لاھور کی تلاش

  مکــتــــبِ عشـــــــــــــــق کا دستــــــــــور نـرالا دیکھا ! اُس کو چھــــــــــــٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا !   ھم جو اپنے ناتوں کندھوں پر پورے خاندان اور ان کے جانوروں کے مذھبی اور جنسی بوجھ اٹھائے ھوئے تھے ،، اپنی ان ھی گوناگوں ذمہ داریوں کی وجہ سے سیر سپاٹے سے محروم رھے،جب … Read more

علم کی تقسیم اور اس کی تباہ کاریاں

اللہ پاک نے جب انسان کو پیدا فرمانے کا اعلان فرمایا تو فرشتوں نے عرض کیا کہ مالک کیا ھم سے عبادت میں کوئی کوتاھی ھو گئ  جو نئی تخلیق کی ضرورت پڑی ،ھم صبح شام آپکی تسبیح و تحمید کر تو رھے ھیں، ارشاد باری تعالی ھوا کہ میں وہ جانتا ھوں جو تم … Read more

غریب کی جورو سب کی بھابھی

مولوی یا غریب کی جورو November 29, 2013 at 10:14pm کچھ لوگ مسلمان ھوتے ھیں مگر مسلمان ھو کر مولوی پر احسان کرتے ھیں،، وہ چاھتے ھیں کہ مولوی ان کو مسلمان رکھنے کے لئے،ھمیشہ دوڑ دھوپ کرتا رھے،اور ان کی مسلمانی کی قوتِ باہ کو بڑھانے کے لئے سانڈھے کا تیل اور سلاجیت بھی … Read more

بخاری شریف اور موسی علیہ السلام کے کپڑے !

بخاری شریف اور موسی علیہ السلام کے کپڑے !

November 27, 2013 at 8:37pm
مفتی صاحب ! بخاری کی کمزوری کا رونا تو کوئی نہیں رو رھا،،بخاری کی اس قوت کا رونا ھے جس نے قرآن کو بھی دبا لیا ھے،بلکہ جان نکال کر رکھ دی ھے،، اسے مشکوک بنا کر رکھ دیا ھے،، ھم بخاری کا نہیں ھم تو قرآن کا مرثیہ لکھ رھے ھیں،،، کتاب اللہ وراء ظہورھم کأنھم لا یعلمون،، اگر اللہ نے اس کی حفاظت کا ذمہ نہ لیا ھوتا تو یہ علماء یہود کے علماء کی طرح کب کا اسے فارغ کر چکے ھوتے،، میں ھمیشہ یہ کہتا ھوں،جس حدیث پر حدیث سنانے والا عمل نہ کر سکے اس کے پیچھے مقدس راویوں کی کتنی بھی بڑی اور طاقتور فوج کیوں نہ ھو،، وہ حدیث سنانے والا منافقت کر رھا ھے ،اپنی ذات کے ساتھ بھی اور حدیث کے ساتھ بھی،، کسی گناھگار سے بھی یہ توقع نہیں رکھی جا سکتی کہ اسے کوئی ھرنیا کا طعنہ دے اور وہ شلوار اتار کر اپنی صفائی پیش کر دے،،پھر شرم آنی چاھئے ان لوگوں کو جو اللہ پر الزام رکھتے ھیں کہ جب موسی کو الگ تھلگ نہاتے دیکھ کر ان کی قوم نے کہا کہ ان میں کوئی جنسی عیب ھے جس کی وجہ سے وہ ھمارے ساتھ کپڑے اتار کر نہیں نہاتے تو،اللہ پاک نے اپنے اولوالعزم رسول کو حیاء کی سزا میں مجمعے کے سامنے مادرزاد ننگا کر دیا تا کہ وہ ان کے جنسی اعضاء اچھی طرح دیکھ لیں،، بلکہ ایک صاحب سے میں نے جب یہ تقاضا کیا کہ میں ان پر وھی الزام لگاتا ھوں جو قوم نے موسی علیہ السلام پر لگایا تھا،تو کیا وہ اپنی شلوار ابھی اتار کر دکھائیں گے؟ تو بولے وہ تو رسول اور اسوہ تھے،،اس لیئے ان کے کپڑے اتارے گئے،میں نے کہا کیا جنسی اعضاء مین اسوہ تھے؟؟ کوھستانی صاحب یہ ھی آپ لوگوں کی ھٹ دھرمی ھے جس کی وجہ سے لوگ ساری حدیثیں چھوڑ چھاڑ کر الگ ھو گئے ھیں،،لوگ دھریئے ھوتے نہیں،،ھم زبردستی ان کو بناتے ھیں،، ھم ان سے کہتے ھیں یا تو ساری بخاری مانو، یا ساری چھوڑ دو،، صرف 5 ،،10 حدیثوں کی خاطر اپ لوگوں نے ساری بخاری کو گندہ کر دیا ھے،، اور عمل بھی ان پر نہیں کرتے صرف درس و تدریس کے لئے رکھی ھوئی ھیں کیا بخاری ھی وہ کتاب ھے کہ جس کے بارے میں فرمایا گیا ھے” ذٰلک الکتابُ لا ریب فیہ؟ کیا بخاری کی کسی روایت کا انکار اسی طرح ھے جس طرح قرآن کی کسی آیت کا انکار پورے قرآن کا انکار ھے ؟؟؟ اس میں شک کوئی نہیں کہ مارکیٹ آپ کی ھے کیونکہ مسیت پاور ( مسجد منبر پاور ) آپ کے پاس ھے،،مگر یہی مارکیٹ کل آپ لوگوں کے گلے کا پھندہ بنے گی،،آج لوگ جس دور سے گزر رھے ھیں، آپ کو اس کا احساس نہیں،، شریعت لوگوں کو ھدایت دینے اور آگ سے بچانے آئی ھے،مگر ھم اسی کے ذریعے اندھا دھند انسانوں کو جہنم مین دھکیل رھے ھیں،، ھم لوگ کس کھیت کی مولی ھیں،، آپ لوگ تو حضرت عائشہؓ کو کوئی اھمیت نہیں دیتے،، ان کی رد کردہ حدیثوں پہ آپ فتوی دیتے ھیں ،،عورت کو آپ بھی کالے کتے اور گدھے کے برابر سمجھتے ھیں کیونکہ بخاری میں آیا ھے ،، پتہ نہیں بخاری سے پہلے جو مسلمان گزر گئے ھیں ان کا حشر کیا ھو گا؟ بخاری کے بغیر تو کوئی جنت میں نہیں جا سکتا،! آپ یہ بھی کہہ سکتے ھیں بلکہ کہتے نہیں فرماتے ھیں کہ ھمیں یہ بحث فیس بک پر نہیں کرنی چاھئے،، ھمیں طے کردہ اصولوں،جرح و تعدیل کے مسلمہ قاعدوں پر اس حدیث کو رکھ کر کھرے کھوٹے کا فیصلہ کرنا چاھئے ! پہلی بات اس لیئے غلط ھے کہ الحاد کی وبا جہاں ھے اسی فورم پر اس کی بحث ھو نی چاھئے،، آج ھوم ڈیلیوری کا زمانہ ھے،،پیزا سے لے کر بلیو پرنٹ سی ڈی تک سب گھر جا کر سپلائ کیا جاتا ھے،، مدرسے کون آئے گا حضرت ؟ مدرسے والے اکیلے ھی دوڑ کر پہلے نمبر پر آ رھے ھیں،، فیس بک پہ سامنا کرنے سے ھم سب کتراتے ھیں،، اور رپورٹ کر کے پیج بلاک کر دینے کو فتح مکہ سمجھتے ھیں مگر وھی پیج دوسرے دن دوسرے نام سے کام کر رھا ھوتا ھے،، رہ گئ جرح و تعدیل کے قواعد تو باقی سب پہ تو عمل ھو ھی جاتا ھے ،مگر قرآن پر پیش کرنے والا اصول امام مہدی کی طرح غار میں چلا گیا ھے،، حضرت عائشہؓ نے جن احادیث کو قرآن پر پیش کر کے رد کیا،،ھم نے راویوں کی قوت کے بل پر انہں بھی قبول کر لیا،، میں اسے جرح و تعدیل کے مسلمہ اصولوں میں سے پہلے اصول پر کہ کتاب اللہ کے خلاف کوئی روایت قبول نہیں کی جائے گی چاھے اس کی سند سورج کی طرح روشن ھو،، کے مطابق اللہ پر بہتان اور موسی علیہ السلام کی ذات پر تبرہ سمجھتا ھوں کہ جنہیں غصے میں اتنا خیال بھی نہیں رھتا کہ وہ مادر زاد ننگے ھیں اور عصا لے کر پتھر کو مارتے جاتے ھیں،،حالانکہ وہ اللہ کے رسول تھے اور پتھر کی اس حرکت سے رب کا منشا پا سکتے تھے،، پھر جس رسول کے بیوی بچے تھے اس پر کوئی شک کیسے کر سکتا تھا؟؟ اور کیا قرآان کی جس آیت کی تفسیر میں اسے بیان کیا جاتا ھے،، یاایہالذین امنوا لا تکونوا کالذین آذوا موسی ،فبرأہ اللہ مما قالوا و کان عنداللہ وجہیاً ( الاحزاب69 ) اے ایمان والو ! ان کی طرح مت ھو جاؤ جنہوں نے موسی کو اذیت دی تو اللہ نے اسے بری کر دکھایا اور وہ اللہ کے نزدیک بڑی وجاھت والا تھا !! کیا ان کی وجاھت جنسی اعضاء کی وجہ سے تھی یا کردار کی وجہ سے تھی ؟ کیا نبیﷺ کے کردار پر انگلیاں اٹھائی جا رھی تھیں حضرت زینب کو لے کر یا نبیﷺ کے جنسی اعضاء پر ؟؟؟؟ یہاں جنسی اعضاء کا تقابل اذیت کے کن معنوں میں استعمال فرمایا جا رھا ھے،،جب مثال دی جاتی ھے تو کوئی مماثلت ھوتی ھے جس کی وجہ سے دی جارھی ھے،، قارون نے ایک عورت کو پیسے دے کر موسی علیہ السلام پر الزام لگانے کو تیار کر لیا تھا،مگر جب وہ عورت الزام لگانے کھڑی ھوئی تو اللہ نے اس کی زبان سے ھی حقیقت بیان کروا دی،،یہ تو اللہ کا کارنامہ ھوا جس کا اللہ پاک ذکر بڑے فخر سے فرما رھے ھیں،، اور چونکہ اسی قسم کے الزام نبیﷺ کی ذات پر بھی لگائے جا رھے تھے کہ
انہوں نے زینب بنت جحشؓ زوجہ زید بن حارثہ کو نہاتے ھوئے دیکھا تو وہ ان کے دل میں اتر گئیں اور دوسری جانب زید کے دل سے اتر گئیں،، ان بکواسات کے بارے میں مومنوں کا خبردار کر کے کہا جا رھا ھے کہ ھر اولی العزم رسول پر یہ وار ھوا ھے،،تم اپنی زبانیں اس سے آلودہ نہ کرو ،،بلکہ ان اللہ و ملائکتہ یصلون علی النبی،، یا ایہاالذین امنوآ صلو علیہ و سلموا تسلیماً،، اب آیئے قران کہتا ھے کہ کپڑے شیطان اترواتا ھے اللہ ایسا بے حیائی کا کام نہیں کرتا،، سورہ الاعراف کی آیت 22 میں آدم علیہ السلام اور اماں حوا کے کپڑے اترنے اور پھر ان کی حیاء کی ادا کا ذکر کیا کہ وہ درخت کے پتوں سے اپنے کو ڈھانکنے لگ گئے،، آگے اس واقعے کو بنیاد بنا کر آیت 25 سے لباس کو موضوع بنایا ھے اور فرمایا ھے کہ اے اولادِ آدم ھم نے لباس ان مقاصد کے لئے نازل کیا ھے،اور اس لباس کی یہ یہ خصوصیات ھونی چاھیں،، اگلی آیت نمبر 26 میں فرمایا ،،اے اولادِ آدم شیطان کہیں تمہیں فتنے میں مبتلا کر کے تمہارے کپڑے اسے طرح نہ اتروا دے جس طرح تمہارے ماں باپ کے کپڑے اتروا کر انہیں جنت سے نکلوا چکا ھے،، پھر اگلی آیت میں معاملے کو ختم کیا کہ یہ لوگ ایسا ظلم کر کے جواز پیش کرتے ھیں کہ اللہ نے ھمیں حکم دیا ھے ” بخاری کے اصول سے زیادہ مسلمہ اصول دیا ” قل ان اللہ لا یامر بالفحشاء” آپ کہہ دیجئے اللہ بے حیائ کا حکم نہیں دیتا ! تو جناب،،جو اللہ لباس اتروانے کو شیطان کی طرف منسوب کرتا ھے آپ اس اللہ کو حدیث پیش کر کے یہ کہنا چاھتے ھیں کہ ” معاف کیجئے گا ھمارے ثقہ راویوں کے مطابق آپ خود بھی یہ کارنامہ موسی علیہ السلام کے ساتھ انجام دے چکے ھیں !!
ذرا پوری حدیث پڑھ لیجئے تا کہ آپ کا ایمان تازہ ھو جائے
Bazm e Raza Sheikhupura shared a status. October 27دوڑنے والا پتھر
یہ ایک ہاتھ لمبا ایک ہاتھ چوڑا چوکور پتھر تھا، جو ہمیشہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جھولے میں رہتا تھا۔ اس مبارک پتھر کے ذریعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دو معجزات کا ظہور ہوا۔ جن کا تذکرہ قرآن مجید میں بھی ہوا ہے۔ پہلامعجزہ:۔اس پتھر کا پہلا عجیب کارنامہ جو درحقیقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ تھا وہ اس پتھر کی دانشمندانہ لمبی دوڑ ہے اور یہی معجزہ اس پتھر کے ملنے کی تاریخ ہے۔ اس کا مفصل واقعہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل کا یہ عام دستور تھا کہ وہ بالکل ننگے بدن ہو کر مجمع عام میں غسل کیا کرتے تھے۔ مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام گو کہ اسی قوم کے ایک فرد تھے اور اسی ماحول میں پلے بڑھے تھے، لیکن خداوند قدوس نے اُن کو نبوت و رسالت کی عظمتوں سے سرفراز فرمایا تھا۔ اس لئے آپ کی عصمتِ نبوت بھلا اس حیا سوز بے غیرتی کو کب گوارا کرسکتی تھی۔ آپ بنی اسرائیل کی اس بے حیائی سے سخت نالاں اور انتہائی بیزار تھے اس لئے آپ ہمیشہ یا تو تنہائی میں یا تہبند پہن کر غسل فرمایا کرتے تھے۔ بنی اسرائیل نے جب یہ دیکھا کہ آپ کبھی بھی ننگے ہو کر غسل نہیں فرماتے تو ظالموں نے آپ پر بہتان لگا دیا کہ آپ کے بدن کے اندرونی حصہ میں یا تو برص کا سفید داغ یا کوئی ایسا عیب ضرور ہے کہ جس کو چھپانے کے لئے یہ کبھی برہنہ نہیں ہوتے اور ظالموں نے اس تہمت کا اس قدر اعلان اور چرچا کیا کہ ہر کوچہ و بازار میں اس کا پروپیگنڈہ پھیل گیا۔ اس مکروہ تہمت کی شورِش کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قلب نازک پر بڑا صدمہ و رنج گزرا اور آپ بڑی کوفت اور اذیت میں پڑ گئے۔ تو خداوند قدوس اپنے مقدس کلیم کے رنج و غم کو بھلا کب گوارا فرماتا۔ اور اپنے ایک برگزیدہ رسول پر ایک عیب کی تہمت بھلا خالق عالم کو کب اور کیونکر اور کس طرح پسند ہو سکتی تھی۔ اَرحم الرَّاحمین نے آپ کی برأت اور بے عیبی ظاہر کردینے کا ایک ایسا ذریعہ پیدا فرما دیا کہ دم زدن میں بنی اسرائیل کے پروپیگنڈوں اور اُن کے شکوک و شبہات کے بادل چھٹ گئے اور آپ کی برأت اور بے عیبی کا سورج آفتاب عالمتاب سے زیادہ روشن و آشکارا ہو گیا۔ اور وہ یوں ہوا کہ ایک دن آپ پہاڑوں کے دامنوں میں چھپے ہوئے ایک چشمہ پر غسل کے لئے تشریف لے گئے اور یہ دیکھ کر کہ یہاں دور دور تک کسی انسان کا نام و نشان نہیں ہے، آپ اپنے تمام کپڑوں کو ایک پتھر پر رکھ کر اور بالکل برہنہ بدن ہو کر غسل فرمانے لگے، غسل کے بعد جب آپ لباس پہننے کے لئے پتھر کے پاس پہنچے تو کیا دیکھا کہ وہ پتھر آپ کے کپڑوں کو لئے ہوئے سرپٹ بھاگا چلا جا رہا ہے۔ یہ دیکھ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی اس پتھر کے پیچھے پیچھے دوڑنے لگے کہ ثوبی حجر، ثوبی حجر۔ یعنی اے پتھر!میرا کپڑا ۔ اے پتھر میرا کپڑا۔ مگر یہ پتھر برابر بھاگتار ہا۔ یہاں تک کہ شہر کی بڑی بڑی سڑکوں سے گزرتا ہوا گلی کوچوں میں پہنچ گیا۔ اور آپ بھی برہنہ بدن ہونے کی حالت میں برابر پتھر کو دوڑاتے چلے گئے ۔اس طرح بنی اسرائیل کے ہر چھوٹے بڑے نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ سر سے پاؤں تک آپ کے مقدس بدن میں کہیں بھی کوئی عیب نہیں ہے بلکہ آپ کے جسم اقدس کا ہر حصہ حسن و جمال میں اس قدر نقطہ کمال کو پہنچا ہوا ہے کہ عام انسانوں میں اس کی مثال تقریباً محال ہے۔ چنانچہ بنی اسرائیل کے ہر ہر فرد کی زبان پر یہی جملہ تھا کہ وَاللہِ مَابِمُوْسٰی مِنْ بَاس یعنی خدا کی قسم موسیٰ بالکل ہی بے عیب ہیں۔ جب یہ پتھر پوری طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کی برأت کا اعلان کرچکا تو خود بخود ٹھہر گیا۔ آپ نے جلدی سے اپنا لباس پہن لیا اور اس پتھر کو اٹھا کر اپنے جھولے میں رکھ لیا۔ (بخاری شریف، کتاب الانبیاء، باب ۳۰،ج۲، ص۴۴۲،رقم ۳۴۰۴ ،تفسیر الصاوی،ج۵،ص۱۶۵۹،پ۲۲،الاحزاب:۶۹ ) اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کا ذکر قرآن مجید میں اس طرح بیان فرمایا کہ:۔ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ اٰذَوْا مُوۡسٰی فَبَرَّاَہُ اللہُ مِمَّا قَالُوۡا ؕ وَکَانَ عِنۡدَ اللہِ وَجِیۡہًا ﴿69﴾ ترجمہ کنزالایمان:۔ اے ایمان والو اُن جیسے نہ ہونا جنہوں نے موسیٰ کو ستایا تو اللہ نے اسے بری فرما دیا اس بات سے جو اُنہوں نے کہی۔ اور موسیٰ اللہ کے یہاں آبرو والا ہے۔(پ22،الاحزاب:69)

