سورہ والنجم میں اللہ پاک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی اور جبرائیل علیہ السلام سے پہلی ملاقات کو بیان فرما رہے ہیں، سب بیان کرنے کے بعد گواہی دی کہ ما کذب الفواد ما رائ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب و شعور نے اس سارے مرحلے کو ہر گز نہیں جھٹلایا ۔جبرائیل کو واقعی جبریل سمجھا اور خود کو رسول سمجھا اور وحی کو کلام اللہ سمجھا ۔
مسلمان اس سورت کو پڑھتے بھی ہیں اور روایتوں کو وحی ثابت کرنے کے لئے اس کا حوالہ بھی دیتے ہیں کہ وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی ۔ مگر پھر اس کہانی پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھبرائے ہوئے واپس ہوئے اور حضرت خدیجہ سے فرمایا کہ مجھے اپنی جان کا خدشہ ہے مجھے کوئی عارضہ لاحق ہو گیا ہے ، جس پر حضرت خدیجہ نے آپ کو تسلی دی کہ آپ غریبوں مسکینوں کی مدد کرتے ہیں، مقروضوں کے بوجھ اٹھاتے ہیں، اللہ آپ کو ضائع نہیں کرے گا، اور صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گیئں کہ اپنے بھتیجے کی بات سن کر ان کو بتائیے کہ ان کو کیا ہو گیا ہے؟ورقہ نے پوچھا کہ بھتیجے بتاو کیا ھوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ورقہ بن نوفل کو سب کیفیت بتائی واضح رہے جبرائیل سے ملکر وحی وصول کر کے ابھی تک وہ اپنے آپ کو رسول نہیں سمجھ رہے، وحی کو وحی نہیں سمجھ رہے اور جبرائیل کو بھی خدا کا فرشتہ سمجھنے کی بجائے کوئی شرشرار یا جن بھوت سمجھ رہے ہیں ۔ ورقہ بن نوفل نے جبرائیل کا حلیہ سن کر مبارک دی کہ بھتیجے یہ تو وہی ناموس ہے جو موسی پر نازل ہوا تھا، آپ کو رسول چن لیا گیا ہے اور آپکی قوم آپ کو نکال دے گی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تعجب سے پوچھتے ہیں کہ کیا واقعی میری قوم مجھے نکال دے گی؟گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جد امجد ابراھیم علیہ السلام کی ھجرت کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے تھے ۔ کہانی بتاتی ہے کہ پہلی بار ہی نہیں بلکہ جب بھی وحی نازل ہوتی تو ورقہ بن نوفل ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعد از وحی کی کیفیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی اور حوصلہ دیتا تھا کیونکہ روایت کہتی ہے کہ جلد ہی ورقہ بن نوفل کی وفات ہو گئ اور وحی رک گئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آپ کو پہاڑ سے گرانے کے لئے پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئے مگر جب کنارے پر پہنچے تو جبرائیل سامنے آ گئے اور فرمایا کہ میں گواہی دیتا ہوں کی آپ اللہ کے رسول ہیں، جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ تسلی ہوئی مگر کچھ دیر بعد پھر وہی کیفیت طاری ہوتی اور آپ پہاڑ پر چڑھ جاتے اور خودکشی سے پہلے جبرائیل سامنے آ جاتے اور گواہی دینے کہ آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں ۔
اب پھر اللہ پاک کا بیان پڑھیئے۔
ثم دنا فتدلی فکان قاب قوسین او ادنی، فاوحی الی عبدہ ما اوحی، (( ما کذب الفواد ما رائ،)) افتمارونہ علی ما یری؟
پھر وہ فرشتہ قریب ہوا گویا کمان سے کمان کا سرا ملنے سے بھی قریب تر،پس وحی کی اللہ نے اپنے بندے کو جو بھی کی دل نے جو بھی دیکھا اس کو جھوٹ نہیں جانا پھر کیا تم اس سے جھگڑنے ہو اس منظر پر کہ جو اس نے دیکھا؟
قرآن مجید میں اللہ پاک کی گواہی آپ کے سامنے ہے ۔ اور بخاری شریف کی جھوٹی کہانی بھی آپ کے سامنے ہے، مگر علمائے کرام بخاری کی گواہی کو سچا سمجھتے ہیں اور اللہ کی گواہی کو جھٹلا دیتے ہیں ۔ پھر بھی رمضان میں ختم قرآن کر کے سمجھتے ہیں کہ یہ قرآن پر ایمان رکھتے ہیں ۔ اس کہانی کا عنوان ہی بڑا طنزیہ ہے ۔
"باب کیف کان بدء الوحی "
وحی کیسے شروع ہوئی ۔ اور ثابت کیا گیا کہ وحی شک کی حالت میں شروع ہوئی اور شک بھی اس قدر شدید کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار خودکشی کی کوشش کرتے ۔ جب تک ورقہ بن نوفل زندہ تھا معاملے کو سنبھالے رکھا، ورقہ بن نوفل فوت ہوا اور وحی رک گئ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خودکشی کے لئے پہاڑ پر چڑھ جاتے اور تسلی کے لئے اب جبرائیل علیہ السلام کو آنا پڑتا ۔
جبکہ اللہ پاک کی غیرت کا عالم یہ ہے کہ اس نے اپنے کسی نبی کو کسی انسان سے پڑھنے نہیں دیا کہ کل کلاں میرے نبی کو طعنہ نہ ملے کہ ہمیں سے پڑھ کر ہمی کو تبلیغ۔ مرزا کے خلاف یہ بھی ایک ٹھوس دلیل ہے کہ وہ جوتے کھا کھا کر پڑھا لوگوں کی عرضیاں لکھتا رہا ۔جبکہ انبیاء کو براہ راست علم دیا جاتا ہے ۔ و علمناک من لدنا علما ۔ و علمک ما لم تکن تعلم ۔
ابن شھاب زھری نے اس روایت کے لئے بطور راوی چنا بھی ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کو ہے یوں ایک تیر سے کئی شکار کر لئے ہیں ۔
کچھ مسلمان قولی طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہیں مگر عملی طور پر امام بخاری کی امت ہیں، تلاوت قرآن مجید کی کرتے مگر یقین بخاری شریف پر رکھتے ہیں ۔
ہم مناسک اور عبادات کے ثبوت کے لئے آثار یعنی سنت کے ساتھ حدیث کو بھی بطور ریفرینس تسلیم کرتے ہیں مگر ایسی بے ایمان کر دینے والی کہانیوں کو ھر گز تسلیم نہیں کرتے جو قرآن سامنے رکھ کر قرآن کے خلاف کھڑی کی گئی ہیں ۔