــی درِِ حبیب ھے، یہ بھـی درِِ حبیب ھے !

 

یہ شعر بس ایک عجیب سی بات پر تعجب کی وجہ سے یاد آ گیا ،کہ کتنی عجیب بات ھے کہ آپ ایک گاڑی لیتے ھیں تو دو چار ماہ میں آپ کو اس میک کی گاڑی کے مکینک ،سپیئر پارٹس اور پنکچر لگانے والے کا پتہ لگ جاتا ھے، مگر ساٹھ ساٹھ سالوں سے اپنی ھستی کی گاڑی کو پنکچر ھی دوڑاتے پھرتے ھیں ، اس کو پنکچر لگانے والا تمہیں ابھی تک نہیں ملا ؟ یہ تو پتہ چل گیا کہ جس میک کی گاڑی ھوتی ھے ان کی ایجنسی کی سروس سب سے بہتر ھوتی ھے،، بس یہ ھی سمجھ نہیں لگا کہ تم ساٹھ سال کے بعد بھی اپنے بنانے والے کے در پہ آ جاؤ تو وہ ” کیومٍ ولدتکَ امکَ ” بنا دیتا ھے،،اس طرھ چم چم کر دیتا ھے ،بے عیب و صاف ستھرا کر دیتا ھے،وہ ھمارے گند سے ذرا کراھت نہیں کرتا،وہ اس ماں سے ستر گنا زیادہ محبت کرتا ھے،جو اپنے بچے کا سینڈھ سے بھرا منہ چوم رھی ھوتی ھے، وہ کوئی چارجز نہیں لیتا ،فرماتا ھے کہ ندامت سے تیری آنکھ میں مکھی کے سر کے برابر آنے پانی جس کی نمی کو صرف تیری آنکھ محسوس کر لے ،تیرے حصے کی جہنم کو بجھا دیتا ھے ! وہ پلٹ آنے پر غصہ نہیں کرتا ،طنز نہیں کرتا، بلکہ خوش ھوتا ھے ،اس سے بھی زیادہ خوش ،جتنی خوشی ام المومنین ام سلمی رضی اللہ تعالی عنہا کو نبی کریمﷺ کے اپنے گھر آنے سے ھوتی تھی ،، اتنی خوشی کہ نبیﷺ مثال دیتے ھیں کہ اللہ کو اپنے گنہگار کے پلٹ آنے سے اس اونٹ والے سے زیادہ خوشی ھوتی ھے کہ جس کا اونٹ صحراء میں اس کا زادِ راہ لے کر بھاگ جاتا ھے اور وہ مایوس ھو کر مرنے کے لئے ایک چٹان کی ٹیک لگا کر بیٹھ جاتا ھے جہاں اس کی آنکھ لگ جاتی ھے،آنکھ کھلتی ھے تو وہ کیا دیکھتا ھے کہ اس کا اونٹ سارے زاد راہ سمیت اس کے سامنے کھڑا ھے، خوشی سے بیساختہ اس کے منہ سے نکلتا ھے ” اے اللہ تو میرا بندہ میں تیرا رب” حالانکہ وہ کہنا چاھتا تھا کہ ،اے اللہ میں تیرا بندہ اور تو میرا رب ! اللہ کو اس شخص سے زیادہ خوشی ھوتی ھے !

 

فرمایا پلٹنے پر تو مجھے بے نیاز نہیں بلکہ منتظر و بیتاب پائے گا،، ان اَتیتَنی شبراً اتیتک ذراعاً و اتیتنی ذراعاً اتیتک باعاً و اَتَیتَنی مشیاً اتیتک ھرولاً۔۔ تو اگر ایک بالشت آئے گا ،میں ایک بازو بھر آؤں گا ، اور تو بازو بھر آئے گا تو میں گز بھر آؤں گا ،، تو چل کر آئے گا ، میں دوڑ کر آؤں گا،، تو سمندروں کی جھاگ برابر گناہ لائے گا تو مجھے اس سے زیادہ رحمت لیئے منتظر پائے گا !

