ھشام ابن عروہ کو سچا ثابت کرنے کے لئے قرآن کی آیت وابتلوا الیتامی حتی اذا بلغوا النکاح کو معطل کر دیا گیا, اللہ پاک فرماتا ہے کہ یتیموں کو نکاح کی عمر تک آزماتے رہو جونہی ان میں کامن سینس پاؤ۔ ان کی میراث ان کے حوالے کر دو ۔ اب نکاح کی عمر کے سال اللہ پاک نے نہیں بتائے کیونکہ نکاح کی عمر ہر کامن سینس رکھنے والے انسان کو معلوم تھی تبھی اللہ پاک نے اس کو تقسیم میراث کے پیمانے کے طور پر استعمال فرمایا ۔ اور ہر مذھب والے کو پتہ ہے کہ بیٹی کا نکاح کرنے کی عمر کیا ہے، اگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو معلوم نہ ہوتی تو اصحاب سوال کر لیتے کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نکاح کی عمر کیا ہے؟ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کو مزید وضاحت دیتے مگر یہ سب کی معلوم و معروف و مستعمل عمر تھی جس میں مسلمان اور غیر مسلم کی کوئی تفریق نہیں تھی، اب یہی آیت ہے جس کے مقابلے میں اپنے راوی کی ناک اونچی رکھنے کی کوشش میں منکرین قرآن کہتے ہیں کہ نکاح کی کوئی عمر ہی نہیں کہ جس تک پہنچنے کا اللہ نے حکم دیا ہے ۔
ہم ان کی بات کو اگر تسلیم کر لیں کہ نکاح کی کوئی معروف و رائج عمر نہیں اور ولی چھ دن یا چھ ماہ یا چھ سال کی بچی کا نکاح بھی کر سکتا ہے ، تو سوال یہ ہے کہ کیا میراث چھ دن، چھ ماہ یا چھ سال کی بچی کے حوالے کی جا سکتی ہے؟ کہیں گے کہ نہیں اس کے لئے بلوغ الکل کا حکم ہے کہ سارے ورثاء بالغ ہوں، بالغ کا مطلب ہے پہنچا ہوا ۔ بلاغ ہے پہنچانا ۔ تو ان سے سوال کیجئے کہ(بلوغ الکل ) سب پہنچے ہوئے ہوں کا مطلب کیا ہے ۔ پنڈی پہنچے ہوئے ہوں یا مکے مدینے؟ تو اس کے سوا ان کے پاس کوئی جواب نہیں کہ نکاح کی عمر کو پہنچے ہوئے ہوں ۔ اب سوال کیجئے تو نکاح کی وہ کونسی عمر ہے جس تک پہنچ کر ورثاء میں میراث تقسیم کرنی ہے؟ تو کہیں گے نکاح کی کوئی عمر نہیں ۔ گویا اللہ فرما رھا ہے حتی بلغوا النکاح اور یہ کمبخت کہتے ہیں وہ عمر ہی طے نہیں جس تک پہنچنا ہے ۔ اب دوسرا انڈر پاس ملاحظہ فرمائیے کہ جب احتلام ہو یا حیض ہو تو بالغ ہوتا ہے، گویا اللہ پاک کو ہی معاذاللہ اتنی عربی نہیں آتی کہ وہ بلغوا الاحتلام یا بلغوا الحیض فرما دیتا، یہ لوگ اللہ پاک کی عربی درست کرنے لگے ہیں ۔
اب جب ایک معروف رواج یعنی نکاح کی عام عمر کو کالعدم قرار دے دیا تو پھر دیکھئے کیسی کیسی قانون سازی کرنی پڑی ۔اور یہ قانون سازی man made ھے ۔ اللہ کے اختیارات استعمال کر رھے ہیں کیونکہ شریعت متعین کر رہے ہیں ۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کوئی ایسا واقعہ ھوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود قانون سازی کر کے جاتے ۔ جب چھ ماہ یا چھ سال کی بچی کا نکاح کر دیا تو لڑکی کی رضامندی تو لی ہی نہیں گئ اور لڑکی کی رضامندی کے بغیر نہ نکاح ھوتا ہے نہ میراث تقسیم ہوتی ہے ، جس میراث کی تقسیم میں کسی ولی کی مرضی اس بچی کے حصے کو نہیں چھیڑ سکتی اسی طرح کوئی ولی کسی بچی کی رضامندی کے بغیر اس کا نکاح نہیں کر سکتا تعجب کی بات ہے کہ میراث کے ایک گلاس کا فیصلہ تو ولی کر نہیں سکتا پھر اس بچی کی ساری زندگی کا فیصلہ ایک ولی کیسے کر سکتا ہے؟
خیر نکاح شدہ بچی جب جوان ہو جائے ان کے بقول جب حیض آ جائے تو وہ مجلس چھوڑنے تک لڑکی نہ کر سکتی ہے، اگر اس نے نہ کیئے بغیر وہ مجلس چھوڑ دی جس میں حیض آیا تھا تو ولی کا نکاح نافذ ھو گیا دوسرا کہتا ہے لڑکی پاک ہو کر ایک نماز کے وقت تک نہ کر دے تو نکاح ختم ہو جائے گا ورنہ نافذ ہو جائے گا تیسرا کہتا ہے پانچ نمازوں کا وقت دیا جائے نہ کرنے کے لئے اور چوتھا کہتا ہے تین دن کا وقت دیا جائے ھاں یا نہ کرنے کے لئے ۔ اے اس امت کے زمینی خداو تمہیں کسی بچی پر یہ ایک مجلس یا ایک نماز یا پانچ نماز یا تین دن میں فیصلہ کرنے کے لئے دباو ڈالنے اور الٹی میٹم دینے کا اختیار کس نے دیا ہے؟ تم نکاح ہی اس وقت کیوں نہیں کرتے جب وہ ہاں یا نہ کہنے کی عمر میں ہو؟ یہ صرف ھشام ابن عروہ کی اس کہانی پر ایمان کا نتیجہ ہے کہ قرآن کو معطل کیا ۔ اس سے جو پیچیدگی پیدا ہوئی ، ابارشن کرانے والی دائیوں کی طرح پھر ٹوٹکوں سے اس کو درست کرنے کی کوشش فرمائی جا رہی ہے ۔ کاش تم قرآن کی مان لیتے ۔
قاری حنیف ڈار بقلم خود