سحـــــر ھو جائے گی شامِ غریباں، ھم نہیں ھونگے !

سحـــــر ھو جائے گی شامِ غریباں، ھم نہیں ھونگے !

August 25, 2013 at 2:55pm
چـــراغِ زندگی ھــو گا فــــروزاں ھم نہیں ھوں گے
چمن میں آئے گی فصلِ بہاراں ھم نہیں ھوں گے
!
جــوانوں اب تمہارے ھــاتھ میں تقــدیرِ عالــم ھے
تمہی ھو گے فروغِ بــزمِ امکاں ھم نہیں ھوں گے
!
جئیں گے وہ جو دیکھیں گے بہاریں زلــفِ جــاناں کی
سنوارے جائیں گے گیسوئے دوراں ھم نہیں ھوں گے
!
ھــمارے بعــد ھــی خــــونِ شہــــیداں رنگ لائے گا
یہی سرخی بنے گی زیبِ عنواں ھم نہیں ھوِں گے
!
اگــر ماضــی منــور تھا کبھــی تو ھـــم نہ تھے حاضـــر
جو مستقبل کبھی ھو گا درخشاں ھم نہیں ھوں گے
!
کــہیں ھــم کو دکھا دو اک کـــرن ھـــی ٹمٹــماتی سی
کہ جس دن جگمگائے گی شبستاں ھم نہیں ھوں گے
!
ھمــارے ڈوبنے کے بعــد ابھـــریں گے نئے تارے
جبینِ دھر پر چھٹکے کی افشاں ھم نہیں ھوں گے
!
ھــمارے دور مــیں ڈالــی گــئ تھــیں الــجھـنیں لاکھــوں
جنوں کی مشکلیں جب ھوں گی آساں ھم نہیں ھوں گے
!
نہ  تھا   اپنے  نصـیبے میں  طلــــــوعِ   مـــہر  کا جـــــلوہ
سحـــر ھــو جائے گی شـامِ غریبــــاں ھــم نہـیں ھوں  گے
 
طاھـــــــــر جھنــــــگوی

تقــــــــدیر اور ھمــــــــــــــــــاری کـــوشــــش !

تقــــــــدیر اور ھمــــــــــــــــــاری کـــوشــــش !

September 7, 2013 at 6:36pm

پتہ نہیں کس نے کہا تھا اور کہہ کے زندہ بھی رھا ھو گا یا چل دیا ھو گا کہ ” ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا، تو بات پہنچی تیری جوانی تک ،، جب بھی والدین کے حقوق پر جمعے کا خطبہ ھوتا ھے، تو افراتفری کا سماں بنتا ھے،، اور اگلا جمعہ لازماً بیوی کے حقوق پر دینا پڑتا ھے، جب بھی کبھی رحم مادر میں نفع اور نقصان کے طے ھو جانے کی بات ھوتی ھے تو پھر تقدیر پر بحث لازم کرنی پڑتی ھے، سعی و جدوجہد کا رحم مادر میں لکھے گئے کے ساتھ کیا کمبینیشن بنتا ھے،، بندہ پھر ٹانگیں پسار کے ٹوم اینڈ جیری کارٹون دیکھے میکائیل خود ھی بیل بجا کر چیک پکڑا جائے گا کہ اللہ نے تیرے مقدر میں جو لکھا تھا وہ وصول کرلو ! بلکہ ائندہ ایزی پیسہ شاپ سے وصول کر لیا کرو،مجھے تکلیف نہ دیا کرو ! رحم مادر میں لکھے پر ھمارا ایمان ھے ! مگر اس میں خود ھمارا بھی کچھ کردار بنتا ھے، ٹھیک اسی طرح جیسے اللہ نے اولاد تو لکھی ھوتی ھے،مگر اس میں ھمارا بھی کوئی کردار ھوتا ھے ! اللہ پاک نے سورہ المائدہ میں موسی علیہ السلام کی قوم کو بیت المقدس لکھ کر دے دیا تھا،، کتب اللہ لکم” مگر وہ بھی ایسے ھی سمجھے تھے کہ جب ھمارے نام رجسٹری ھو گئی ھے تو پھر ڈر کاہے کا ،، مگر اپنا کردار ادا کرنے سے انکار کر دیا کہ قبضہ تم نے خود لینا ھے،، ان کے انکار پر رجسٹری منسوخ ھو گئی اور چالیس سال کے لئے ان پر بیت المقدس مین داخلہ حرام کر دیا گیا اور 40 سال کے لئے میدان تییہہ میں قید کر دیئے گئے ! آج کل تقدیر اور اپنے کرادر کو سمجھنا بہت آسان ھو گیا ھے، اۓ ٹی ایم مشین جس سے نقد رقم وصولی جاتی ھے اس کی تقدیر یا پروگریمنگ بینک والے کرتے ھیں،، اس تقدیر میں ھمارا کردار بہت اھم ھوتا ھے،، ھم کارڈ مشین کو دیتے ھیں تو وہ تقدیر کے مطابق پاس ورڈ مانگتی ھے،، پاس ورڈ غلط ھو جانے کی صورت میں وہ کارڈ کو پکڑ لیتی ھے،یہ بھی تقدیر کا حصہ ھے،،پہلے سے اس میں یہ ھدایات موجود ھیں قاری حنیف سے اس مشین کی کوئی ذاتی دشمنی نہیں نہ میری شکل سے نفرت ھے،، اسے کسی کی غلطی پر وھی ری ایکشن دینا تھا جو اس نے میری غلطی پر دیا،،اس کو کہتے ھیں سنۃ اللہ،، جو قوم غلطی کرتی ھے،، اللہ کی آفاقی پروگریمنگ یا تقدیر کے مطابق قوانین حرکت میں آتے ھیں اور وہ قوم ٹھیک اسی جگہ کھڑی ھوتی ھے جہاں آج 57 اسلامی ممالک کھڑے ھیں ! پاس ورڈ ٹھیک ھونے کے بعد اب آپشنز کی ایک فہرست کھلتی ھے،، اب پھر میرا کردار شروع ھو گیا،مجھے سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ھے کہ مجھے کیا آپشن لینا ھے،، مگر زیادہ سوچنے پر بھی تقدیر ایکشن میں آتی ھے،، اور وارننگ ملتی ھے کہ سرکار کارڈ پکڑو اور گھر جا کر سوچ کر آؤ،یہاں دوسرے لوگوں کا وقت ضائع مت کرو،، اس لئے کہ وقت سب کی مشترکہ امانت ھے، جو بندہ بیلنس انکوائری کا بٹن دبائے گا،،اب کوئی بھی وظیفہ پڑھ لے نتائج بیلنس شیٹ کی صورت سامنے آئیں گے،، کیش ودڈرال والے آپشنز کبھی نہیں کھلیں گے،، عملی زندگی میں بھی بہت سارے بٹن ھمیں کو دبانے ھوتے ھیں اور وقت پر دبانے ھوتے ھیں،،مگر بعض دفعہ ٹھیک دبا کر بھی جواب ملتا ھے کہ جناب آپ بہت پڑھے لکھے اور عقلمند ھیں مگر ویری سوری آپ کے اکاؤنٹ میں آپ کے حسبِ تمنا بیلنس ھی موجود نہیں،، میں نصیب ھوں کسی اور کا مجھے مانگتا کوئی اور ھے ” بینک مشین بے رخی کے ساتھ کارڈ باہر نکال دیتی ھے،مگر اللہ ایسی دعا کو محفوظ فرما لیتا ھے اور آخرت میں اس کا اجر دے گا،جسے دنیا میں پورا نہ کیا گیا ! اب سوال یہ ھے کہ جناب پھر سعی کیوں کی جائے، مقدر کا انتظار کر لیا جائے،، اور نماز روزہ کیوں کیا جائے جبکہ جنت جہنم کے فیصلے ھو چکے ھیں؟؟ تو پہلی بات یہ رھی کہ کیا ھمیں اس تقدیر کا پرنٹ آؤٹ ای میل میں بھیج دیا گیا ھے جو ھم ھاتھ پر ھاتھ رکھ کر بیٹھے رھیں؟؟ تقدیر مشروط بھی ھوتی ھے کہ اگر اس نے یوں کیا تو پھر یوں ھو گا ورنہ پھر ایسا ھو گا ! اگر فلان ڈاکٹر کے پاس پہنچ گیا تو مزید دس سال زندگی مل جائے گی ورنہ چھٹی،، اگر فلاں دفتر انٹرویو دیا تو رزق مین اضافہ کر دیا جائے گا ورنہ پرانے پر گزارہ کرے،، سورہ نوح میں یہ آپشن ذکر کیا گیا،، و یؤخر کم الی اجلٍ مسمی،، ان اجل اللہ اذا جاء لا یؤخر لو کنتم تعلمون،،اے قوم مجھ پر ایمان لے آؤ تو اللہ تمہاری خطائیں معاف فرما دے گا اور تمہیں مٹانے میں ایک خاص مدت تک تاخیر کر دے گا،، جنت اور جہنم کا مسئلہ کچھ یوں ھے کہ اللہ پاک نے جس شخص کو بھی پیدا فرمایا ،اس کے دو گھر بنائے ایک جنت میں اور ایک جہنم میں،، ھر انسان کو دونوں رستے سجھا دیئے کہ یہ جنت میں تیرے گھر کی طرف جاتا ھے اور یہ جہنم میں تیرے گھر کی طرف جاتا ھے،، فیصلہ تو نے کرنا ھے کہ کہاں پدھارنا ھے ! جنتی کو جنت میں جب کسی دوسرے کی جنت دی جائے گی تو بتایا جائے گا کہ آپ فلاں شخص کی جنت کے وارث بنے ھیں جس نے جہنم کا گھر پسند کیا ھے اور ساتھ اسے وہ شخص جہنم میں دکھایا بھی جائے گا تاکہ مومن کے شکر میں اضافہ ھو،، ( اولئک ھم الوارثون، الذین یرثون الفردوس ھم فیہا خالدون) المومنون،، اور ساتھ یہ بھی بتایا جائے گا کہ وہ جہنم میں آپ کے مکان کا وارث بنا ھے جس سے آپ بچ گئے ھو ! تو وارث ھمیشہ دوسرے کی جائداد کا ھوتا ھے،، اسی طرح جہنمی کو جنت میں اس کا گھر دکھایا جائے گا اور بتایا جائے گا کہ تم نے اپنی غلطی سے اپنا وہ گھر کھو دیا،،جس سے کافر کی حسرت میں اضافہ ھو گا،، تو جناب جب ھمیں تقدیر کے معاملے میں لاعلم رکھا گیا ھے تو اسی لئے رکھا گیا ھے کہ ھم خیر اور بھلے کی امید رکھتے ھوئے اپنی سعی و کوشش کا رخ صحیح سمت رکھیں،، اور اللہ پر بھروسہ رکھیں کہ وہ ھماری سعی کو رائیگاں نہیں کرے گا

کیا ھم دلیل کی جنگ ھار چکے ھیں؟

کیا ھم دلیل کی جنگ ھار چکے ھیں؟

March 6, 2013 at 3:25pm
حق اپنا وجود ھمیشہ دلیل سے ثابت کرتا اور باطل سے اس کے وجود کی دلیل طلب کرتا ھے ،، آسمانی کتابیں نازل ھی اسی مقصد سے کی جاتی ھیں اور انبیاء کو دلیل دینا سکھایا جاتا ھے ،، جو امت آسمانی کتاب کھو دیتی ھے وہ حقِ تبلیغ بھی کھو دیتی ھے ، کیونکہ اس کے پاس آلہ تبلیغ نہیں ھوتا ،،اسی وجہ سے مسلمان آج پوری دنیا میں بستر اٹھائے پھرتے ھیں جبکہ دیگر کسی مذھب کو تبلیغ کی اجازت نہیں دیتے ،، باطل چونکہ  بے دلیل ھوتا ھے ،لہٰذا وہ اپنی بنیاد جبر اور ظلم پر رکھتا ھے ،یہ سورہ البروج میں بہت واضح طور پر سمجھایا گیا ھے ،کہ باطل کو کیوں آگ کی خندقوں کی ضرورت محسوس ھوئی اور کیوں عتبہ بلال کو تپتی زمین پر لٹاتا تھا ،کیونکہ عتبہ ،ربیعہ اور ابو جہل کے پاس دلیل کی طاقت نہیں تھی ، قرآن حکیم میں 400 کے لگ بھگ آیات اوامر اور نواھی یعنی قانون کی ھیں باقی سارا قرآن دلائل سے بھرا پڑا ھے،جو وجودِ باری تعالی کے علاوہ توحید کے دلائل بھی دیتا اور کفار کو چیلنچ دیتا ھے ،کہ ھاتوا برھانکم ، لاؤ اپنے دلائل اگر تم سچے ھو !! آج اھلِ سنت اکثریت میں ھونے کے باوجود دلیل کی قوت سے محروم لگتے ھیں ،اور دلیل کی بجائے اے ۔کے 47 سے کام چلانے کی کوشش کر رھے ھیں- حق اپنے اندر زبردست  کشش اور طاقتور پیغام رکھتا ھے ،،،اسے اپنا پیغام پہنچانے کے لئے لوگوں تک رسائی اور وقت چاھئے،  یہ ھی وہ دو فائدے تھے تو امام الانبیاء نے حدیبیہ کے میدان میں اپنے ھاتھ سے محمد ﷺ رسول اللہ کاٹ کر محمد بن عبد اللہ لکھ کر حاصل کیے تھے، لوگوں تک بلا روک ٹوک رسائی اور وقت !! صحابہؓ کی جزباتیت کے باوجود اللہ نے اس سہولت کو فتح مبین قرار دیا ، اور پھر وقت نے ثابت کیا کہ وہ کام جو 20 سال میں نہیں ھوا تھا وہ دو سال میں ھو گیا  اور لوگ فوج در فوج اسلام  میں داخل ھوئے، حدیبیہ میں اگر 1400 تھے تو 2 سال بعد 10،000 ھزار کا ایک لشکر مکہ میں فاتحانہ داخل ھو رھا تھا ،، کیا یہ باتیں صرف ممبر پر کہنے کو رہ گئی ھیں؟ عملی زندگی میں اسلام اپنا پیغام اور دلیل کھو چکا ھے؟ گالی دینے والے کے پاس کوئی دلیل نہیں اس لئے وہ کسی کے سامنے گالی دیتا بھی نہیں ،اور نہ ھی کوئی نفیس اور سلیم الطبع شخص گالی کو ثواب سمجھ سکتا ھے ،چاھے اس کا تعلق کسی بھی مذھب کے ساتھ ھو ،، الحمد للہ میں نے اپنی 52 سالہ زندگی میں ایک گالی بھی کسی شیعہ سے نہیں سنی ، شاید  خوش قسمتی سے میرا پالا سدا بہترین انسانوں سے ھی پڑا ، باقی میراثی ،اور بھانڈ نسل کا مولوی یا ذاکر دونوں طرف پائے جا سکتے ھیں، اور میراثی  اور گھٹیا انسان تو اپنی ماں ،بہن ،بیوی ،اور بیٹی ،بیٹے کو بھی گالیاں دیتے  ھیں ،،کسی کو دیں تو کیا گلہ ھے ،انکی وجہ سے کسی کمیونٹی کے قتلِ عام کا فتوی کوئی جاھل ھی دے سکتا ھے ،بریلوی میراثی ، دیوبندیوں کی ماں بہن منبر ِرسول پر ایک کر دیتا ھے اور اس کا وضو بھی نہیں ٹوٹتا ،، دیوبندی میراثی ،، بریلویوں کی ماں بہن کو گندی گالیاں دیتا اور ساتھ کہتا ھے بلند آواز سے کہوووووو سبحان اللہ ،، اصل میں دین معزز نسلوں اور قوموں سے نکل کر میراثیوں اور نیچ ذاتوں کے ھاتھ لگ گیا ھے ،اور رضیہ غنڈوں میں پھنس گئی ھے ،،اللہ پاک نے قومیں قبیلے بنائے ھیں تو انکی کچھ  خصوصیات بھی الگ الگ رکھی ھیں ، جسطرح ،چونسے اور سندھڑی کا فرق ھے ،،   بریلوی  دلیل کی جنگ اسی دن ھار گئے تھے جس دن انہوں نے ممتاز قادری کو اپنا ھیرو بنا لیا تھا ،اس دن انہوں نے اپنے قتلِ عام کا لائسنس طالبان کو دے دیا تھا کہ ،جس کو تم کافر سمجھو اسے مارنے کا تمہیں ای طرح حق ھے جسطرح ممتاز قادری کو سلمان تأثیر کو مارنے کا حق تھا ،، بس اس دن کے بعد پھر داتا صاحب اور پاک پتں پر انہوں نے مشرکوں کو مار کر عشقِ نبیﷺ کا حق ادا کیا ، تعجب کی بات یہ ھے کہ جس قانون کے دفاع میں سلمان تاثیر کو قتل کیا گیا ،اس قانون پر خود ان لوگوں کو اعتبار نہیں  ،اگر اعتبار تھا اور وہ قانون اتنا ھی بے غبار تھا تو تم لوگوں نے سلمان کے خلاف 295،سی کے تحت مقدمہ درج کیوں نہیں کرایا ؟ اور  اگر اعتبار نہیں تھا تو اسکی خاطر بندہ کیوں مارا؟؟ کوئی عقلی دلیل ھے تم لوگوں کے پاس؟ اسلام صراط مستقیم ھے اور  بھول بھلیوں سے نکلنے کا واحد رستہ ھے ،،اس کے باھر جس نے بھی رستہ تلاش کیا ھمیشہ بند گلی پہ جا کر کھڑا ھوگیا ، اور آج سارے فرقے بند گلی میں کھڑے ھیں ،کسی کے پاس حل نہیں ،،حل قرآن میں موجود ھے مگر ان سارے فرقوں کا قرآن سے کوئی لینا دینا نہیں سارے قرآن کو اپنے پیچھے چلاتے ھیں قرآن کے پیچھے چلنے اور قرآن کو امام بنانے کا کسی کا ارادہ نہیں ،، موجودہ حالات میں سے اگر نکلنا ھے تو سورہ توبہ میں ان تمام مسالک کے اختلافات کا حل موجود ھے ،،فھل من مدکر؟ اب جب عملماء آپس کے مسائل کو مجمعوں میں لے گئے اور علم کی بجائے کثرت اور طاقت کو  دلیل بنا لیا تو پھر ایسا ھوتا ھے کہ انسان حالات پیدا تو خود کرتا ھے مگر پھر حالات کا یرغمال بن جاتا ھے ،جسطرح ھاکس بے پر ڈوبنے والا  اپنی مرضی سے سمندر میں اترتا ھے ،،مگر پھر اپنی مرضی سے نکل نہیں سکتا ، سمندر کا اسیر ھوجاتا ھے ،،اسی طرح  علماء آج حالات کے اسیر ھیں اور دم سادھ کے اور جان بچا کے بیٹھے ھیں ،، اور مسلک کو بارودی مولویوں کے سپرد کر دیا ھے ، جس نے بھی فتوی بدلنے کی کوشش کی مار دیا گیا ، میرے پاس اس کی عملی مثالیں موجود ھیں ،، عام مسلمانوں سے گزارش ھے کہ ان قاتلوں کے لئے جواز نہ تراشیں اور نہ ان کا دفاع کریں ،، قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فری ھینڈ دیں تا کہ وہ ان سے نمٹیں ، سیاسی رابطوں سے ان کو تحفظ فراھم نہ کریں ،  اسی میں ھر فرقے کی بہتری ھ
ے اور آئندہ نسلوں کی بقا اور ملکی سلامتی کا انحصار ھے، ورنہ تیری داستاں بھی نہ ھو گی داستانوں میں !