 

انجیل برنباس میں ایک باپ اور بیٹے کی مثال سے عیسی علیہ السلام نے توبہ کی اھمیت بیان فرمائی ھے کہ ایک شخص کے دو بیٹے تھے، ان میں سے چھوٹے نے باپ سے کہا کہ مجھے میرا حصہ دے دیا جائے کہ میں جا کر کہیں کاروبار کروں اور اپنی روزی میں اضافہ کروں،، باپ اور بھائی کے سمجھانے کے باوجود وہ اپنی ضد سے باز نہیں آتا، آخر باپ اسے اس کا حصہ دے کر رخصت کر دیتا ھے، وہ بیٹا باپ کی بستی سے چلا جاتا ھے اور مختلف چال بازوں کے ھاتھوں اپنا سارا سرمایہ کھو دیتا ھے اور کسی یہودی کے یہاں خنزیر چرانے پر ملازم ھو جاتا ھے،، وہ یہودی نہایت تند خو اور بدخلق ھوتا ھے، ادھر باپ اس کے فراق میں غمگین رھنے لگتا ھے،اور ھر روز چڑھتے سورج کے ساتھ بیٹے سے کہتا ھے کہ شاید آج میرے بیٹے کی کوئی خبر ملے ! ایک دن یہودی اس بیٹے کو بہت بے عزت کرتا اور گالیاں دیتا ھے،جس پر وہ بیٹا اپنے دل میں سوچتا ھے کہ میں اپنے باپ کے پاس اس لیئے پلٹ کر نہیں جاتا تھا کہ وہ مجھے بے عزت کرے گا،،مگر میرا باپ مجھے اس یہودی جتنا بھی بے عزت نہیں کرے گا کیونکہ آخر کار وہ میرا باپ ھے،، وہ یہودی کی نوکری چھوڑ کر واپسی کا قصد کرتا ھے اور اپنی بستی میں داخل ھوتا ھے،، اس کے پہنچنے سے پہلے اس کے باپ کو اس کے پلٹ آنے کی خبر مل جاتی ھے،، وہ دروازے پر اپنے بیٹے کا منتظر ھوتا ھے،، بیٹے کی بدحالی دیکھ کر وہ دل مسوس کر رہ جاتا ھے،، اور بیٹے کو گلے لگا کر تسلی دیتا ھے کہ اب واپس آ گئے ھو تو سب ٹھیک ھو جائے گا ! وہ بڑے بیٹے کو کہتا ھے کہ سب سے بہترین بیل ذبح کرو اور بستی والوں کی روٹی کرو اس خوشی میں کہ میرا بیٹا واپس آ گیا ھے ! بڑا بیٹا جو یہ امید رکھتا تھا کہ باپ پلٹ آنے والے کو لعن طعن کرے گا ، اور بڑے بیٹے کی خدمت کے ترانے گائے گا،، اس استقبال اور خوشی پر ہکا بکا رہ جاتا ھے! وہ باپ کو کہتا ھے کہ وہ تو اپنا حصہ لے کر چلا گیا تھا جسے وہ ضائع کر کے آ گیا ھے،جب کہ میں آپ کی خدمت میں دائمی رھا اور آپکی خدمت کے ساتھ مال مویشی بھی چراتا رھا،، آپ کو میرے اپنے پاس ھونے کی اتنی خوشی تو کبھی نہیں ھوئی اور اب آپ چاھتے ھیں کہ میرا پالا ھو بہترین بیل اس کی خوشی پر قربان کر دیا جائے ؟ باپ نے کہا کہ بیٹا تُو تو سدا سے میرے پاس تھا،جبکہ وہ گم ھو گیا تھا،کھویا گیا تھا،،کھوئی ھوئی چیز ملنے کی خوشی زیادہ ھوتی ھے،پھر تُــو دیکھتا نہیں کہ میرے پاس رھنے کے عوض تو کس طرح میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر رھا ھے،جب کہ وہ جب سے گھر میں داخل ھوا ھے نظر اٹھا کر میری آنکھوں میں نہیں دیکھ رھا ؟ حالانکہ میں چاھتا ھوں کہ وہ میری آنکھوں سے امڈتا پیار دیکھے، مگر احساس ندامت اسے زمین سے نظریں نہیں ھٹانے دے رھا ! اس کے بعد عیسی علیہ السلام اپنے حواریین کو سمجھاتے ھیں کہ پلٹ آنے والا گنہگار اپنی باڈی لینگویج کی وجہ سے،اپنی عاجزی کی وجہ سے ،اپنی ندامت اور شرمساری کی وجہ سے رب کو عزیز ھے، جب کہ نیک بے نیازی کی چال چلتا ھے، اور رب کے ساتھ صرف بنیے کی طرح معاملہ کرتا ھے،وہ سمجھتا ھے کہ اس نے سجدہ کر کے رب کا حق ادا کر دیا ھے جبکہ رب اس کے حق کو فوراً دینے کی بجائے قیامت تک لٹکائے چلا جا رھا ھے ! وہ چھوٹی سی مصیبت پر جھلا جاتا ھے کہ رب کو اپنا مقروض سمجھتا ھے ! اسی غلطی اور خناس کی بدولت اللہ نے ابلیس کے سجدوں کو اٹھا کر پھینک دیا تھا اور روتے ھوئے آدم کو گلے لگا لیا تھا !

