1- اسلام غلامی کا موجد یا فاؤنڈر نہیں ھے ! البتہ اس کا پالا صدیوں سے قائم غلامی کے ادارے سے پڑا جو اس قدر قوی تھا کہ پوری دنیا کی معیشت اس نظام پر چلتی تھی،قوموں کی قومیں غلام بنائی جا رھی تھیں جو دوسری قومیں کی معیشت کی ریڑھ کر ھڈی بنی ھوئی تھی !
2- جس طرح تیل کے لئے کچھ معروف ممالک اور علاقے ھیں ، اسی طرح غلامی کے لیئے بھی مخصوص علاقے اور ممالک تھے،جہاں سے ھرنوں کی طرح انسانوں کا شکار کر کے انہیں غلام بنایا جاتا تھا ! اور یہ کام قبل مسیح سے جاری و ساری تھا،، امریکہ اور یورپی ممالک کی بنیادوں میں غلاموں اور لونڈیوں کا خون اور عصمتیں دفن ھیں !
3- اسلام جب آیا تو غلام اسی طرح ایک بین الاقوامی کرنسی تھے،جس طرح ڈالر اور یورو ھیں !
اصل سوال یہ بنتا ھے کہ اسلام نے اس عفریت کا سامنا کس طرح کیا ؟
اسلامی اقدامات کے نتیجے میں غلامی کا ادارہ زوال پذیر ھو کر ختم ھو گیا یا اسلامی اقدامات نے اس بزنس کو طاقتور بنایا؟
اسلام اگر آتے ھی تمام غلاموں اورلونڈیوں کو آزاد کر دیتا خاص کر اس دور میں جب کہ عرب دنیا میں روزی روٹی کے ذرائع نہایت قلیل تھے، اور قبائل دوسرے قبیلوں کو تاراج کر کے اپنی معیشت چلاتے تھے، ھر آنے جانے والے کو پکڑ کر غلام بنا لیا جاتا ،، دو آدمی دوست بن کر چلتے اور راستے میں قوی کمزور کو مغلوب کر کے اسے باندھ کر اگلی بستی میں غلام کی حیثیت سے بیچ جاتا،، ان حالات میں ان غلاموں کو بیک قلم آزاد کر کے قبائل کو کرائے کے ھزاروں قاتل فراھم کرنا اور علاقے میں انارکی پھیلانا ھوتا !
نیز لونڈیوں کے پاس روٹی کے لئے پیشہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ ھوتا،، کیونکہ ان غلاموں اور لونڈیوں کی اخلاقی اور دینی تربیت تو ھوئی نہیں تھی لہذا ان کا فوراً ان قباحتوں میں مبتلا ھو جانا یقینی تھا، اب بھی جب حکومتیں بہت سارے لوگوں کو کام سے نکال دیتی ھیں تو اسٹریٹ کرائمز میں فوری اضافہ دیکھنے کو ملتا ھے،، جن بستیوں کے قریب آ کر جھگیوں والے آکر جھگیاں لگاتے ھیں،،وھاں کی اردگرد کی بستیوں کے لونڈے اور اوباش ان جھگیوں کے گرد ھی منڈلاتے رھتے ھیں اور اخلاقی گراوٹ کا نظارہ کھلم کھلا نظر آتا ھے ! کیریاں اور رکشے رات بھر بکنگ پر آتے جاتے دیکھے جا سکتے ھیں !
اسلامی حکمت !
اسلام سے پہلے غلام بنانے کے بہت سارے راستے تھے، جبکہ رھائی کا صرف ایک رستہ تھا اور وہ بھی سوئی کے ناکے کی طرح تھا یعنی یہ کہ مالک راضی ھو کر آزاد کر دے،اور چونکہ انسان میں لالچ کا مادہ رکھا گیا ھے لہذا سونے کا انڈہ دینے والی مرغی کو کون چھوڑتا ھے !
اسلام نے سب سے پہلے Inlets کو محدود کر کے ایک کر دیا ! جبکہ Outlets کو کھول دیا اور اس کے مختلف طریقے مشروع کر دیئے،مثلاً قتلِ خطا کی صورت میں غلام کو آزاد کرنا ! جھوٹی قسم کے کفارے میں غلام آزاد کرنا، بیوی کو ماں کہہ دینے پر غلام آزاد کرنا،، روزے کی حالت میں ھمبستری پر غلام آزاد کرنا، اگر غلام چاھے تو اپنے آقا سے رقم اور وقت طے کر کے مکاتبت کر لے اور آزاد ھو جائے اس صورت میں مالک کو کہا گیا کہ وہ اپنی زکوۃ بھی غلام کو دے سکتا ھے،، اور مسلمانوں کو بھی ترغیب دی گئ کہ وہ اس کی مدد کریں !