سورۃ القصص،عورت کی ذات کے مختلف پہلوؤں کا گلدستہ،عورت کا اعزاز !

March 12, 2013 at 7:47am

سورہ القصص ایک گلدستہ ھے جو عورت ھی کی مختلف حیثیتوں کو مختلف رنگوں اور شیڈز میں کچھ اسطرح پیش کرتا ھے کہ فیصلہ کرنا مشکل ھو جاتا ھے کہ ان میں سے عورت کا کونسا روپ زیادہ عظیم اور مقدس ھے، اور کس میں عورت اپنی عقل و فہم کی معراج پر نظر آتی ھۓ ، حضرت موسی علیہ السلام کی والدہ ایک طرف تو گھر میں اتنی غالب اور اور فیصلہ کن حیثییت رکھتی ھیں کہ اللہ موسی علیہ السلام کے والد کی بجائے براہ راست انکی ماں کو وحی فرماتا ھے، جبکہ والد موجود تھے ،مگر پورے قصہ موسی میں وہ پکچر میں ھی نہیں ھیں ، بات شروع ھی بڑے طمطراق سے ھوئی ھے کہ ،فرعون ایسا تھا ،ویسا تھا ،وہ یہ یہ ستم کر رھا تھا اور ھم نے فیصلہ کیا کہ بہت ھو گیا اب ھم اس قوم کی حالت بدل کر رھیں گے ،کمزوروں کی کمزوری کو قوت سے بدلیں گے اور ان کی اس پستی کو عزت میں تبدیل کر دیں گے ، اب تو ھم ان کو حاکم بنا کر چھوڑیں گے اور آلِ فرعون اور ھامان ان کے لاؤ لشکر کو وہ کچھ کر کے دکھائیں گے جس کے خدشے سے انہوں نے ظلم و ستم کی چکی چلا رکھی ھے ،،، پتہ چلتا ھے کہ اتنی لمبی سٹیٹمنٹ کے بعد کوئی دھماکہ کیا جائے گا ، کوئی اھم ترین قدم اٹھایا جانے والا ھے جو قوم کی تقدیر بدل کر رکھ دے گا،،، وہ اھم اقدام کیا تھا ؟ ھم نے وحی کی ام موسی کی طرف کہ بچے کو تسلی سے دودھ پلاتی رھو اگر خدشہ محسوس ھو تو اس کو تابوت میں رکھ کر دریا میں پھینک دینا ،میں دریا سے کہے دیتا ھوں کہ وہ اس کو امان کے ساتھ کنارے پر لگا دے ،،اوئے دریا اس بچے کے تابوت کو ڈبونا نہیں بلکہ کنارے پر لگانا ھے،امام محمد متولی الشعراوی فرماتے ھیں کہ ام موسی کو تسلی کے لئے دریا سے رب کا خطاب سنوایا گیا ،، عرض یہ کرنا ھے کہ اللہ پاک نے گھر میں عورت کے ڈومینینٹری کردار کو تسلیم کر کے عورت کو فیصلہ لینے کے لئے کہا ھے، اگر ھم بھی کسی گھر میں شوھر کو کمزور دیکھ کر عورت سے گھر یا گاڑی کا سودا کر لیں تو کوئی حرج نہیں ،، عورت کا فیصلہ اخری ھوتا ھے ،جبکہ شوھر کا فیصلہ بیوی کی منظوری کا محتاج رھتا ھے،پارلیمنٹ کے ووٹ کی طرح،،، ام موسی علیہا السلام کے عمل کے بعد فرعون کی بیوی آسیہ کا کردار بحیثیت ایک حاوی خاتون کے ظاھر ھوتا ھے ،گویا موسی عورت سے عورت کینگرانی میں عورت کو منتقل ھو رھے ھیں ،، مرد صرف ساہڈ ھیرو ھے، عورت کی نگرانی سے مراد موسیؑ کی بہن ھے مراد ھے ،بڑا بھائی ھارون دستیاب ھونے کے باوجود ماں کا بیٹی کو جاسوسی کے لئے منتخب کرنا اگر ایک طرف ماں اور بیٹی کے آپس کے تعلقات کے قرب کو اجاگر کرتا ھے تو دوسری طرف ماں کی اس صلاحیت کی طرف اشارہ کرتا ھے کہ ماں اپنے بچوں کی صلاحیتوں سے اچھی طرح آگاہ ھوتی ھے ، پھر بیٹی کا اسطرح نگرانی کرنا کہ وہ بچے سے اپنی کسی دلچسپی یا تعلق کو ظاھر کیے بغیر بچے پر نظر رکھے ،بہت بڑی بات تھی اور اللہ پاک نے اس کی اس ادا کا خاص ذکر فرمایا ھے کہ ماں نے تو بیٹی سے کہا” پیچھے لگ جا اس کے ” پھر فرمایا ،پس اس نے نظر رکھی اس پر اجنبی بن کر اور ان کو پتہ بھی نہ چلنے دیا” کہ اس 9 سال کی بچی کا اس تابوت والے بچے کے ساتھ کوئی تعلق ھے ،، بلکہ جب اس بچے کی زندگی اور موت کا فیصلہ ھونے جا رھا تھا اور فرعون اور اسکی بیوی میں بچے کو قتل کرنے ،نہ کرنے پر بحث چل رھی تھی تو اس لڑکی نے اس پورے عرصے میں اپنے کزی جذباتی لگاؤ کو ظاھر نہیں ھونے دیا نہ ھی اتنی بیتابی دکھائی کہ محل والے چونک جاتے اور نہ ھی رونا دھونا شروع کیا ،،بلکہ مناسب وقت کا انتظار کیا اور بچے کو پالنے کا فیصلہ ھو گیا اور بچے کو دودھ پلانے کی بحث شروع ھوئی تو اس نے مشورہ دیا کہ ” کیا میں تمہیں بتاؤں وہ گھرانہ جو اس کو خیرخواھی سے دودھ پلائے اور پالے ،کیونکہ بچہ کسی اور کا دودھ نہیں پی رھا تھا،، اور روئے جا رھا تھا اور بھوک سے ھلکان تھا ، اس اضطراری موقعے پر کسی کو سوچنے کی مہلت ھی نہیں ملی کہ 9 سال کی بچی دودھ کے معاملات کو کیا جانے ،یا اس کو کیا پتہ کہ کون بچے کا خیر خواہ ھے،،یہ وقت کے انتخاب کا کمال ھے ،،، دوسری جانب جب صندوق کنارے لگا اور صندوق میں سے بچہ نکلا جو ظاھر بنی اسرائیل کا ھی تھا ، جس کو قتل سے بچانے کے لئے کسی ماں نے دریا میں ڈال دیا تھا،اور وہ قاتلوں کے ھاتھ لگ گیا تھا ، فرعون اس کو فوری قتل کرنے پر اصرار کر رھا تھا ،جبکہ فرعون کی بیوی ڈھال بنی کھڑی تھی کہ ،لا تقتلوہ ” مت قتل کرو اس کو ،،ھم اس کو اپنا بیٹا بنا لیتے ھیں ،چار دن کھیلیں گے ،گھر کی رونق رھے گا،، اگر کوئی ایسی ویسی بات دیکھی تو قتل کر دیں گے ،،اتنی افراتفری کی ضرورت کیا ھے ؟ کیا یہ ابھی سے تلوار اٹھا لے گا؟ گھر میں اداسی ھے اپ دربار چلے جاتے ھو اور میں گھر میں اکیلی مکھیاں مارتی رھتی ھوں ،ذرا ماحول میں چینجنگ ھو جائے گی ،، اسطرح ھامان جیسے خرانٹ مشیر کے مشوروں کےمقابلے اپنی بات منوا کر ایک عورت کی جیت ھوئی اور اس گھر میں بھی اللہ نے موسی حفاظت کے لئے ایک عورت پر بھروسہ کیا جس نے اس اعتماد پر پورا اتر کر دکھایا اور جو ٹاسک اس کو سونپا گیا تھا،وہ اس نے پورا کر دکھایا،یعنی تینوں جگہ اللہ نے عورتوں پر بھروسہ کیا تینوں جگہ عورتیں کامیاب ھوئیں،پہلے ام موسی ،پھر اُختِ موسی ، پھر فرعون کی بیوی ،گویا تینوں عورتوں کا ریزلٹ 100٪ رھا ،جبکہ آگے چل کے آپ ھاروں علیہ السلام کے بارے میں پڑھیں گے کہ موسی علیہ السلام نے ان کو جو ذمہ داری سونپی تھی وہ اس میں فیل ھوگئے اور سامری اینڈ کمپنی کی ایکٹیویٹیز کو ٹھ
یک طرح سے مانیٹر نہ کر پائے اور سامری نے پوری قوم کو اپنی گرفت میں لے لیا اور حضرت ھارون اپنی نماز روزے میں لگے رھے، مگر جب ان لوگوں نے بچھڑے کو خدا بنا لیا تو اس وقت وہ متحرک ھوئے مگر وقت ھاتھ سے نکل چکا تھا اور قوم کچھ اس طرح سامری کی معتقد ھو چکی تھی کہ وہ ان کو قتل کرنے پر بھی تیا ر ھو گئی ،،، موسی علیہ السلام فرعون کے محل میں پلتے رھے پھر جب وھاں سے انکو نبوت کی تربیت کے لئے اکیڈیمی منتقل کرنے کا مرحلہ آیا اور آپ سے ایک قتلِ خطا سرزد کروا کے اس کو افشاء کیا گیا اور موسی علیہ السلام کو مدین کی بستی میں داخل کر دیا گیا ،جہاں پھر عورت ھی انکا استقبال کرنے کے لئے موجود تھی ،، شیخ مدین کی دو بیٹیاں پانی پلانے کو کھڑی تھیں، وہ حیا کی وجہ سے مردوں میں گھلتی ملتی نہیں تھیں اور بچہ کھچا پانی ھی اپنے جانوروں کو پلا پاتی تھیں ،، مگر اس سارے عرصے میں پیاس سے بےتاب جانوروں کو روک روک کے رکھنا بڑا مشکل اور اذیتناک مرحلہ ھوتا ھے ،اس کا اندازہ مویشی چرانے والوں کو ھی ھو سکتا ھے ،، آپ نے ان لڑکیوں سے پوچھا کہ تمہیں مسئلہ کیا ھے؟ چھوڑ دو جانوروں کو جا کر پانی پینے دو! انہوں نے بتایا کہ ھماری بستی کا دستور یہ ھے کہ جو ادمی پانی کھینچ رھا ھو اسی کے جانور پانی کے ٹب کے پاس جا سکتے ھیں ،، آپ نے ڈول پکڑا اور جھٹ پٹ پانی کھینچ کر پلا دیا ،، اور خود جا کر درخت کے نیچے کھڑے ھو گئے اور دعا کی پروردگا میں آج اتنا مجبور و بے کس ھوں کہ جو بھی جتنی بھی خیر تو بھیج دے میں فقیر ھوں ،، پس ان میں سے ایک حیا سے ،حیا پر چلتی ھوئی آئی ،،گویا وہ عورت موسی علیہ السلام کی دعا کا جواب” خیر ” تھی اب ساری خیریں اس خیر سے نکلنی تھیں،،وہ  لڑکی جناب موسیؑ کو بہترین اور بامقصد الفاظ سے مخطب کرتی ھے اور ایسی معقول وجہ بیان کرتی ھے کہ موسیؑ جیسے حساس شخص کی انا کو ٹھیس پہنچائے بغیر ساتھ جانے پر آمادہ کر لیتی ھے ،، گھر میں وھی لڑکی باپ کی مشیر ھے اور کہتی ھے ابا  ھمیں اب گھر میں کسی مرد کی سخت ضروت ھے ،اور یہ بندہ بڑا دیندار،قوی اور دیانتدار ھے ،اس سے اچھا بندہ ملنا مشکل ھے اسے ھاتھ سے نکلنے مت دینا ،لیں جناب لڑکی کا مشورہ مان لیا گیا ،گھر میں جوان کو اسی صورت رکھا جا سکتا تھا کہ کوئی محرم رشتہ قائم ھو جائے ،، موسیؑ کو رشتے کی پیش کش کی گئی اور آپ نے قدرتاً اسی لڑکی کی طرف میلان ظاھر فرمایا جو خیر بن کر آئی تھی ، اس پورے قصے میں آپ نے عورت کی عقل و فہم ،کمٹمنٹ، ڈیڈیکیشن اور اپنے کام کو بہترین انداز میں پایا ئے تکمیل تک پہنچانے کی صلاحیت نوٹ کی ھوگی ،،یہ ھے عورت کا وہ قرآنی پہلو جس کو پڑھ کر یورپ کی عورت ششدر رہ جاتی ھے، اور اپنے کو مسلم بنانے میں فخر محسوس کرتی ھے

اسلامی عقائد و معاشرت پر ھندو مت کے تباہ کن اثرات !