چارپائی کا تعاقب

لیڈیز اینڈ جینٹلمین ! سلامتی ھو آپ سب پر اور مجھ پر بھی ! پچھلے دو چار دن سے کچھ ایسی کیفیت سے گزرا ھوں کہ سمجھانے میں کافی وقت لگ جائے گا،، ھمارے دیہات کی خواتین کوئی سال چھ ماہ بعد ھفتہ صفائی مناتی ھیں،، چارپائیاں بھی تالاب پر پہنچ جاتی ھیں، اور ان … Read more

فقیہوں کے دشمنوں کے لئے نبیﷺ کی نصیحت !

فقیہوں کے دشمنوں کے لئے نبیﷺ کی نصیحت !

August 21, 2013 at 7:03am

أخبرنا سفیان عن عبد الملك بن عمیر عن عبد الرحمٰن بن عبد الله بن مسعود عن أبیه أن النبي ﷺقال: «نضراللهعبدًاسمعمقالتی فحفظها ووعاها و أداها فرُبّ حامل فقه غیر فقیه و ربّ حامل فقه إلىٰ من هو أفقه منه    » ”اگر کوئی شخص خبر واحد کی حجیت پر نص یا اجماع سے دلیل طلب کرے تو میں اسے دلیل دیتے ہوئے کہوں گا کہ نبی ﷺنےفرمایاہے: ”اللہتعالیٰاسشخصکوخوشوخرّمرکھےجومیریکلام سن کر اسے حفظ کرتا ہے اور پھر یاد کی ہوئی میری حدیث کو لوگوں تک پہنچاتا  ہے اور بہت سے حامل  فقہ خود غیر فقیہ ہوتے ہیں اور بہت سے حامل فقہ ایسے لوگوں تک علم پہنچا دیتے ہیں جو اُن سے زیادہ فقیہ ہوتے ہیں

