58 سال مدینے میں گزارنے والے امام حسین کا مکمل علمی بائیکاٹ کیا گیا،کیا حسین علیہ السلام کے گھر میں رسول اللہ کا تذکرہ کبھی نہیں ہوا ھو گا ! انہوں نے اپنے والد سے رسول اللہ کی کوئی بات نہ سنی ہو گی؟عروہ نے اپنی خالہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سن کر صحاح ستہ بھر دیں،کعب احبار نومسلم یہودی کی روایات جتنی روایتیں بھی حسین رضی اللہ عنہ سے روایت نہیں۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو سال گزارنے والے صحابی نے سینکڑوں روایات کیں جو کہ بنو امیہ کے بہت قریب تھے، کیا بنو امیہ نے عترت رسول کی مرویات پر سنسر لگا رکھا تھا ؟ علامہ وحیدالزمان نے بجا گلہ کیا ہے امام بخاری سے کہ خوارج اور مسیلمہ کذاب پر ایمان لا کر توبہ کرنے والوں کی روایات تو آپ نے لے لیں مگر اھل بیت کو یوں فراموش کر دیا گویا وہ وجود ہی نہیں رکھتے تھے یا پھر رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں وہ کچھ بھی نہیں جانتے تھے۔ گویا ہماری تاریخ باقاعدہ طے شدہ اسکرپٹ تھا جس میں کچھ لوگوں کو مذھبی رول دیا گیا جس میں اھل بیت کی انٹری ممنوع تھی ۔ اور کچھ کے لئے سیاسی رول رکھا گیا تھا جہاں اھل بیت کو سیاسی باغی ثابت کرنا تھا۔ صاف صاف لگتا ہے کہ ہماری تاریخ کی طرح ہماری حدیث کی کتابوں کو بھی سرکاری طور پر manipulate کیا گیا ہے اور موجودہ مسانید اور صحاح در حقیقت دین کا سرکاری ورژن ہیں۔ ورنہ ہر صاحبِ بصیرت کے لئے یہ بات ناقابل فہم ہے کہ ایک خانوادہ تقریبآ ساٹھ سال تک دینی درس و تدریس اور ابلاغ سے زیر زمین کیوں رہا؟ اگر اھل سنت منافقت نہیں کر رہے واقعی اھل بیت اطھار کے مخلص اور خیر خواہ ہیں تو پھر امام حسین علیہ السلام کا گمشدہ علمی ورثہ تلاش کریں ۔ اپنے اکابر سے کم ازکم اس پر سوال ضرور کریں۔