اسلامی نظام کے قیام کا آسان اور کم خرچ مگر قابلِ عمل نسخہ !

بھائیو جو بات میں کہنے لگا ھوں، اجمالاً ایک جملے میں بیان کی جا سکتی ھے،، مگر تفصیلاً پوری کتاب یا تھیسس لکھا جا سکتا ھے !

وہ اجمالی جملہ یہ ھے کہ ” جتنا زور ھم نے علماء کو کُرسی تک پہنچانے پر صرف کیا ھے،، اس کا صرف 05۔0 ٪ بھی کرسی والے کو فیصل مسجد کے مبنر پر لانے میں خرچ کرتے تو آج پاکستان میں اسلام کا بول بالا ھوتا "،،صرف ایک گھنٹے کی میٹنگ میں نواز شریف کو فیصل مسجد میں خطبہ دینے پر قائل کیا جا سکتا ھے ! اگلے دو ھفتے میں آئینی ترمیم کے ساتھ انہیں امیر المومنین قرار دیا جا سکتا ھے ! لو جی خلافت قائم ھو گئ !

اللہ پاک نے سورہ الحج کی آیت 41 میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر صاحب اقتدار پر فرض کیا ھے اور یہ” منبر و محراب” اصلاً خلیفہ کا فرضِ منصبی ھے ! مساجد اس فریضے کی ادائیگی کے ٹولز ھیں ! اور ھمیشہ اسی طرح رھا ھے کہ دارالخلافے میں خلیفہ اور صوبوں میں گورنر خطبہ دیا کرتے تھے جہاں وہ نئے احکامات کا اعلان کیا کرتے تھے،، جن کو تبدیل کرنا ھوتا تھا وہ بھی جمعے میں بیان ھوتے تھے اور جن باتوں سے روکنا مقصود ھوتا تھا اس کی انفارمیشن میں خطابِ جمعہ میں دی جاتی تھی ! یوں اسلام کتابوں میں اور فتوؤں میں نہیں ملتا تھا،، احکامات کی صورت سوسائٹی کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا پھرتا تھا !
یہی وجہ ھے کہ خلفاء سے احادیث کی روایت بہت کم ھے کیونکہ روایت وہ بیان کرتا ھے جو صرف پریس کانفرنس کر کے مطالبہ کر سکتا ھے،جس کے ھاتھ میں طاقت ھوتی ھے وہ روایت بیان نہیں کرتا روایت پر عمل کرتا ھے کیونکہ یہ اس کا فرض منصبی ھوتا تھا، اسی وجہ سے خلفاء کے آثار فقہاء کے نزدیک سنت کا درجہ رکھتے ھیں !

مساجد یونین کونسل ،تحصیل کونسل اور ضلع کونسل کی طرح کا سرکاری ادارہ ھے،جسے سرکار ھی قائم کرتی،اور چلاتی تھی،، 100 سال تک کسی پرائیویٹ مسجد کا کوئی ثبوت نہیں ملتا،،کہ جس کے پاس پیسہ ھوا ایک محلے میں تین تین مساجد بنا کر بیٹھ گئے ! آپ کبھی نہیں سنیں گے ،کہیں نہیں پڑھیں گے کہ امام ابوحنیفہؒ نے فلاں مسجد میں جمعے کا خطبہ دیا،،، البتہ یہ ضرور پڑھیں گے کہ حجاج بن یوسف نے جمعے کا خطبہ دیا ،،زیاد اور ابن زیاد نے جمعے کا خطبہ دیا اور لوگوں نے کنکریاں ماریں،، ابو موسی الاشعریؓ نے بحیثیت گورنر جمعے کا خطبہ دیا،،یہاں تک کہ عبداللہ ابن مسعودؓ جلیل القدر فقیہہ صحابی چونکہ گورنر نہیں بلکہ معلم اور مدرس بنا کر بھیجے گئے تھے ،انہوں نے کبھی جمعے کا خطبہ مرکزی مسجد میں نہیں دیا،،خطیب گورنر کی طرف سے مقرر ھوتے تھے اور اسی کے حکم سے معزول کیئے جاتے تھے،،نبی کریمﷺ کے زمانے سے لوگ خطیب نہیں چنا کرتے تھے بلکہ آپ ﷺ سرکاری حیثیت سے ان کا تعین فرمایا کرتے تھے،ان کا ٹیسٹ لیا جاتا تھا،،ایک دفعہ آپ ﷺ نے خطباء کے تعـین کے لئے کچھ لوگوں کو بلایا اور ان کا امتحان لینا شروع کیا،، ایک خطیب نے کہا ،، من یطع اللہ ورسولہ فقد ھدی و من یعصِھما فقد غوی ،، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ھی ضمیر میں اللہ اور رسول کو جمع کرنے پر اس سے سخت ناراض ھوئے اور اسے فرمایا بئس الخطیب انت ! تو برا خطیب ھے،بیٹھ جا ! اسی سنت کو خلفاء نے زندہ رکھا !علماء کا کردار ھمیشہ سے مشاورتی رھا ھے !

چاروں ائمہ اور ان کے شاگردوں نے کبھی نہ حکومت طلب کی، نہ لوگوں نے انہیں حاکم اور خلیفہ بنانے کی کوئی تحریک شروع کی ! ائمہ نے بھی اپنے مشاورتی کرادر پر ھی توجہ دی اور اسے دیانت کے ساتھ نبھایا،حالانکہ وہ کوئی آئیڈیل حکمران نہیں تھے،، کہ جن پر کوئی اعتراض وارد نہ کیا جا سکتا ھو، وہ قتل سمیت ھر جرم میں ماخوذ کیئے جا سکتے تھے، اس کے باوجود لوگوں نے ان کو ھٹا کر کبھی بھی ،،امام مالک ،امام ابوحںیفہ ،امام شافعی اور امام احمد کو حکمران بنانے کی کوئی تحریک یا مہم نہیں چلائی ! جب سے ھمارے علماء نے اپنی نگاھیں اقتدار پر جمائی ھیں اس دن سے مشاورتی کردار کو بھی متنازعہ اور مشکوک بنا لیا ھے،، خدا ھی ملا نہ وصالِ صنم ،،والی مثال اگر سو فیصد کسی پر لاگو ھوتی ھے تو وہ ھمارے مذھبی طبقے پر لاگو ھوتی ھے