اس کے علاوہ مخیر اور نیک لوگوں کو اللہ پاک نے ترغیب دی کہ وہ جانیں آزاد کرا کر اپنی گردن عذاب سے بچا سکتے ھیں !
نیز دنیا میں تو غلام کی اولاد بھی غلام در غلام ھوتی تھی یوں غلام اصل میں غلام پروڈیوس کرنے کی فیکٹریاں تھے، جن کی موجودگی میں غلامی کا ختم ھونا ناممکن بات تھی، امریکہ میں بھی اسے 1865 میں غیر قانونی قرار دیا گیا ھے !
مگر اسلام نے غلام کی اولاد کو ایک مکمل آزاد انسان کا رتبہ دیا ! نیز لونڈی جب کسی کو دی جاتی تھی تو وہ اس آدمی کی نصف بیوی ھوتی تھی، یعنی چونکہ وہ اس رشتے سے انکار نہیں کر سکتی تھی ،، اس وجہ سے اسے لونڈی قرار دیا گیا،ورنہ اس کی اولاد ھو جانے کے بعد وہ آقا کی ام ولد یعنی بچے کی ماں بن جاتی تھی اور اس کا بچہ اپنے باپ کا نسب اور قبیلے کا نام پاتا تھااور اس کا شرعی وارث ھوتا تھا !،اولاد کے بعد ماں بیٹے کو جدا نہیں کیا جا سکتا تھا اور ام ولد کی فروخت منع تھی، یوں غلاموں کے یہاں آزاد پیدا ھوتے گئے اور غلام ختم ھوتے چلے گئے !
ایک لونڈی جب کسی کو دی جاتی تو صرف وھی اس کا جنسی پارٹنر ھو سکتا تھا،، جبکہ کافروں کے یہاں وہ وراثت میں تقسیم ھو کر سب کی جنسی بھوک مٹاتی تھی ! اور وہ اس سے پیسہ کمانے کے لئے پیشہ بھی کراتے تھے،جسے اللہ نے ولا تکرھوا فتیاتکم علی البغاء،، کے حکم سے منع کر دیا !
جب آقا اپنی لونڈی کو کسی غلام سے بیاہ دیتا تھا تو پھر وہ اس کے لئے مطلقاً حرام ھو جاتی تھی اور صرف اسی غلام کی بیوی کی حیثیت سے رھتی تھی اور ان کی اولاد آزاد ھوتی تھی !
جو لوگ غلامی کا یورپی تصور اور مثال دیکھتے ھیں اور اسے گوگل سرچ سے لے کر دیکھتے ھیں وہ اسلام کے تصورِ غلامی کو سمجھ ھی نہیں سکتے !
سوال یہ ھے کہ اسلام نے چائنا سے لےکر سارے افریقہ پر اور ھندوستان سے لے کر پورے اسپین اور نصف فرانس تک صدیوں حکومت کی ھے، اس لحاظ سے دنیا کی منڈیاں غلاموں سے بھری ھوئی ھونی چاھئیں تھیِ ! کیا وجہ ھے کہ دنیا میں یورپین اور امریکی اور اسکینڈے نیوین ملکوں کے غلاموں کی داستانیں تو ملتی ھیں،، مسلمانوں کے بنائے ھوئے غلاموں کا کوئی سراغ نظر نہیں آتا !
اسلامی حکمتِ عملی !
اسلامی حکومت سب سے پہلے ان ھی لوگوں کو اپنی کسٹڈی میں لیتی ھے جو اسے میدانِ جنگ میں ملتے ھیں،، وہ بستیوں اور گھروں کی تلاشی لے کر غلام نہیں بناتی !
