سنت کا سفـــر !
الحمد للہ و کفی والصلوۃُ والسلام علی اشرف الانبیاء محمد المصطفی و علی آلہ و صحبہ و من والاہ
اما بعد !
اللہ کا شکر و احسان ھے کہ اس نے مجھے چھوٹی سی عمر میں ھی اپنے گھر کی راہ سجھائی، دین کے علم کی لو لگائی،اور اس سلسلے میں کسی بھی قسم کے تعصب سے مجھے قطعاً دور رکھا،، یہ اس کا خاص الخاص کرم تھا کہ میں نے چھ فقہوں کا انتہائی باریک بینی سے بلا تعصب مطالعہ کیا ،کچھ میں تخصص کیا ! میں نے فقہ حنفی ،مالکی ، شافعی اور حنبلی کو دیکھا تو فقہ جعفریہ کا دقیق مطالعہ کیا، اس کے مصادر کو دیکھا ،،خوارج کا بچا کچھا قبیلہ اباضیہ جو زنجبار اور سلطنت عمان میں پایا جاتا ھے، عمان کے حکمران سمیت ایک عظیم اکثریت اباضی فرقے سے تعلق رکھتی ھے،میں نے 1979 سے لے کر 1985 تک ان کی مسجد میں امامت اور خطابت کی، اس دوران ان کی فقہ کی عربی کتب کو دیکھنے کا موقع ملا اور ان سے تفصیلی بات چیت ھوئی ! مجھے ابوظہبی کی مرکزی فتوی کمیٹی ( اللجنۃ المرکزیہ للفتوی ) کے لئے بھی منتخب کیا گیا مگر میں نے بعض ناگزیر وجوھات کی بنیاد پر اسے جائن نہیں کیا ! یہ سب بیان کرنے کا مقصد یہ ھے کہ میرا تعلق ھر فقہ کے علماء سے رھا اور یہ تعلق تعصب سے بالاتر اللہ کے دین کی نسبت سے رھا ! اب بھی جب میں دیکھتا ھوں کہ کسی مکتبہ فکر کے ساتھ زیادتی کی جارھی ھے تو مجھے اس کے حق میں بولنے سے کسی دوسری فقہ کا تعصب نہیں روکتا ۔ یہی وجہ ھے کہ میرے دوست چاھتے ھیں کہ میں کسی نہ کسی فقہ کی نمبر پلیٹ ضرور لگاؤں تا کہ انہیں مجھ سے معاملہ کرنے میں آسانی رھے،مگر میں ان تمام فقہوں کو دین کی مختلف تعبیریں ھی سمجھتا ھوں !
اب آیئے اصل موضوع کی طرف کہ کتاب و سنت جو ھمیں عطا کی گئیں اور داڑھوں سے پکڑنے کا حکم دیا گیا اس کا روٹ کیا طے کیا گیا ؟ اس کا روٹ پرمٹ نبی کریم ﷺ کے خلفاء کے نام بنایا گیا ھے ،دین ان کے رستے ھمیں ملا ھے، انہوں نے اپنے اقدامات کے ذریعے جو کیا وہ سب کتاب و سنت ھے ان کا ان خلفاء کے ھاتھوں سر انجام پا جانا ھی اسے سنت بنا دیتا ھے، اس میں ان کو نہ کوئی حدیث کوٹ کرنے کی ضرورت تھی اور نہ ھی انہوں نے کی !
