ہمارے اھل حدیث بھائیوں کی مہربانی سے ہر دوسرا پاکستانی منکرِ حدیثوں کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے، ہر کسی کو منہ پھاڑ کر منکر حدیث کہہ دیتے ہیں مگر پوچھو کہ منکر حدیث کی جامع مانع تعریف تو کر دیجئے تا کہ عوام الناس خود بھیڑ میں سے پہچان لیا کریں کہ فلاں منکرِ حدیث ہے، تو بغلیں جھانکنے لگتے ہیں ، ،،
اگر سلفی ورژن لیا جائے تو نہ صرف حدیث کی ساری کتابوں کے مصنفین جنہوں نے ھزاروں اور لاکھوں حدیثیں رد کی ہیں منکرِ حدیث ثابت ہوتے ہیں بلکہ عشرہ مبشرہ اور امہات المومنین تک بھی منکرِ حدیث ثابت ہوتے ہیں ،، اب یہ لوگ کہیں گے کہ انہوں نے تو اصول کی بنیاد پر روایتیں رد کی تھیں آپ کس اصول پر رد کرتے ہیں،تو ہم عرض کریں گے کہ ہر شخص کا حق ہے کہ وہ اپنے اصول کی بنیاد پر کسی خبر کو رد و قبول کرے۔ انسانوں کے طے کردہ اصول خود ان پر تو لازم ہوتے ہونگے دوسرے ہرگز ان کے پابند نہیں ہو سکتے۔ ہم نے کتاب اللہ کو اصول بنایا ہے، جو المیزان بھی ہے اور الفرقان بھی اور کئ فقیہہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا طے کردہ اصول بھی ۔
منکر حدیث وہ نہیں ہوتا جو کسی روایت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دے، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا جو حدیث کا فرسٹ ہینڈ علم رکھتی تھیں انہوں نے تقریبا ہر اس صحابی کی روایت کا قرآن یا کسی قوی حدیث سے رد کیا ،جن اصحابؓ کے نام سے حدیث کی کتابیں بھری ہوئی ہیں ، حضرت عمر فاروقؓ نے ابوموسی اشعریؓ کی طرف سے ایک عام سے مسئلے پر مشتمل حدیث پیش کرنے پر انہیں دھمکی دی تھی کہ اگر اس کا دوسرا گواہ نہ لائے تو میں آپ کو دردناک مار مارونگا ،، عبداللہ بن عمرؓ اور ابوھریرہؓ کی روایات ان کی زندگی میں ان کے منہ پر رد کر دیں حضرت عائشہؓ صدیقہ نے، حضرت علیؓ نے بھی ابوھریرہؓ سمیت کی صحابہؓ کی روایات کو تسلیم نہیں کیا ،، عمر فاروقؓ نے ایک ماہ استخارہ کرنے کے بعد اعلان فرمایا کہ حدیث کو لکھنے کے بارے میں ایک ماہ استخارہ کرنے پر میری رائے یہی بنی ہے کہ حدیثوں کو مرتب نہیں کیا جائے گا ، یعنی ریاست ان کو مصدقہ طور پر سرکاری ریکارڈ کا حصہ بنا کر اس کا اجراء نہیں کرے گی جیسا کہ قرآن کریم کا مصدقہ نسخہ جاری کیا گیا تھا ، حضرت عمرؓ کی بصیرت جو دیکھ رہی تھی وہ بعد والوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا، آپ نے ایک شخص کے ہاتھ میں ایک پلندہ دیکھا تو پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ اس نے کہا کہ احادیث ہیں ،، جس پر آپ نے طنزیہ فرمایا کہ مشنی کمشنی یہود؟ یہود کی طرح تم بھی ویسی ہی کتاب تیار کرنا چاہتے ہو جو تورات پر غالب آ گئ تھی ؟ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ نے عملی طور پر یہ اصول دیا تھا کہ ہر روایت کو قرآن پر پیش کر کے اس کا جائزہ لیا جائے ، مردے پر رونے کی وجہ سے میت کو عذاب ہوتا ھے والی حدیث کو آپ نے قرآن کی آیت ولا تزر وازرۃ وزر اخری تلاوت کر کے رد کیا ،، بعد والوں نے قرآن کریم کو ایک طرف کر کے روایتوں کے طومار باندھ دیئے ،، آج بھی ان کہانیوں کو کتاب اللہ پر پیش کریں تو ہر تیسری چوتھی کہانی فاؤل پلے ثابت ہے ، خاص طور پر ایک حدیث کے کم از کم دو صحابی گواہ ہوں تبھی اس کو قبول کیا جائے والا فاروقی اصول اگر اپنایا جاتا تو ہر دوسرا بندہ شیخ الحدیث ہوتا کیونکہ حدیثیں ہی بس بغدادی قاعدے کے حجم جتنی بچتیں ـ ابوبکر صدیقؓ نے اپنی ہی جمع کردہ پانچ سو احادیث کو ام المؤمنین حضرت عائشہ سے آگ منگوا کر جلا دیا ،، کم از کم یہ بات طے ہے کہ اگر حدیث کو جمع کرنا دین کے لئے اتنا ہی ضروری ہوتا تو کہیں نہ کہیں ’’ صحیح صدیقی‘‘ صحیح فاروقی‘‘ صحیح عثمانی ‘‘ اور صحیح علوی‘‘ ضرور موجود ہوتیں ،،
خیر منکر حدیث کی تعریف کچھ یوں ہے کہ جو شخص کسی بھی حالت اور کسی بھی عبادت کے بارے میں حدیث کو بطور ریفرنس یا بطور اتھارٹی قبول نہ کرے،، اور الحمد للہ ننانوے فیصد مسلمان چاہے ان کا تعلق کسی بھی فرقے سے ہو اپنی عبادات اور مناسک میں سنت کو ریفرنس اور اتھارٹی مانتے ہیں ، اس لئے چند نازیبا ،ناشائستہ روایات کا انکار کسی کو منکر حدیث نہیں بناتا ،، جو لوگ اونٹ کے گلے میں بلی باندھتے ہیں کہ قبول کرنی ہیں تو واہیات کہانیاں بھی قبول کرو ورنہ بقیہ کو تمہارا قبول کرنا بھی ہم کو قبول نہیں ـ یا یہ کہ فلاں راوی کی یا فلاں صحابی کی فلاں روایت کو تم نہیں مانتے تو پھر اس روایت کو کیوں مانتے ہو؟ ،، تو جوابا کہا جا سکتا ہے کہ صحیح بات تو کافر کی طرف سے بھی کہی جائے تو اس کو تسلیم کیا جائے گا ، ابوسفیانؓ نے حالت کفر میں قیصر کے دربار میں جو گواہی رسول اللہ ﷺ کے حق میں دی وہ ہم تسلیم کرتے ہیں ،، ملکہ سبا کے کافر ہونے کے باوجود اس نے بادشاھوں کے بارے میں اپنا جو تجزیہ پیش کیا اللہ پاک نے اس کی تصدیق فرمائی ،،