دیہاتی زندگی کے شب و روز
سچی بات تو یہ ھے کہ ھم دوسرے تیسرے یا چوتھے جنم پر یقین نہیں رکھتے ! پہلے جنم کے پواڑے ھی اتنے ھیں کہ پچاس ھزار سال میں بھی نمٹ جائیں تو غنیمت ھے،، اگر کوئی دوسرا جنم ھوتا تو ھم شہر والوں سے درخواست کرتے کہ وہ کوئی واسطہ لڑا کر کہیں دیہات میں پیدا ھونے کی کوشش کریں،،یقین کریں دیہات کا بچپن ساری زندگی چوس چوس کر چٹخارے لیتے رھو تو ختم نہیں ھوتا اور نہ ڈپریشن ھونے دیتا ھے،، شہر کی زندگی تو تین جملوں کے گرد گھومتی،، لُوٹنا نہیں تو لُٹنا یا پھر لُٹنے سے بچ جانا ! البتہ والدین غالباً دونوں جگہ ایک ھی جیسے ھوتے ھیں،، دھونس اور دھاندلی سے بھرپور،، جسے چاھیں دیں جسے چاھیں محروم رکھیں، اور جسے چاھیں بےقصور پٹائی کر لیں،، غلطی معلوم ھونے پر بھی بجائے سوری کہنے کہ یہ کہہ دیں کہ” ماں باپ مارا کرتے ھیں” یعنی مارنا ،پیٹنا والدین کی مجبوری یا فرضِ منصبی ھے، وہ مارنے پر فطرتاً اسی طرح مجبور ھیں جس طرح مُرغی انڈہ دینے پر مجبور ھوتی ھے، اس لئے وہ قابلِ معافی ھیں ! گالیاں دینے میں بھی والدین کا جواب نہیں ،، جو گلی کا لُچا لفنگا ڈر ڈر کے دیتا ھے وہ والدین بےخوف ھو کر دیتے ھیں ،بچے عموماً گالیاں اپنی ابتدائی عمر میں اپنے والدین سے ھی سیکھتے ھیں، حالانکہ پرانے زمانے کے علماء عموماً پانچویں تک تعلیم اور ابتدائی علمی کتابیں ،صرف و نحو و حفظ قرآن وغیرہ گھر پر والد ، تایا یا دادا جی کے پاس ھی پڑھ لیا کرتے تھے،مگر میں جدید دور کے والدین کی بات کر رھا ھوں جن سے ھمیں پاکستان کی آزدی کے بعد پالا پڑا ھے،، مائیں اپنی ازدواجی زندگی کا سارا تجربہ نہایت دیانتداری کے ساتھ گالیوں کی صورت میں اپنی بچیوں کو منتقل کر دیتی ھیں ، یوں انہیں نئے گھر میں کوئی اوپرا پن محسوس نہیں ھوتا،، والد بھی کوشش کرتے ھیں کہ بچہ بائیو کے تجربات ان سے ھی سیکھ لے، بلکہ والد جب بیٹے کو ماں بہن کی گالیاں دیتا ھے تو شرافت چالیس گھر دور جا بسرام کرتی ھے اور شرم سے پسینہ پسینہ ھوتی ھے ! اپنے دادا جی کے یہاں سب سے پہلے پیدا ھونے والا پوتا میں ھی تھا،یوں 42 کزنز میں سب سے سینئر اور سب کا بھائی جان میں ھی ٹھہرا،، اس کے فائدے بھی کچھ ھوں گے مگر اس کے سائڈ افیکٹس بھی کم نہیں،، چونکہ پہلا بچہ ھونے کا مطلب یہ ھی ھے کہ اب ھر تجربہ آپ پر ھونا ھے، اور آپ کو تجرباتی چوھے کے طور پر استعمال کیا جانا ھے،، ھم پر کیئے گئے تجربات کے نتیجے میں باقی کزنز کو دنیا میں آنے سمیت زندگی کے ھر موڑ پر آسانی رھی،اگرچہ وہ ھمارے احسانمند بھلے نہ ھوں ! والد صاحب سبزی کے کنوئیں پر کام کرتے تھے،وہ ھمیں ایک چادر میں لپیٹ کر سحری کے وقت ” گاندھی” پر بٹھا دیتے ،، گائے کے پیچھے جو شہتیر نما لکڑ ھوتی ھے جسے وہ کھینچتی ھے تو رھٹ چلتا ھے اسے پوٹھوار میں ” گاندھی” کہتے ھیں،، چار ساڑھے چار سال کا بچہ سردی کے موسم میں سحری کے وقت گاندھی پر کیسے بیٹھا رہ سکتا ھے؟ ھم کوئی آدھ گھنٹے بعد ٹھاہ کر کے نیچے گر جاتے اور ادھر ھی سو جاتے ! گائے گھوم کے آتی اور ھمارے پاس آ کر رک جاتی اور پیار سے ھمارا سر چاٹںا شروع کر دیتی ، گائے رُکتی تو پانی رک جاتا،والد صاحب تشریف لاتے تو ھمیں دو چار سناتے،گائے کو دو چار ڈنڈے لگاتے اور پھر ھمیں گاندھی پر سوار کر کے چلے جاتے،، تھوڑی دیر بعد وھی ڈرامہ پھر ھوتا،، آخر لوگوں نے والد صاحب کو سمجھایا کہ اس بچے کے ساتھ زیادتی نہ کریں، اور اس کو گاندھی کے ساتھ ایک چھوٹی چارپائی بنا دیں،یوں ایک تکون سی اسی گاندھی میں ٹھوکی گئی اسے بُنا گیا اور ھمیں اٹھا کر اس میں سلا دیا جاتا اور یوں گائے ھمیں لئے لئے چلتی رھتی ! گائے کہ یہ محبت ھمارے دل میں گھر کر گئ اور ھمیں وہ والدہ کی طرح محسوس ھوتی، اس نے بھی ھمیں گود لے لیا،ھم اس کا دودھ اسی بے تکلفی سے پیتے جیسے اس کا اپنا بیٹا یعنی ھمارا رضاعی بھائی پیتا،بلکہ گائے کا رویہ اپنے بیٹے کی نسبت ھم سے کچھ زیادہ ھی شفقت آمیز تھا،،کیونکہ ھم دودھ پیتے وقت اس کو دھکے نہیں دیتے تھے بلکہ ایک آدھ تھن کو پیار سے مسلتے رھتے تھے جس پر ھمارے رضاعی بھائی کو کافی تپ بھی چڑھتی تھی اور وہ سر مار کر ھمارے ھاتھ سے تھن چھڑا لیتا،، گائے کی کھال پر کچھ نشانات تھے جن کی وجہ سے اسے ڈبی گائے کہتے تھے،، ھم توتلی زبان میں اسے ” ببی” گائے کہتے تھے یوں سب کی زبان پر ببی گائے چڑھ گیا،، نئے بچے کی پیدائش کے دوران بارش ھو گئ اور ببی گائے پانی میں بھیگتی رھی جس کی وجہ سے وہ بیمار ھو گئ،، اسے کھڑا کیا جاتا تو وہ کانپتی ٹانگوں کے ساتھ دوبارہ گر جاتی،، آخر کار دادا جان کو بلایا گیا کیونکہ گاؤں بھر میں گائے کا آخری علاج تھے ،، ماشاء اللہ ایک ھاتھ سے گائے کی گردن مروڑ کر نیچے گراتے اور اوپر بیٹھ کر اسے ذبح کر دیتے،گائے کو باندھنا وہ اپنی توھین سمجھتے تھے،، کشمیر میں بھی ان کا یہ ھی معمول تھا اور ھندوؤں کے سامنے گائے ذبح کرتے اور انہیں روکنے کی جرأت نہ ھوتی ! جس دن بــبی گائے کو ذبح کیا گیا،ھم پر قیامت بیت گئ،، وہ میری والدہ کی موت کا دن تھا،، میں نے زندگی میں اتنا کرب نہیں محسوس کیا جتنا اس دن محسوس کیا،جب بھی اس گائے کو اٹھایا جاتا میں صمیمِ قلب سے دعا کرتا کہ اللہ پاک اسے کھڑا رکھے مگر اس کے بیٹھنے کے ساتھ ھی ھمارا دل بھی بیٹھ جاتا،، اس کے ذبح ھونے کے بعد میں والدہ کی گود میں بلک بلک کے روتا رھا،، پھر موقع واردات پر آیا جو کہ ھمارا صحن ھی تھا،، دادا جان گائے کے پنجر میں آدھے گھسے ھوئے اس کے پھیپھڑے کی نالی