جونہی حکمرانوں نے مساجد کو ایزی لیا انہیں انڑ اسٹیمیٹ کیا اور ان کی اھمیت کا ادراک نہ کیا ،اسے دوسروں کو سونپ دیا اور خود الگ ھو کر بیٹھ گئے اسی دن سے اسلام اقتدار سے محروم ھو کر دین نہ رھا بلکہ مذاھب میں تبدیل ھو گیا !صرف فتوؤں کا مذھب رہ گیا اور فتوی چونکہ نافذ نہیں ھوتا،، نافذ کرنے والوں نے اسے علماء کو گفٹ کر دیا،، بس تب سے دین فتوؤں میں ملتا ھے اور دال جوتیوں مین بٹتی ھے !
مساجد کی بھرمار ھے اور مساجد ایک بیمار کے بدن میں پیدا ھونے والی گلٹیوں کی شکل اختیار کر گئ ھیں جو دین کی وحدت کی نہیں بلکہ مذاھب اور مسالک کے مورچے بن گئے جہاں اپنے اپنے مسالک کے سپاھی پیدا کیئے جاتے ھیں !

حاکم تو ایک ھے،دین بھی ایک ھے، وہ ایک ھی بات کرے گا جو کہے گا اس پر عمل کا اختیار بھی رکھتا ھے یوں دین اپنے اصل منبعے کی طرف پلٹے گا!
الذین ان مکناھم فی الارض،، وہ جن کو ھم زمین پر تمکن عطا فرمائیں تو ظاھر ھے یہ تمکن نواز شریف کو بخشا گیا ھے،، اقامو الصلوۃ ، وہ نماز قائم کریں،، مرکزی مسجد کا امام نواز شریف ھے،، و اٰتوالزکوۃ ،، زکوۃ کی وصولی اور عوام تک اسے پہنچانے کا ذمہ دار بھی وھی ھے ،، و امروا بالمعروف،، منبر سے معروف کی تلقین اور اس کے
لئے ضروری عملی اقدامات کا ذمہ دار وھی ھے، و نہوا عن المنکر ،، اور برائی سے خبردار کر کے اس کی راہ روکنے کے عملی اقدامات اٹھانا بھی اس کا مذھبی فریضہ ھے،، کیوںکہ تمکن اس کو ملا ھے،، مفتی حضرات صرف تقریر کر سکتے ھیں اور کرتے چلے آ رھے ھیں ! کیونکہ سورہ یوسف میں جو بار بار حضرت یوسف کو تمکن فی الارض کا احسان جتایا جا رھا ھے تو ساتھ یہ بھی بتایا جا رھا ھے کہ تمکن کا حقیقی مفہوم صاحب اختیار ھونا اور اس اختیار کو پھر خیر کے لئے استعمال کرنا ھے،،یوں امر بالمعروف حاکم کا فریضہ ھے،عوام بطور آلہ استعمال ھوتے ھیں،، ان پر اپنے اپنے دائرہ کار میں یہ کام فرضِ کفایہ ھے،، اصل ذمہ داری حاکم کی ھے،،
جب اسے معلوم ھو گا کہ وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی نمائندگی کر رھا ھے تو یقیناً اسے اس عہدے کے ساتھ ایک تقدس کا تعلق اور رشتہ محسوس ھو گا، وہ اس کی اھمیت کو سمجھے گا ،، نتیجے میں اس کے ذاتی کردار میں بھی بلندی پیدا ھو گی اور وہ ایک سیاست دان کے بازاری مقام سے اٹھ کر خلافت کے مقدس مقام پر فائز ھو جائے گا،، یوں ھِــز ھائی نیس اور ھــز ھولی نیس کا ایک ھی ھستی اور ایک ھی عہدے میں ادغام ھو جائے گی،، اور جس پرزے کی خرابی سے اسلام کی disintegration شروع ھوئی تھی وہ پرزہ ٹھیک کام کرنا شروع کر دے گا ،، اور اسلام دوبارہ وحدت کی طرف گامزن ھو گا،، خلفاء کی مساجد اور منابر سے گرفت کمزور ھونے کے زمانے سے ھی مختلف مذاھب کی مارا ماری شروع ھوئی ھے !