March 3, 2013 at 6:27am

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ، والصلوۃ والسلام علی اشرف الانبیاء والمرسلین، وعلی آلہ و اصحابہ اجمعین ،،

امۜا بعد – کل ایک پوسٹ میں رخصتی کا ایک منظر دکھایا گیا تھا جس میں ایک بیٹی اپنے باپ کے گلے لگ کر رو رھی تھی اور اس کے نیچے بڑا دردناک شعر لکھا گیا تھا ،”کہ باپ سے بھی ملتی ھیں تو شوھر سے پوچھ کر،،، بیٹی جب رخصت ھوتی ھے تو حقدار بدل جاتا ھے ،، بظاھر یہ بے ضرر سا شعر ھماری نفسیات کو واضح کر دیتا ھے کہ ھم  صدیوں سے نسل در نسل جو اسلام کاپی کرتے چلے آ رھے ھیں ،اسکی بناوٹ میں ملاوٹ کچھ اسطرح رچ بس گئی ھے کہ اب بہت کچھ ھندو ھوتے ھوئے بھی ما شاء اللہ اسلام کی سیٹیزن شپ پا چکا ھے ،،ھمارے سارے سماجی رویۜے ھندو رسم و رواج سے متعین ھوتے ھیں اور اسلام صرف بدنام ھوتا ھے ، یہ کچھ ایسی ھی صورتحال ھے کہ آپ کے ساتھ چلنے والا دوست اچانک پاس سے گزرنے والی گاڑی کو پتھر دے مارے اور پھر جب گاڑی کا مالک گاڑی روک کر غصۜے سے لال پیلا ھو کر باھر نکلے تو وہ دوست معصومیت سے آپ کا نام لے دے کہ ” انکل انکل اس نے پتھر مارا تھا ” اب آپ جو تماشہ دیکھنے کا موڈ بنا کر بیٹھے تھے خود تماشہ بن بیٹھے ” یہ جو بیٹی کی رخصتی پر ھم ماتم کا سماں باندھ دیتے ھیں ! میں روئی تینوں روایا وئے بابلا ،تو پیار کیوں اینہاں پایا وے بابلا ،، تو یہ اسی نفسیات کا کارنامہ ھے ،،40 سال عربوں میں رھتے گزر گئے ھیں کسی باپ کو روتے نہیں دیکھا اور ثقہ راوی کی روایت ھے کہ انہوں نے بھی کسی بیٹی کو رخصتی کے وقت روتے نہیں دیکھا ،، ازواجِ مطھرات ؓ اور بناتِؓ نبیﷺ کے معاملےمیں بھی رو رو کر لوٹ پوٹ ھونے کی کوئی روایت ان گنہگار آنکھوں سے نہیں گزری ،، پھر یہ ھنگامہ سا یا رب کیا ھے ؟ یہ سارا ھنگامہ ھندو عقائد کا ماحصل ھے ،،ھندو ازم میں بیٹی کی ڈولی نہیں جنازہ نکلتا ھے اور وہ باپ کے گھر سے ھر حق سے محروم ھو کر نکلتی ھے، یہانتک کہ باپ کا نام بھی اس کے نام کے ساتھ سے بڑی بے دردی کے ساتھ  اچک کر شوھر کا نام لگا دیا جاتا ھے ،،گویا وہ کوئی محسوسات رکھنے والی زندہ ھستی نہیں ھے بلکہ ایک بے جان شے ھے جس کا حق ملکیت بدلی ھو کر کسی اور کے نام رجسٹرڈ ھو گیا ھے ،،اور نکاح نامے کے نام پر بیعہ نامہ تحریر کیا گیا تھا ،جو حقوق کی منتقلی کی دستاویز تھی ،، بیٹی باپ کے گھر کی کسی چیز کی وارث و مالک نہیں ھوتی ! یہ پسِ منظر ھے لپٹ لپٹ کر اور دھاڑیں مار مار کر رونے کا ! کچھ یہی معاملہ ھمارے عقائد کا بھی ھے،سماجی معاملات کی طرح عقائد بھی ھندو ازم سے کچھ یوں گڈ مڈ ھو کر رہ گئے ھیں کہ انکو الگ کرنا ناخنوں سے گوشت الگ کرنے کی طرح تکلیف دہ عمل بن کر رہ گیا ھے،،بڑے بڑے دینداروں کو جب یہ بتایا جاتا ھے کہ یہ عقیدہ اسلامی نہیں بلکہ ھندوانہ ھے تو ان کا ردِ عمل دیکھنے والا ھوتا ھے ! تقابل ادیان میں تخصص انسان کو گوگل میپ کی طرح فوکس کر کے بتا دیتا ھے کہ یہاں اسلام دوسرے مذاھب میں نفوذ کر رھا ھے اور یہاں دوسرا مذھب اسلام میں اسلام کے نام پر داخل ھو رھا ھے !! میں یہ چاھتا ھوں کہ اسلام میں عورت کا جو سماجی مقام اور مرتبہ ھے اس کو قرآن و حدیث کی روشنی میں دیکھا جائے اور جہاں بھی ھم سے کوتاھی ھوئی ھے اس کی نشاندھی کی جائے ،،تا کہ نسلوں کی تربیت کی ذمہ داری اللہ پاک نے جس کے کندھوں پر ڈالی ھے ،،اسے اس ذمہ داری کے قابل بنایا جا سکے ،،اس کے لئے” عورت  قرآن کی نظر میں ” کے عنوان سے چند گزارشات کروں گا ،،ان شاء اللہ

عورت قرآن کی نظر میں ،2

March 12, 2013 at 12:12am

وفد کی واپسی اور رپورٹ پر بھی ملکہ بلقیس کی تسلی نہیں ھوئی اور اس نے خود صورتحال کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ، اور چل پڑی ،حضرت سلیمان نے اس کا تخت منگوا کر جو سرپرائز اس کے لئے تیار کر رکھا تھا اس کو بھی اسنے بڑے ھی ڈپلومیٹک انداز میں لیا اور اپنا وقار بچا لیا، اصل بات یہ ھے کہ اللہ پاک کو اس کے ڈائلاگ اور انداز اتنا پسند آیا ھے کہ خاص طور پر ان مکالموں کو  کوٹ کیا گیا ھے ،،، خیر تمام صورتحال کا اندازہ کر کے وہ خاتوں مسلمان ھوئیں ، اپنا ملک بھی بچا لیا ، عوام بھی بچا لئے دینِ توحید اختیار کیا اور رسول کی بیوی بننے کا اعزاز حاصل کیا اور  اللہ کے حکم سے سلیمان علیہ السلام نے ان کو ان کی حکومت واپس کردی جس پر وہ مرتے دم تک حکمرانی کرتی رھیں ،،یہ ھے عورت کی حکمرانی پر اللہ کا فیصلہ  اور عورت کی حکمت  اور تدبر پر قرآن کا تبصرہ ، مگر ھمارے یہاں عموماً ایک حدیث پیش کر کے اس سارے قضئے اور سورہ النمل کی جان نکال دی جاتی ھے، کہ نبی کریمﷺ کا ارشاد پاک ھے کہ جس قوم کی حکمران عورت ھو وہ کبھی فلاح نہیں پا سکتی ،، مگر سوال یہ ھے کہ آشیاء اپنے ضد سے پہچانی جاتی ھیں ،،اگر یہ اصول ھے تو پھر اس کا ضد یہ ھے کہ جس قوم کا حکمران مرد ھے وہ کبھی تباہ و برباد نہیں ھو سکتی ھے ، جب کہ ھم دیکھتے ھیں کہ قوموں کی بربادی ھوئی ھی مرد حکمرانوں کے ھاتھوں ھے ، گویا یہ کوئی اصول نہیں ھے بلکہ سٹیٹمنٹ آف فیکٹ ھے ،،مثلا ایک جہاز میں بہت سارے مسافر ھیں جن میں 20 عورتیں اور 10 بچے بھی ھیں ،جہاز میں کوئی فالٹ پیدا ھو گیا ھے اور فیول ختم ھو گیا ھے ، اور ائرپورٹ دستیاب نہیں ھے ،اس وقت ایک انا ؤنسر کہتا ھے کہ جناب جس جہاز میں 20 عورتیں اور 10 بچے ھیں وہ کریش کر جائے گا اور سب ھلاک ھو جائیں گے ،،سٹیٹمنٹ آف فیکٹ یہ ھے کہ جو سیچوئیشن پیدا ھو گئی ھے اس کا نتیجہ بیان کیا جا رھا ھے،، اور آصول یہ ھے کہ آئندہ جس جہاز میں 20 عورتیں اور 10 بچے ھونگے وہ کریش کر جائے گا ،،امید ھے آپ کو سمجھ لگ گئی ھو گی کہ  ایرانی حکمران کے نبی کریمﷺ کا خط پھاڑنے پھر بیٹے کے بغاوت کرنے اور پھر بیٹے کے مارے جانے اور بیٹی کے حکمران بننے پرحضور تبصرہ فرما رھے تھے کہ میری بد دعا کے بعد کہ اے اللہ اس کے ملک کو بھی اسی طرح ٹکڑے ٹکڑے کر دے جسطرح اس نے میرا خط پھاڑا ھے ،پھر بغاوت اور جوابی بغاوت کے بعد بیٹی کی حکمرانی پر آپ نے فرمایا کہ وہ قوم جس نے ابھی ابھی عورت کو حکران بنایا ھے اس قسم کے اقدامات سے تباھی سے بچ نہیں سکتی وہ تباہ ھو کر رھے گی ! اگر کوئی مونچھوں والا بیٹھتا تو حضورﷺ فرماتے کہ جس قوم نے مچھل کو حکمران بنا لیا ھے تباھی سے نہیں بچ سکتی ،، یہ ھے وہ بات جو نہ تو قرآن سے ٹکراتی ھے نہ اللہ کی سنت سے ،،  مگر یہ اصول بنا لینے کے بعد کے ھر حدیث کو قرآن پر پیش کیا جائے گا اور جو اس کے خلاف ھو گی اس کو رد کر دیا جائے گا ،،شاید کم ھی احادیث کو اس چھلنی سے گزارا گیا ھے ،،ابھی تو اپ جب سورہ القصص کو پڑھیں گے تو خواتین کے جوھر کھلیں گے ،جن کا اعتراف ھم بہت کم ھی کرتے ھیں ،،

عورت قرآن کی نظر میں !

March 11, 2013 at 3:46pm

جب ھم سنتے یا پڑھتے ھیں کہ یورپ کا پڑھا لکھا طبقہ خاص طور پر خواتین دھڑا دھڑ مسلمان ھو رھے ھیں تو تجسس جاگ اٹھتا ھے کہ آخر قرآن میں  استدلال کی وہ کونسی قوت پوشیدہ ھے ،جس نے ان  صاحب  عقل و فہم لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا ھے ، اور عملی زندگی میں اسلام اور مسلمانوں کی زبوں حالی اور مارکیٹ میں دستیاب ھم جیسے نام نہاد مسلمانوں کو دیکھ  لینے کے باوجود وہ دائرہ اسلام میں آنے  اور اپنے مفادات کی قربانی دینے پر آمادہ ھو گئے ھیں ، نیز ایک اسلام دشمن معاشرے میں نکو بن کر رھنا اور مسلمانوں کے روزمرہ کارناموں کے طعنے سننا بھی ایک اذیت ناک صورتحال ھے ، اس بین الاقوامی اسلام دشمن پروپگنڈے کے باوجود کہ اسلام عورتوں کے حقوق کا دشمن ھے اور اسلام میں عورتوں کو عملاً قید کی زندگی گزارنی پڑتی ھے ،، آخر وہ کونسا طاقتور پیغام چھپا بیٹھا ھے قرآن میں کہ جو یورپ کے مذھب دشمن معاشرے میں گلے گلے تک دھنسے اور پھنسے لوگوں کو نکال کر لے آتا اور اپنے سینے سے لگا لیتا ھے ؟ ھم نے تو جو سنا اور مسلسل سنتے چلے آ رھے ھیں  اور پڑھا اور پڑھتے چلے آ رھے ھیں ،کہ عورت ایک گھریلو جانور ھے ،جو عقل و فہم اور دین میں ناقص ھے، یہ مسجد نہیں جا سکتی لوگوں کا دین خراب کر دیتی اور فتنے پیدا کرتی ھے ،مرد کے برابر کھڑی ھو جائے تو مرد کی نماز ٹوٹ جاتی ھے،چاھے وہ مرد اسکا باپ،بھائی ،بیٹا یا شوھر ھی کیوں نہ ھو !  کتا ،گدھا اور عورت نماز توڑنے میں برابر ھیں ،تینوں مرد یا عورت کے آگے سے گزر جائیں تو نماز ٹوٹ جاتی ھے ، اس کی گواھی آدھی ھے، وغیرہ وغیرہ ،، ھم  یہ چاھتے تھے کہ کسی نو مسلم خاتون سے انٹرویو ھی کر لیں کہ بی بی "چوں بگویم مسلمانم بلرزم ،کہ دانم مشکلاتِ لا الہ را ”  اسلام کو سمجھا ھے یا بس شوقیہ ھی مسلمان ھو گئی ھو ؟ پھر ھم نے سوچا کہ وھاں تو ٹائم ملے یا نہ ملے ،، خود ھی قرآن کو خالی الذھن ھو کر ایک نو مسلم کی حیثیت سے پڑھ لیا جائے ،،، بس صاحب پھر تو آج تک جو پڑھا تھا اور جو کچھ کہ سنا تھا وہ افسانہ ھو گیا ، اور عورت کا وہ مقام واضح ھو گیا  جس سے قرآن اس کو نوازتا  ھے اور جس کو پڑھ کر یورپ کی عورتیں جوق در جوق اسلام کو سینے سے لگا رھی ھیں ،،،قرآن حکیم میں ایک صورت ھے ،” سورہ القصص ” 20 ویں پارے میں ھے ،اس سورت میں اللہ پاک نے عورت کی چاروں حیثیتوں ،ماں ،بہن ،بیوی اور بیٹی کو اپنا موضوع بنایا ھے ،جس طرح اسکی تعریف کی ھے ،شاید ھم مردوں کو وہ مقام ملتا تو ھم اس سورت کو نماز میں پڑھنا واجب قرار دے دیتے ،، قرآن  نے بتایا ھے کہ بولڈ فیصلے لینے میں عورت کا ثانی نہیں ھے،، یہ بہترین جاسوس، بہترین مشیر ھے اور گھریلو معاملات میں اس کی رائے فیصلہ کن حیثیت رکھتی ھے، اپنے رشتے میں رائے دینا اس کا بنیادی حق ھے اور نبی سمیت تمام مسلمانوں کو اسکی رائے کو وقعت دینا چاھئے ، 

عورت اور  گھر !

عورت گھریلو معاملات میں کس طرح بولڈ فیصلے کرتی ھے ،اس کا پہلا مظھر تو سورۃ آل عمران میں حضرت مریم کی والدہ کا فیصلہ تھا کہ جو بچہ میرے پیٹ میں ھے ، یہ اللہ کی نذر ھے اور معبد کے حوالے کیا جائے گا ، اتنا بڑا فیصلہ ایک صائب الرائے عورت ھی کر سکتی ھے ،پھر اسی سورت میں اللہ پاک نے وہ جملہ ارشاد فرمایا کہ ،،مرد    عورت جیسا یا لڑکا لڑکی جیسا نہیں ھو سکتا تھا،، پھر یہ بات  حضرت مریم پر ڈالے جانے والے بوجھ سے واضح بھی ھو گئی کہ ایک سید خاندان کی بچی کا بلا شوھر حاملہ ھو جانا اس معاشرےمیں جس قدر ھولناک تھا اور جسطرح لوگوں نے ردعمل دیا فی الواقع یہ حضرت مریم علیہا السلام کا ھی دل گردہ تھا اس کا سامنا کرنا

عورت اور حکومت !