کھینچ رھے تھے ! ان کا سر جو کہ ان کے پسندیدہ ھیئر اسٹائل ٹنڈ کی شکل میں تھا بالکل ھمارے قد کے حساب سے ٹھیک فوکس میں تھا، ھمارے درد کی کیفیت تھی کہ خلوصِ نیت ،، پتھر جو پوری قوت کے ساتھ میرے ھاتھ سے نکلا تو سیدھا نشانے پر جا کر لینڈ کیا،، گائے کے پنچر کے اندر سے ایک کانپتی اور گونجتی سی ویسی ھی آواز سنائی دی،جیسی 28 مئ 1998 کویوم تکبیر کے موقعے پر ڈاکٹر ثمــر مبارک کے منہ سے نکلی تھی،، فرق یہ تھا کہ ڈاکٹر مبارک کی آواز جوشِ جذبات سے کانپ رھی تھی اور دادا جی کی جوش درد کے ساتھ، پھر ڈاکٹر صاحب کے منہ سے تو تکبیر نکلی تھی مگر دادا جی کے منہ سے جو نکلا تھا وہ ھم نے بالغ ھوتے ھی کارروائی سے حذف کروا دیا تھا ! دادا نے پنجر سے سر باھر نکالا تب تک ھم دوسرے پتھر کو وار ھیڈ کے طور پر ھاتھ پہ سجا چکے تھے،صورتحال کی نزاکت کا اندازہ کا اندازہ کرتے ھوئے دادا جان بھی پری ایمپٹیو اسٹرائک کے طور پر چھری سمیت جو ھماری طرف لپکے تو ھم نے خون میں لت پت دادا اور ان کے خونی ارادوں کو دیکھتے ھوئے فرار میں ھی عافیت جانی اور پتھر کو بغیر نشانے کے ھی دادا جان کی طرف پھینکا ، ساتھ تبرکاً ایک گالی کو بھی اچھالا اور گولی کی طرح نکل بھاگے،، ھماری پیڑھی میں دادا جی کے خلاف یہ پہلی بغاوت تھی اور جنریشن گیپ کا پہلا مظہر بھی ! اپنی رضاعی ماں کے دکھ نے ھمیں مسلسل دو دن بخار میں کچھ اس طرح بےسدھ رکھا کہ کھانا پینا تو الگ ھمیں بیٹھنے کی سکت تک نہ تھی،، اس کے بعد ھم نے دادا جی کے ساتھ پکی دشمنی بنا لی،وہ ھل جوتنے ھمارے گھر کے پاس سے ھی گزر کر کھیتوں میں جاتے تھے،ھم اللہ داد مرحوم کے ھوٹل کے کونے پر پتھر لے کر کھڑے ھو جاتے اور دادا جی جب بیلوں کی جوڑی کے پیچھے ھل کندھے پر رکھے گزرتے تو ھم آرام سے نشانہ لے کر پتھر ٹکا دیتے،، آخر انہیں درمیان میں بندے ڈال کر ھم سے صلح کرنی پڑی، انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ کبھی ایسی حرکت نہیں کریں گے اور ھم نے بھی انہیں معاف کر دیا،، یہ ھماری سب سے کامیاب پالیسی تھی جس کے زور پر ھم نے نہ صرف دادا جان بلکہ اپنے ختنے کرنے والے نائی کو بھی معافی مانگنے پر مجبور کر دیا تھا ،،یہ معاشی بلاکیڈ چیز ھی ایسی ھے ! چونکہ ھم پہلوٹھی کے بیٹے تھے لہذا ھمارے ختنے بھی کافی لیٹ کیئے گئے تا کہ سب برادری اچھی طرح دیکھ بھال لے،، بغیر ختنے کے چونکہ بچہ ستر میں ھوتا ھے ، اس لئے کپڑوں کے تکلف سے بھی بے نیاز ھوتا ھے ! آخر باقاعدہ مشورے کے بعد ھماری سنتیں کرنے کا فیصلہ کیا گیا،، خادم حسین نائی مرحوم سے اپؤائنٹ منٹ لی گئ اور ساری برادری کو دعوت دی گئ ،، اتنے بندے لوگوں کی مہندی کی رسم پہ نہیں آتے جتنے ھماری سنت کی رسم پر آئے،، تایا