اب علماء کو چاھئے کہ وہ اپنی یہ ضد چھوڑ دیں کہ اسلام وھی ھو گا جو ان کے دستِ مبارک سے نافذ ھو گا،، بلکہ جسے اللہ نے اقتدار بخشا ھے اس تسلیم کریں اور منبر اس کی امانت ھے اسے واپس کریں اور نیچے بیٹھ کر اس کا خطاب سنیں ،،

ایک دفعہ کا ذکر ھے کہ نہ امام مالکؒ ھوتے تھے اور نہ امام ابو حنیفہؒ ،نہ امام شافعی ھوتے تھے اور نہ امام احمد نہ امام بخاری ھوتے تھے اور نہ امام مسلم ، نہ امام نسائی ھوتے تھے اور نہ امام ترمذی ،، نہ ابن ماجہ ھوتے تھے اور نہ ابوداؤد !

اور دین تب بھی مکمل تھا !

ھے ناں تعجب کی بات ؟

بھلا لوگ نمازیں کیسے پڑھتے ھونگے ؟ اس وقت کے لوگ ھاتھ کہاں باندھتے ھوں گے ؟ یا باندھتے ھی نہیں ھونگے کہ کوئی آئے اور طے کرے کہ وہ ھاتھ کہاں باندھیں !
لوگوں کے یہاں شادیاں بیاہ اور موت و جنازے بھی ھو رھے تھے ! پتہ نہیں یہ سب کچھ لوگ بغیر کسی امام کا ریفرینس دیئے بغیر کیسے کر لیتے ھوں گے !
کپڑے اس وقت بھی پلید ھوتے تھے اور لوگ بھی پلید ھو جاتے ھونگے کیونکہ اس وقت کے لوگوں کو بھی جنابت تو لاحق ھوتی ھو گی ! اب کس فقہ کے ریفرینس سے پاک ھوتے ھوں گے یہ بھی ایک قابلِ تحقیق مسئلہ ھے !

سب سے بڑا ون ملین ڈالرز سوال یہ ھے کہ اماموں اور صحاح ستہ کے بغیر دین کو جس نے مکمل کہا ھو گا اس پہ فتوی کیا لگا ھو گا ؟
کیونکہ فتوے کے لئے بھی تو کوئی مثل موجود ھونی چاھئے ! مثلاً وھابی، پرویزی،نیچری ، غامدی، مودودی وغیرہ وغیرہ !!

ذرا سوچئے !!

غلامی اور اسلام

لوگ ھمیشہ آزادی اور غلامی کے درمیان تقابل کرتے ھیں اور یہیں سے وہ ٹھوکر کھاتے ھیں ! تقابل موت اور غلامی کے درمیان ھے ! ایک شخص میدان جنگ میں مغلوب ھو جاتا ھے جہاں وہ بہت سے لوگوں کی جان لے چکا ھے ! مغلوب ھو جانے کے بعد وہ غالب کی مرضی … Read more

محدث اور فقیہہ

یہ ایک عالم کا فرمان ھے،، اسے سمجھنے میں ان کے قریبی دوستوں کو بھی پسینے آ گئے ھیں اور وہ اس سے اختلاف کر رھے ھیں،، حالانکہ عالم بھی عربی ھے اور ان کے دوست بھی عربی ھیں ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت ساری حیثیتیں ھیں،، آپﷺ شارع بھی ھیں … Read more

سنت اور حدیث !

نہ تو سنت کوئی نیا لفظ ھے اور نہ ھی حدیث کوئی نئ بات ھے !