سورہ النمل پارہ 19 میں اللہ پاک نے جسطرح ملکہ بلقیس کا ذکر فرمایا ھے اور جس تفصیل سے اس کے حکومت کرنے کے طریقے کو بیان کیا ھے ،کاش وہ طریقہ ھمارے حکمران اختیار کر لیتے تو ملک میں امن و امان کا دور دورہ ھوتا اور بھوک افلاس  اور اس سے متعلق جن عذابوں سے ھم گزر رھے ھیں وہ آج ناپید ھوتے اور ملک میں عملاً دودھ کی نہریں بہہ رھی ھوتیں ،، جب ھدھد نے حضرت سلیمانؑ کو ملکہ سبا کی حکومت اور وھاں آسودگی اور مال و اسباب کی فراوانی کا ذکر کیا ،نیز ان کے سورج پرستی کا تذکرہ کیا تو ،آپ نے نبیوں کے اسوئے کے مطابق اسے ایک تادیبی خط لکھوایا،،، ملک سبا کے بت پرستی کی آلائش کے باوجود آسودہ حال ھونا یہ بتاتا ھے کہ اگر قوم بت پرست اور لادین بھی ھو مگر حکومت عدل و انصاف کے ساتھ کی جائے تو زمین اپنے خزانے اس کے لئے کھول دیتی ھے، جسطرح صحیح کوڈ مسلمان مارے یا کافر مشین اس کی کمانڈ کو مانتی ھے ،،ھم مسلمان ھونے کے باوجود حکومت کے طریق سے واقف ھیں،وہ طریق جس میں برطانیہ کے وزیرِ اعظم کی اولاد بھی اسی سرکاری سکول میں پڑھے گی جہاں عوام کے بچے پڑھتے ھیں ،،اور جب ٹریفک کی خلاف ورزی پر جارج بش جونیئر کے بھائی کی بیٹی پکڑ کر جیل بھیج دی گئی تو اس کا باپ جو ریاست کا گورنر تھا ،اور لڑکی کا تایا سٹنگ صدرِ امریکہ تھا اور دادا سابقہ صدرِ امریکہ تھا ،،مگر وہ گورنر لائن میں لگ کر اپنی باری پر اپنی بیٹی سے ملاقات کرتا تھا،،یہ عدل و مساوات درکار ھے حکومت کے لئے اور ملک و ملت کے وقار کے لئے ،، ھمارا سب کچھ بس کتابوں میں لکھا ھوا ھے ،،مگر کتابوں میں لکھی پیناڈول شفا نہیں دیتی تو حدیث کیسے نتائج دے گی ، جب تک اس کے مطابق فیصلے نہ کئے جائیں، الغرض حضرت سلیمان علیہ السلام کے نرالے انداز میں خط پہنچانے کے باوجود وہ عورت بت پرست ھوتے ھوئےبھی تعویز والوں کے پاس نہیں دوڑی کہ میرے کمرے میں ایک خط عجیب انداز میں غیب سے پھینکا گیا ھے ،، بلکہ اس نے اپنی شوری کا اجلاس بلایا اور اس میں اسکی تقریر اتنی اھمیت کی حامل ھے کہ اللہ پاک نے اس کے منٹس ریکارڈ کروا کر مسلمانوں سے شیئر کئے ھیں کہ حکومت اس طرح کی جاتی ھے ، یہ حکومت کا خالص اسلامی تصور ھے جو سورہ شوری میں بیان کیا گیا ھے ،، شوری میں اس نے کہا کہ مجھے ایک خط بہترین انداز میں لکھا گیا ھے اور لکھنے والا سلیمان نام کا کوئی بندہ ھے ،جس نے اللہ کے نام سے شروع کیا ھے،جو بڑا مہربان نہایت رحم ککرنے والا ھے، سلیمان نے مجھے لکھا ھے کہ میں سرنڈر کر کے اس کۓ حضور پیش ھو جاؤں ، میں نے تم لوگوں کو اس لئے بلایا ھے کہ تم مجھے مشورہ دو کہ میں اس خط کے جواب میں کیسا رویہ اختیار کروں ،کیونکہ میں نے آج تک کوئی فیصلہ تم سے مشورہ کیئے بغیر نہیں کیا،، انہوں نے جوان دیا کہ ھم جنگجو لوگ ھیں اور جنگ کرنا اچھی طرح جانتے ھیں، اور ساماں جنگ بھی ھمارے پاس وافر مقدار میں موجود ھے ،اور فیصلہ آپ کا ھے ،، آپ غور کر کے حکم دیں ،بجا لانا ھماری ذمہ داری ھے ،، فوج کے جنگ کا عندیہ دینے کے باوجود اس ملکہ نے جنگ کا فیصلہ نہیں کیا بلکہ اپنے سالاروں کو سمجھایا کہ جنگ کوئی کھیل نہیں ،،جنگ کے نتیجے میں فاتح قوم مفتوح قوم کے ملک میں فساد مچا دیتی ھے، بہتریں لوگوں کو ذلیل کر دیتی ھے اور ذلیلوں کو اٹھا کر اوپر لے آتی ھے ،جو اپنی قوم کا ستیا ناس کر کے رکھ دیتے ھیں،،پتہ چلتا ھے ملکہ بلقیس انگریزوں کے بعد پاکستان کی حکومت کا ذکر کر رھی ھے ،یا انگریزوں کے ھندوستان کا ذکر کر رھی ھے ،جہاں بہترین لوگ کالا پانی اور مالٹا کے قید خانوں میں ذلیل کئے جا رھے تھے اور انگریزوں کے کتے نہلانے والوں کو جاگیرین بانٹی جا رھی تھیں،،یہ اس عورت کا ویژن تھا کہ جس نے قرآن کے اتنے رکوع لے لئے، یہ ویژن آج بھی اتنا ھی ویلڈ ھے جتنا صدیوں پہلے تھا ،،اس نے تحفے دے کر ایک وفد صورتحال کا جائزہ لینے اور  حضرت سلیمانؑ کے ائندہ کے عزائم کا ادراک کرنے کے لئے بھیجا ، اور مزید کارروائی وفد کی واپسی تک ملتوی کر دی

اسلام ، عورت اور ھمارا سماجی رویہ !

March 3, 2013 at 8:58pm

اللہ پاک نے انسان کی تربیت ماں کے حوالے فرمائی ھے،کیونکہ تربیت کے لئے جس پیار اور صبر کی ضرورت ھوتی ھے اللہ نے اس کے خزانوں سے ماں ھی کو نوازا ھے، اسی لئے طلاق کی صورت میں بھی بچوں کو ماں کے سپرد کرنے کا ھی حکم دیا گیا ھے ، مرد پر نان نفقے کی ذمہ داری عائد کر کے عورت کو اس پریشانی سے بے نیاز کر دیا ھے ،، انسان جیسی انتہائی متلون مزاج اور نازک ترین تخلیق کو ھینڈل کرنا ایک کارِ مشکل ھے ،پھر اسے نئے دور کے تقاضوں کا سامنا کرنے کے لئے تیار کرنا ،اھمیت کا حامل ٹاسک ھے،جس کے لئے دینی اور دنیاوی تعلیم کا ھونا بہت ضروری ھے، اگرچہ ھم منہ سے تو اس بات کا بڑا چرچا کرتے ھیں کہ اسلام دینِ مساوات ھے ، اور مختلف فورمز پر ھمارے علماء حضرات یہ کہتے نہیں تھکتے کہ عورت کو ھر قسم کے حقوق اسلام نے دے دئے ھیں اور این،جی،اوز ھماری عورتوں کو ورغلاتی ھیں ،،مگر عملی طور پر ایک خاموش اجماع کے تحت عورت پر دینی علوم کے دروازے صدیوں سے بند رکھے جا رھے ھیں ، اور جنسِ مؤنث کے بارے میں ھمارے اور یہود کے رویئے میں کوئی انیس ، بیس کا ھی فرق ھو گا ، اور فی الواقع عورت،کتے اور گدھے کو ایک ھی سطح پر رکھا جا رھا ھے ( جن کے نمازی کے آگے سے گزرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ھے) ویسے کام تینوں سے ھی لیا جاتا ھے اور تینوں معاشرتی ضرورت ھیں ،،،جہاں عورت کو فری ھینڈ دیا گیا اور مساوات عملاً قائم بھی کی گئی وھاں عورت چوٹی پر پہنچی ھے ،، سائنس کی بات ھو تو وہ  سائنسدان بن کر خلاء سے ھو آئی ھے ! میڈیکل ھو تو اسپتال کی میڈیکل سپرنٹینڈینٹ بن گئی ھے،کاروبار کی بات ھو تو وہ بڑی بڑی بزنس ایمپائرز چلا رھی ھے،،سیاست کی بات ھو تو وزیر اعظم بن گئی ھے ،، مینیجمنٹ کی بات ھو تو ابوظہبی ائرپورٹ کی چیئرپرسن ،مس باجوہ ایک پاکستانی خاتون 90000 درھم ماہانہ تنخواہ لے رھی تھی ،ایک معمولی سی بات پر یوں استعفی دے دیا جیسے 900 درھم کی بات ھو ،،،تو جناب ِ عالی جہاں عورت کو مساوات دی گئی ھے،وھاں وہ سماج میں نظر بھی آتی ھے ، رہ گیا دین !! تو حضرت عائشہ صدیقہؓ کے بعد ھم نے کوئی خاتون 1400 سال میں پیدا نہیں کی ،، حضرت عائشہ صدیقہؓ ایسی بولڈ مفتی تھیں کہ بڑے بڑے جید صحابہؓ کے فتاوی ،ایک آیت پڑھ کر رد کر دیتی تھیں ،،اور یہ اصول آپ کا ھی وضع کردہ ھے کہ ھر حدیث قرآن پر پیش کی جائے گی ،جس کو قران رد کردے اس کی راویوں کی کوئی پرواہ نہیں کی جائے گی ،، جب آپ کے سامنے عبد اللہ ابن عمرؓ کی حدیث پیش کی گئی کہ نبیﷺ نے فرمایا ھے کہ عورت ،،کتا اور گدھا اگر انسان کے آگے سے گزر جائیں تو نماز ٹوٹ جاتی ھے،تو آپ نے فرمایا ابنِ عمر نے غلط سنا ،نبیﷺ تو بتا رھے تھے کہ یہود کہتے ھیں کہ عورت ،کتا اور گدھا آگے سے گزریں تو نماز ٹوٹ جاتی ھے ،اور اس سے یہود کا مقصد عورت کو ذلیل کرنا تھا،،نبیﷺ یہ بات کیسے کہہ سکتے تھے ،جبکہ خود میں نبیﷺ کے سامنے جنازے کی طرح لیٹی ھوتی تھی اور آپﷺ نماز پڑھ رھے ھوتے تھے،،پھر جب سجدہ مقصود ھوتا تو میرے پاؤں کو ھلاتے اور میں پاؤں سمیٹ لیتی تھی ؟ ھمارے علماء نے اس وضاحت کو قبول نہیں کیا اور نیا نقطہ نکالا کہ حضورﷺ فرض نماز کی بات کر رھے تھے کہ ٹوٹ جاتی ھے،،آپﷺ تو نفل پڑھتے تھے حجرے میں  اور نفل نماز نہیں ٹوٹتی !! دیکھا آپ نے کہ جب بزرگ نہ ماننا چاھیں تو سامنے کی نہ مانیں اور ماننا چاھیں تو حدیثِ احسان میں سے یوگا کا سارا فلسفہ تصوف کے نام پر نکال کر لے آئیں جس سے خود جبرائیل بھی حیران و پریشان ھو جائیں  ،،اگلی بھی سنتے جایئے کہ مساوات کا داعی یہ دین یہ بھی کہتا ھے کہ اپنی بیوی،ماں بہن بیٹی میں سے بھی کوئی اگر نماز میں آپ کے برابر کھڑی ھو جائے تو نماز ٹوٹ جاتی ھے ،،ھاں اگر وہ کوئی اور نماز پڑھ رھی ھو مثلاً نفل اور آپ کوئی اور پڑھ رھے ھوں مثلاً فرض تو پھر نہیں ٹوٹتی ،،گویا فرض ،اور فرض کا شارٹ سرکٹ ھو جاتا ھے ،،جو مائنڈ سیٹ نماز میں عورت کے برابر آ جانے پر نماز کے توڑ دینے کا حکم دیتا ھے ،چاھے وہ آپکی ماں ھو ،،وہ مساوات کو کیسے برداشت کر سکتا ھے؟،اب اگر فی الواقع عورت کو دینی علم میں فری ھینڈ دیا گیا ھے تو یہ کیسے ممکن ھے کہ ھر فیلڈ میں ٹاپ پر جا کر سانس لینے والی عورت 14 صدیوں میں ایک بھی شیخۃ الحدیث پیدا نہیں کر سکی اور کوئی ایک مفتی عورت 57 ملکوں میں تیار نہ ھو سکی ، ھر مدرسے میں مرد شیخ الحدیث ھی آ کر پردے کے پیچھے سے بچیوں کو حدیث پڑھا کر جاتا ھے ! آخر کیوں؟  میں نے اپنی بھانجیاں ،بھتیجیاں اور دیگر عزیز خواتیں میں سے تقریباً 16 بچیوں کو مختلف مدارس میں ڈال کر دیکھا مگر 4 سال لگانے کے بعد سوائے وضو اور غسل کے مسائل کے کوئی خاص چیز نہیں پڑھائی گئی ان 16 میں سے ایک بھی درسِ قرآن نہیں دے سکتی اب مجبوری ھے کہ انہیں ڈاکٹر فرحت ھاشمی کے پاس سال دو سال کے لئے بھیجا جائے تا کہ درسِ قرآن دے کر 4 سالوں کی محنت کا صلہ تو پائیں ،،بلکہ ان میں سے ایک بھانجی کی شادی کی ،فون کیا تو پتہ چلا کہ محترمہ اپنے جہیز کے کمبل اور رضائیاں15،15 منٹ اپنی نند کے اوپر ڈال کران کو استعمال شدہ بنا رھی ھیں تا کہ زکوۃ کی زد سے نکل جائیں ! میں نے کہا تمہیں 4 سال اللہ کو دھوکہ دینے کی پریکٹس سکھائی گئی ھے ؟ تو جناب اگر ایک عورت مفتی ھوگی اور دین کے خلاف پراپیگنڈے کا جواب دے گی تو اسکی آواز 1000 مرد مفتیوں کی آواز پر بھاری ھو گی،،ایک عورت مفتی سے فتوی لے کر عورت کا جو اطمینان ھو گا وہ مرد مفتی سے ممکن نہیں ھے ،اور شرعی کورٹ کی ایک عورت مفتی جج جو فیصلہ دے گی وہ مرد دے نہیں سک
تا کیونکہ وہ عورتوں کی نفسیات و احساسات سے آگاہ نہیں ھے،،ایک عورت کیا سوچ اور محسوس کر رھی ھے یہ ایک عورت ھی جان سکتی ھے ،، جس 5 سال کی بچی کو باپ نے جو کہ ٹی وی پر آ کر دین کی تبلیغ کیا کرتا تھا اس مفتی ابا جی نے ریپ کر کے اور اذیت دے کر  کچھ اس طرح سے مارا کہ بچی کے ساتھ اسپتال میں سسکیاں لے کر انسانیت نے بھی دم توڑ دیا ،،اور بات بے بات سر اڑا دینے والی اور منشات کیس میں 9 سال کی بچیوں اور حاملہ عورتوں کے سر اڑا دینے والی سعودی حکومت کے مرد جج نے چند ماہ سزا سنا کر فارغ کر دیا اور ماں کو ملین درھم خون بہا ادا کرنے کا حکم دیا ،،یہ کیس کسی عورت جج کی عدالت میں پیش کر کے دیکھیں کیا فیصلہ آتا ھے،،عورت کی اذیت کو عورت ھی سمجھ سکتی ھے،،مرد کو صرف مزا یاد رھتا ھے اور وہ ایسے ظالمانہ اور شرمناک فیصلے دیتا ھے جن سے انسانیت اور اسلام منہ چھپاتے پھرتے ھیں ،،عورت کا مفتی ھونا اور شیخۃ فی الحدیث ھونا اسلام کی ایک نئی صبح ھو گی ! ھم عورت سے خوفزدہ کیوں ھیں ؟ کیوں ڈرتے ھیں اس کو براہ راست شریعت کے ذرائع تک رسائی دینے سے ،، کیا ھم خوفزدہ ھیں کہ کوئی عورت کسی حدیث کی مردانہ اینٹر پریٹیشن کو چیلنج کر دے گی ؟ آخر ھم کیوں نہیں قبول کرتے ایک عورت مفتی چیلنج؟ مدارس کے پاس انتظام نہیں تو فرحت ھاشمی کو اجازت دے دیں، پڑھنے والیاں بھی دستیاب ھو جائیں گی،مفتی بننے والیاں بھی مل جائیں گی ،بہت ساری لائق فائق خواتین بے مقصد زندگی گزار رھی ھیں ،وہ دستیاب ھیں،، بس فتوے واپس لے لئے جائیں اور انکی مخالفت نہ کی جائے ،،ورنہ اعلان کر دیا جائے کہ اسلام پر مرد کی اجارہ داری ھے ،مساوات ایک سراب ھے !! مفتی بنانا تو دور کی بات عورت کے مسجد جانے سے فتنہ پھیلنے کا ڈر ھے اسکے مسجد جانے پر بھی پابندی لگا دی ،،جمعہ عورت پر فرض نہیں ،اصلاح کا ھر دروازہ اس پر بند کردیا گیا کیونکہ فتنے کا ڈر ھے ،،عورت تو پکی پکائی تازہ روٹی دینے والی مشین ھے،،البتہ اپنے تعویزوں کی دکانیں کھلی ھیں اور تصوف کی ضربیں جاری ھیں جن سے شرک کے مرکز اور عصمت دری کے اڈے قائم و دائم ھیں ،توحید سسکیاں لے کے دم توڑ چکی ھے مگر تصوف اور تعویز سے فتنے کا کوئی ڈر نہیں کیونکہ اس میں قطب اور غوث مرد ھوتا ھے عورت نہیں ،عورت تو لُٹنے آتی ھے،اگر عورت دین سیکھ لے تو یہ اڈے بند ھو جائیں ،،اس لئے عورت کو مسجد سے روکو ،، ھاں بازار مولوی جی خود ڈراپ کر کے آتے ھیں ،شکر ھے عورت بازار میں فتنہ نہیں سارے فتنہ باز مسجد میں ھی ھوتے ھیں ،بازار تو قطبوں اور ولیوں سے بھرا پڑا ھے،،سچ کہا کسی نے ،جو چاھے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے !

معوذتین اور جادو ! پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا !

August 26, 2013 at 6:29am

سورہ الفلق اور سورہ الناس جن کو جوڑ کر معوذتین کہا جاتا ھے،،یعنی وہ دو سورتیں جن میں مختلف خطرات سے اللہ کی پناہ حاصل کی جاتی ھے، یہ سورتیں ابتدائی مکی دور میں جب کہ نبی کریم کی ذاتِ اقدس مختلف قسم کے سماجی ،اخلاقی، اور گروھی دباؤ کا سامنا کر رھی تھی،نبی کریم کے خلاف ھر قسم کا حربہ استعمال کیا جا رھا تھا، رات کے اندھیرے میں اگر آپ کے خلاف گٹھ جوڑ ھوتے تھے تو دن کی روشنی میں حرمِ مکی کے زائرین تک رسائی حاصل کر کے ان کے کانوں میں نبی کے خلاف زھر انڈیلا جاتا،ان سب کو مدنظر رکھتے ھوئے اللہ پاک نے ان میں سے ھر ھر فتنے کا نام لے کر اپنے نبی کو اپنی پناہ کی یقین دھانی کروا دی ، کہ آپ ان الفاظ سے ھماری پناہ طلب کر کے بے فکر ھو جائیے،ھم جانیں اور آپ کے دشمن جانیں،، ان سورتوں  کے نزول کے ساتھ ھی نبی نے  ان  کی تلاوت اور ورد کو معمول بنا لیا اور سوتے وقت بھی ان آیات کو پڑھ کر اپنے ھاتھوں پر پھونکتے اور پھر پورے بدن اطہر پر پھیر کر حصار بنا لیتے، آپ نے ساری زندگی اس کو اپنا معمعول بنائے رکھا تا آنکہ مرض الموت میں جب کہ آپ کی ھمت جواب دے گئی تو سیدہ کائنات ام المومنین عائشہ صدیقہ طاھرہ طیبہ ؓ آپ کے دست مبارک کو سہارہ دے کر آپ کے چہرہ اقدس کے قریب کرتیں، جب آپ ان سورتوں کو پڑھ کر پھونک مار لیتے تو ام المومنینؓ  نبی کے ھاتھوں کو ان کے بدن پر پھیر دیتیں، ظاھر ھے جب اللہ پاک نے قل کے حکم کے ساتھ اپنے نبی کو حکم دیا اور آپ نے عبداللہ ابن مسعودؓ سے فرمایا کہ آج مجھ پر ایسی آیات نازل ھوئی ھیں جیسی قرآن میں آج تک نازل نہیں ھوئی تھیں، تو آپ نے انہیں بطور ورد کے اختیار فرمایا،، ان آیات میں صرف ایک آیت ” و من شر النفثاتِ فی العقد” کو لے کر انہیں جادو کی دلیل بنا دیا گیا ھے  کہ اگر جادو نہیں ھوا تھا تو پھر گرھوں میں پھونکیں مارنے والیوں کے شر سے پناہ کیوں مانگی گئی ھے؟ اب سب سے پہلے نوٹ کرنے کی بات یہ ھے کہ یہ حکم کہ” قل اعوذُ برب الفلق” تو مکے کے ابتدائی مشکل دور میں نازل ھوا، نبی نے بحیثیتِ "نبی "اللہ کے حکم کی پیروی شروع کر دی جو کہ آپ کا فرضِ منصبی تھا، پھر اس کے باوجود اگر 12 یا 15 سال کے بعد مدینے میں آپ پر جادو ھو گیا اور یہ سورتیں  اللہ کے وعدے کے مطابق آپ پر جادو ھونے کو نہ روک سکیں تو اب یہ جادو کا علاج کیا اور کیسے  کریں گی؟؟ ایک معتزلی شیخ جو کہ اللہ کو بھی معطل مانتا تھا، اس کے پاس ایک شخص آیا کہ میری اونٹنی کوئی چوری کر کے لے گیا ھے تو آپ دعا کر دیجئے کہ اللہ پاک اسے لوٹا  لائے ! اب شیخ نے دعا شروع کی ” ائے اللہ تو نے تو نہیں چاھا تھا کہ اس شخص کی اونٹنی چوری ھو،مگر چور کھول کر لے گیا،، ائے اللہ اس کی اونٹنی لوٹا  کر لے آ،اس کی یہ دعا سن کر وہ اونٹ چرانے والا دیہاتی بھی تڑپ اٹھا، اس کے ایمان اور ضمیر نےاللہ کی ھستی بے ھمتا کے بارے میں شیخ کے الفاظ اور ان سے مترشح عقیدے کو قبول نہ کیا وہ پکارا ” یاشیخ الغبی ! اوے بےوقوف مولوی جب چور کا ارادہ پہلے ھی میرے رب کے ارادے کو شکست دے چکا ھے تو اب وہ رب میری اونٹنی کیسے لوٹا سکتا ھے؟ کیا وہ چور کی منت سماجت کر کے واپس لائے گا ؟،، چور نے تو میری اونٹنی چرائی تھی مگر احمق انسان تُو تو میرے ایمان پر ڈاکا ڈالنے لگا ھے؟ 15 سال پڑھنے کے بعد بھی اگر لبید ابن عاصم اللہ کی حفاظت اور نبی کی عصمت میں نقب لگا چکا ھے تو اب ان سورتوں سے اس شگاف کو کیسے پر کیا جا سکتا ھے ؟ یہ تو سکندر کے گرنے کے بعد پاکستانی پولیس کی ھوائی فائرنگ جیسی بات ھو جائے گی ! کیا ھم پی ایچ ڈی لوگوں سے اس دیہاتی کے ایمان کی گہرائی اور گیرائی زیادہ نہیں؟ یہ سوال ھمارے ذھن میں پیدا کیوں نہیں ھوتا کہ جب اتنے عرصے کا ورد نبی کی حفاظت نہیں کر سکا اور عین وقت پر جواب دے گیا،،تو اب نبی کو یہ کہنا کہ ” قل اعوذُ برب الفلق’  کوئی عقل و فہم میں آنے والی بات ھے،یا کوئی یہ ثابت کرنا چاھتا ھے کہ نبی نے ان سورتوں کا ورد کبھی نہیں کیا تھا،بلکہ ان کو رکھ کر بھول گئے تھے اور فرشتے نے آ کر یاد دلایا کہ جناب معوذتین نام کی دو سورتیں بھی آپ پر 15 سال پہلے نازل کی گئی تھیں،،وہ ڈھونڈیں کدھر رکھی ھوئی ھیں؟  ساری مصیبت ھمارے جادوئی ماحول کی پیدا کردہ ھے، راویوں کے زمانے میں بھی جو جو طریقہ جادو کا مروج تھا وہ سارا انہوں نے قسطوں میں نبی پر جادو والی حدیث میں ڈالا،، بخاری میں چند لائنیں ھیں، اور پتلے اور سوئیوں کا کوئی ذکر نہیں،مگر بعد والوں نے” خالی جگہ پُر کرو” کا کام خوب کیا، اور ایک پتلا انہوں نے نبی کا بنوایا،، شکر ھے عربوں میں دال ماش کا رواج نہیں تھا ورنہ وہ ماش کی دال کا پتلا بناتے،، پھر اس میں سوئیاں چبوتے ھیں، پھر سوئیاں نکالتے وقت نبی کے چہرہ اقدس کے تآثرات بھی نوٹ کرتے ھیں کہ حضور سوئی نکلنے پر منہ کیسا بناتے ھیں،لکھتے ھیں سوئی نکلنے پر تکلیف کا اظہار کرتے ،پھر راحت محسوس کرتے ! الغرض الفاظ بھی بڑے ظالم ھوتے ھیں،، پتھر اور مٹی کی دیواروں کو پھلانگا جا سکتا ھے ان میں نقب بھی لگائی جا سکتی ھے مگر الفاظ کی اسیری سے رھائی ناممکن ھے کیونکہ الفاظ
کی دیواریں انسان کے اندر ھوتی ھیں، اور نادیدہ ھوتی ھیں،، صرف اس ایک لفظ نفاثات ،، یعنی پھونکوں نے کس طرح لوگوں کو اپنا اسیر بنایا ھے کہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں سے محروم کر دیا ھے، پتھر کی دیواروں کے پیچھے اسیری غنیمت ھے کہ اس اسیری میں بڑی بڑی انمول تفسیروں اور تحریروں نے جنم لیا ھے،ابن تیمیہ کی جیل کی تحریریں،، سید قطب کی جیل کی تفسیر، مودودی صاحب کی تفھیم کی تکمیل، اور امام سرخسی کی اندھے کنوئیں میں سے اپنے شاگردوں کو ڈکٹیٹ کروائی گئی  وہ تفسیر جو دو بیل گاڑیوں پر لاد کر لائی گئی،،مگر الفاظ کی اسیری انسانی صلاحیتوں کو بانجھ  بنا دیتی ھے،، سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں ٹھٹھر کر رہ جاتی ھیں،حضرت عائشہ صدیقہؓ کی 16 سال میں شادی اور 19 سال میں رخصتی کی حدیث بھی بخاری شریف کی کتاب التفسیر میں موجود ھے،مگر 6 سال کے لفظ کے اسیروں کی نظروں میں اس کی اھمیت ھی کوئی نہیں،، شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان صاحب نے تو اپنی شرح بخاری میں اس کا ترجمہ تک کرنا  پسند نہیں فرمایا کجا یہ کہ اس کی تفسیر سے نبی کے دامن پر لگا دھبہ صاف کرنے کو کوشش کی جاتی،  اب دیکھیں ھمارے اسلاف ان الفاظ کا کیا ترجمہ کیا کرتے تھے، اس صورتحال میں کہ جب مختلف جماعتوں نے اپنے اپنے کام بانٹے ھوئے تھے،کچھ  حاجیوں کو گھیرتے اور نبی کی ذات کے بارے میں ان کے کان میں پھونکتے، کچھ تجارتی قافلوں کو نشانہ بناتے اور ان میں گھوم پھر کر اپنے جوھر دکھاتے، کچھ اردگرد کی بستیوں میں چلے جاتے، پھر واپس آنے والے حرم میں بیٹھ کر رات کے اندھیروں میں اپنی اپنی کار گزاری سناتے اور ان کے” گرو” ان میں کمی بیشی کی نشاندھی کر کے کل کے لئے نئے اھداف مقرر کرتے اور لائحہ عمل تیار کرتے، اس پس منظر میں ان سورتوں کا نزول ھوا ،، یہ وھی پھونکیں ھیں جن کے بارے میں اللہ پاک نے پہلے سورہ الصف  اور پھر سورہ توبہ میں ذکر فرمایا ھے،یریدون لیطفئوا نور اللہ بافواھھم، واللہ متم نورہ ولو کرہ الکافرون،،، اور یریدون ان یطفئوا نور اللہ بافواھھم، و یابی اللہ الا  ان یتم نورہ ولو کرہ الکافرون،، یہ اللہ کے نور کو اپنی پھونکوں کے زور سے بجھانا چاھتے اور اللہ اپنے نور کی تکمیل سے کم کسی بات پر راضی نہیں ھے،، اگرچہ یہ کافرون کو کتنا بھی ناپسند ھو، یہ وھی پھونکیں ھیں جب کو اقبال نے کہا ھے "

نور خدا ھے کفر کی حرکت پہ خندہ زن – – – پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا !

یہ وہ پروپیگنڈے کی پھونکیں ھیں جن کو جادوگرنیوں کی پھونکیں بنا کر پھر جادو کی دیو مالا تیار ھوئی ھے !

اب ترجموں میں نگاہ ڈال لیں،یہ ان اسلاف اور علماء کا ترجمہ ھے جو جادو کی حقیقت سے انکار کرتے ھیں،لہذا وہ گرھوں میں پھونکیں مارنے والی جادوگرنیوں کی بجائے کانوں مین پھونکیں مارنے والی جماعتیں مراد لیتے ھیں

1-قاضی بیضاوی اپنی شرح میں اس کی ترجمانی یوں کرتے ھیں، قیل المراد بالانفث فی العقد ، ابطال عزائم الرجال،، کہا گیا ھے کہ پھونک مارنے والیوں سے مراد وہ عورتیں ھیں جو مردوں کے مستحکم ارادوں کو اپنے حیلوں سے پاش پاش کر دیتی ھیں( ھند زوجہ ابوسفیانؓ اور ام جمیل زوجہ ابو لہب ذھن مین رھے،جو عورتوں میں اس مہم کی سرخیل تھیں )

2- عبدالحق حقانی لکھتے ھیں،پس آیت کے معنی یہ ھوئے کہ عورتوں کے شر سے پناہ مانگنی چاھئے جو مردوں کی ھمتوں اور مستحکم ارادوں کو مکر کی پھونک مار کر کمزور کر دیتی ھیں

3- عبید اللہ سندھی لکھتے ھیں’ اور ھمیں ان جماعتوں کے شر سے بچا جو زھریلی پھونک مار مار کر عقیدے کو کمزور کر دیتی ھیں؛ آگے تفسیر میں لکھتے ھیں کہ کچھ  لوگ ان سے مراد کوئی جادو گرنی فرض کر لیتے ھیں جو اپنے جادوگروں سے جادو کراتی ھے اور قرآن میں ان کے شر سے پناہ مانگی جا رھی ھے وغیرہ ،،  ان کے نزدیک اس قسم کی تاویل اگرچہ ھو سکتی ھے تا کہ اس کا آیت کے ساتھ تال میل پیدا کیا جائے،مگر اس آیت سے جادوگرنیاں مراد لینا قرآن مجید سے ثابت نہیں ھے اور یہ بات قرآن اور نبوت کی شان  کے بھی خلاف ھے،اس لئے ھم عورتوں کی جگہ جماعتوں کو لیتے ھیں اور جماعت کو عربی میں مؤنث کے صیغے میں لیا جاتا ھے، یعنی ان جماعتوں کے شر سے پناہ مانگی جاتی ھے جو اپنے غلط پروپیگنڈے سے انسان کی فطری ترقی کو روکتی ھیں،،( المقام المحمود ص 217 )

4- صوبہ خیبر پختونخواہ  کے مشہور عالم شیخ محمد طاھر پنج پیری کہتے ھیں،النفٰثٰتِ فی العقد سے  مجالس میں پھونک مارنے والے مراد ھیں، اور اس کی بہترین تفسیر وھی ھے جو خود قرآن نے کی ھے،یریدون لیطفئوا نور اللہ بافوھھم ( الصف-التوبہ)  سورہ الفلق میں اللہ پاک نے اپنے نبی کو دعا سکھائی ھے کہ جو لوگ نورِ اسلام کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھانا چاھتے ھیں آپ ان کے عزائم اور مقصد سے اللہ کی پناہ طلب کریں!