الحمد للہ وحدہ، والصلوۃُ والسلامُ علی من لا نبیَۜ بعدہ،امۜا بعد ! اللہ پاک نے سورہ توبہ میں جو کہ سب سے آخر میں نازل ھونے والی سورت ھے،اس سورت کے بھی آخر میں آیت نمبر 122 میں حکم دیا ھے کہ ” یہ تو ممکن نہیں کہ مومن سارے اس کام کو نکل پڑیں ( اگرچہ یہ سب کی ضرورت ھے ) مگر ھر قبیلے میں سے کچھ لوگ ضرور نکلیں جو کہ دین میں تفقہہ حاصل کر کے پلٹیں اور اپنی قوم کو انذار کریں تا کہ وہ خبردار ھوں !!،، یوں گویا پوری بستی کی یہ ذمہ داری ٹھہری کہ یا تو وہ سارے نکلیں اور دین کی فقہ حاصل کریں،، یا پھر وہ محاسبے سے تب ھی بچ سکتے ھیں کہ کچھ لوگوں کی معاشی ذمہ داری اٹھائیں جو ان کے behalf پر دین میں فقہ سیکھ کر آئیں اور یوں بستی والوں کی دینی ضرورت کو پورا کریں ! اتنی شد و مد کے ساتھ اور خدائی مشورے اور بندوبست کے ساتھ جس علم کو سیکھنے کی دعوت دی جا رھی ھے وہ فقہ ھے ” پوری آیت کچھ یوں ھے’ وما کان المؤمنون لینفروا کآفۃ ، فلو لا نفر من کل فرقۃ طآئفۃ ” لیتفقہوا ” فی الدین،ولینذروا قومھم اذا رجعوا الیھم لعلھم یحذرون ( توبہ 122 ) آج کل کے زمانے میں عام طور پر سمجھا جاتا ھے کہ پہلے قرآن، پھر حدیث، پھر فقہ،، یعنی اگر قرآن و حدیث نے جواب دے دیا ھے تو بامرِ مجبوری اب فقہ سے کام چلایا جائے گا،، فقہ کو لوگ مطعون کرتے ھیں اور فقیہہ کو مجرم گردانتے ھیں کہ اس نے قرآن اور حدیث کے خلاف مورچہ لگایا ھوا ھے،، اور آپشن پیش کرتے ھیں کہ، تم قرآن وسنت پر چلو گے یا فقہ پر چلو گے؟ تم قرآن کی مانتے ھو یا فقہ کی مانتے ھو،، یہ اور اس قسم کی دیگر باتیں ،کم فہمی اور کم علمی نیز کج فہمی اور ضد و عناد کے سبب سے ھیں،، ورنہ قرآن اور سنت مل کر دین بناتے ھیں اور یہ دونوں ڈیم فقہ کی نہر سے ھی امت مسلمہ کو مستفید کرتے ھیں،، فقہ وہ چادر ھے جس میں قرآن و سنت لپیٹے گئے ھیں،، اس لئے فقہ کو دین کے ساتھ بیان کیا جاتا ،،صرف قرآن کے ساتھ نہیں اور نہ صرف حدیث کے ساتھ،، یعنی تفقہ فی القرآن کا لفظ اللہ پاک نے استعمال نہیں فرمایا،، اور نہ تفقہ فی الحدیث کا لفظ استعمال فرمایا ھے بلکہ ” تفقہ فی الدین ” کا لفظ استعمال فرمایا ھے،، قرآن اور حدیث کے حکم کا مناط معلوم کرنا کہ قرآن کیا چاھتا ھے؟ پھر قرآن ھی سے اس کی تفصیل متعین کرنی، پھر حدیث سے تفصیلات متعین کرنا ،پھر اس حکم کا  طے کرنا کہ یہ اپنے الفاظ سے کس مقام پر رکھا جا سکتا ھے،، یہ فرض ھے،واجب ھے، اللہ پاک کی طرف سے صرف نصیحت ھے، اس کو آئیں و قانون کی زبان میں  کہتے ھیں جو ھر ملک کی عدلیہ کے ڈے ٹو ڈے کام کو چلاتا ھے،، لاء آف انٹرپریٹیشن کے بغیر کوئی عدالت ایک گھنٹہ بھی کام نہیں کر سکتی،، ! حکم شرعی عوام کے نزدیک تو کوئی آیت یا حدیث اور اس کے الفاظ ھوتے ھیں ،جن کو پڑھ کر ماشاء اللہ ایک دوسرے پر فتوے لگائے جاتے ھیں،مگر شریعت ( عربی میں کسی بھی لاء کالج میں داخلہ” دخول فی کلیۃ الشریعۃ ” گردانا جاتا ھے،، گویا مجرد قانون شریعہ ھے،، شریعت میں الفاظ نہیں بلکہ اس آیت یا اس حدیث سے اخذ ھونے والا حکم ،، حکم شرعی ھوتا ھے،،اب ایک آیت کے الفاظ سے ایک جج کے نزدیک ایک حکم نکل رھا ھے ،جبکہ دوسرے جج کے نزدیک وہ الفاظ کوئی اور حکم بیان کر رھے ھیں،، اس اختلاف کو فقہی اختلاف کہا جاتا ھے کہ الفاظ میں اختلاف نہیں، آیت میں اختلاف نہیں،، مگر اس پر اختلاف ھے کہ یہ حکم  فرض ھے یا آپشنل ھے،، اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما کو دعا دی تو فرمایا،،” اللھم فقہہ فی الدین، و علمہ التأویل،، آپ اندازہ لگائیں کہ اللہ جس فقہ فی الدین کو حاصل کرنا فرض قرار دیتا ھے،،اور نبیﷺ جس فقہ فی الدین کی دعا دیتا ھے،، وہ فقہ آج کل کے چند پرجوش نادانوں کے نزدیک شرک اور عیب بن گئی ھے ،، اللہ نے بھی فقہ کو دین سے جوڑا ھے،پورے دین کے ساتھ،، اور نبی ﷺ نے بھی فقہ کو پورے دین کے ساتھ بیان کیا ھے۔۔،، آخر کیا بات ھے کہ اللہ اور اس کا رسولﷺ بیک زبان پورے دین کو فقہ کا محتاج بیان کرتے ھیں،، ؟ کیا ان سے معاذ اللہ غلطی ھو گئی ھے یہ سمجھنے میں کہ فقہ تو قرآن و سنت کی دشمن ھے ؟ یا یہ لوگ جو صبح کتابیں بغل میں لے کر نکلتے ھیں فقہ دشمنی کی تبلیغ کرنے ان سے بات کو سمجھنے میں غلطی ھوئی ھے؟؟ اللہ پاک نے سورہ الانعام کی ایت نمبر 98 میں فرمایا،،تحقیق ھم نے بیان کر دی ھیں آیات علم والوں کے لئے ! اگلی ھی آیت نمبر 99 میں فرمایا ” تحقیق ھم نے بیان کر دی ھیں آیات فقہ یا تفقہ والوں کے لئے ‘ گویا دستیاب علم کو اس کی اھمیت کے لحاظ سے اس کے  میں رکھنے کا نام فقہ،، اس کو سادہ مثال سے سمجھنا ھے تو تین مثالوں سے سمجھ لیجئے ! ایک میسن کے پاس چند اینیٹیں ھوتی ھیں، سیمنٹ ھوتا ھے،ریت ھوتی ھے اور چند اوزار ھوتے ھیں،، جن سے وہ دیوار بناتا ھے،، اور آپ اس کے نخرے برداشت کر کے،اور چاپلوسی کر کے،مستری جی ،مستری جی، کر کے اور ساتھ دھاڑی دے کر دیوار بنواتے ھیِ، آپ وہ سارا سامان ،اینٹ،سیمنٹ،ریت ،تیسی ،کرنڈی اور فیتہ لے لیجئے اور خود سے دیوار بنا لیجئے آخر مستری کے پاس بھی تو دو ھاتھ ھی ھیں ناں،،وہ دو ھاتھ آپ بھی رکھتے ھیں،، اب کیجئے ان ھاتھوں کو استعمال اور کیجئے اس عقل کو استعمال جو سارا دن امام ابو حنیفہ کے پیچھے پڑی رھتی ھے اور بنایئے دیوار،، آپکی عقل مستری سے زیادہ تجربہ کار ھے،کیونکہ اس غریب نے تو ابھی لاھور بھی نہیں دیکھا،، آپ امریکہ اور برطانیہ سے ھو آئے ھیں،،پھر بھی وہ آپ پر آپ کی عقل سمیت غالب ھے اور آپ مغلوب ! آپ کو اندازہ ھوا ھے کہ آپ میں اور مستری میں فرق کہاں ھے،، فقہ اور تفقہ کا فرق ھے،، سارا سامان اور اوزار مہیا ھونے کے باوجود آپ بے بس ھیں،، اسے اینٹوں کو  سے رکھنے کا فن آتا ھے،، آپ اس سے تہی دست ھیں،، آیتیں اور حدیثیں ساری وھی ھوتی ھیں،،مگر جو بات مستری ابو حنفیہ جانتا ھے وہ آپ نہیں جانتے ،وہ ان آیات و احادیث کو  میں رکھنے کا فن جانتا ھے، اس کا نام فقہ ھے،، اسی سے آپ درزی کی مثال بھی سمجھ لیں،، اور موٹر مکینک کی بھی سمجھ لیں،، آپ کو سارے پرزوں کے نام آتے ھیں اپنے پیسے سے خرید کر لاتے ھیں،، آپ انگلش کے پروفیسر ھیں،، مگر بے بسی سے بار بار اس ان پڑھ کی منتیں کرتے ھیں کہ وہ جلدی کر دے،، آپ لیٹ ھو رھے ھیں،، وھی ھاتھ آپ کے پاس بھی ھیں،،کیوں اس کی منتیں کر کے اپنی انا کو مجروح کرتے ھیں،، لیٹیئے گاڑی کے نیچے اور لگا لیجئے پرزے،، مگر آپ کو صرف پرزے کا نام پتہ ھے،، پرزے کا کام اور  پتہ نہیں ھے،، تعجب کی بات نہیں کہ ایک ان پڑھ غریب مستری اور درزی ،مکینک کی محتاجی میں آپ کو شرم محسوس نہیں ھوتی ،، مگر جب کسی آیت یا حدیث کی تشریح میں ابی حنیفہؒ یا امام شافعیؒ کا نام آ جائے تو ناک پھول کر سموسے کی طرح کیوں ھو جاتی ھے ؟ اللہ پاک نے یہود کی بیماری بیان کی ھے سورہ حشر میں کہ یہ تفقہ سے خالی قوم ھے،،13 ،، منافقوں کو روش کو بیان کیا تو فرمایا کہ یہ لوگ ایمان پا کے اسے گنوا بیٹھے کیونکہ یہ فقہ سے عاری قوم ھے -3 ،، پھر اسی سورہ المنافقون میں ایت 7 میں فرمایا،،زمین و آسمان کے خزانے اللہ کے ھی ھیں مگر منافق تفقہ نہیں کرتے،، امام ابو حنیفہؒ تو حدیث کے راوی میں بھی تفقہ کی ڈیمانڈ کرتے ھیں،، بعض دفعہ وہ تفقہ کی بنیاد پر تابعی کو صحابی پر فوقیت دیتے ھیں ،یہ تسلیم کرتے ھوئے کہ صحابی کا مقام اپنا ھے،مگر بات مسئلے کی ھے خود نبیﷺ فرما گئے کہ بعض دفعہ حدیث کا راوی بات کو نہیں سمجھتا مگر جس کو پہنچاتا ھے وہ اس سے زیادہ فقیہہ ھوتا ھے” ھو افقہ منہ” لفظ فقیہہ ھی استعمال فرمایا ھے نبی کریم نےﷺ ،،

میں نے تصوف کیوں سیکھا !

میں نے تصوف کیوں سیکھا !