ان قیدیوں کا تبادلہ پہلی ترجیح ھوتی ھے ! تبادلے مکمل ھونے کے بعد تاوان دے کر قیدی چھڑانے کی باری آتی ھے اور پھر احسان کرتے ھوئے اللہ کی خاطر چھوڑنے کی باری آتی ھے،،
اب اگر مسلمانوں کو تو پابند کر دیا جائے کہ تم قیدی نہیں رکھ سکتے ! تو ظاھر ھے دشمن کو تو آسانی ھو گی کہ انہوں نے تو ھمارے قیدی چھوڑنے ھی چھوڑنے ھیں،، البتہ ھم آزاد ھیں اور پیسے لے کر ان کے قیدی چھوڑیں گے یا چھوڑیں گے ھی نہیں اور ان کو غلام بنائیں گے جیسا کہ اس وقت دنیا کا رجحان تھا،،لہذا اللہ نے غلامی کو بیک قلم حرام نہ کر کے مسلمانوں کے ھاتھ باندھنے اور اسلام دشمنوں کے ھاتھ مضبوط کرنے سے اجتناب کیا ھے !
البتہ اب یہ بات طے ھے کہ ساری دنیا سے غلامی کا رجحان ختم ھو جانے کے بعد صرف قیدیوں کا ھی کانسیپٹ باقی ھے،،غلامی کا ادارہ بین الاقومی ضمیر کے مطابق ختم ھو کر رہ گیا ھے ! اسلام نے نہ پہلے اسے ایجاد کیا تھا اور نہ اب اس کو reborn کرنا چاھتا ھے !
لونڈی کے بعض پہلوؤں سے ھمیں ایک اور سبق بھی ملتا ھے کہ شادی شدہ لونڈی کو آزاد ھوتے ھی جو سب سے پہلا تحفہ ملتا ھے وہ اس کا اختیارِ نکاح ھے ! وہ سب سے پہلا فیصلہ یہ کرتی ھے کہ اب وہ اس نکاح کو جاری رکھنا چاھتی ھے یا نہیں ! یہ حق اسے اسلام نے دیا اور حضرتِ بریرہؓ نے اسے نبیﷺ کے دربار میں استعمال کر کے دکھا دیا ،جب انہوں نے حضرت مغیث اپنا نکاح فسخ کردیا اور اس سلسلے میں یہ اسلام کی دی گئ بے مثل آزادی ھے کہ جس کی مثال دنیا کا کوئی مذھب پیش نہیں کر سکتا کہ۔۔ اللہ کا رسولﷺ اپنی بیوی کی آزاد کردہ لونڈی کو بھی اپنے صحابی سے نکاح برقرار رکھنے پر مجبور نہیں کرتا بلکہ جب آپ نے اس سے کہا کہ بریرہ تجھے اس شخص پر ترس نہیں آتا؟ تو اپنا نکاح جاری کیں نہیں رکھتی ؟ تو بریرہؓ نے پلٹ کر فرمایا کہ اللہ کے رسولﷺ کیا یہ آپ کا حکم ھے؟ آپﷺ نے فرمایا نہیں میں اللہ کی طرف سے عطا کردہ تیرے حق کو اپنے حکم سے ختم نہیں کرتا،، یہ تو صرف میری سفارش ھے! اس پر حضرت بریــرہؓ نے فرمایا پھر مجھے اس سفارش یا مشورے کی حاجت نہیں !
یہ تو ایک لونڈی کا آزاد ھوتے ھی پہلا حق تھا کہ نکاح اپنی مرضی سے کرے اس کے سارے اختیارات اور آپشنز آزاد ھو گئے تھے،، ھم لوگ جو اپنی بیٹی کی پسند اور ناپسند پوچھنا اپنی چودھراھٹ کی توھین سمجھتے ھیں اور بیٹی کا اپنی پسند بتانا ایک گستاخی سمجھتے ھیں،، کیا ھم نے آزاد پیدا ھونے والی کو ایک آزاد کردہ لونڈی کا حق دینا بھی پسند نہیں کیا ! ھمارا سارا زور استخارے اور پھر استخارے اور پھر استخارے پر ھوتا ھے،، دوسروں کی زندگی کے فیصلے دوسروں سے مشورہ کر کے ھوتے ھیں،، ذاتی معاملات پر استخارہ فرما لیجئے،،ویسے بھی آج کل ایک مثال بن گئ ھے کہ” جب عرب کہے کہ ان شاء اللہ تو اس کا مطلب ھوتا ھے کہ اللہ پکڑ کر ھی کرائے تو کرائے ویسے میں نے نہیں کرنا،، اور جب جماعت والے کہیں کہ مشورے میں رکھیں گے تو سمجھ لیں یہ کام نہیں ھونا اور جب لڑکی دیکھنے والی کہے کہ استخارہ کریں گے تو بے شک سمجھ لیں کہ اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا !