إنا عرضنا الأمانة على السماوات والأرض والجبال فأبين أن يحملنها وأشفقن منها وحملها الإنسان إنه كان ظلوما جهولا ( الاحزاب 72 )
ھم نے پیش کی امانت آسمانوں پہ اور زمین پہ اور پہاڑوں پہ – تو انہوں نے اس کا بار اٹھانے سے انکار کر دیا ، اور اس ذمہ داری کے عواقب سے دھشت زدہ ھو گئے ،،،، اور ( اٹھانے پہ آیا تو ) اٹھا لیا اس کو انسان نے ، یہ ( بطور جنس ) بڑا ظلوم اور جھول ھے ،،
تو جناب جب اللہ پاک نے ارادے کی امانت تمام زمینوں اور آسمانوں کو پیش کی اور پہاڑوں کو تحمل امانت کی دعوت دی ، میں تمہیں اپنی اطاعت اور نافرمانی دونوں کا اختیار دونگا ،، خلاف ورزی پہ فوری طور پہ کوئی سزا نہیں ،، اطاعت پہ فوری طور پہ کوئی انعام نہیں ،، مگر پھر ایک دن تمہیں میرے حضور پیش ھونا ھو گا ، اور سب حساب دینا ھو گا ،، مطیع کو انعام ملے گا اور نافرمان سزا پائے گا ، تین دن کے وقت کے باوجود تمام نے انکار کر دیا کہ ھم بس مطیع ھی اچھے ھیں ھمیں نافرمانی کا اختیار بھی نہیں چاھئے اور اطاعت کا انعام بھی نہیں چاھئے ! انہوں نے جان لیا کہ اختیار کے بعد کما حقہ اللہ کی اطاعت ممکن ھی نہیں اور ھم مارے جائیں گے !
اور بھولے منش انسان نے اسے اٹھا لیا ،،
لیپ ٹاپ آپ کے سامنے ھے ،، کسی کا نام بلاک کرنے کو فیڈ کرو یا کسی فرینڈ کی تلاش میں فیڈ کرو ،، کوئی نہ کوئی گندہ اکاونٹ آپ کا منتظر ھو گا ، کسی علامہ کا خطاب سنو تو علامہ کے دائیں طرف ننگے کلپس آپ کو نظر آئیں گے ،، آپ اکیلے ھیں ، کوئی دیکھنے والا ڈانٹنے والا موجود نہیں،، ان کو کلک کرنے سے نہ ھاتھ کو فالج ھوتا ھے ، بصارت کو کوئی خطرہ ھے ،، بس یہ ایک لحظہ ، ایک سیکنڈ ھی اس اختیار کا امتحان ھے ،، کس قدر للکار کے ساتھ اس امانت کو اٹھایا تھا کہ میں اس اختیار کو کبھی تیرے خلاف استعمال کر کے تیرے باغیوں میں شمار نہیں ھونگا !
فرشتے جن اور انسان !
آسمانوں پہ فرشتے تھے جو نورانی شفاف وجود تھا ،، جنات عبادت سے قرب تو پا سکتے تھے مگر مٹی کے بغیر تجلی کو روشنی میں کوئی چیز تبدیل نہیں کرتی ، روشنی اصلاً ریفلیکشن ھے اور ٹرانسپیرنٹ وجود پلٹا کر ریفلکٹ نہیں کرتا ،، سورج کی روشنی گھٹا ٹوپ اندھیروں میں سفر کرتی ھے اور اس کے گرد اندھیرے ھی لپٹے ھوتے ھیں کسی کو احساس نہ ھو کہ اس کے پاس سے کتنی طاقتور روشنی گزر رھی ھے تا آنکہ وہ روشنی کسی ٹھوس چیز سے ٹکرا کر منہ پیچھے کی طرف پھیرے اور ھر چیز کو چکاچوند کر دے ، وہ جاتی ھوئی نظر نہیں آتی بلکہ آتی ھوئی نظر آتی ھے ، قلبِ انسانی اللہ پاک کی نورانی تجلئ ذات کو منعکس کر سکتا ھے ، مخلوق میں اور کسی میں یہ صلاحیت نہیں ھے ،، انی اعلم ما لا تعلمون ،، تم نیک ھو سکتے ھو ، معصوم اور پرھیز گار ھو سکتے ھو ،مگر جو انسان ھو سکتا ھے وہ تم نہیں ھو سکتے ھو ،، یہی دھوکہ اس کو بھی ھوا جس نے انسان کو مٹی کا پتلا سمجھا اور اپنے آگ ھونے پہ مغرور ھوا ،،
سمو لینا کسی کو دل میں ،دل ھی کا کلیجہ ھے !
پہاڑوں کو تو بس آتا ھے جل کر طور ھو جانا !
فرشتوں کی نظر اپنی ذات پہ رھی ،انکار کر دیا ،،
انسان کی نظر اپنی طرف گئ ھی نہیں ، اس لئے اپنی کمزوری سے بے خبر رھا ، اس کی نظر تو بس اللہ پہ تھی ،، ایک اعتماد تھا کہ مجھ پر میری استطاعت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالے گا،، اس اعتبار و اعتماد پہ اس نے حامی بھر لی ،، گویا اللہ کی محبت اور عدل پر اعتماد کیا ،، جب والد اپنے بچےکو کہتا ھے کہ فلاں تھیلا اٹھا کر لاؤ تو بیٹا اسی اعتماد پہ اٹھ کر چل دیتا ھے کہ میرے اٹھائے جانے کے قابل ھے تبھی تو مجھے کہا جا رھا ھے ، ورنہ کیا میرا باپ جانتا نہیں کہ میں 50 کلو نہیں اٹھانے کے قابل نہیں !
There would be no meaning in an ought if it were not accompanied By a can
یہ ھے وہ خاص تعلق اللہ پاک کو اس حضرتِ انسان سے ،،
ھر ایک نے انسان کی طرف دیکھا ،کبھی یہ نہ دیکھا کہ جو اس کو اتنے پیار سے بنا رھا ھے ،وہ اس کو بے یار و مددگار چھوڑ دے گا ، اس کی رحمت اس کی بلائیں نہیں لے گی ،، ھو معکم اینما کنتم ،، وہ تو جہاں یہ ھوتے ھیں وھاں ھوتا ھے ،، فأینما تولوا فثمہ وجہ اللہ ،، تم جدھر منہ پھیر لیتے ھو،،، اللہ کا چہرہ بھی ادھر ھی ھوتا ھے !!
شیطان کا کردار ،، اور اللہ کی انسان کو سہولت !
انسان ، شیطان کا کردار اور اللہ پاک کی انسان کو سہولت !
اپنے خیالی کیمرے کو استعمال فرمایئے اور اس مثال کا ایک اسکیچ اپنے دماغ میں بنایئے !
انسانی قد کے برابر ایک دیوار ھے جس کے درمیان میں انسان کی کمر کے برابر چکی کے چکے کی طرح اینٹی کلاک وائز گھومتا ھوا ایک چکا ھے وہ چکا ٹھوس نہیں ھے بلکہ بچوں کے کودنے والی گیم کی طرح کا ھوا سے بھرا اسفنج نما چکا ھے جس پہ پاؤں رکھو تو پاؤں جمتا نہیں بلکہ اندر دھنستا ھے !
اس دیوار کی دائیں جانب ایک کنواں ھے ، اس کنوئیں کے پاس ایک جنگلی بھینسا کھلا چھوڑ دیا گیا ھے جو ھر انسان کو دیکھ کر اس کو مارنے کے لئے لپکتا ھے ، اس دیوار کے بائیں جانب ایک ڈرم پڑا ھے ، آپ اس گھومتے چکے کے اوپر سے گزر کر دائیں طرف جائیں گے ، آپ کے ھاتھ میں ایک بالٹی ھے ،، وہ بالٹی آپ نے جنگلی بھینسے سے بچتے ھوئے اس کنوئیں سے بھرنی ھے ، اور اس غیر متوازن مسلسل گولائی میں گردش کرتے چکے کے اوپر سے گزر کر واپس آنا ھے اور جو بھی پانی اس دوران بچے گا اسے اس ڈرم میں ڈالنا ھے ، جو اس ڈرم کو دیئے گئے مقررہ وقت میں مقررہ سطح تک بھر لے گا وہ جیت جائے گا ،
یہ دیوار نفس ھے ، گھومتا ھوا ھوا سے بھرا چَکا دنیا ھے ،، دائیں طرف کا کنواں نیکی ھے ، جنگلی بھینسا شیطان ھے ،، اور وہ ڈرم جس میں لا کر نیکی ڈالنی ھے وہ آپ کا اعمال نامہ ھے ! ھم نیکی بھرنے گئے ، شیطان پیچھے لگ گیا ،ھم اسے جتنی دیر غچہ دینے میں لگے ھیں ، دوسری طرف ھمیں دیا گیا وقت سیکنڈ سیکنڈ کم ھو رھا ھے ،، ھم نے کچھ دیر صرف کر کے اسے غچہ دے دیا ،نیکی بھر کے چلے وہ جنگلی بھینسا پیچھے دوڑ رھا ھے وہ اسے دکھاوہ بنانے کے ترغیب دے رھا ھے ،فلاں کو بتا دو ، اعلان کروا دو ، آٹے کے تھیلے ھاتھ میں پکڑ کر یا امدادی قافلے کے ٹرکوں کے ساتھ کھڑے ھو کر فوٹو بنوا لو ، الغرض وہ نیکی بھر لینے کے بعد بھی پیچھے لگا ھے ،، آپ چکے پہ پاؤں دھرتے ھیں تو پاؤں ڈگمگا رھے ھیں ، آپ اس چلتے چکے پر کبھی دائیں جھکتے ھیں کبھی بائیں جھکتے ھیں ، آپ کی بالٹی میں سے پانی چھلک رھا کبھی تو آپ اس چکے پہ گر بھی جاتے ھیں بالٹی الٹ بھی جاتی ھے ، یوں آپ کو پھر واپس کنوئیں پہ جانا پڑتا ھے ، اور پھر وھی محنت مگر ڈرم تک آنے تک بہت کم پانی بالٹی میں بچتا ھے ،،،
اللہ پاک کا انسان کی مدد کو پہنچنا !
اب اللہ پاک نے کچھ تو ھستیاں ایسی بھیجیں جن کے ذریعے ھمیں ھدایات دیں ، اگر ھم ان ھدایات پر عمل کریں تو ھماری یہ ڈگمگاھٹ کم ھو جائے ،،نیز ان ھستیوں نے عملی طور پر وہ سب کر کے دکھایا اور حکم دیا کہ بس جس طرح میں کر رھا ھوں اسی طرح کرتے جاؤ تو تمہارے حصے کا ڈرم بھر جائے گا ، وہ اسی ڈگ مگ کرتے چکے سے گزرے اور بیوی بچے ،اھل و عیال ، رشتے دار اور ان کے کاری وار ،غربت اور بیماری ،بے اولادی اور دیگر مصائب سمیت ھر فتنے کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اپنا ڈرم بھر کر دکھایا ،،
اب اس مضمون کا نام ناممکن مشن اس لئے رکھا گیا ھے کہ کوئی عام انسان خود اپنی سعی سے مطلوبہ ھدف پورا نہیں کر سکتا ، نہ وہ اللہ کے شایانِ شان عبادت کر سکتا ھے ، اور نہ ھی دیگر لوگوں کے حقوق کما حقہ ادا کر سکتا ھے ، روزہ رکھتا ھے تو غیبت سے آلودہ ، نماز پڑھتا ھے تو فکری طور پہ کہیں اور ھوتا ھے ،، اس صورت میں اللہ پاک یہ جانتے ھوئے کہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ھے ، اس کے اندر دو سافٹ وئیر ھیں جو ایک دوسرے کو بلاک کرتے رھتے ھیں ، کبھی مٹی غالب آتی ھے تو کبھی روح کو موقع مل جاتا ھے ،، اس صورت میں وہ فرماتا ھے کہ اگر تم توبہ کر لو ، اپنی غلطی کو تسلیم کر لو ، مجھ سے رابطہ کر لو تو میں تمہاری بالٹی میں سے گرے ھوئے پانی کی کمی پوری کر دونگا ، نہ صرف بالٹی بھر دونگا بلکہ مزید بھی تمہیں عطا کر دونگا ،، کسی کا دھیان اللہ کے فضل کی طرف نہ گیا ،فرشتوں نے بھی Mission impossible کا نعرہ انسان کی کمزوری کو دیکھ کر لگایا اور شیطان ملعون نے بھی انسان کی بناوٹ کے مدنظر چیلنج کر دیا ، دونوں کے وھم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اللہ تعالی جو اس نازک سی مخلوق کو میدان میں اتار رھا ھے تو وہ اس کمزور کی کمزوری کو اپنے فضل سے قوت میں تبدیل کر دے گا ،، سانس کے غرغرے تک عمر کی پرواہ کیئے بغیر گناہ اور خطائیں ،لغزشیں اور کوتاھیاں مجرد توبہ کرنے پہ اس طرح صاف کر دے گا کہ گویا آج ھی رحمِ مادر سے معصوم پیدا ھوا ھے ،، بلکہ اس کے گناھوں کے عوض بھی اسے نیکیاں عطا کر دے گا ،، اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا ھے کہ میرے سمیت کوئی بھی اپنے عمل سے جنت میں نہیں جائے گا بلکہ اللہ کے فضل کے سبب جنت میں جائے گا ،،گویا اگر اللہ کے ساتھ ایمان کا تعلق موجود رھے اور اس تعلق پر آپ کی جان جائے تو آپ کا کچھ بھی گم نہیں ھوا ،، اور اگر اس کے ساتھ تعلق ختم ھو گیا تو سب کچھ ھو کر بھی تمہارے پاس کچھ نہیں ھو گا ، ایسے گناہ جو انسان کو ڈرا کر رب کے ساتھ جوڑے رکھیں ان اعمال کی نسبت اچھے ھیں جو انسان کو متکبر کر کے رب سے دور کر دیں ، جو اپنی کمزوری سے آگاہ ھو اور رب کا دامن تھامے رکھے اس سے اچھا ھے جو اپنے تقوے کے زعم میں رب کا دامن چھوڑ کر اپنی نیکیوں پر توکل کر لے ،، بچہ جب تک اپنی کمزوری سے آگاہ رھتا ھے اور والد کا ھاتھ پکڑے رکھتا ھے اغوا سے بچا رھتا ھے ، مرغی کے جو بچے ماں کے ساتھ رھتے ھیں بلی سے بچ جاتے ھیں جو شوخے اور لاپرواہ بن کر دور چلے جاتے ھیں اچک لئے جاتے ھیں ،،
جو لوگ یہ سمجھتے ھیں کہ جنت ان کی عبادات کا ھی صلہ ھے ، ان سے نعمتوں کی کٹوتی کر کے پھر تولا جائے گا ،ثمہ لتسئلن یومئذٍ عن النعیم ،، جو اپنی عبادت کو حقیر سمجھتے ھیں اور جنت صرف اور صرف اللہ کا فضل و کرم سمجھتے ھیں ،ان میں کبھی بھی دوسروں کی حقارت پیدا نہیں ھوتی اور اپنی عظمت و سطوت کا احساس نہیں جاگتا ،
اللہ پاک کا کرم اور رحمت جب اپنے بندوں پہ برسے گی تو ایک دفعہ ابلیس جیسا مایوس ملعون بھی سر اٹھا کر امید بھری نظر سے دیکھے گا کہ شاید اس پہ بھی رحمت کا کوئی چھینٹا پڑ جائے ،، اھل مصائب کو جس جس طرح سے اللہ حشر میں دلاسے دے گا اور ان کے صبر کی تعریف کرے گا ،، تو وہ جنہیں کوئی مصیبت پیش نہیں آئی ان پہ رشک کریں گے اور حسرت کریں گے کہ کاش وہ اس امتحان سے گزرے ھوتے ،، یوں انسان کی طرف دیکھا جائے تو یہ مشن ناممکن سا لگتا ھے ،مگر جب اللہ کی رحمت کا طرف نظر کی جائے تو حشر کے فیصلوں کے بعد بھی اللہ کی تعریف کی جائے گی کہ اس کی اسکیم میں کوئی خطا نہیں تھی !