October 29, 2013 at 8:22pm

علامہ دوست محمد قریشی مرحوم اپنے ایام دارالعلوم دیوبند کے بارے میں ایک واقعہ لکھ کر بتاتے ھیں کہ کیوں مسلمانوں کو تصوف کی طرف توجہ دینی پڑی،، ھندوستان جادو کی سر زمین تھی یہاں قدم قدم پر سادھو آسن جمائے بیٹھے تھے اور قوت نفسانیہ کے زور پر ما فوق الفطرت تماشے دکھا کر لوگوں کے ایمان لوٹ رھے تھے،، عوام کالانعام ان شعبدوں کو عنداللہ ان کی مقبولیت سمجھ کر انہیں حق پر سمجھتے اور ھندوؤں سے زیادہ مسلمان ان کو گھیرے رھتے،، جس کی وجہ سے ضرورت محسوس کی گئی کہ اس عمل کے توڑ کے لئے ویسا ھی علم حاصل کیا جائے اور قوت نفسانیہ کو قوت نفسانیہ کے ذریعے شکست دی جائے تا کہ دلیل کے لئے رستہ صاف کیا جائے،، اس فن کی مشقوں میں دیوی دیوتاؤں کے نام کے منتروں اور بھجنوں کی جگہ قرآنی آیات اور مسنون اذکار کو استعمال کرتے ھوئے مسلمان اھل علم نے اللہ کی تائید اور نصرت سے ھندوؤں کو اسی طرح پچھاڑ دیا ،جس طرح محمد بن قاسم کی تلوار نے راجہ داھر کو پچھاڑا تھا،، زیادہ زمانہ نہیں گزرا تھا کہ لوگوں کا بہاؤ، معین الدیں چشتی اجمیری اور نظام الدین اولیاء کی جانب ھو گیا ،جو نہ صرف علم کی دنیا میں اپنا مقام رکھتے تھے،بلکہ جود و سخا میں بھی اپنے نبیﷺ کی سنت کے متبع تھے،ان کا در مسلم غیر مسلم سب کے لئے بلا تعصب کھلا ھوا تھا،رات دن بھوکے آتے اور پیٹ بھر کر کھاتے،بعض دفعہ ایک ھی برتن میں ھندو اور مسلم کھاتے، روتی بلکتی مائیں تڑپتے بچے لے کر آتیں اور اللہ والوں کی ایک پھونگ کے صدقے جو وہ اللہ کا کلام پڑھ کر مارتے ھنستی مسکراتی صحتمند بچے لے کر جاتیں،، ھر مذھب والے کو بلا تعصب سورہ فاتحہ کا ورد دیا جاتا جو ھندو اور مسلم سب کے لئے یکساں مفید ھوتا،، اس حکیمانہ طریقہ کار کا نتیجہ تھا کہ نظام الدین اولیاء نے 90 ھزار کے لگ بھگ ھندو مسلمان کیئے جبکہ خواجہ معین الدین چشتی نے 9 لاکھ کے لگ بھگ لوگوں کے سینے توحید کے نور سے منور کیئے ! اس سلسلے میں کچھ واقعات تو مولانا سید مناظر احسن گیلانی صاحب نے اپنی کتاب ” احاطہ دارلعلوم میں بیتے ھوئے دن” میں لکھے ھیں جبکہ مرشدی علامہ دوست محمد قریشی نے بھی چند واقعات اپنی کتاب ” کشف الحقیقہ عن المعرفۃ والطریقہ ” میں لکھے ھیں، ان میں سے ایک واقعہ کے بارے میں فرماتے ھیں کہ ” مرشدی نے باب باندھا ھے ” کیا اھل بدعت کے پیروں کی توجہ میں اثر ھوتا ھے ؟ ” اس کے تحت لکھتے ھیں کہ نہ صرف اھل بدعت بلکہ صریحاً کافر کی توجہ میں بھی اثر ھوتا ھے،اس کی مثال کچھ یوں سمجھ لیجئے کہ ایک کٹورہ پیشاب کا بھر کر رکھ لیجئے اور دوسرا پانی سے بھر لیجئے،،منہ دونوں مین نظر آ جائے گا مگر ایک سلیم الفطرت شخص پیشاب کے کٹورے میں منہ دیکھنا کبھی پسند نہیں کرے گا ! اس سے حق و باطل کا فیصلہ نہیں ھو سکتا جب تک کہ حامل توجہ کا کردار سنت کے مطابق نہ ھو،یعنی اس فن میں شکست و فتح کشتی یا کبڈی کے کھیل کی مانند ھے،، کافر یا بدعتی کا توجہ میں غالب آ جانا اس کے دین کی حقانیت کی دلیل نہیں بن سکتا جس طرح کرکٹ میں فتح یا شکست سے دین کی حقانیت کا فیصلہ نہیں ھو سکتا ! ایک ھندو نوجوان اس عاجز کے دور تعلیم میں مسلمان ھوا ، وہ دورہ حدیث کے لئے دیوبند میں داخل تھا، طبیعت میں زبردست قابلیت تھی، ذھن رسا اور زبان مین بلا کی فصاحت تھی،دل دردِ اسلام سے لبریز تھا، نوجوان شیخ سارا دن شیخ الاسلام مولانا سیدی حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ سے حدیث کے اسباق یاد کرتا ، حضرت شیخ الادب مولانا اعزاز علی صاحب ،اور مولانا محمد ابراھیم بلیاوی سے کتابیں پڑھتے،، طلباء عصر کے بعد سیر کو نکلتے ،جبکہ یہ نومسلم شیخ سب سے الگ ھو کر ھندو برھمنوں کے پاس چلا جاتا،، ساتھ کوئی ایک آدھ میرے جیسا کند ذھن بھی لگ جاتا کہ تبلیغ کا طریقہ سیکھ لیا جائے اور کچھ اجر بھی پا لیا جائے، بہت سارے ھندو برھمن اس نوجوان کے ھاتھوں مسلمان ھوئے تا آنکہ شہر بھر میں چرچا ھو گیا کہ اس نوجوان سے کوئی ھندو بچ نہیں پاتا،، ھندو برھمن اس کا رستہ چھوڑ کر چلتے اور بڑے بڑے برھمن اس سے کنی کتراتے،،، ایک دن یہ شیخ نوجوان عصر کے بعد ایک برھمن کے پاس چلا گیا اس حالت میں کہ وہ وید پڑھ رھا تھا ،، نوجوان نے کہا کہ شیخ جی ادھر میری طرف بھی توجہ کیجئے ، برھمن نے پہلے توجہ اپنے قلب پر کی اور پھر توجہ بھری نگاہ نوجوان کے دل پر ڈالی ،، شیخ صاحب کہتے ھیں کہ میرا قلب اللہ اللہ چھوڑ ،، رام رام کرنے لگ پڑا،، یہ وہ لمحہ تھا جب شیخ کو ھوشیار ھو جانا چاھئے تھا اور سامنے سے ھٹ جانا چاھئے تھا،،مگر شیخ جی اس میدان کے آدمی نہ تھے انہوں نے دوبارہ اس کو دعوت دے ڈالی کہ برھمن جی میری طرف توجہ فرمائیں،، برھمن نے دوبارہ توجہ کی اور نورِ ایمان سلب کر کے کفر بھر دیا،، پھر تیسری توجہ کے ساتھ اپنی تصویر اس کے دل میں چسپاں کر دی،جب اسے محسوس ھو گیا کہ نوجوان اس کے قبضے میں آ چکا ھے تو اس سے مخاطب ھوا اور بولا شیخ جی آپ ھیں بھی ھندو اور رھیں گے بھی ھندو، جاؤ اپنے وطن واپس چلے جاؤ،دارالعلوم سے بستر اٹھاؤ اور ریل گاڑی سے اپنے گھر چلے جاؤ ،، دارالعلوم مین جب شیخ جی واپس آئے تو کایا ھی پلٹی ھوئی تھی ،،گم سم اور ٹک ٹک سب کو دیکھ رھے ھیں،، حضرت مدنیؒ کو دکھایا گیا،آپ نے فرمایا انہیں حضرت عبدالقادر رائےپوری صاحب کے پاس لے جاؤ،، صبح ھوئی شیخ صاحب نما زسے بھی فارغ اور اسباق سے بھی فارغ،،،حضرت مدنی کے حکم کے مطابق طلباء شیخ جی کو عبدالقادر رائیپوری صاحب کے پاس چھوڑ آئے،،حضرت نے اٹھ دن صرف کھلایا پلایا اور بات تک نہ پوچھی،، نویں دن نوجوان حضرت کی خدمت مین حاضر ھوا اور عرض کیا کہ آپ مجھے کلمہ پڑھا مسلمان کریں یا مجھے گھر جانے کی اجازت دیں،، حضرت رائے پوری نے پوری قوت کے ساتھ ایک تھپڑ اسے رسید کیا اور فرمایا ” تو تھا بھی مسلمان ھے بھی مسلمان اور رھے گا بھی مسلمان جا جا کر اپنا سبق پڑھ،،جناب شیخ کا دل دوبارہ اللہ اللہ کے ردھم پہ جاری ھو گیا اور کفر نکل گیا،،، اس میں جو لوگ تصوف سے واقف ھیں وہ جانتے ھیں کہ شیخ نے کون سی ٹیکنکل غلطی کی،، کبھی کسی کو اپنے پر توجہ دینے کی دعوت نہیں دینی چاھئے،،یہ قلعہ دل کا دروازہ کھولنے والی بات ھے،،نوجوان کی دعوت پر ھی ھندو برھمن نے دل پہ تصرف کیا،، حضرت رائے پوری صاحب نے بھی نوجوان کو چھوڑ دیا تا آنکہ اس نے تنگ آ کر وھی دعوت حضرت رائے پوری کو بھی دے ڈالی اور آپ نے تصرف بالید کا سب سے طاقتور اور مسنون داؤ استعمال کیا،، ورنہ برھمن کا قبضہ چھڑانا مشکل تھا،، حضرت ابئ ابن کعب رضی اللہ عنہ کے قلب پر بھی نبی کریم ﷺ نے تصرف بالید کا مظاھرہ کیا تھا ،جس کے نتیجے میں وہ شدید کفر جو ان کے زمانہ کفر سے بھی شدید تر تھا،اس طرح صاف ھوا کہ قلب کی شفافیت میں عرشِ الہی کے نیچے جا کھڑے ھوئے،، ان کے اپنے بقول میں گویا اللہ کے سامنے کھڑا تھا،،( بخاری

یہ اصل میں کچھ یوں ھوتا ھے جیسے  کوئی فلیش ڈرائیو غیر روایتی طریقے سے نکالی جاتی ھے تو سارا ڈیٹا ضائع ھو جاتا ھے،، اسی طرح تصرف بالید مکمل طور پر قلب کو فارمیٹ کر دیتا ھے !