دین ایمان و عمل ھے یا علم و عمل ھے، علم کا نتیجہ ایمان ھے اس لئے علم والا ایمان فرض کیا گیا ھے ،جبکہ ایمان کا حتمی نتیجہ عمل ھے ! عمل کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھ کر کرنے کا ایک فطری طریقہ بتایا ھے جو قیامت تک کے لئے واحد غیر متنازعہ طریقہ ھے ،، نبی کریم ﷺ کو دیکھ کر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جو اپنایا اس کو دیکھ کر ان کی اولاد نے اپنا اور ان کو دیکھ کر ان کی اوالد نے،یوں آج تک بچے والد کو ھی دیکھ کر پہلے پہل نماز پڑھتے ھیں نہ کہ بخاری شریف پڑھ کر ! اور قیامت تک اسی طرح ھوتا رھے گا، اس دیکھنے اور کرنے میں ایک دن کا بھی ناغہ نہیں ھوا اس لئے سنت کے کھو جانے کا کوئی امکان نہیں ھے ،اسی رستے سے قرآن نے سفر کیا ھے اور قرآن کے شانہ بشانہ سنت نے بھی سفر کیا ھے ! نہ تو قرآن کو اپنی قرانیت کے لئے کسی گواہ کی ضرورت ھے اور نہ سنت کو کسی سہارے کی ،اس کو ھر پیدا ھونے والا مسلمان بچہ وھیں سے لیتا ھے جہاں سے اس کے باپ نے لیا تھا ! یہ طریقہ صرف اسلام کی عبادات کے ساتھ نہیں بلکہ سابقہ امتوں کے ساتھ بھی اسی طریقے سے عبادات کی سنن نے باپ سے بیٹے کے رستے سفر کیا ھے اور ھزاروں سال اس میں رائی کے دانے کے برابر فرق نہیں آیا نہ آ سکتا تھا اور نہ آ سکتا ھے ! عیسی علیہ السلام نے بھی یہود کے کردار ر تنقید کی ھےمگر عبادات و مناسک پر اعتراض نہیں کا ایک حرف نہیں کہا، خود قرآن حکیم نے ںبی ﷺ کو خطاب کر کے نشاندھی فرمائی ھے کہ ان کے مناسکِ عبادت عین ھمارے حکم کے مطابق ھیں جن کو وہ سر انجام دیتے چلے جا رھے ھیں، آپ ان پر کوئی اعتراض و تنازعہ مت کھڑا کیجئے گا بلکہ انہیں اپنے رب کی طرف دعوت دیں ( الحج ) البتہ دین کو دوسرا جزء علم چونکہ خبر ھے اور خبر کے راویوں میں جھوٹ اور کـُوڑ کتاڑ شامل ھو جاتا ھے لہذا امتوں میں زوال علم یعنی ان کے ایمان میں آتا رھا ھے اور نبی ایمان درست کرنے اور لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے آتے ھیں،، پھر اس کے بعد حالات کے مطابق پہلی سنتوں میں ترمیم کرتے ھیں ،، عبادات کا صیغہ اسلام سے پہلے ڈھائی ھزار سال سے ایک ھی تھا، اس پیکج میں ایک ذرا نہ کمی کی گئ اور نہ زیادتی، وھی شہادتین، پھر نماز ،پھر زکوۃ اور حج ،، عبادات اپنے تسلسل یا چین کی وجہ سے ھزاروں سال محفوظ رھیں ،وہ اسلام میں کس طرح ایک صدی میں ھی کھو گئیں؟ لوگ سوال کرتے ھیں کہ پھر ھمیں سنت کا پتہ کیسے چلے گا؟ سنت کا پتہ ویسے ھی چلے گا جیسے صحاح ستہ کی تصنیف سے پہلے چلتا تھا ! امام بخاری اور ان کی والدہ نے کیا نماز بخاری شریف کے بعد بخاری کو پڑھ کر شروع کی تھی یا پہلے سے نماز پڑھتے تھے؟ وہ بغیر سنت کے نماز تھی؟ احادیث کا زیادہ سے زیادہ فائدہ یہ ھے کہ نبی کریمﷺ نے کبھی یوں بھی نماز پڑھی تھی ! مگر جب اس کو یوں بنا لیا گیا کہ نبیﷺ نے” یوں ھی ” نماز پڑھی تھی تو پھر مساجد میں فساد شروع ھوا ! اس کے علاوہ احادیث سے اذکار کا ایک عظیم خزانہ ھاتھ لگتا ھے ! دعاؤں کا معلوم ھوتا ھے کہ نبی پاکﷺ نے کون کون سی دعائیں مانگیں تھیں ،، ان دعاؤں کی تاثیر انسان کو رب
سے جوڑ دیتی ھے ! اب رھا معاملہ عقائد کا تو وہ قرآن کی صورت میں ھمارے پاس محفوظ ھیں اور محفوظ رھیں گے،، اس کا وعدہ اللہ پاک نے فرمایا ھے ! بہت ساری احادیث نے خود عقائد پر سوالیہ نشان کھڑے کئے ھیں! بخاری نے ” اصیحابی” اصیحابی” کا نام لے کر ” ارتدوا” کی خبر دی ھے، کہ یہ تو میرے اصحابی ھیں ،،میرے اصحابی ھیں انہیں کیوں حوضِ کوثر سے پیچھے دھکیل رھے ھو ،،جواب ملے گا آپﷺ نہیں جانتے انہوں نے اپ کے پیچھے کیا کیا نئے کام کئے ھیں،، ارتدوا بعدک ،یہ آپ کے بعد مرتد ھو گئے تھے !! میں اپنے علماء سے پوچھتا ھوں کہ جس طرح پولیس نے جب زیادہ بندے پکڑنے ھوں تو نامعلوم کے خلاف ایف آئ آر کاٹی جاتی ھے تا کہ وہ جسے چاھے وقت آنے پر ضمنیوں میں شاملِ چالان کر لے ! اسی طرح اس حدیث میں صرف اصحاب کا ذکر کر کے ان کو مرتد قرار دے کر آنے والوں کے لئے راہ نہیں کھولی گئ کہ وہ ابوبکرؓ عمرؓ عثماؓن کو اس میں ڈال لیں ؟
ھمارے علماء بجائے مسائل کا سامنا کرنے کے انہیں کارپِٹ کے نیچے چھپانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ھیں !
االغرض اس مضمون میں ان باتوں کا احاطہ کیا گیا ھے !
1- 1-سنت کا ماخذ دیکھ کر عمل کو نقل کرنا ھے
2- 2- یہ دیکھنا باپ کا بیٹے کو دیکھ کر نقل کرنے کی طرح کا ھے
3- 3-اسی عملِ نقل کے ذریعے سنت نبیﷺ سے اس دم تک چلتی چلی آ رھی ھے
4- 4-صحاح ستہ کے علاوہ دیگر کتب حدیث بھی ایک رکعت نماز پر امت کو مجتمع نہیں کر سکیں مگر پھر بھی نشانِ حیدر گلے میں لٹکائے پھرتے ھیں کہ سنت کا ماخذ کتب حدیث ھیں !
5- 5- کتب حدیث میں سب سے قوی کتاب بخاری شریف میں ھی صحابہ کو ” ما احدثوا بعدک اور ارتدوا بعدک کے واضح الفاظ کے ساتھ مرتد قرار دیا گیا ھے ! اور علماء منہ میں گھنگنیاں ڈالے بیٹھے ھیں! شیعہ کو کافر کہتے ھیں مگر اپنی چارپائی کے نیچے سوٹا پھیرنے کو تیار نہیں !
6- 6- بخاری شریف میں ھی سورہ الفرقان میں دو قریشی صحابہ عمر ابن الخطاب اور ھشام کے درمیان جس اختلاف کی خبر دی گئ وہ لہجے اور تلفظ کا فرق نہیں تھا،، حضورﷺ نے فرقان کے نام پر دونوں اصحاب کو الگ الگ آیتیں پڑھا دی تھیں ! جس کی وجہ سے عمر کے دل میں کفر پیدا ھو گیا !! جسے نبیﷺ نے ھاتھ مار کر ھٹایا ،، وہ آیتیں ھمارے علماء کو آج تک نہیں ملیں ! جو تضاد عمرؓ کو کافر کر سکتاھے وہ آج کے نوجوان کو ملحد کیوں نہیں کرے گا ؟
7- 7- ایسا ھی واقعہ ابئ ابن کعب کے بارے میں بیان کیا گیا جس میں ابئ ابن کعبؓ فرماتے ھیں کہ میرے دل میں وہ کفر پیدا ھوا جو زمانہ کفر میں بھی نہیں تھا !! یہ کیا تماشہ ھے؟ جو قرآن کے امام ھیں انہی کو کفر سے دوچار کیا جا رھا ھے،یہ کوئی معمولی اختلاف نہیں ھو سکتا؟
8- 8- شیعہ نہیں کہتا کہ قرآن میں کمی بیشی کی گئ ھے، ابنِ کثیر نے سورہ الاحزاب کی تفسیر میں ابوموسی الاشعری سے روایت کیا ھے کہ کسی زمانے میں یہ سورہ الاحزاب سورہ البقرہ کے برابر ھوا کرتی تھی (286 آیتیں ) مگر اب وہ تمہارے سامنے ھے جتنی کہ تم پڑھتے ھو (73 آیتیں ) ھمارے اھل حدیث دوستوں کو چاھئے کہ باقی 213 آیتیں ڈھونڈ دیں ،،
9- الغرض فتنے کا ھر بیج ان کتابوں میں موجود ھے اور ھر فرقے کو مواد ان میں سے ملتا ھے !
10-انہوں نے امت کو مجتمع نہیں کیا بلکہ ایک مجتمع امت کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا ھے