اب ما تتلوا الشیاطین ،، اور النفاثات سے یہ استدلال کرنا کہ  چند شیطانی کلمات ِ خبیثہ سے کوئی جادوگر مافوق الفطرت کام یا خلاف عادت کرشمہ سر انجام دے سکتا ھے نیز کسی کو نفع یا نقصان دے سکتا ھے تو یہ ایک باطل اور قرآن و سنت کی تمام تعلیمات کے خلاف عقیدہ ھے اور قرآن و سنت پر مبنی عقیدے کے خلاف کسی بھی روایت کو قبول کرنا سارے سرمایہ دین اور متاعِ ایمان سے ھاتھ دھونا ھے، دنیا میں کوئی ایسا علم اپنا وجود نہیں رکھتا جس میں مجرد چند الفاظ کو لکھ کر کہیں دبا کر کسی کو مافوق الفطرت طریقے سے نفع یا نقصان پہن
چایا جا سکے، اگر یہ طاقت دنیا میں جاری و ساری کرنی ھوتی تو اللہ پاک اپنے کلام سے یہ کام لیتا ،،جیسا کہ اس نے خود سورہ الرعد میں ارشاد فرمایا ھے” ولو انَۜ قرآناً سیرت بہ الجبالُ او قطعت بہ الارضَ او کلم بہ الموتی ،بل للہ الامرُ جمیعاً (الرعد 31 ) اور اگر کوئی ایسا کلام ھوتا جس سے پہاڑ چلائے جا سکتے ،یا  زمین پھاڑی جا سکتی( یا فاصلے جھٹ پٹ طے کیئے جا سکتے) یا جس کے ذریعے مردے سے کلام کیا جا سکتا تو وہ یہی قرآن ھوتا،،مگر اللہ نے یہ سارے کام اپنے ھاتھ میں رکھے ھیں،، تو جب اللہ نے اپنے کلام میں یہ تاثیر نہیں رکھی بلکہ نبیوں سلام اللہ علیھم اجمعین  سمیت تمام  لوگوں کو اپنے در کا غلام اور سوالی رکھا ھے تو لبید ابن اعصم نام کے کافر یہودی کے کلام میں یہ تاثیر مان لینا کہ وہ تین میل دور ایک کنوئیں سے اللہ کے محبوب، نبیوں کے امام ،صاحب معراج اور مقام محمود کے مکین
کے دل و دماغ کو کنٹرول کر رھا تھا،، لبید کافر کو اللہ سے بالاتر اور اس کے کلام کو اللہ کے کلام سے زیادہ پر تاثیراور طاقتور  ماننا ھے ( معاذ اللہ،) (ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذ ھدیتنا و ھب لنا من لدنک رحمۃ، انک انت الوھاب)

اب دیکھئے اس سورت الفلق میں ساری مخلوق کے شر سے پناہ مانگی گئی ھے،نہ کہ خود مخلوق سے،، اور رات کے  اندھیرے کے شر سے پناہ مانگی جب وہ چھا جائے،اب نہ تو رات بذات خود کوئی نقصان دہ چیز ھے بلکہ اللہ نے اسے اپنی نشانی گردانا ھے اور نہ اندھیرے میں کوئی نفع نقصان کی صلاحیت ھے،، بلکہ اندھیرے میں حشرات الارض نکل آتے ھیں سانپ بچھو اور درندے وغیرہ جو انسان کے فطری دشمن ھیں ان کے شر سے پناہ مانگی گئی ھے،، نیز رات کی سیاھی کو پردے کے طور پر استعمال کر کے کچھ لوگوں  کی سر گوشیوں یعنی منصوبہ بندیوں  کے شر سے پناہ مانگی گئی ھے،، اب گرھوں میں پھونکیں مارنی والییوں کے شر سے پناہ مانگنا ،، نہ تو کسی گرہ میں کوئی شر یا خیر ھوتی ھے اور نہ ھی کسی پھونک میں کوئی خیر اور شر ھوتی ھے،، اصل چیز  جو خیر اور شر ھے وہ ان منصوبہ بندیوں اور سرگوشیوں کے مقصد میں ھے  ،نبی کریم ﷺ بھی رات کی تاریکی میں ھی دارِ ارقم میں ساتھیوں کے ساتھ ملا کرتے تھے،، یہ خیر کی سرگوشیاں اور خیر کا اجتماع ھوتا تھا،،اسی طرح حسد کرنے والے کے شر سے پناہ مانگی گئی ھے جب وہ حسد میٹیریلائز کرے حسد کو عمل میں لا کر کوئی وار کرے،،اس وار سے پناہ مانگی گئی ھے،،صرف حسد دل میں رکھنا کسی دوسرے کے لئے نقصان دہ نہیں بلکہ خود صاحبِ حسد کے لئے نقصان دہ ھے، ذرا  ” اذا حسد ” کی اصطلاح کو غور سے پڑھیں،کیونکہ بنو امیہ میں ابوجہل اور ولید ابن مغیرہ مکمل طور پر حسد کی وجہ حضورﷺ کی رسالت کو نہیں مان رھے تھے کہ اس طرح بنو ھاشم کی اجارہ داری قائم ھو جائے گی یہانتک کہ  آخر کار نبی پاکﷺ کو شہید کرنے پر آمادہ ھو گئے ،،آگے چل کے یہود مدینہ اسی بیماری کا شکار ھوئے کہ نبی کو اولاد کی طرح پہچانتے تھے کہ وہ اللہ کے رسول ھیں،مگر اس حسد میں مبتلا ھوگئے کہ بنو اسماعیل کی اجارہ داری قائم ھو جائے گی اور نبی ﷺ کو شہید کرنے پر آمادہ ھو گئے مگر دونوں گروہ اللہ کے وعدے کے مطابق آپ کے بارے میں اپنے مذموم ارادوں میں ناکام ھو گئے پھر لبیداعصم  کیسے کامیاب ھو گیا ؟ سورہ فلق میں تو عقد میں پھونکیں مارنی والیاں ذکر ھیں مگر لبید بن اعصم تو مرد تھا؟ کیا جادو صرف عورتوں سے ھی ھوتا ھے، یہ جادو ھے یا بچہ جو صرف دائیاں پیدا کرتی ھیں ؟ عربوں کی  اصطلاحات کو قرآن حکیم نے استعمال فرمایا ھے ،مثلاً حمالۃ الحطب،، لکڑیاں اٹھائے پھرنے والی، یہ ابولہب کی بیوی کی ھجو ھے،کیونکہ یہ اصطلاح چغل خور کے لئے استعمال ھوتی تھی کہ اس کو آگ لگانے کے لئے کسی سے لکڑی مانگنے کی ضرورت نہیں ھوتی، اپنی لکڑیاں خود ساتھ اٹھائے پھرتا ھے،جہاں چاھتا ھے جب چاھتا ھے آگ لگا دیتا ھے،، تو اس کو لکڑیاں اٹھانے والی کہا گیا یعنی چغل خور، اسی طرح عقدہ میں گرہ لگانے کی اصطلاح بھی استعمال ھوتی تھی جیسے ھمارے یہاں مکار عورت کے لئے آسمان ٹاکی لگانے کی اصطلاح استعمال ھوتی ھے، گرہ یا عقدہ  اورعقیدہ تو وہ ھوتا ھے کہ جو غیر متحرک ھوتا ھے،ادھر ادھر نہیں ھوتا،جس گرہ کو ڈھیلا رکھنا مقصود ھوتا تھا،عرب اس میں کوئی چیز پھنسا دیتے تھے،مثلاً کوئی چھوٹا سا ڈنڈہ ٹائپ چیز،، ان جماعتوں کے بارے میں کہا گیا کہ یہ ڈنڈے کی جگہ اپنی پھونکیں یعنی اپنے وسوسے استعمال کرتی ھیں عقائد کو ادھر اُدھر کرنے کے لئے،اور یہ بات ھر وہ شخص جانتا ھے جس نے اسلام کے ابتدائی دور میں نبیﷺ کا عکاظ کے میلے میں جانا اور ابولہب کا حضورق کے پیچھے پیچھے رھنا جہاں آپ بات شروع کرتے ابو لہب کہتا کہ میں اس کا تایا ھوں، اس کا دماغ خراب ھو گیا ھے، اس کی بات کا برا نہ منانا اور ساتھ ھی کنکریوں کی مٹھی بھر کر اپ پر پھینکتا کہ محمد گھر چلو،اس پر نئے لوگ ٹھٹھک جاتے، تائے کا معزز حلیہ اور آپ ﷺکا خاموش ھو جانا، دیکھ کر وہ آگے چل دیتے،، اسکی پلاننگ رات کو حرم میں ھی کی جاتی تھی کہ کل میلہ ھے اور کس نے کیا کردار کیسے ادا کرنا ھے،، ابولہب کی تصدیق کے لئے کچھ لوگ بھی ساتھ ساتھ چلتے رھتے تھے

نار سے نور تک !

October 24, 2013 at 7:04am
  • میں برطانیہ میں ایک ایسے گھرانے میں پیدا ھوا جو اسرائیل سے ھجرت کر کے وھاں پہنچا تھا، بہن بھائیوں میں میرا نمبر چوتھا اور آخری تھا، یوں کچھ لاڈلا بھی تھا،، یہودی مذھب میں بھی ھر مذھب کی طرح سوال کرنے کو بہت برا جانا جاتا ھے اور سوال کو مذھب یا خدا کے خلاف سازش سمجھا جاتا ھے،ادھر میں تھا کہ سوال نہ کروں تو کھانا ھضم نہیں ھوتا تھا، والدین میری اس عادت سے بہت تنگ تھے وہ حتی الامکان میرے سوالات کا جواب دینے کی کوشش کرتے اور آخرکار وھی امرت دھارا استعمال کرتے جو ساری دنیا کے والدین کرتے ھیں یعنی پٹائی ،، میرے بہن بھائیوں کو جب بھی ،اور جو بھی ملتا ان کی سب سے پہلی ترجیح اسے کھانا ھوتی تھی جبکہ میں جب تک پوچھ نہ لوں کہ کس نے دیا ھے؟ کیوں دیا ھے ؟ اور کتنا دیا ھے؟؟ کھاتا نہیں تھا،والدہ اکثر جب مجھے کوئی چیز دیتیں تو سوال سے پہلے ھی کہتیں،،تیری خالہ نے دیا ھے، ان کی بیٹی کے گھر بچہ پیدا ھوا ھے اور سارے رشتےداروں کو دیا ھے اور اب مـــــر کھا لے ! مذھب کے معاملے میں ان کو کوئی خاص علم نہیں تھا، وہ ھوں ھاں کر کے چپ ھو جاتے یا جو کہانی سنی ھوتی سنا دیتے، انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں تھا کہ میں مطمئن ھوا یا نہیں ھوا،البتہ یہودیت میں اسلام کی طرح ذرا ذرا سی بات پر کان پکڑ کر نکال نہیں دیا جاتا کہ یہ کافر ھو گیا،، بلکہ آپ یہودی ھیں اور عمل کریں یا نہ کریں آپکی یہودیت کو کوئی خطرہ نہیں، اسرائیل میں حکومت ھمیشہ سے بے عمل یہودیوں کی رھی ھے اور یہ مسئلہ میں نے جتنے مذاھب تبدیل کئے سب میں دیکھا کہ ھر مذھب میں حکومت بے عمل لوگوں کی ھی ھے،، باعمل لوگ صرف جلنے کڑھنے کے لئے ھی رہ گئے ھیں،، عوام میں ان کی پذیرائی نہیں اور حکومت چلانے کی ان میں صلاحیت نہیں،، اس کی وجہ یہ ھے کہ حکومت چلانے کے لئے جس وسعت قلب و نظر کی ضرورت ھے وہ ان میں نہیں ھے، لہذا ان کے مقدر میں ھی لوگوں کو کوسنا اور اور خود بھی جلنا کڑھنا ھے،، میں کبھی کبھی سوچتا ھوں یوسف علیہ السلام نے تنِ تنہا کس طرح کافروں سے بھرے ملک میں حکومت کر لی،،کس طرح پورے ملک کو اپنے ذاتی محاسن اور نظم و ضبط ،و عدل و انصاف سے حکومت کر کے مسلمان کر دیا،، کہاں وہ پیغمبر اور کہاں آج ان کے نام لیوا ؟ یہودیت کے جوھڑ سے نکل کر میں نے عیسائیت کے سمندر میں چھلانگ لگا دی،، اس سے کوئی خاص طوفان تو برپا نہیں ھوا کیونکہ یہودیت سے عیسائی ھونا یا عیسائی سے یہودی ھونا، ایک معمولی تبدیلی سمجھا جاتا ھے، جس طرح مسلمانوں میں فقہ کی تبدیلی ھوتی ھے،، بندہ کسی بھی امام کو سوئچ کر لے رھتا مسلمان ھی ھے،، مگر میرے سوالوں کا جواب عیسائیت کے پاس بھی نہیں تھا،، اور میں زیادہ دیر وھاں بھی ٹک نہ پایا،، ایک سکھ دوست کی دوستی نے جو کہ میرا یونیورسٹی کا کلاس فیلو تھا مجھے سکھ بنا لیا،میرے سوالات نے اسے بھی سکھ مذھب سے فارغ کر دیا اور میں گیا تو اکیلا تھا مگر سکھ ازم سے نکلنے والے دو تھے،، اب دو آدمیوں کو مذھب کی تلاش تھی،،میں نے اسلام کا مطالعہ شروع کیا، اگرچہ نسلی تعصب کی وجہ سے جو کہ مسلمانوں کے خلاف ھمارے خون میں شامل ھے، قرآن کو پڑھنا میرے لئے ایک قیامت سے گزرنا تھا،، لیکن میں جوں جوں قرآن کو پڑھتا گیا میرے اندر کی میل اور میرے سوالوں کی کاٹ کم ھوتی چلی گئی،،قرآن تو بھرا ھی جوابوں سے ھے،،وہ سوال بھی خود کرتا ھے ،اس لئے دوسروں کو سوال سے منع کرتا ھے ،اور جواب بھی خود دیتا ھے انسانی ذھن آج جن سوالوں تک پہنچا ھے،قرآن نے صدیوں پہلے ان سوالوں کو اٹھا کر ان کا تسلی بخش جواب دے دیا ھے،، مگر میرا مسئلہ مسلمان ھونے کے بعد شروع ھوا ! میں مسلمان تو برطانیہ میں ھی ھو گیا تھا اور میں یہ چاھتا تھا کہ کسی مسلمان ملک میں جا کر اسلام کو عملی طور پر دیکھوں،،میرے والد صاحب جو 1977 کے زمانے میں پاکستان میں برطانوی سفارت خانے میں اتاشی کے طور پر کام کر چکے تھے انہوں نے جب سنا کہ میں مسلمان ھو چکا ھوں اور سعودی عرب جانے کا سوچ رھا ھوں تو انہوں نے مجھے بلا کر کہا کہ اگر تم مسلم ملک میں جانا چاھتے ھو تو پھر پہلے پاکستان جاؤ،یہ وہ واحد ملک ھے جو اسلام کی بنیاد پر بنا ھے اور تمہیں اسلام کو سمجھنے میں جتنی مدد اس ملک سے ملے گی کہیں اور ممکن نہیں ھے، اب اللہ جانتا ھے اس مشورے کے پیچھے کیا عوامل کار فرما تھے،مگر میں ان کے مشورے پر پاکستان کی طرف چل نکلا ! کراچی پہنچ کر میں نے ایک فائیو اسٹار ھو ٹل میں قیام کیا ! ایک سروس بوائے سے میں نے اپنا مقصد بیان کیا کہ میں اس نیت سے پاکستان آیا ھوں اور کوئی اچھا سا ادارہ جو مجھے اسلام کو سمجھنے میں مدد دے اس کی تلاش میں ھوں اگر تم مجھے گائیڈ کر سکتے ھو تو تمہاری مہربانی ھو گی اور اگر ایک دو چھٹیاں لے لو گے تو میں ان کے پیسے بھی تمہیں دے دوں گا،، سروس بوائے نے میرا انٹرویو شروع کیا اور پوچھا کہ میں کون سا مسلمان ھوا ھوں تا کہ متعلقہ اسلام کے کسی ادارے کو وزٹ کیا جائے،، میں جس کی ساری زندگی سوال کرتے گزری تھی، اس سوال پر ھی چکرا کر رہ گیا کہ میں کون سا مسلمان ھوا ھوں،، میں نے اسے بتایا کہ میں نے قرآن پڑھا ھے اور اس کے مطابق اللہ کو ایک مانا ھے،،محؐمد کو اللہ کا رسول مانا ھے اور مرنے کے بعد اٹھنے اور حساب کتاب پر ایمان لایا ھوں، اللہ نے جبریل کے ذریعے قرآن نازل کیا ھے جو اللہ کا کلام ھے،، اب تم بتاؤ کہ یہ کونسا اسلام ھے؟ وہ بولا اس سے کام نہیں چلے گا،، اتنا سارا اسلام پاکستان میں نہیں چلتا،اس کے ساتھ کچھ اور ضروریات بھی ھیں جن کے لئے آپ کو ھمارے ایک عالم ھیں ان سے ملنا ھو گا ! اگلے دن وہ مجھے کراچی کی ایک جامعہ میں لے گیا، جہاں ایک بہت موٹے تازے بزرگ بیٹھے تھے جو سبز پگڑی پہنے بیٹھے تھے، انہوں نے مجھ سے تفصیل پوچھی اور میرے علم میں یہ اضافہ کیا کہ چونکہ ھند میں اسلام کچھ بزرگوں کے ذریعے آیا ھے ان بزرگوں کے بارے میں میرا عقیدہ اگر خراب ھوا تو میں مسلمان نہیں ھو سکتا، لہذا انہوں نے مجھے ایک بندے کے سپرد کیا جو مجھے کسی درگاہ پر لے گیا جہاں میرے نفس کا تزکیہ کرنا مقصود تھا ! وہ غالباً منگھو پیر کی درگاہ تھی اور جامعہ امجدیہ کے مہتمم نے مجھے وھاں کے سجادہ نشین کے نام رقعہ دیا تھا جو میں نے ان کے سپرد کر دیا،، مجھے غسل دلوایا گیا، سبز کپڑے پہنائے گئے اور میری انگلیوں میں چار انگوٹھیاں جو مختلف رنگوں کے پتھروں سے مزین تھیں پہنا کر میری بیعت لی گئی اور ایک ڈنڈا میرے ھاتھ میں پکڑایا گیا،، اور اسلام میں داخل کر لیا گیا،، صبح صبح مجھے ناشتے کے بعد ریلوے اسٹیشن لے جایا جاتا جہاں انے جانے والے مسافروں کو مجھے اسلام کی دعوت دینی تھی اور ساتھ بتانا تھا کہ میں کن کے ھاتھ پر مسلمان ھوا ھوں !یہ معمول کوئی دو ماہ رھا اس دوران میں نے جب بھی قرآن کی تلاوت اور مطالعہ کرنے کی کوشش کی میرا انگلش ترجمے والا قرآن بڑے پیار اور ادب کے ساتھ میرے ھاتھ سے لے کر واپس میرے سامان میں رکھ دیا گیا اور بتایا گیا کہ قرآن نے جو کام کرنا تھا وہ کر دیا ھے،اب آپ کو تربیت کی ضرورت ھے مطالعے کی نہیں ! دو ماہ بعد کی بات ھے جب میں ریلوے اسٹیشن پہنچا تو وھاں ایک تبلیغی جماعت ریل گاڑی میں سے اتر رھی تھی،، میں نے جب ان کو اپروچ کرنے کی کوشش کی تو میرے گائڈ نے میرا ھاتھ سختی سے پکڑ لیا اور کہا کہ ان کے قریب مت جاؤ،، یہ بات جماعت کے ایک ساتھی نے بھی محسوس کر لی اور وہ اپنے ساتھیوں کو چھوڑ میری طرف لپکے،، سلام کے بعد انہوں نے مصافحہ کیا اور بہت شستہ انگلش میں مجھ سے پوچھا کہ میں کہاں سے ھوں اور کیا میں مسلمان ھوں،،؟ بعد میں پتہ چلا کہ وہ ڈاکٹر تھے،میرے جواب کے بعد ڈاکٹر صاحب نے، مجھ سے پوچھا کہ آپ کا سامان کدھر ھے؟ میں نے بتایا کہ اس بھائی کو پتہ ھے کسی درگاہ پر ھے،، اب باقی جماعت بھی اپنا سامان لئے ھمارے اردگرد کھڑی ھوگئ ! میرے گائڈ کو ھاتھ پاؤں پڑے ھوئے تھے،،وہ بار بار واپس چلنے کے لئے اصرار کر رھے تھے،،مگر اب واپسی پر ڈاکٹر صاحب بھی ھمارے ساتھ تھے جو میرا سامان لے کر مجھے ساتھ لے جانے آئے تھے کیونکہ میں نے ان کے ساتھ جانے پر رضامندی کا اظہار کر دیا تھا ! وھاں سے سامان کس مشکل سے چھوٹا یہ الگ داستان ھے، مگر وھی مکالمے کے دوران مجھے پتہ چلا کہ ایک دوسرے کی نظر میں یہ دونوں مسلمان نہیں ،، ڈاکٹر صاحب کے نزدیک میں اب تک مشرکوں کے چنگل میں تھا اور سجادہ نشین مجھے بتا رھے تھے کہ تو اب مرتد ھو گیا ھے اور اسلام سے خارج ھو کر جا رھا تھا، مگر مجھے سمجھ یہ نہیں لگی تھی کہ جب میں اسلام میں اپنی مرضی سے داخل ھوا ھوں تو میری اپنی مرضی اور نیت کے بغیر کوئی مجھے اسلام سے نکال کیسے سکتا ھے،،جو مرضی سے آیا ھے مرضی سے جائے گا،اعلان کے ساتھ داخل ھوا ھے اعلان کے ساتھ خارج ھو گا،، خیر سوالات کی چکی جو قرآن پڑھ کر بند ھوئی تھی ،مسلمانوں میں آ کر بہت تیزی سے چل پڑی تھی ! مجھے نقد جماعت کے ساتھ فوراً رائے ونڈ روانہ کر دیا گیا،، جہاں میں نے دو ماہ کے لگ بھگ تو رائے ونڈ میں گزارے جو مختلف ممالک سے آنے والی جماعتوں سے خصوصی ملاقاتوں اور باھم تبادلہ خیالات میں گزرے جبکہ چالیس دن ایک جماعت کے ساتھ لگائے، یہاں کا ماحول بہت اچھا تھا،،لوگ بہت ھی خلوص اور محبت سے پیش آتے تھے اور ھر وقت اللہ اللہ کے چرچے چلتے تھے،، ھر جمعرات کو مرکز کے باھر کتابوں کے اسٹال لگتے تھے جن پر خریداروں کا بہت رش رھتا تھا،، پھر سالانہ اجتماع شروع ھو گیا اسٹالوں کی تعداد بھی بڑھ گئی اور خریداروں کا رش بھی بہت زیادہ ھو گیا،میں عصر کی نماز کے لئے وضو کر کے آ رھا تھا کہ میری نظر ایک اسٹال پر کھڑے ایک نوجوان پر پڑی جو اپنی ھیئت اور کیفیت دونوں میں الگ تھلگ نظر آ رھا تھا،، مجھے دیکھتے ھی اس نے سلام دعا کے بعد پہلا سوال یہ کیا کہ کیا میں نو مسلم ھوں،میں نے مسکرا کر اثبات میں جواب دیا اور ایک کتاب جو انگلش میں تھی اٹھا لی، کتاب کا ٹائٹل تھا ” ٹووارڈز انڈر اسٹینڈنگ اسلام   ” جونہی میں نے کتاب پر قیمت دیکھی اور اسے پیسے دینے کے لئے بٹوہ کھولا،، جھٹ پٹ کہیں سے ڈنڈا بردار جوان نمودار ھوئے اور اس جوان کو اسٹال ھٹانے کا حکم دیا،، اس نے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر جوانوں نے اس کا اسٹال الٹ دینے کی دھمکی دی، جس پر اس نے بےچارگی سے اپنا اسٹال سمیٹنا شروع کر دیا،، میں نے اسے پیسے دینے کی کوشش کی مگر اس نے لینے سے انکار کر دیا اور کہنے لگا کہ میں اسے اس کی طرف سے گفٹ سمجھوں اور کتاب کی قیمت اپنی جیب سے نکال کر اس نے پیسوں والے لفافے میں ڈال دی،،میں زندگی بھر اس جوان کو نہیں بھول سکا،، جو شاید میری طرح اب بوڑھا ھو چکا ھو گا یا اللہ کو پیارا ھو چکا ھو گا،، مگر میں نے ھمیشہ اسے اپنی دعاؤں میں یاد رکھا ھے،، اسے اللہ نے میرے لئے ھی بھیجا تھا اور جب کام ھو گیا تو ھٹانے والے بھی پہنچ گئے، میں نے ڈنڈا بردار محافظوں سے پوچھا کہ آپ نے اسے کیوں بھگا دیا ؟ کہنے لگے یہ ھمارا ایریا ھے اور یہاں کوئی اسٹال ھماری مرضی کے بغیر نہیں لگایا جا سکتا ،اس کے لئے انتظامیہ کی اجازت ضروری ھے،نیز یہ گمراہ لوگ ھوتے ھیں جن کا نشانہ آپ جیسے لوگ ھوتے ھیں جن کو اسلام کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ھوتا،ورنہ یہاں اجتماع والے کبھی ایسے اسٹال کو گھاس نہیں ڈالتے،،اب اس کتاب کا مطالعہ ایک مسئلہ بن گیا میں نے اندازہ کیا کہ ان حضرات کا جاسوسی کا نظام بہت تیز ھے،آپ کی ھر حرکت پر نظر رکھی جاتی ھے،کبھی اکرام اور کبھی راھنما کے نام پر ایک بندہ ھمیشہ آپ کے ساتھ لگا رھتا ھے ،، انہیں اطلاع مل گئی تھی کہ میں نے کونسی کتاب خریدی ھے،اب پہلے تو مجھے صاحب کتاب کے بارے میں بتایا گیا کہ اسلام کے بارے میں اس کے خیالات کس قسم کے تھے اور وہ کوئی عالم بھی نہیں وغیرہ وغیرہ،نیز یہ بھی جتایا گیا کہ یہ وقت میں نے امانت کے طور پر اللہ کو دیا ھوا ھے اس لئے صرف وھی کتابیں پڑھی جا سکتی ھیں جو بزرگ تجویز کریں، یعنی فضائل اعمال ،فضائل صدقات حیات الصحابہ اور ریاض الصالحین،،مجھے کتاب خطرے میں نظر آئی اس کی حفاظت اب میرے لئے مسئلہ بن گئی تھی،پڑھنا تو دور کی بات،مگر اس کے دیباچے نے ھی مجھے بتا دیا تھا کہ میرے سوالوں کا جواب شاید اسی کتاب میں ملے گا ! میں نے ایک بات تمام مذاھب میں دیکھی ھے کہ یہاں لوگ،اللہ یا بھگوان یا یسوع مسیح کی عبادت اس لئے کرتے ھیں کہ ان کے اللہ کے پاس جنت ھے،سورگ ھے،پیراڈائیز ھے،، جہنم ھے، نرکھ ھے،ھیل ھے،، حوریں ھیں ،اپسرائیں ھیں ، گویا یہ سارے اللہ کے نہیں بلکہ اللہ کی مٹھی میں موجود جنت کے متلاشی ھیں،،حوروں کا ذکر کرتے ھوئے جو جتنا بوڑھا ھوتا ھے وہ اتنی زیادہ تفصیل سے حوروں سے ملاقات کی کیفیات بیان کرتا ھے،بعض دفعہ مجھے تصور میں ان کے چہروں پر رال ٹپکتی محسوس ھوتی ھے، میں نے گورودارے میں چرچ میں سینگاگ میں اور پھر یہاں میں نے جس طرح یہ تذکرے سنے مجھے مذھب سے گھن آنے لگی،، سارے عیاشی اور سیکس کے دیوانے،، اللہ کو کون پہچانتا ھے،،آج اللہ کے ھاتھ سے جنت نکل جائے تو ان میں سے کوئی پلٹ کر اسے نہ پوچھے کہ وہ کون ھے ! میرے اندر ایک ملحد کروٹیں لینے لگا، وہ ملحد کسی دلیل کو اپنے آگے ٹھہرنے نہیں دیتا تھا،مذاھب میں نے سارے دیکھ لیئے تھے،،سب دنیا اور آخرت دونوں جگہ روٹی کے چکر میں تھے،، میرے اندر ایک آگ بھڑک اٹھی،،میرے اللہ تیری تلاش کسی کو نہیں؟ سب کی نظریں ترے ھاتھ کی جنت کی طرف ھیں، تیرے چہرہ اقدس کا خیال کسی کو نہیں،،مجھے اپنا اندر اور خدا دونوں افسردہ افسردہ سے لگے،،جیسے جس چیز کو میں روتا ھوں خدا کو بھی اسی کا شکوہ ھے !میں جب پاکستان آیا تھا تو اسلام اور اللہ کے بارے میں قرآن کے حوالے سے ایک واضح تصور لے کر آیا تھا،، اللہ پاک نے انسان کو محبت سے بنایا ھے اور محبت کی خاطر بنایا ھے، وہ انسان سے ٹوٹ کر محبت کرتا ھے اور ٹوٹ کر محبت چاھتا ھے،،والذین آمنوا اشدُۜ حباً للہ،، وہ چاھتا ھے کہ نماز کو محبوب سے ملاقات کے پس منظر میں دیکھا جائے اور اسی شوق و ذوق سے بن سنور کر آیا جائے اور رب سے مکالمہ کر کے جانے کے بعد نہ صرف انسان کی ھستی کے اندر باھر اور قول و فعل میں اس ملاقات کی چاشنی پورا محلہ محسوس کرے بلکہ ،سیماھم فی وجوھھم من اثر السجود کے تحت ان کے چہروں پہ نظر پڑے تو سجدوں کا نور و سرور دیکھنے والے کو اپنی جھلک دکھائے،،گھر جا کر بھی دل مسجد میں اٹکا رھے اور پروگرام بن رھا ھو کہ اگلی ملاقات میں کیاکیا بات کرنی ھے،،کیسے راضی کرنا ھے،، کیسے سوری کرنا ھے،، کیا یہی وہ لوگ نہیں جن کو عرش کے سائے تلے جگہ دی جائے گی؟ اللہ نے انسان کو اس کی دنیا کی زندگی میں ھر سہولت فراھم کی ھے،اگر انسان کے اندر ،اس کی فطرت میں کوئی پیاس رکھی ھے تو دنیا مین اسے بجھانے کا سامان بھی رکھا ھے،،وھی اللہ جب اپنی رضا کے لئے کچھ قربان کرنے کو کہتا ھے،،یا اپنی محبت میں کچھ چھوڑنے کو کہتا ھے تو ساتھ گارنٹی دیتا ھے کہ جس اللہ نے تمہاری دنیا کی ضرورتوں کی کفالت کی ھے،،وھی اخرت میں بھی تمہیں سامان زیست فراھم کرے گا،،بیویاں بھی دے گا گھر بھی دے گا،دنیا مین دنیا کی زندگی کی نسبت سے اور آخرت میں آخرت کی زندگی کی نسبت سے عطا فرمائے گا،، فانی اس کی خاطر چھوڑو گے تو ابدی و باقی عطا کرے گا،،، اس پس منظر میں جب حوروں کا ذکر آتا ھے تو وہ ایک فطری بات لگتی ھے،،مگر جب ساری نیکی حوروں اور کھانوں اور سامان عیاشی کے گرد گھومتی ھو تو پھر اللہ کہیں دور پس منظر میں چلا جاتا ھے، بلکہ اللہ کا امیج مسخ ھو جاتا ھے کہ، شیطان بھی عورت کے ذریعے اپنی طرف مائل کرتا ھے اور اللہ بھی انسان کو اپنی طرف راغب کرنے کے لئے مرد کی سیکس کی بھوک کو استعمال کرتا ھے،،پھر موبائل کمپنیوں کے پروموشن اشتہاروں اور جنت کے ان مناظر میں فرق کیا رہ جاتا ھے،، ؟ قرآن حکیم نے جہاں بھی اور وہ بھی گنتی کے چند مواقع پر استعمال کیا ھے وھاں دو مقاصد کے لئے استعمال کیا ھے،، یہ ثابت کرنے کے لئے کہ آخرت کی زندگی میں انسان کا وجود فزیکلی موجود ھو گا،،تبھی وہ صوفوں پر بیٹھے گا اور ٹیک لگائے گا”متکئین علی فرش بطائناھا من استبرق” چونکہ روح ٹیک نہیں لگا سکتی،،روح فروٹ نہیں کھا سکتی،،شہد اور دودھ نہیں پی سکتی اور سیکس نہیں کر سکتی،،لہذا ایک تو وجود کی دلیل میں ان چیزوں کو پیش کیا ھے،نہ کہ اپنی طرف مائل کرنے کے لئے،، دوسرا وھاں کسی نہ کسی قربانی کا ذکر ھے،،کچھ کھونے کا حوالہ ھے،، یطعمون الطعام علی حبہ مسکینا و یتیما و اسیرا،، و آتی المال علی حبہ ذوی القربی،،،مگر جس بے دردی سے اور بے موقع حوروں کی تفصیلات بیان کرتے میں نے سنا ھے،،اس سے تو پھر عورت پیش کر کے کام کرانے کا تصور ھی ابھرتا ھے،،اور یہی وہ تصور ھے جس سے میں یہودی سے عیسائ پھر سکھ اور پھر اسلام میں آیا تھا،،مگر پاکستان نے میرے سارے کانسپٹ دھندلا کر رکھ دیئے ! اور مجھے الحاد کی منزل پر لا کھڑا کیا،، مگر ٹووارڈز انڈر اسٹینڈنگ اسلام  نے مجھے عین وقت پر اس مخمصے سے نکالا اور یوں اللہ نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا کہ جو ھماری راہ چل نکلتا ھے ھم اسے اپنی راہ سجھا دیتے ھیں،،وہ اسٹال والا لڑکا میرے لئے ایک فرشتہ ھی ثابت ھوا جسے خاص اسی کام کے لئے بھیجا گیا تھا اور ٹھیک جب وہ کام ھو گیا تو اس بےچارے کا اسٹال بھی اٹھوا دیا گیا،، میں نے جب بعد میں برطانیہ جا کر اپنا مذھب اور نام سرکاری طور پر تبدیل کیا کیونکہ حج پر جانے کے لئے یہودی نام اور مذھب کی وجہ سے مجھے حج کا ویزہ نہیں ملا تھا،،تو میں نے اپنا نام اسی لڑکے ناصر محمود کے نام پر رکھا ! میرا ارادہ تھا کہ میں براستہ ایران، عراق اور اردن ،یروشلم سے ھوتا ھوا جاؤں اور اپنے عزیز و اقرب سے بھی ملتا جاؤں،، میں جب ٹرین پر زاھدان جا رھا تھا تو میرے ساتھ ایک ایرانی نوجوان بھی اسی بوگی میں تھا،، جو کہ ملحد ھو چکا تھا، وہ برطانیہ کا پڑھا ھوا ایک ذھین ، بہت نفیس اور سادہ سا نوجوان تھا،، باتوں باتوں میں جب اسے پتہ چلا کہ میں مسلمان ھو چکا ھوں تو کہنے لگا کہ میں نے اسلام چھوڑ دیا ھے اور تم اسلام میں آ گئے ھو،، پھر مزاح کے انداز میں کہنے لگا "گویا اللہ کا سپاھی اور اللہ کا باغی ایک ھی بوگی میں اکٹھے ھو گئے ھیں،، میں نے اس سے الحاد کی وجہ پوچھی تو اس نے جو تفصیلات بتائیں ان سے میں سکتے میں آ گیا،،کیا کوئی عقلمند انسان اس صدی میں بھی ایسے عقائد رکھ سکتا ھے،،پہلی بات کہ یہ قرآن اصلی قرآن نہیں ھے بلکہ حقیقی قرآن کا صرف فٹ نوٹ ھے،، وہ حقیقی قرآن ایک امام کے پاس ھے جو اسے لئے غار مین چھپا ببیٹھا ھے،،دنیا ھدایت کے بغیر مر رھی ھے،،اتمام حجت کا رب کا وعدہ کہان گیا،رسلا مبشرین و منذرین لان لا یکون للناس علی اللہ حجۃ بعد الرسل،، وہ یزدانی جوان کہنے لگا ،بس یہ سب کچھ دیکھ کر اور ھمارے علامہ حضرات کے روئیے دیکھ کر میں نے دین سے جان چھڑا لی ھے،،دین اس لیئے ھوتا ھے کہ انسان سکون اور اطمینان حاصل کرے مگر جب دین الٹا رات کی نیندیں اڑا دے،،کسی سوچ کا جواب نہ دے صرف سوال پیدا کرتا چلا جائے تو بہتر ھے خواہ مخواہ روز کی خواری اور آہ و زاری سے ایک دفعہ رو کر جان چھڑا لی جائے،، پھر اس نے مجھے پوچھا کہ تمہیں اسلام کے عشق میں کس چیز نے مبتلا کر دیا ھے؟ میں نے کتاب اس کے حوالے کر دی ،،وہ سارے رستے اس کتاب کو رہ رہ کر پڑھتا رھا،،کبھی کبھار سوال و جواب ھوتے اور بحث بھی ھوتی مگر الحمد للہ وہ جوان زاھدان پہنچنے تک دوبارہ مسلمان ھو چکا تھا اور جہاں کہیں ھمیں موقع ملتا ھم نماز اکٹھی پڑھتے،،میں اسے امامت کے لئے آگے کرتا اور لوگ بھی کھڑے ھو جاتے،، اب نماز میں پتہ نہیں اس کے ساتھ کیا معاملہ ھوتا کہ جب وہ تلاوت کرتا تو اس کی گھگھی بندھ جاتی جیسے سامنے رب کھڑا ھے،اس کے رونے میں میرے سمیت کئی لوگوں کی سسکیاں بھی نکل جاتیں،،ڈبے والوں نے اسے پکا پیر بنا لیا اس کے ھاتھ چومتے اور کھانے پینے کی چیزیں لا لا کر ڈبے میں ڈھیر کرتے جاتے،،میرا ڈبہ ایک دفعہ پھر منگھو پیر کی درگاہ بن چکا تھا ! حقیقت میں یہ کتاب انسان کو اللہ سے ملا دیتی ھے،،میں پیدائشی مسلمانوں سے بھی درخواست کروں گا کہ وہ اس کتاب کے انگلش ایڈیشن کو ضرور پڑھیں،،لکھنے والے نے کمال کر دیا ھے،، خود کو بالکل ایک غیر جانبدار شخص بنا کر دلائل سے اسلام کے تقاضوں کو ثابت کیا گیا ھے،،کسی بھی غیر مسلم یا نو مسلم کے لئے اس کتاب سے بڑھ کر بہترین اور کوئی چیز تحفہ نہیں ھو سکتی،، یزدانی نے مجھے ڈاکٹر علی شریعتی کے 7 مقالوں پر مبنی کتاب ” مین اینڈ اسلام  دی،، اس کتاب نے انسانی تخلیق کے ربانی پروگرام،،انسان کی اھمیت اور رب کے ساتھ اس کے تعلق کو اس طرح واضح کیا ھے کہ میں کئی دفعہ آبدیدہ ھو گیا،،یہ دو کتابیں پڑھنے کی ھیں،، ایران سے رخصتی کے وقت یزدانی نے مجھے یہ کتاب گفٹ کر دی ،،مگر میں اسے اپنی کتاب گفٹ کرنے کا حوصلہ نہ کر سکا،، شاید اس کتاب نے ابھی میرے والدین کو مسلمان کر نا تھا<!–[if gte mso 9]><xml>  ایران میں یزدانی کے توسط سے مجھے تین ملاقاتیں نصیب ھوئیں،،پہلی طہران میں ایک یہودی ربی کے ساتھ،جس میں ربی کو آگاہ کیئے بغیر کہ میں مسلمان ھو چکا ھوں،یہودی عقائد پر کافی تفصیلی اور لمبی چوڑی گفتگو ھوئی،، یہودیت کا دفاع آج کے دور میں کیسے کیا جائے،اس لئے کہ یہودیت نسلی مذھب ھے نظریاتی نہیں،،یعنی کوئی شخص یہودی نہیں ھو سکتاجب تک کہ یہودی پیدا نہ ھو،اس لئے اس کی تبلیغ کی بھی کوئی ضرورت نہیں،جب کوئی چیز سیل پر ھی نہ لگے تو اس کی کوالٹی کی فکر بھی کسی کو نہیں ھوتی ! یہی یہودیت کا مسئلہ ھے کہ وہ سکڑتی جا رھی ھے،، معاشی حالت نے اسے اولاد کو محدود رکھنے پر مجبور کر دیا ھے،، نتیجہ یہ ھے کہ یہودیت کرپٹ بھی ھو گئی ھے،کرخت بھی ھو گئی ھے اور محدود بھی،، یہودی کسی مذھب میں بھی چلا جائے اس کے جینز تبدیل نہیں ھوتے،،اس کا مطلب ھے مذھب بھی تبدیل نہیں ھوتا،کیونکہ یہ ایک جینٹیکل مذھب ھے،، نظریات بدلنے سے آپ کے جسم میں موجود ابرھیم علیہ السلام کے جینز تبدیل نہیں ھوتے،،وہ جینز جن کو اللہ نے دنیا کی آگ سے بچایا ان کو آخرت کی آگ میں کیسے جلائے گا؟ جن کو دشمنوں کی آگ سے بچایا ان کو اپنی آگ میں کیسے جلائے گا،،یہ یہ یہودی نفسیات ھے،جس کا بھانڈا اللہ پاک نے قرآن حکیم میں جگہ جگہ پھوڑا ھے،اور اس پر سوال کھڑے کیئے ھیں،، سورہ المائدہ اور البقرہ اس میں پیش پیش ھیں،، ایک ھمدردانہ ڈسکشن کے بعد اب میرے سوالات ذرا تیکھے ھونا شروع ھوئے اور میں نے اپنے اشکالات پیش کرنا شروع کیئے،، میں نے محسوس کیا کہ یہودی عالم ھی نہیں بلکہ ھر مذھب کی مذھبی قیادت ایک جیسی ھی سوچ کی حامل ھوتی ھے،، آپ کے سوال کا ایک ھی جیسا رٹا رڑایا جواب دیا جائے گا،جواب دینے میں کبھی آپ کے کیلیبر اور آئی کیو کو مدنظر نہیں رکھا جائےگا، میں نے قرآن کی طرف سے دیا گیا جواب،ما کان ابرھیم یہودیاً ولا نصرانیاً ولٰکن کان حنیفاً مسلماً ” ان چیف ربی صاحب کے سامنے رکھا،، اور یہ کہ آگ ھمیں نہیں چھوئے گی،عذاب آخرت ھمیں نہیں ھو گا،پر قرآنی جواب،، قل فلما یعذبکم بذنوبکم ؟ پھر وہ دنیا میں تمہیں بار بار عذاب عظیم میں مبتلا کیوں کرتا رھا؟ لوگوں کا عذاب آخرت پر مؤخر کر دیتا ھے۔تمہیں نقد کیوں دیتا رھا،، کہنے لگے ھمیں دنیا میں دے دیتا ھے اس لئے آخرت میں نہیں دے گا،، میں نے کہا مگر اللہ تو کہہ رھا ھے کہ ولھم فی الآخرۃ عذابٓ عظیم ،،، اس پر انہیں شک ھونا شروع ھوا کہ شاید میں مسلمان ھو چکا ھوں،، کیونکہ عام یہودی نہ قرآن پڑھتا ھے نہ ان باتوں کا اسے علم ھوتا ھے اور نہ قرآن کی بات کو سچ سمجھتا ھے،،انہوں نے سوال کیا کہ کیا آپ مسلم ھو چکے ھیں،میں نے اعتراف کیا کہ میں نے اسلام قبول کر لیا ھے،کہنے لگے یہ خیانت ھے کہ آپ نے یہودی بن کر اپنا تعارف کروایا،،میں نے کہا جناب آپ نے خود تسلیم کیا کہ یہودی کے جینز تبدیل نہیں ھوتے چاھے کسی مذھب میں چلا جائے،میں نے اپنا جیٹیکل تعارف کروایا تھا،، نظریاتی نہیں،، اگلی ملاقات قم کے منتظری صاحب سے ھوئی جن سے میں نے ان شیعہ عقائد پر بات کی جن کے بارے میں مجھے یزدانی نے بتایا تھا