ابوظہبی کے مشہور و معروف اسپتال کے چائلڈ اسپیشلسٹ ڈاکٹر صاحب تشریف لائے،، ملاقات عشاء کے بعد مسجد سے ملحق مجلس یا لائبریری میں ھوئی،،گویا ھوئے کہ ان کا ایک ھی بیٹا تھا جو امریکہ ماسٹر کرنے گیا ھوا تھا، ایک پیر صاحب سے لنک ھو گیا اور ان پیر صاحب نے اسے والدین سے اس طرح برگشتہ کر دیا ھے کہ وہ والدین سے بات تک کرنا پسند نہیں کرتا، فون تک اٹینڈ نہیں کرتا اور اب تو کہتا ھے کہ آپ لوگ مجھے ڈسٹرب مت کیا کریں،،زندگی کی جمع پونچی اس کی تعلیم پر لگا دی ھے،اکلوتا بیٹا ہاتھ سے نکل گیا ھے ! ھم لوگ خود جا کر مل کر آئے ھیں وہ تو منہ بھی نہیں دکھانا چاھتا ! اب تو حد ھی ھو گئی ھے وہ ھماری تجویز کردہ جگہ پر تو شادی نہیں کرنا چاھتا،مگر موصوف پیر صاحب کے مدرسے کی پرائمری پاس لڑکی سے شادی کرنا چاھتا ھے،، ان حالات میں ھمارے پاس اور کوئی رستہ نہین بچا کہ ان پیر صاحب کو پاکستان میں ھی نمٹا جائے،، میں نے انہیں سمجھایا کہ اس طرح معاملہ مزید بگڑ جائے گا،، پہلے موصوف سے بات کر لینے دیجئے،، پیر صاحب ابوظہبی تشریف لائے تو ایک مشترکہ دوست کے ذریعے پیر صاحب سے وقت لے کر ڈاکٹر صاحب کی ملاقات کرائی گئی جو بے سود رھی، پیر صاحب نے ٹکا سا جواب دے دیا کہ جناب آپ اپنی اولاد سے رابطہ کریں،،میں اس سلسلے میں آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتا،،پیر صاحب سے میری بھی سلام دعا تھی کیونکہ وہ بھی نقشبندی تھے اور تصوف مین میرے ” کزن ” لگتے تھے،ان کے مرشد اور میرے مرشد پیر بھائی تھے ! میں نے بھی گزارش کی کہ اگر لڑکے پر آپ کا اثر ھے تو اسے خیر کے لئے استعمال کریں اور سمجھائیں گے والدین کا دل نہ دُکھائے، نیز والدہ بیمار ھے باپ پریشان ھے تو فون پہ ان سے رابطہ کر کے انہیں تسلی دے اور جہاں وہ کہتے ھیں وھاں شادی کرے ! مگر بات بنی نہیں، میں نے اپنے پیر صاحب کو ساری صورتحال بتائی اور حل پوچھا،، انہوں نے فرمایا کہ میں ان پیر صاحب سے ذاتی طور پر واقف ھوں ،انہوں نے عملِ تسخیر کیا ھوا ھے، اور دل و دماغ کو hack     کر لیتے ھیں،، اپنی تصویر ٹیگ کر دیتے ھیں اور بندہ ان کا ھی دیوانہ بن جاتا ھے،،یہ بات میں نے بعد میں ان پیر صاحب کی ایک کتاب میں بھی پڑھی جس میں انہوں نے اپنے تصرف کی قوت کا اظہار کچھ اس طرح کیا ھوا تھا کہ ” وہ روس کی آزاد شدہ ریاستوں کے جب دورے پر تھے تو جس علاقے میں جانا ھوتا تھا،اس علاقے کو نقشے میں پن پؤائنٹ کرتے اور اس پر توجہ کرتے تو اس علاقے کے لوگ ان کے پہنچنے پر ان کو یونہی پہچانتے جیسے لوگ اپنی اولاد کو پہچانتے ھیں،، بعض کو وہ خواب میں آتے کہ فلاں وقت اللہ کا یہ بندہ تمہارے گاؤں پہنچ رھا ھے،اس کے استقبال کے لئے نکلو،،اور جب یہ اس گاؤں یا بستی پہنچتے تو لوگ باھر استقبال کو پہنچے ھوتے، یہانتک کہ کھانا تک ان کی پسند کا بن چکا ھوتا،، خیر جناب اپنے بزرگوں سے مشورہ کیا کہ مسئلہ تو حل کرنا ھو گا ! جواب ملا یہ آپ کا پراجیکٹ ھے،، اسے مکمل کیجئے اور خرقہ خلافت لے لیجئے،، طریقہ کار انہوں نے سمجھایا کہ لطائف کے combination  کو کیسے ھینڈل کرنا ھے،، ایک لطیفے کے زور پر پہلی تصویر کو undo کرنا ھے اور دوسرے کے ساتھ اس کے والد کی تصویر کو restore کرنا ھے،، وقت طے کر لیا گیا اور رات اسی مشقت میں گزرتی ،، الحمد للہ بزرگوں کے بتائے گئے اندازے سے بھی پہلے کام مکمل ھو گیا،، بچہ اس ذھنی غلامی سے آزاد ھوا،، والدین سے معافی مانگی اور ان کی پسندیدہ جگہ پر شادی بھی کر لی،، والدین سے گلے شکوے بھی ھوتے ھیں،مگر بدترین شخص وہ ھوتا ھے جو ان کو بڑھاوہ دے کر اولاد کے دل میں والدین کی نفرت کو پلا دے،، یہ کیفیت بالکل وھی تھی جو سامری نے بنی اسرائیل کے ساتھ کی تھی،، اللہ کے بارے میں شکوے شکایت کو اساس بنا کر اس نے بچھڑے کو ان کے دلوں مین مصور کر دیا تھا،،جسے قرآن نے ان الفاظ میں بیان کیا ھے،، و اُشرِبوا فی قلوبھم العجل،، ان کے دلوں میں بچھڑا پلا دیا گیا تھا،،،! اس پراجیکٹ کی کامیابی پر 2002 میں مجھے سلسلہ نقشبند میں خلیفہ مجاز بنایا گیا،، اس طرح میری بیماریوں میں ایک اور بیماری کا اضافہ ھو گیا

