اتمامِ حجت میں کتاب اللہ کا فیصلہ کن کردار !
اللہ پاک نے دعوی کیا ھے کہ وہ اپنی مخلوق کو مقصد بھی خود ھی سجھاتا ھے اور سمجھاتا ھے ! جب فرعون نے موسی علیہ السلام سے پوچھا کہ ” اے موسی تم دونوں کا رب کون ھے ؟ قال فمن ربکما یا موسی ؟ ( طہ 49،) تو جواب میں موسی علیہ السلام نے جواب دیا ” ربنا الذی اعطی کل شئٍ خلقہ ثمہ ھدی ( طہ 50) ،، ھمارا رب وہ ھے جس نے ھر چیز کو اس کی صورت بخشی پھر اس کو اس کا کام سجھایا ! اللہ پاک نے اپنے سر ذمہ لیا ھے اور یہ ذمہ قیامت تک ھے کہ ،ان علینا للھدی ،، یقیناً یہ ھماری ذمہ داری ھے کہ ھم ھدایت پہنچائیں ( الیل 12 ) جب ابراھیم علیہ السلام کا مکالمہ اپنے والد اور قوم سے ھوا تو انہوں نے رب کا تعارف ھی اس ذمہ داری کے ساتھ کیا کہ جب مجھے پیدا اس نے کیا ھے تو اسی کی ذمہ داری ھے کہ وہ مجھے ھدایات دے کہ میں نے کیا کرنا ھے اور میرا فرض ھے کہ میں اس ھدایت کی پیروی کروں ! الذی خلقنی فھو یھدین (شعرآء 78 ) آدم علیہ السلام کو واضح طور پر بتا دیا گیا تھا کہ ان کے لئے اور ان کی اولاد کے لئے ھدایات آتی رھیں گی جو ان ھدایات پر چلے گا وھی فلاح پائے گا اور اصحاب الجنہ میں سے ھو گا،جب کہ ان کی مخالفت کرنے والے آگ کا ایندھن بنیں گے ،، فاما یاتینکم منی ھدی ،فمن تبع ھدای فلا خوفۤ علیھم ولا ھم یحزنون ، والذین کفروا و کذبوا بآیاتنا اولئک اصحاب النار ھم فیہا خالدون ( البقرہ 38،39 ) سابقہ امتوں میں یہ کام نبیوں نے ھی کیا ھے اور امتوں نے ھاتھ بٹایا ھے،مگر نبی سے نبی ھی ٹیک اوور کرتا تھا، بیک وقت کئ کئ نبی بھی موجود ھوتے تھے ! مگر نبئ کریم ﷺ پر نبوت کے اختتام نے یہ ذمہ داری مجموعی طور پر اس امت کے کندھوں پہ لا ڈالی ! جب ھر پیدا ھونے والے کو ھدایت پہنچانا نبئ پاک کی ذمہ داری ھے اور پیدا ھونے والے تو پیدا ھوتے چلے جا رھے ھیں جبکہ پہنچانے والا نبوت کا ادارہ ندارد ھے ! تو پیدا ھونے والوں کا کیا قصور ھے ؟ جس نےوعدہ کیا تھا ان علینا للھدی ،، یہ ھمارے ذمے ھے کہ ھم ھدایت پہنچائیں،، یہاں ھدایت کے منتظرین کروڑوں کی تعداد میں منتظر ھیں اور وعدے کے ایفا کا اتنظار کر رھے ھیں ،، اگر یوں کہا جائے کہ نبی کی عدم موجودگی میں اتمامِ حجت نہیں ھو سکتی ،، اور اتمام حجت اللہ کا وعدہ ھے کہ قیامت کے دن لوگ یہ نہ کہیں کہ ھمیں خبر ھی نہ ھوئی ! تو پھر اللہ کو ھی اپنے اس اصول کے سائڈ ایفیکٹ کا پتہ نہ چلا ؟ اور اللہ رسالت کے ادارے کو ڈس مس کر بیٹھا،، کیا اللہ ھی کو پتہ نہ تھا کہ چند لاکھ لوگوں کے لئے تو میں نے ایک لاکھ چوبیس ھزار پیغمبر لا کھڑے کیئے اور بیک وقت کئ کئی نبی اٹھا کھڑے کیئے ،،جبکہ اربوں انسانوں کو بغیر کسی پیغمبر کے بے یارو مددگار چھوڑ دیا اور ان پر اتمام ِ حجت ھی نہ ھوا ! حالانکہ وہ زیادہ ذھین و فطین تھے !! اب قیامت کے دن اللہ پاک ان کو کیا جواب دے گا ! 1- اصل میں مجھے احساس ھی نہیں تھا کہ یہ دنیا اتنی لمبی چلے گی،،میں نے سمجھا کہ 100 سال کے اندر بس قسطنطیہ فتح ھو گا اور قیامت آ جائے گی،لہذا میں نے نبوت کی بساط لپیٹ لی ! ( معاذ اللہ ) 2- دراصل میں دھڑا دھڑا بیک وقت سیکڑوں نبی بھیجتا رھا مگر جب آخر میں دیکھا تو ایک ھی بچتا تھا ،، اب کیا ھو سکتا تھا ( ثمہ معاذاللہ ) اس کا نتیجہ یہ نکلتا ھے کہ غیر مسلموں کو مسلمانوں پر واک اوور مل جاتا ھے ،اور یوں جگجیت سنگھ کی فلائیٹ سیدھی جنت میں لینڈ کرتی ھے ، کیونکہ غیر مسلموں پر نبی کی عدم موجودگی میں اتمامِ حجت نہیں ھو سکتا،،جبکہ ھم جو مسلمان کے گھر پیدا ھونے پر شکر بجا لاتے رھے،،پھنس کر رہ گئے کہ پہلے نماز روزے کا حساب چکاؤ ،،جب کہ کافر کس چیز کا حساب دیں گے ؟ نہ نماز روزہ ان پر فرض اور نہ شراب ان پر حرام ،، وہ تو بغیر حساب جنت میں داخل ھوں گے،، ! اتمام حجت کی دو اقسام اور دو انجام ! جو اتمام حجت رسول کی موجودگی میں ھوتا ھے ،اس کا نتیجہ یہ ھوتا ھے کہ ان کی منکر قوم کو کافر قرار دے کر ان کی جڑ کاٹ دی جاتی ھے ! لہذا اب اس قسم کا اتمام حجت تو قیامت تک نہ ھو گا ! اتمام حجت کی دوسری قسم وہ ھے جو صرف ھدایت پہنچا کر رہ جاتی ھے اور اس کے منکروں کا فیصلہ قیامت کے دن کیا جائے گا اور ان کو کافر کی بجائے غیر مسلم کے نام سے یاد کیا جائے گا ! انہوں نے سیدھی راہ کی تلاش کی یا نہیں کی اس کا فیصلہ رب کریم بہتر کر سکتا ھے اور حشر کا دن اسی قسم کے فیصلوں کے لئے ھی رکھا گیا ھے ! پہلی قسم کے ھادی بطور نبی حشر کی عدالت میں آئیں گے ! جبکہ دوسری قسم کے اتمامِ حجت کرنے والے بطور گواہ کے عدالت میں آئیں گے،، وکذالک جعلناکم امۃ وسطا لتکونوا شہداء علی الناسِ و یکون الرسول علیکم شہیدا ً ،، ( البقرہ ) لیکون الرسول شہیداً علیکم و تکونوا شہداء علی الناس ! ( الحج ) اسی دوسری قسم کے تابع صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے لاکھوں مربع میل تک اتمام حجت کیا اور فلیبلغ الشاھد الغائب ،، کا حق ادا کرتے ھوئے ھدایت کی مشعل تابعین کے سپرد کر دی ! سورہ الزمر میں اللہ پاک نے انبیاء اور شہداء کے عدالت میں حاضر ھونے اور فیصلے کرنے کی بات کی ھے،،و وضع الکتاب و جئ بالنبیین و الشہدآءِ و قضی بینھم بالحق و ھم لا یظلمون ،،کا نقشہ کھینچا ھے ( الزمر69 ) کتاب اللہ کو محفوظ ھی اتمام حجت کے لئے کیا گیا ھے ! رب کا پیغام پہنچ گیا تو اتمام حجت ھو گیا ،اب قیامت کو فیصلہ ھو جائے گا ! اس پر اعتراض یہ کیا جاتا ھے کہ جناب مسلمان کو تو مسلمان کے گھر میں پیدا کر دیا ،،اسے گھڑی گھڑائ
ی ھدایت پیدائشی طور مل گئ جبکہ دوسروں کو ھندؤں سکھوں کے گھر میں پیدا کر کے کہا گیا کہ ھدایت کما کے کھاؤ ! یہ بے انصافی نہیں ھوگئ ؟؟ پہلی بات یہ ھے کہ کیا واقعی پیدائشی مسلمان سارے توحید پر قائم ھیں،،یا عصمت لٹا چکے ھیں،،اور تڑوا کے کھا بیٹھے ھیں ؟ دوسری بات یہ کہ اللہ پاک نے قرانِ حکیم میں دو جگہ یہ ھی مسئلہ اٹھایا ھے کہ میں نے یہ عہدِ الست تم سے اس لئے لیا ھے ،اور اسے تمہاری فطرت و ضمیر میں امانت کے طور پر رکھ چھوڑا ھے کہ تم کل کلاں یہ نہ کہو کہ ھم تو اس توحید روبیت سے غافلل تھے یا یہ کہو کہ ھم تو پیدا ھی مشرکوں کے گھر ھوئے تھے اور باپ دادا کو شرک کرتے پا کر شرک اختیار کیا ،، کیا تو ھمیں دوسروں کے کیئے پر پکڑے گا،،ان تقولوا انا کنا عن ھٰذا غافلین او تقولوا انما اشرک آبائنا من قبل و کنا ذریۃً من بعدھم ،افتھلکنا بما فعل المبطلون ( الاعراف 172،173 ) اب وعدہ کیا کہ ایک طرف تمہیں تمہارا ضمیر اور فطرت ھدایت اور میری تلاش کے لئے اکسائے گئے ،، دوسری جانب وعدہ کیا کہ تم جب میری تلاش میں نکلو گے تو یقیناً میں تمہارا ھاتھ پکڑوں گا یوں ڈیمانڈ اور سپلائی کا نظام قیامت تک برقرار رھے گا،، والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا و ان اللہ لمع المحسنین (العنکبوت 69 ) ادھر امت کو یہ ھدایت دی گئ کہ تم دوسرے لوگوں تک ھدایت پہنچانے کی ذمہ داری سے سرفراز کئے گئے ھولہذا تم میں سے کچھ لوگ اس کام کے لئے مستعد رھیں کہ کوئی خیر سے خالی ھاتھ نہ جائے ،،ولتکن منکم امۃۤ یدعون الی الخیر و یامرون بالمعروف و ینہون عن المنکر و اولئک ھم المفلحون( آلعمران 104) ،کنتم خیر امۃ اخرجت للناس ، تامرون بالمعروف و تنھون عن المنکر و تومنون باللہ ،، ( آل عمران 110 ) اب اگر آپ ٹینشن فری ماحول چاھتے ھیں جس میں آپ کے ضمیر پر کوئی بوجھ نہ ھو ،، اور غیر مسلم سارے جنت میں چلے جائیں کیونکہ اتمام حجت کے بغیر تو ان کو سزا نہیں دی جا سکتی ،،تو پھر قرآن کو صرف نبوی دور کی روزمرہ کی سرگرمیوں کی روداد سمجھ لیں،، جسے سرگزشتِ انذار کہا جاتا ھے ،،کہ یہ تو ایک ارکائیو ھے جس میں اس زمانے کی activities کو اللہ کے الفاظ میں قلمبند کیا گیا ھے اور بس ،، یہ کنتم خیر امۃ بھی صرف صحابہ ھی تھے، ولتکن منکم امۃ کا حکم بھی ان کو تھا،، پردے کا حکم نبی کی بیویوں سے شروع ھو کر ان پر ھی ختم ھو گیا تھا اور دعوت و تبلیغ کا کام بھی ابوبکرؓ و عمرؓ سے شروع ھو کر ان پر ھی ختم ھو گیا تھا،، آپ یہ سرگزشتِ انذار قدرت اللہ شہاب کے شہاب نامے کی طرح پڑھئے اور بند کرنے سے پہلے نشانی رکھنا مت بھولئے گا ! ( معاذ اللہ ) اللہ کی کتاب کو محفوظ رکھنے کا مقصد ھی اتمام حجت تھا ،جب اس کتاب کو اس ذمہ داری سے ھی سبکدوش کر دیا گیا تو اب یہ ھدی للناس نہ رھی،، بلکہ صرف مسلمانوں کی ایک رسمی کتاب رہ گئ،جیسے دیگر مذاھب کے پاس ان کی رسمی کتابیں ھیں ! اللہ اللہ خیر صلا ایک منطقی سوال کیا جاتا ھے کہ جو مذھب باپ کا ھو گا وہ بیٹے کا ھونا ایک فطری بات ھے ! مگر یہ ایک بودا سوال ھے ! جو پیشہ باپ کا ھے وہ بیٹے کا کیوں نہیں ھے ؟ باپ گاؤں میں تیل بیلتا تھا اور بیٹا نہ صرف ایم بی بی ایس ڈاکٹر ھے بلکہ سیدپور روڈ پر بہت بڑا کلینک بنائے بیٹھا ھے،،جو عقل پیشے کی اچھائی اور برائی تک رسائی رکھتی ھے وہ دین کی اچھائی اور برائی کو محسوس کیوں نہیں کر سکتی ؟؟ اب اللہ کی کتاب کا مقصد دیکھئے کہ اس کی موجودگی کے بغیر نبی ھوتے ھوئے بھی گویا کہ نہیں تھے ! نبی ﷺ کے ایمان اور قیامت تک آنے والے انسانوں کے ایمان کا منبع قرآن ھے،، نبی ﷺ کو باقاعدہ مخاطب بنا کر فرمایا گیا،، ما کنت تدری ما الکتاب ولا الایمانُ ولٰکن جعلناہ نوراً نھدی بہ من نشاء من عبادنا ،و انک لتہدی الی صراطً مستقیم ( الشوری 52 ) اے نبی آپ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ھے اور ایمان کیا ھے ،،مگر ھم نے بنایا اس کتاب کو نور جس کے ذریعے ھم بندوں میں سے جس کو چاھتے ھیں ھدایت دیتے ھیں،، اور ( اسی کے ذریعے ) آپ یقیناً سیدھی راہ دکھاتے ھیں ! کتاب کے نزول کا سبب بیان کیا تو ارشاد فرمایا ” شہر رمضان الذی انزل فیہ القرآن ” ھدی للناسِ و بیناتٍ من الھدی والفرقان ! ( البقرہ 185 ) رمضان وہ مہینہ ھے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو ساری نوعِ انسانیت کے لئے ھدایت ھے اور ھدایت کے کھلے کھلے دلائل سے بھرا پڑا ھے اور حق و باطل میں فرق کرنے والا ھے ! اب دیکھ لیجئے یہ صرف بنی اسماعیل کی کتاب نہیں ،نہ صرف بنی اسماعیل ھی اس کے مخاطب ھیں،، بلکہ یہ رھتی دنیا تک کے ھر آنے والے انسان کے لئے ھدایت کا سر چشمہ ھے اور ھدایت کے رستے کے ھر سوال کا جواب دیتا ھے اور الفرقان ھے،، قیامت تک اس کی موجودگی میں حق و باطل گڈ مڈ نہیں ھو سکتے ،، اگر کوئی جان بوجھ کر اندھا پن اختیار کرے تو وہ نبی ﷺ کی عدم موجودگی کو اپنی گمراھی کا جواز نہیں بنا سکتا ،، جبکہ یہ کسوٹی اور فرقان موجود ھے ! قد جاء کم بصائر من ربکم فمن ابصر فلنفسہ و من عمی فعلیہا ،،( الانعام 104 ) اے نبی فرما دیجئے کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے چشم کشا حقائق آ چکے ،، تو جو بصیرت اور بصارت سے کام لے گا تو وہ اپنی جان کا بھلا کرے گا اور جو اندھا پن اور دیکھا ان دیکھا کرے گا وہ اس کا وبال بھی اپنے سر لے گا ،اور میں تم پر داروغہ نہیں ھوں ! قل یا ایہاالناس قد جاء کم الحق من ربکم ،، فمن اھتدی فانما یھتدی لنفسہ، ومن ضل فانما یضل علیہا وما انا علیکم بوکیل ( یونس 108 ) اے نبی کہہ دیجئے ” اے لوگو ! تمہارے رب کی طرف سے تم تک حق پہنچ گیا ( یعنی قرآن ) تو جو ھدایت پائے گا تو در حقیقت اپنی ذات کے نفعے کو ھدایت پائے گا،، اور جو گمراھی کو اختیار کرے گا تو اپنی جان پر وبال
اٹھانے کو گمراہ ھو گا ، اور میں تمہارا ذمہ دار نہیں ھوں ! ان تمام آیات میں اولین مخاطب بنی اسماعیل ھونے کے باوجود انہیں یا بنی اسماعیل کی بجائے یا ایہاالناس سے خطاب کرنا ھی ثابت کرتا ھے کہ اس کا خطاب پوری نوع انسانیت ھے ، اور وہ یہی بات پوری انسانیت سے کہنا چاھتا ھے جو بنو اسماعیل سے کہہ رھا ھے اور وھی تقاضہ پوری انسانیت سے کرنا چاھتا ھے جو بنی اسماعیل سے کر رھا ھے ،، پھر اس کتاب کے تراجم اللہ کی توفیق اور حکمت کے ساتھ دنیا کی ھر زبان میں دستیاب ھیں ،، اب کسی کے پاس اللہ کے خلاف کوئی حجت باقی نہیں،، دنیا میں ھر نسل کا شخص مسلمان ھے اور ان میں اسی نسل کا مولوی موجود ھے جو اللہ کی یہ سنت پوری کر رھا ھے کہ ،، و ان من امۃٍ الا خلا فیہا نذیر ،،کوئی قوم ایسی نہیں گزری جس میں خبردار کرنے والا نہ گزرا ھو ،، اور بلسان قومہ ،، اسی قوم کی زبان میں سمجھانے والا بھیجا گیا ! فاین تذھبون ؟ اگر الفرقان حق و باطل میں فرق نہیں کر پا رھا ،، شرک اور توحید کو الگ الگ بیان نہیں کر پا رھا تو پھر اس کو الفرقان کہنے کا مقصد کیا تھا اور اس کی حفاظت کا جوکھم ھی کیوں پالا گیا