سب سے پہلے اللہ پاک نے اپنے کلام اور کام کے لئے یہ دونوں الفاظ استعمال فرمائے ھیں ! یعنی مسلسل ایک ھی قسم کے عمل اور رد عمل کو سنت قرار دیا ھے اور اس کے غیر مبدل ھونے کی بات کی ھے ” سنۃ اللہ التی قد خلت فی عبادہ ( الم‍‍ؤمن 85 ) سنۃ اللہ فی الذین خلوا من قبل و لن تجد لسنۃِ اللہ تبدیلا ( الاحزاب 62 ) ھل ینظرون سنت الاولین؟ فلن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا و لن تجد لسنۃ اللہ تحویلا ً( فاطر 43 ) سنۃ من قد ارسلنا قبلک من رسلنا ولا تجد لسنتنا تحویلاً ( بنی اسرائیل 77 )

ان آیات میں اللہ کی اس سنت کا ذکر ھے جو تمام رسولوں کے زمانے میں لوگوں کے کرتوتوں پر حرکت میں آتی رھی ھے اور انہیں کبھی پانی تو کبھی بجلی،، کبھی طوفان تو کبھی زلزلے سے نسیاً منسیا کرتی آئی ھے اور کسی رسول کے زمانے میں بھی اس بھی تبدیلی اور تحول نہیں ھوا ،، اسی طرح اس لفظ کو ان ھی معنوں میں نبیوں اور ان کی امتوں کے لئے بھی استعمال فرمایا گیا ھے ” یرید اللہ لیبین لکم و یھدیکم سنن الذین من قبلکم ” ( النساء 26 ) اللہ چاھتا ھے کہ تمہارے لئے کھل کر بیان کرے اور تمہیں سجھائے طریقے ان کے جو تم سے پہلے تھے !

اب نبیﷺ کے لئے بھی یہ نبی ﷺ کے کام پر ھی بولا جائے گا ! نبی ﷺ کا حکم ،،حکم ھی ھو گا اور اس پر عمل واجب ھو گا ،، مگر اسے حکم ھی کہیں گے سنت نہیں ! وہ استثناء اور جواز تو ثابت کرے گا مگر سنت کو ثابت نہیں کرے گا ! کلام کے لئے لفظ حدیث ھے اور کام کے لئے لفظ سنت ھے،،ان دونوں کو گڈ مڈ کر دینے سے ھم سینس آف ڈایریکشن کھو بیٹھے ھیں،، ابو داؤد کھولئے اور ایک ھی کام مثلاً وضو یا غسل یا نماز کے بارے بھی متضاد و متناقض احادیث موجود ھیں،، یہ کیسی سنتیں ھیں جو ایک فرقے کو مشرق کی طرف دوڑاتی ھیں تو دوسرے کو تھپکی دے کر مغرب کی طرف بھیجتی ھیں،،تیسرا فرقہ حدیث ھاتھ میں پکڑے شمال کی طرف بگٹٹ دوڑا جا رھا ھے تو چوتھا فرقہ جنوب کی طرف سے تھکا ماندہ واپس آرھا ھے اور ھاتھ میں اس کے بھی حدیث ھے !

لفظِ حدیث بھی اللہ نے اپنے لئے استعمال فرمایا ھے مگر اپنے کلام کے لئے ؟

و من اصدق من اللہ حدیثاً ( النساء 87 ) اللہ نزل احسن الحدیثِ کتاباً متشابہا مثانی تقشعر منہ جلودالذین یخشون ربھم ثم تلین جلود ھم و قلوبھم الی ذکراللہ ( الزمر 23 )

نیز نبی پاک ﷺ نے بھی اللہ کے کلام کو ھی اللہ کی حدیث فرمایا ھے،ان اصدق الحدیثِ کتاب اللہ ( سب سے سچی بات اللہ کی کتاب ھے ) حدیث ترجمہ ھی گفتگو اور کلام ھے اور سنت کا مطلب ھے متواتر غیر مبدل طریقہ ھے ،، اور طریقہ عمل ھے !بعض نے بزرگوں نے جو اضافی معنی داخل فرمائے ھیں یہ ان کی سخاوت ھے،مگر یہ سخاوت امت کو کافی مہنگی پڑی ھے !