مشترکہ خاندان ایک سماجی سرطان

مشترکہ خاندان ایک سماجی سرطان

February 25, 2013 at 12:34am
للہ تعالی نے انسان کو نر اور مادہ سے پیدا فرمایا اور پھر ان میں سے انگنت جوڑے پیدا فرمائے،
ان جوڑوں میں صلاحیتوں کے لحاظ سے فرق و تفاوت رکھا،اور دو بھائیوں اور دو بہنوں میں بھی یکساں معاملہ نہیں کیا،
جب ایک نیا جوڑا بنتا ھے،تو ایک نیا یونٹ وجود میں آتا ھے ،جس کے دونوں افراد اپنے کچھ خواب رکھتے ھیں جن کو وہ مستقبل میں پورا کرنا چاھتے ھیں،،ان کی کچھ محرومیاں ھوتی ھیں جن سے وہ اپنی اولاد کو محفوظ رکھنا چاھتے ھیں ،عورت اپنی ماں کے گھر سے یہ سنتی آتی ھے کہ”تم اپنے گھر جا کے یہ کر لینا،،تو اپنے گھر میں یہ سجا لینا مگر جب وہ اپنے گھر آتی ھے تو پتہ چلتا ھے کہ  یہ گھر بھی اس کا اپنا نہیں ھے وہ صرف یہاں روٹی کپرے کی ملازم ھے،،ھمارے یہاں ایسے گھروں کو مشترکہ خاندانی نظام یا جائنٹ فیملی سسٹم کہا جاتا ھے ،، یہ نظام ظلم پر مبنی اور سماجی کینسر ھے ،جس میں نفرتیں اگتی اور نفاق پنپتا  ھے ،حسد ،حقد،بے انصافی اور ظلم کا دور دورہ ھوتا ھے ،لوگ اس کو محبت کی علامت سمجھتے ھیں مگر حقیقت میں یہ نفرت کی بھٹی ھوتی ھے ،،ظلم یہ ھے کہ ایک انسان جب کمانے لگتا ھے تو باقی بھائیوں کو پالنے لگ جاتا ھے ،انکی ضروریات کو (جو کہ دن بدن لامحدود ھوتی جاتی ھیں) پورا کرنے میں اس طرح جُت جاتا ھے ،کہ بھول جاتا ھے کہ اس کی اپنی اولاد بھی ھے ،جس کی تعلیم و تربیت اسکی پہلی ذمہ داری ھے،،ان کے مستقبل کا سوچنا اس کا شرعی اور اخلاقی فرض ھے،،اس مرحلے پر عورت جس کو اللہ  نے اولاد کے حقوق کے معاملے میں کچھ زیادہ ھی حساس بنا دیا ھے ،وہ مداخلت کرتی ھے اور شوھر کا احساس دلانے کی کوشش کرتی ھے کہ اس کے اپنے بچے بھی ھین اور انکی ضروریات مقدم ھیں،،نیز یہ کہ انسانوں کے اس میلے اور چڑیا گھر نما حویلی میں ،بچوں کا تعلیم حاصل کرنا ناممکن ھے،،اپنا ایک گھر ھونا چاھئے جہاں پر کہ بچوں کے سونے ،جاگنے، کھیلنے،اور پڑھنے کے اوقات ھونے چاھییں ،،یہ ایک ایسا مطالبہ ھے کہ جس کے بعد قیامت کا آنا لازمی ھے،،یہ کوئی عام مطالبہ نہیں ھے بلکہ مولانا حالی کے الفاظ میں” وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ھادی ! عرب کی زمیں جس نے ساری ھلا دی !! اب اسلام بھی خطرے میں پڑ جاتا ھے اور ماں باپ کی عزت و توقیر کا بھی مسئلہ درپیش ھوتا ھے ،،
جائنٹ فیملی سسٹم کی شرعی حیثیت،
اسلام میں مشترکہ خاندانی نظام کا سرے سے کوئی تصور نہیں ھے،،نبی کریمﷺ نے اپنی 9 بیویوں کو الگ رکھا ھے،جہاں ایک بیوی کو یہ اجازت نہیں ھوتی تھی کہ وہ دوسری کے حجرے میں اسکی اجازت کے بغیر سالن تک بھیجے،جس کے حجرے میں نبی ﷺ کی باری ھوتی تھی اسی کی پسند نبیﷺ کو کھانی ھوتی تھی ، مشترکہ خاندان میں خود خاندان کی تباھی کا جو سامان ھے اس کے مدِۜ نظر یہ ممکن ھی نہیں کہ آسمان والی شریعت اس کو قبول کرے،، اصلاً یہ راجپوتانہ نظام ھے،، اور اس کا مداوہ بھی شاید ھندو راجپوتانہ نظام میں رکھا گیا ھے،کہ چونکہ بڑا بھائی ھی قربانی کا بکرا بنتا ھے،اور چھوٹے کی شادی تک خاندان کا بوجھ اُٹھاتا ھے،لہٰذا ساری جائداد کا مالک بھی بڑا بیٹا ھوتا ھے،، اب جب آپ راجپوتانہ نظام کو اسلام کے ساتھ ری میکس کرتے ھیں تو دشمنیاں جنم لیتی ھیں،، مثلاً بڑے بیٹے پر ذمہ داریاں تو راجپوتوں والی ڈال دی گئیں ،مگر جائداد کی تقسیم اسلامی طریقے سے کرنے کا مطالبہ کر دیا ،تو اس صورت میں ظلم کی بدترین صورت نے جنم لیا ،،اسلام میں تو اولاد اپنے باپ کی جائداد میں وارث ھے،،مگر ھمارے سسٹم میں وہ بھائی کی جائداد میں وارث بن جاتی ھے،ایک تو پورا خاندان پالو ،، جو کما کے بھیجو وہ ابا جی کمائی والے کی بجائے اپنے نام کی جائداد بناتے ھیں ،اور اس طرح ظلم کے ذریعے دوسری اولاد کو اس میں وارث بناتے ھیں،،قبائلی نظام میں بھائی کے نام کی جائداد میں بھی بھائی شریک ھوتے ھیں،جو کہ اولاد کی موجودگی میں کسی طور شرک نہیں ھو سکتے ،نیز اس سلسلے میں عموماً ایک حدیث فوراً بیان کر دی جاتی ھے کہ "تو اور تیرا مال تیرے والد کے ھو ” حدیث تو صحیح ھے مگر یہ غیر شادی شدہ کے لئے ھے شادی شدہ کے لئے نہیں،،ورنہ جب انسان مر جاتا ھے،اور اسکا مال اللہ کی کسٹڈی میں چلا جاتا ھے اور اللہ خود تقسیم فرماتا ھے،تو باپ کو تو سارا نہیں دیتا ؟اس کو صرف چھٹا حصۜہ دیتا ھے؟ ماں کو بھی چھٹا دیتا ھے،بیوی کو آٹھواں اور باقی سارا اولاد کا؟ بس عقلمند کے لئے اتنا ھی کافی ھے کہ وہ سمجھ لے کہ صاحب اولاد کی جائداد میں بھائیوں کا سرے سے کوئی حق نہیں ،اور ماں باپ کا چھٹا،چھٹا ھے،سارا نہیں ھے،،
جائنٹ فیملی سسٹم کے تباہ کن سماجی نتائج
جو عورت جتنی باشعور اور سوچ سمجھ والی ھوتی ھے وہ اتنا جلدی پاگل ھوتی ھے،وہ نسلوں کی تباھی کھلی آنکھوں سے دیکھ رھی ھوتی ھے،اولاد کے بارے میں اس کے کچھ خواب ھوتے ھیں ،جن کو وہ حقیقت میں بدلنا چاھتی ھے،مگر شوھر صاحب اس کو ماں باپ کی نافرمانی اور اسلام کے خلاف سمجھتے ھیں کہ کوئی الگ گھر لے کر اولاد کو رکھا جائے اور ان کی تعلیم کا کوئی سامان کیا جائے ، ایک حویلی میں جب دو درجن بچے کھیل رھے ھوں اور باھر شور مچا ھو ،، تو اندر کوئی بچہ کیسے توجہ سے پڑھ سکتا ھے، اس کے اندر کے بچے کی توجہ تو باھر لگی ھوتی ھے ،،نتیجہ یہ ھوتا ھے کہ ان پڑھوں کی ایک نئی کھیپ تیار ھو کر سسٹم مین داخل ھو جاتی ھے،، عورت کے روز روز کے تقاضے میاں بیوی کے تعلقات میں کشیدگی پیدا کر دیتے ھیں اور نتیجہ طلاق یا پاگل پن یا خودکشی کی صورت میں نکلتا ھے،، کمیونزم کے خلاف 25،30 سال جنگ لڑنے والوں کے گھروں میں کمیونزم کی بد ترین شکل نافذ ھے ،،جہاں کمانے والا اور سارا دن چرس پینے والا ایک پلڑے میں تلتے ھیں ،،جو اٹھارہ گھنٹے کام کرتا اور پھر ٹیکسی ھی میں سو جاتا ھے،اس کے بچے اور سارا دن لڑکیوں کے کالج کے باھر کھڑے کھڑے گزار دینے والے بھائی کے بچے برابر کی سہولیات سے استفادہ کرتے ھیں،،بلکہ شاید پردیس ھونے کی وجہ سے اسکے بچے وہ کچھ حاصل نہیں کر پاتے جو موقعے پر موجود باپ اپنی اولاد کو دے دیتا ھے،،اس سے بھی بڑا ظلم یہ ھے کہ  ، ایک عورت کو ڈیلیوری کیس میں اس لئے اسپتال لے کر نہیں جانا کہ دوسرے بھائی کی بیوی کی ڈیلیوری گھر میں نارمل ھوئی تھی تو یہ کوئی نواب کی بچی ھے کہ اس کو اسپتال لے جایا جائے،؟ حالانکہ یہ سب جانتے ھیں کہ یہ کیس ٹو کیس فیصلہ ھوتا ھے،بعض صورتوں میں شوگر کی وجہ سے بچہ زیادہ وزنی ھوتا ھے اور بعض دفعہ اُلٹا ھو جاتا ھے،اور آپریشن لازمی ھوتا ھے،،مگر جب چھوٹے کی بیوی نے گھر جنا ھے تو دبئی والے کی اسپتال کیوں جائے ؟؟ بیوی اور بچہ دونوں مر گئے ، چار بچے بغیر ماں کے رہ گئے،،شوھر کو نئی بیوی مل جائے گی مگر بچوں کو ماں نہیں ملے گی ، یوں محروم نسلوں کا سامان کر دیا گیا،،باقی ان شاء اللہ کل،
اپ ڈیٹڈ
مشترکہ خاندانی نظام ، ایک سماجی کینسر
اللہ تعالی نے انسان کو نر اور مادہ سے پیدا فرمایا اور پھر ان میں سے ان گنت جوڑے پیدا فرمائے ان جوڑوں میں صلاحیتوں کے لحاظ سے فرق و تفاوت رکھا،اور دو بھائیوں اور دو بہنوں میں بھی یکساں معاملہ نہیں کیا، جب ایک نیا جوڑا بنتا ھے،تو ایک نیا یونٹ وجود میں آتا ھے ،جس کے دونوں افراد اپنے کچھ خواب رکھتے ھیں جن کو وہ مستقبل میں پورا کرنا چاھتے ھیں،،ان کی کچھ محرومیاں ھوتی ھیں جن سے وہ اپنی اولاد کو محفوظ رکھنا چاھتے ھیں ،عورت اپنی ماں کے گھر سے یہ سنتی آتی ھے کہ”تم اپنے گھر جا کے یہ کر لینا،،تو اپنے گھر میں یہ سجا لینا مگر جب وہ اپنے گھر آتی ھے تو پتہ چلتا ھے کہ یہ گھر بھی اس کا اپنا نہیں ھے وہ صرف یہاں روٹی کپرے کی ملازم ھے،،ھمارے یہاں ایسے گھروں کو مشترکہ خاندانی نظام یا جائنٹ فیملی سسٹم کہا جاتا ھے ،، یہ نظام ظلم پر مبنی اور سماجی کینسر ھے ،جس میں نفرتیں اگتی اور نفاق پنپتا ھے ،حسد ،حقد،بے انصافی اور ظلم کا دور دورہ ھوتا ھے ،لوگ اس کو محبت کی علامت سمجھتے ھیں مگر حقیقت میں یہ نفرت کی بھٹی ھوتی ھے ،،
ظلم یہ ھے کہ ایک انسان جب کمانے لگتا ھے تو باقی بھائیوں کو پالنے لگ جاتا ھے ،انکی ضروریات کو (جو کہ دن بدن بڑھتی اور بے لگام ھوتی جاتی ھیں) پورا کرنے میں اس طرح جُت جاتا ھے ،کہ بھول جاتا ھے کہ اس کی اپنی اولاد بھی ھے ،جس کی تعلیم و تربیت اسکی پہلی ذمہ داری ھے،،ان کے مستقبل کا سوچنا اس کا شرعی اور اخلاقی فرض ھے،،اس مرحلے پر عورت جس کو اللہ نے اولاد کے حقوق کے معاملے میں کچھ زیادہ ھی حساس بنا دیا ھے ،وہ مداخلت کرتی ھے اور شوھر کا احساس دلانے کی کوشش کرتی ھے کہ اس کے اپنے بچے بھی ھین اور انکی ضروریات مقدم ھیں،،نیز یہ کہ انسانوں کے اس میلے اور چڑیا گھر نما حویلی میں ،بچوں کا تعلیم حاصل کرنا ناممکن ھے،،اپنا ایک گھر ھونا چاھئے جہاں پر کہ بچوں کے سونے ،جاگنے، کھیلنے،اور پڑھنے کے اوقات ھونے چاھییں ،،یہ ایک ایسا مطالبہ ھے کہ جس کے بعد قیامت کا آنا لازمی ھے،،یہ کوئی عام مطالبہ نہیں ھے بلکہ مولانا حالی کے الفاظ میں؎
” وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ھادی ،،
عرب کی زمیں جس نے ساری ھلا دی ،،
اب اسلام بھی خطرے میں پڑ جاتا ھے اور ماں باپ کی عزت و توقیر کا بھی مسئلہ درپیش ھوتا ھے ،،
جائنٹ فیملی سسٹم کی شرعی حیثیت،،،
اسلام میں مشترکہ خاندانی نظام کا سرے سے کوئی تصور نہیں ھے،،نبی کریمﷺ نے اپنی 9 بیویوں کو الگ رکھا ھے،جہاں ایک بیوی کو یہ اجازت نہیں ھوتی تھی کہ وہ دوسری کے حجرے میں اسکی اجازت کے بغیر سالن تک بھیجے،جس کے حجرے میں نبی ﷺ کی باری ھوتی تھی اسی کی پسند نبیﷺ کو کھانی ھوتی تھی ، مشترکہ خاندان میں خود خاندان کی تباھی کا جو سامان ھے اس کے مدِۜ نظر یہ ممکن ھی نہیں کہ آسمان والی شریعت اس کو قبول کرے،، اصلاً یہ راجپوتانہ نظام ھے،، اور اس کا مداوہ بھی شاید ھندو راجپوتانہ نظام میں رکھا گیا ھے،کہ چونکہ بڑا بھائی ھی قربانی کا بکرا بنتا ھے،اور چھوٹے کی شادی تک خاندان کا بوجھ اُٹھاتا ھے،لہٰذا ساری جائداد کا مالک بھی بڑا بیٹا ھوتا ھے،، اب جب آپ راجپوتانہ نظام کو اسلام کے ساتھ ری میکس کرتے ھیں تو دشمنیاں جنم لیتی ھیں،، مثلاً بڑے بیٹے پر ذمہ داریاں تو راجپوتوں والی ڈال دی گئیں ،مگر جائداد کی تقسیم اسلامی طریقے سے کرنے کا مطالبہ کر دیا ،تو اس صورت میں ظلم کی بدترین صورت نے جنم لیا ،،اسلام میں تو اولاد اپنے باپ کی جائداد میں وارث ھے،،مگر ھمارے سسٹم میں وہ بھائی کی جائداد میں وارث بن جاتی ھے،
ایک تو پورا خاندان پالو ،، جو کما کے بھیجو وہ ابا جی کمائی والے کی بجائے اپنے نام کی جائداد بناتے ھیں ،اور اس طرح ظلم کے ذریعے دوسری اولاد کو اس میں وارث بناتے چلے جاتے ھیں،،قبائلی نظام میں بھائی کے نام کی جائداد میں بھی بھائی شریک ھوتے ھیں،جو کہ اولاد کی موجودگی میں کسی طور شریک نہیں ھو سکتے ،نیز اس سلسلے میں عموماً ایک حدیث فوراً بیان کر دی جاتی ھے کہ "تو اور تیرا مال تیرے والد کے ھو ” حدیث اس حد تک تو صحیح ھے کہ یہ غیر شادی شدہ کے لئے ھے شادی شدہ کے لئے نہیں،،ورنہ جب انسان مر جاتا ھے،اور اسکا مال اللہ کی کسٹڈی میں چلا جاتا ھے اور اللہ خود تقسیم فرماتا ھے،تو باپ کو تو سارا نہیں دیتا ؟اس کو صرف چھٹا حصۜہ دیتا ھے؟ ماں کو بھی چھٹا دیتا ھے،بیوی کو آٹھواں اور باقی سارا اولاد کا؟ بس عقلمند کے لئے اتنا ھی کافی ھے کہ وہ سمجھ لے کہ صاحب اولاد کی جائداد میں بھائیوں کا سرے سے کوئی حق نہیں ،اور ماں باپ کا چھٹا،چھٹا ھے،سارا نہیں ھے،،
جائنٹ فیملی سسٹم کے تباہ کن سماجی نتائج
جو عورت جتنی باشعور اور سوچ سمجھ والی ھوتی ھے وہ اتنا جلدی پاگل ھوتی ھے،وہ نسلوں کی تباھی کھلی آنکھوں سے دیکھ رھی ھوتی ھے،اولاد کے بارے میں اس کے کچھ خواب ھوتے ھیں ،جن کو وہ حقیقت میں بدلنا چاھتی ھے،مگر شوھر صاحب اس کو ماں باپ کی نافرمانی اور اسلام کے خلاف سمجھتے ھیں کہ کوئی الگ گھر لے کر اولاد کو رکھا جائے اور ان کی تعلیم کا کوئی سامان کیا جائے ، ایک حویلی میں جب دو درجن بچے کھیل رھے ھوں اور باھر شور مچا ھو ،، تو اندر کوئی بچہ کیسے توجہ سے پڑھ سکتا ھے، اس کے اندر کے بچے کی توجہ تو باھر لگی ھوتی ھے ،،نتیجہ یہ ھوتا ھے کہ ان پڑھوں کی ایک نئی کھیپ تیار ھو کر سسٹم میں داخل ھو جاتی ھے،، عورت کے روز روز کے تقاضے میاں بیوی کے تعلقات میں کشیدگی پیدا کر دیتے ھیں اور نتیجہ طلاق یا پاگل پن یا خودکشی کی صورت میں نکلتا ھے،، کمیونزم کے خلاف 25،30 سال جنگ لڑنے والوں کے گھروں میں کمیونزم کی بد ترین شکل نافذ ھے ،،جہاں کمانے والا اور سارا دن چرس پینے والا ایک پلڑے میں تلتے ھیں ،جو اٹھارہ گھنٹے کام کرتا اور پھر ٹیکسی ھی میں سو جاتا ھے،اس کے بچے اور سارا دن لڑکیوں کے کالج کے باھر کھڑے کھڑے گزار دینے والے بھائی کے بچے برابر کی سہولیات سے استفادہ کرتے ھیں،،بلکہ شاید پردیس ھونے کی وجہ سے اسکے بچے وہ کچھ حاصل نہیں کر پاتے جو موقعے پر موجود باپ اپنی اولاد کو دے دیتا ھے،،
اس سے بھی بڑا ظلم یہ ھے کہ ، عدل اور برابری کے نام پر ایک عورت کو ڈیلیوری کیس میں اس لئے اسپتال لے کر نہیں جانا کہ دوسرے بھائی کی بیوی کی ڈیلیوری گھر میں نارمل ھوئی تھی تو یہ کوئی نواب کی بچی ھے کہ اس کو اسپتال لے جایا جائے،؟ حالانکہ یہ سب جانتے ھیں کہ یہ کیس ٹو کیس فیصلہ ھوتا ھے،بعض صورتوں میں شوگر کی وجہ سے بچہ زیادہ وزنی ھوتا ھے اور بعض دفعہ اُلٹا ھو جاتا ھے،اور آپریشن لازمی ھوتا ھے،،مگر جب چھوٹے کی بیوی نے گھر جنا ھے تو دبئی والے کی اسپتال کیوں جائے ؟؟ بیوی اور بچہ دونوں مر گئے ، چار بچے بغیر ماں کے رہ گئے،،شوھر کو نئی بیوی مل جائے گی مگر بچوں کو ماں نہیں ملے گی ، یوں محروم نسلوں کا سامان کر دیا گیا،،
اس سے پہلے کہ آگے چلیں چند مثالیں سن لیں تا کہ واضح ھو جائے کہ جس مشترکہ خاندان کی بات کر رھا ھوں وہ کیا بلا ھے ،، نوروز خان کو امارات میں آئے ھوئے 40 سال ھو گئے ھیں، وہ جب امارات میں آیا تھا تو اس کے منہ پر مونچھ داڑھی کے نام پر کوئی بال نہ تھا،آج جب وہ کام سے فارغ ھوا ھے تو اس کے سر پر بال نام کی کوئی مخلوق نہیں پائی جاتی ،،وہ اپنے بھائی کے ساتھ مسئلہ پوچھنے آیا تھا کہ ،اسکی کمپنی کی طرف سے جو ڈیوز ملے ھیں ،ان پر اس کے بھائیوں کا حق ھے یا نہیں؟ بقول اس کے اس نے آج تک جو کمایا وہ باپ کو بھیجا ، وہ 5 بہن بھائی تھے ،کہ والدہ فوت ھوگئیں ،والد کو بولا کہ شادی کر لو مگر اس عمر کی کرو کہ آگے اولاد پیدا نہ ھو مگر والد صاحب نے چھوٹی بیٹی کی عمر کی لڑکی سے شادی کر لی ،اس میں سے 4 بھائی ھیں گویا ٹوٹل 9 بہن بھائی ھوگئے ،ساری زندگی جو کمایا وہ والد صاحب کو دیا،والد صاحب نے جو جائداد بنائی دوسرے بیٹوں کے نام بنائی ،،اس کا بیٹا بیمار ھوا ،کسی نے اسپتال تک لے جانے کی زحمت گوارہ نہیں کی وہ گھر میں ایڑیاں رگڑ کر فوت ھو گیا، باقی بچوں اور بیوی کو یہاں بلایا تو گویا قیامت ھوگئی اور والد سمیت سب کہتے ھیں کہ بےغیرت اور جورو کا غلام ھو گیا ھے، اب نوکری گئی ھے تو وہ کہتے ھیں کہ دیگر 8 بہن بھائیوں میں بھی تقسیم ھو گی ،ورنہ گاؤں میں قدم نہیں رکھ سکتے !
دوسرے جہانزیب خان صاحب ھیں،،وزارت داخلہ کی بہت اھم اور حساس پوسٹ پر ھیں،25 ھزار درھم تنخواہ لیتے ھیں ،مگر جوائنٹ فیملی سسٹم کا شکار ھیں ، مردان اور ھنگو میں کئ ایکڑ بہترین زرعی زمین خریدی ھے،مگر والد نے اپنے نام سے خریدی ھے، والد کے انتقال کے بعد ساری زمین پر بھائیوں نے قبضہ کر لیا ھے ،، اس کے بعد انہوں نے اپنے نام سے زمین لینا شروع کی ،،یہ لے کر واپس آتے اور بھائی قبضہ کر لیتے ، ایک بھائی کرائے کا قاتل اور اغوا برائے تاوان کا مجرم ھے، پیسے دے کر پاکستان میں جہاں چاھو بندہ مروا لو ،میں یہ بات اس کے خلاف ایف آئی آر اور عدالتی کارروائی کی کاپیاں پڑھ کر کہہ رھا ھوں جو انہوں نے مجھے دکھائیں ،، ان پر بھی بھائیوں نے فائرنگ کی اور یہ علاقہ چھوڑ کر اسلام آباد منتقل ھوئے ،،ایک کوٹھی لی ،،بھائی وھاں بھی پہنچ گئے ،کرائے داروں کو دھمکا کر نکالا اور قبضہ کر لیا، آخر کسی کو اونے پونے داموں بیچ کر جان چھڑائی ،،
میرے دوست ھیں ننکانہ صاحب سے یہ پولیس میں فارماسسسٹ ھیں،،بھائی کو بلا کر جیولری کی دکان ڈال کر دی ،بھائی صاحب ھوٹلوں کے چکر میں 5 لاکھ درھم کی دکان کھا کر اور مزید 1 لاکھ درھم کا قرض لے کر پاکستان بھاگ گیا ، پاکستان گئے تو دونوں چھوٹے بھائیوں نے پکڑ کر تسلی سے مارا اور ابا جی نے بھی مارنے میں اخلاقی مدد فرمائی ان کو اپنے ھی بنائے گئے گھر سے نکال دیا گیا ،رات کو کسی کے گھر بستر مانگ کر رھے اور اگلے دن واپس آگئے، جائداد پہلے ھی ابا جان اپنے نام اور دوسرے بیٹوں کے نام لیتے رھے تھے لہٰذا ان کے پاس اب سوائے نوکری کے کچھ نہیں !!
دبئی کے صاحب ھیں جن کی بیوی کا پرسوں فون تھا،، بدقسمتی سے سب سے بڑے ھیں،مگر اپنی اولاد کے لئے کچھ نہیں ،،بھائیوں کے مکان پہلے بنیں گے پھر اپنا دیکھیں گے، وہ کہہ رھی تھیں زندگی کا بھروسہ نہیں،ابھی صرف چھوٹے کا مکان بنا ھے اور اس نے پہلا کام یہ کیا ھے کہ الگ ھو گیا ھے،، یوں چھوٹے تو شادی کرتے اور الگ ھوتے چلے جائیں گے ،بڑی بہو کو شاید قبر ھی الگ نصیب ھو گی الغرض یہ دس میں سے آٹھ آدمیوں کا فسانہ ھے،نفرتیں اندر ھی اندر کینسر پھوڑے کی طرح اکٹھی ھوتی رھتی ھیں،،اور قرآن کے الفاظ میں،،تحسبُھم جمیعاً و قلوبھم شتیۜ ،،تم ان کو اکٹھا سمجھتے ھو جبکہ ان کے دل دور دور ھیں،
کرنا کیا چاھئے؟
ھونا یہ چاھئے کہ اگر ایک بھائی نے شادی کی ھے تو اسے سب سے پہلے اگر ممکن ھے تو اپنے بیوی بچے اپنے پاس رکھنے چاھییں ،،اگر ممکن نہیں ھے تو اپنی بیوی کو ایک کمرہ الگ سے بنا کر دینا چاھئے،،کمرہ سے مراد کچن ،باتھ مکمل سیٹ ھے،،اور اگر یہ بھی ممکن نہیں ھے تو پھر شادی ھی نہیں کرنی چاھئے،، اکثر شادی گھر کے کام کاج کے لیئے ایک روٹی کپڑۓ کی ملازم خاتون کی ضرورت کے تحت کی جاتی ھے،اور نکاح صرف اس گھر میں اس کے رھنے کا ایک شرعی جواز پیدا کرنے کا نام ھے،،نکاح کے تحت اس کے حقوق کی ادائیگی سرے سے کسی کے ایجنڈے میں شامل ھی نہیں ھوتی،لہذا ایسی کسی چیز کا مطالبہ ایک جرم سے کم نہیں ھوتا، اگر والدین کے ساتھ بہن بھائی چھوٹے ھیں تو اس صورت میں ماں باپ اور بہن بھائیوں کو بیوی کے ساتھ رکھنے میں کوئی حرج نہیں،نہ کہ بیوی کو ماں باپ کے ساتھ رکھے ،بظاھر یہ عجیب بات لگتی ھے کہ؎
"والدین کا بیوی کے ساتھ رھنا اور بیوی کا والدین کے ساتھ رھنا "
ایک ھی تو بات ھے؟ جی نہیں ! زمین آسمان کا فرق ھے،،، اسی بس میں ڈرائیور بھی ھوتا ھے اور سواریاں بھی ،،مگر اسٹئیرنگ کا فرق ھوتا ھے،،ماں باپ بیوی کے ساتھ رھیں گے ،مگر آئینی سربراہ کے طور پر اور گھر کو کس طرح چلانا ھے،،بچے کس اسکول میں ڈالنے ھیں اور گھر کے قواعد و ضوابط عورت طے کرے گی ،کیونکہ وہ حالات سے زیادہ واقف ھے،بنسبت والدہ صاحبہ کے جو کہ 50 سال پرانے نظام کی باتیں کرتی اور اسی زمانے کی مثالیں دیتی ھیں ، جب کہ بیوی والدین کے ساتھ رکھنے کا مطلب ھے،،کہ وہ مہمان اداکارہ کے طور پر رھے گی اور قانون اماں جی کا چلے گا ،، حقیقت یہ ھے کہ اماں جی اپنی اینگز کھیل چکی ھیں اور جو کچھ انہوں نے بنانا تھا اپنی اولاد کو وہ بنا چکی ھیں،،اب کریز خالی کر دیں،،اپنے روٹی کپڑے سے مطلب رکھیں اوراللہ اللہ کریں نماز روزہ کریں اور پچھلے بخشائیں !
اگر بیٹے زیادہ ھیں تو امی جان گھر بدلتی رھیں کبھی ایک بیٹے کو حج کا موقع دیں اور کبھی دوسرے کو،مگر اس میں بھی احتیاط کریں ،،ایک بیٹے کے گھر کی باتیں اور کمزوریاں دوسری بہو کو نہ بتائیں اور جاسوس کا کردار ادا نہ کریں ورنہ سب بہو بیٹوں کی نظر سے گر جائیں گی،، بہو اور بیٹوں کو اپنی اولاد کے فیصلے کرنے میں فری ھینڈ دیں ،، جتنی مداخلت کم کریں گی اُتنا ان کی عزت اور احترام میں اضافہ ھو گا،،مرتے دم تک حکومت کرنے کی ھوس گھروں کو برباد کر دیتی ھے،،ساس اپنا رویہ نہیں بدلتی بہوئیں بدلتی رھتی ھے ، مگر ھر آنے والی شوھر کا مطالبہ کرتی ھے اور اجڑ جاتی ھے،،تا آنکہ ساس کے انگوٹھے باندھ کر قبر میں نہ رکھ دیا جائے،،بیوی کے ساتھ اچھے تعلقات عموماً زن مریدی کی دفعہ کے تحت آتے ھیں ،ساس اس معاملے میں بہت حساس ھوتی ھے کہ اس کا بیٹا کہیں بیوی کے "تھلے” نہ لگ جائے ،اور بھول جاتی ھے کہ اس نے جس کو ساری زندگی "تھلے ” لگا کر رکھا ھے وہ بھی کسی ماں نے نو ماہ پیٹ میں رکھا تھا،،
گھریلو معاملات میں جب بھی حالات نازک ھو جائیں والد سے مشورہ کریں وہ صبر کی تلقین کرے گا،اور گھر بسانے کی بات کرے گا،، اور کبھی کبھی سچ کہہ بھی دیتا ھے کہ،،تیری ماں کوئی کم نہیں تھی،،میں نے بھی تو گزارہ کیا ھے !! والدین کے حقوق اور گھریلو ذمہ داریوں میں بیلنس بنا کر رکھنا چاھئے اور وادین کے حقوق کے نام پر کسی کے حقوق کو پائمال نہیں کرنا چاھئے،ظلم کرنا کبھی بھی والدین کے حقوق کا حصہ نہیں رھا،اور عدل کو ترک کرنا کبھی بھی اولاد کے فرائض میں شامل نہیں رھا،،آخر سورہ النساء ھی کو اس حکم کے لئے کیوں چنا گیا کہ”اے ایمان والو! اللہ کے لئے کھڑے ھو جاؤ ڈٹ کر حق کی گواھی کے لئے چاھے وہ اپنے آپ کے خلاف پڑے یا والدین کے خلاف ھو یا قریبی رشتہ داروں کے خلاف ھو؟(النساء 135 )
پھر مزید مسائل اس وقت جنم لیتے ھین جب بچوں کی شادی کا وقت آتا ھے،، خاندان کا ھر فرد یہ چاھتا ھے کہ شادی میں اس کا مشورہ مانا جائے ،اس طرح بھینسوں کی لڑائی میں عموماً درختوں کی تباھی کا سامان ھوتا ھے،جبکہ بچی کی شادی میں بچی،اس کے والد اور ماں کا مشورہ ھونا چاھئے،،چچا لوگ اپنا گھر دیکھیں،، آپ اپنا گھر لیں ،بہن بھائیوں کے حقوق کا خیال رکھیں،،مشکل میں ان کی مدد کریں،ماں باپ کے خرچے برچے کا دھیان رکھیں،بہنوں کی شادی میں انکی مالی مدد کریں،،جائداد بنانے کی بجائے اولاد کو پڑھانے کی طرف توجہ دیں،،معاشرے کو ایک پڑھا لکھا مہذب انسان دے جانا بہتر ھے اس جائداد سے جسکی خاطر بھائی ایک دوسرے کے گلے کاٹیں،،
قاری حنیف ڈار……..

ابدال اور جھوٹی حدیثیں ! ڈوبتے کو تنکے کا سہارہ !!

ابدال اور جھوٹی حدیثیں ! ڈوبتے کو تنکے کا سہارہ !!

August 17, 2013 at 2:32am

امام أبو نعيم رحمه الله (المتوفى430)نے کہا  : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْحَسَنِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ السَّرِيِّ الْقَنْطَرِيُّ، حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ قَيْسٍ السَّامِرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ يَحْيَى الْأَرْمَنِيُّ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَارَةَ، حَدَّثَنَا الْمُعَافَى بْنُ عِمْرَانَ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : «إِنَّ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فِي الْخَلْقِ ثَلَاثَمِائَةٍ قُلُوبُهُمْ عَلَى قَلْبِ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ , وَلِلَّهِ تَعَالَى فِي الْخَلْقِ أَرْبَعُونَ قُلُوبُهُمْ عَلَى قَلْبِ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ , وَلِلَّهِ تَعَالَى فِي الْخَلْقِ سَبْعَةٌ قُلُوبُهُمْ عَلَى قَلْبِ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ , وَلِلَّهِ تَعَالَى فِي الْخَلْقِ خَمْسَةٌ قُلُوبُهُمْ عَلَى قَلْبِ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ , وَلِلَّهِ تَعَالَى فِي الْخَلْقِ ثَلَاثَةٌ قُلُوبُهُمْ عَلَى قَلْبِ مِيكَائِيلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ , وَلِلَّهِ تَعَالَى فِي الْخَلْقِ وَاحِدٌ قَلْبُهُ عَلَى قَلْبِ إِسْرَافِيلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ , فَإِذَا مَاتَ الْوَاحِدُ أَبْدَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ مَكَانَهُ مِنَ الثَّلَاثَةِ , وَإِذَا مَاتَ مِنَ الثَّلَاثَةِ أَبْدَلَ اللهُ تَعَالَى مَكَانَهُ مِنَ الْخَمْسَةِ , وَإِذَا مَاتَ مِنَ الْخَمْسَةِ أَبْدَلَ اللهُ تَعَالَى مَكَانَهُ مِنَ السَّبْعَةِ , وَإِذَا مَاتَ مِنَ السَّبْعَةِ أَبْدَلَ اللهُ تَعَالَى مَكَانَهُ مِنَ الْأَرْبَعِينَ , وَإِذَا مَاتَ مِنَ الْأَرْبَعِينَ أَبْدَلَ اللهُ تَعَالَى مَكَانَهُ مِنَ الثَّلَاثِمِائَةِ , وَإِذَا مَاتَ مِنَ الثَّلَاثِمِائَةِ أَبْدَلَ اللهُ تَعَالَى مَكَانَهُ مِنَ الْعَامَّةِ. فَبِهِمْ يُحْيِي وَيُمِيتُ , وَيُمْطِرُ وَيُنْبِتُ , وَيَدْفَعُ الْبَلَاءَ» . قِيلَ لِعَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ: كَيْفَ بِهِمْ يُحْيِي وَيُمِيتُ؟ قَالَ: لِأَنَّهُمْ يَسْأَلُونَ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ إِكْثَارَ الْأُمَمِ فَيَكْثُرُونَ , وَيَدْعُونَ عَلَى الْجَبَابِرَةِ فَيُقْصَمُونَ , وَيَسْتَسْقَوْنَ فَيُسْقَوْنَ , وَيَسْأَلُونَ فَتُنْبِتُ لَهُمُ الْأَرْضُ , وَيَدْعُونَ فَيَدْفَعُ بِهِمْ أَنْوَاعَ الْبَلَاءِ "[حلية الأولياء وطبقات الأصفياء 1/ 9 ومن طریقہ اخرجہ ابن عساکر 1/ 303] یہ حدیث موضوع اور من گھڑت ہے ۔ اس کی سند بہت ساری علتیں ہیں ۔ مثلا اس کی سند میں ’’عُثْمَانُ بْنُ عُمَارَةَ‘‘ ہے ۔ یہ مجہول ہے اوراس سند کے علاوہ کسی بھی سندمیں یہ معروف نہیں اورشدید نکارت والی حدیث بیان کررہا ہے اس لئے اس کی بیان کردہ یہ روایت موضوع ہے۔ امام ذہبی رحمہ اللہ نے میزان میں اس کا تذکرہ کرتے ہوے اس کی اس حدیث کو جھوٹی حدیث قراردیاہے دیکھئے: [ميزان الاعتدال للذهبي: 3/ 50]
_______