مرحوم کہ گھر کے میدان نما صحن میں مجمع لگا،،ایک رنگین پیڑھی کا انتظام کیا گیا ھمیں بٹھانے کے لئے، ھمارے مزاج اس دن دیکھنے والے تھے،، ھم تو کسی کو لفٹ ھی نہیں کروا رھے تھے،، سنگی ساتھی حسرت کی نظر سے ھمیں دیکھ رھے تھے ” بعد میں پتہ چلا وہ حسرت نہیں بلکہ ترس کی نظر تھی، خادم حسین نے ھمیں پیڑھی پر اچھی طرح جما کر بٹھایا اور مولوی صاحب نے کچھ ورد اوراد پڑھے اور والد صاحب نے ھمیں اپنی گود میں اٹھا لیا اور خود رنگین پیڑھی پر بیٹھ گئے،، خادم حسین نے سرکنڈے کا درمیان سے چِرا ھوا بالشت بھر لمبا ٹکڑا نکالا ،ایک عدد استرا نکالا،،تھوڑی سی راکھ کی ڈھیری بنا لی، اور بڑی بے تکلفی کے ساتھ ھمارے ستر سے کھیلنا شروع کیا،، پہلے اس نے ناپ لے کر ایکسٹرا سنت کو اپنی انگشتِ شہادت اور انگوٹھے کے درمیان پکڑا پھر سرکنڈے کا چِرا ھو حصہ کھولا اور فالتو سنت کو اس حصے میں پھنسا دیا ،، اس کے بعد اس نے ھمارے گھر کی چھت کی طرف دیکھ کر تعجب سے کہا ” وہ دیکھو سونے کی چِڑی ” بس ھمارا سونے کی چڑیا کی طرف دیکھنا غضب ھو گیا،، درد کی ایک لہر پورے بدن میں دوڑ گئ،، اور خادم حسین نے بقیہ سنت کو لپیٹنا شروع کر دیا تاکہ باؤنڈری وال بنا سکے ،، خادم حیسن کا کمال یہ تھا کہ وہ پہلے لپیٹتا تھا پھر راکھ کا استعمال کرتا تھا،، جس کی وجہ سے باؤنڈری وال کالک سے محفوظ رھتی تھی،،جبکہ غلام حسین مرحوم خون دیکھ کر ڈر جاتا اور جھٹ پٹ اسے روکنے کے چکر میں راکھ ڈال دیتا پھر جو لپیٹتا تو راکھ بھی درمیان میں لپٹ جاتی اور یوں ساری زندگی کی کالک مل دی جاتی،، دنیا کا پہلا ٹیٹو نائی نے ھی ایجاد کیا تھا ،گاؤں کے بچوں میں دیکھ کر ھی بتایا جا سکتا تھا کہ کون کس کا شکار بنا ھے ! خیر ھم نے حسبِ توفیق جو بھی گالیاں اس زمانے تک دریافت ھو چکی تھیں وہ خادم حسین کو دیں،، اگلے دن جب وہ ھمارا پتہ کرنے آیا تو ھم پتھر کے ساتھ اس کا استقبال کیا اور کہا کہ "پہلے کاٹ کے اب پتہ کرنے آئے ھو؟ ھمارا یہ جملہ کافی عرصے تک برادری میں ضرب المثل کے طور پر استعمال ھوتا رھا،، خیر اب ھم سنت کو پگ باندھ کر ٹانگیں چوڑی کر کے گھر کے گیٹ میں بیٹھ جاتے اور خادم حسین کا انتظار کرتے رھتے،جونہی وہ اپنے کام کے سلسلے مین ھمارے گھر کے سامنے سے گزرتا تو ھم اس کو پتھر ٹکا دیتے،، یہ اس بےچارے کی روزی کا مسئلہ تھا،، اسے اس مین گلی سے گزر کر دن بھر آگے پیچھے جانا ھوتا تھا،، آخر وہ مجبور ھو کر عشاء کے وقت ھمارے گھر آیا،کیونکہ یہی وہ وقت ھوتا تھا جب ھم پتھر سنبھال کر رکھ دیتے تھے، اس نے قبلے کی طرف منہ کر کے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ ھمارے ساتھ یہ حرکت نہیں کرے گا،،ھم نے بھی اس وعدے پر اسے کھلے دل سے معاف کردیا !