اللہ کے کلام اور اس کی سنت کا تجزیہ کرتے ھوئے چلتے ھیں کہ جو قران سے واضح کیا گیا ھے ،اس کی قرآن میں عملی صورتیں کیا کیا ھیں !
اللہ کی حدیث ھے راوی بھی دونوں قوی ھیں جبرائیلِِ امین اور محمد الامین صلی اللہ علیہ وسلم ! کہ اللہ پاک نے مریم نام کی ایک خاتون کو شادی کے بغیر ،، کسی مرد کا منہ دیکھے بغیر مجرد اپنے حکم سے حاملہ کر دیا ،،جس نے عیسی علیہ السلام نام کا بچہ جنا !! یہ حدیث قران حکیم میں مختلف جگہوں پر تفصیلاً بیان ھوئی ھے !
یہ اللہ کی حدیث ھے ! قوی ترین ھے ! مگر یہ حدیث ھے ،،ایک واقعہ کے بارے میں خبر ھے ، سچی ھوتے ھوئے بھی اللہ کی سنت نہیں ھے !

اللہ کی سنت مرد اور عورت سے بچہ پیدا کرنا ھے ( یا ایہالناسُ انا خلقناکم من ذکرٍ و انثی ،، ائے نوع انسانیت ھم نے تمہیں مرد و عورت سے پیدا کیا ( الحجرات )
اب اگر آج ایک لڑکی بغیر شادی حاملہ ھو جائے اور پھر دعوی کرے کہ اللہ نے اسے اپنی قدرت سے حاملہ کر دیا ھے،، تو ایک آدھ واقعے کو سنت کہنے والے کس دلیل کے ساتھ اس لڑکی کے دعوے کو مسترد کریں گے ؟
کیا وہ یہ کہہ سکتے ھیں کہ نہیں اللہ کی وہ حدیث ضعیف و معلول ھے ؟ جبکہ وہ قرآن اور سورہ آلِ عمران کھولے اسی طرح ان کے پیچھے پیچھے پھر رھی ھے جس طرح سلفی بخاری شریف لئے لئے حنفیوں کے پیچھے پیچھے پھرتے ھیں !!
کیا وہ یہ کہہ سکتے ھیں کہ نہیں اُس وقت تو اللہ پاک کے اختیار و قدرت میں یہ بات تھی،،مگر فلاں آئینی ترمیم کے بعد اللہ سے یہ اختیار واپس لے لیا گیا ھے اور اب وہ علی کل شئٍ قدیر نہیں ھے ؟
یا تمہارے اندر وہ سسٹم نہیں ھے جو مریم علیہ السلام کے اندر تھا ؟
کوئی ایک دلیل بتا دیں جس کے ذریعے وہ اس حدیث اور اس لڑکی کی بات کا رد کر سکتے ھیں ؟

مگر اھل سنت یہ کہہ سکتے ھیں کہ بی بی وہ ایک واقعہ تھا جو اللہ نے بیان کیا ھے،،مگر ھم سنت پر چلنے والے لوگ ھیں ! یہ اللہ کی سنت نہیں ھے ،اللہ کی سنت وہ ھے جو غیر مبدل و غیر محول ھے ! اور وہ سنت یہ ھے کہ بچہ مرد اور عورت کے ملاپ سے پیدا ھوتا ھے ! قتل الانسان ما اکفرہ ! من ائ شئٍ خلقہ ؟ من نطفۃٍ خلقہ و قدرہ ( عبس ) فلینظر الانسان مم خلق ؟ خلق من ماءٍ دافق ( الطارق )

اب آپ حضرات اندازہ کر سکتے ھیں کہ سنت اور حدیث میں کیا فرق ھے اور صرف حدیث کو سنت کہنے والوں کو کبھی نہ کبھی بند گلی میں پھنسنا پڑتا ھے !