    منتظری صاحب سے وقت لینا بھی ایک مسئلہ تھا،وہ ان دنوں حکومت کے زیرِ عتاب تھے،،کبھی ھاؤس اریسٹ تو کبھی جیل،،خمینی صاحب سے ان کی کھٹ بھٹ چل رھی تھی،،آدھا ایران خمینی صاحب کے پیچھے تھا تو آدھا منتظری صاحب کے ساتھ،، آیت اللہ منتظری وہ شخصیت تھے جنہوں نے خمینی صاحب کی عدم موجودگی میں تحریک کو سنبھالا تھا اور شاہ ایران کی ھر دھونس اور دھاندلی کا مقابلہ کیا تھا،، آیت اللہ خمینی پکی پکائی پر تشریف لائے تھے اور اب آیت اللہ المنتظری صاحب کا آیت اللہ کا ٹائٹل بھی ختم کرنا چاھتے تھے تا کہ ان پر مقدمہ چلایا جا سکے،، جن لوگوں نے خمینی صاحب کو پردیس میں سنبھالا تھا،، فنڈز کا بندوبست کیا تھا نیز آیت اللہ کا ایک سافٹ امیج دنیا کو دکھایا تھا،، امام خمینی صاحب نے سب سے پہلے ان ھی کا صفایا کر کے اس ضرب المثل کو سچ کر دکھایا کہ انقلاب سب سے پہلے اپنے بچے کھاتا ھے،، صادق قطب زادے ،بنی صدر وغیرہ کا گھونٹ بھرنے کے بعد آج کل سختی المنتظری صاحب کی آئی ھوئی تھی مگر المنتظری بھی آیت اللہ تھے،اور لوگوں کے محبوب،، مقابلہ برابر کا تھا مگر پاسداران خمینی صاحب کے ساتھ تھے کیونکہ ان کی حیثیت امام کے ذاتی گارڈز کی تھی ! آدھا گھنٹہ وقت ملا اور شرط یہ کہ سوال پہلے لکھ کر دیں،، یزدانی کے ساتھ مشورے کے بعد ٹوٹل تین سوال لکھے گئے مگر اس وضاحت کے ساتھ کہ ان تین سوالوں پر مزید سوال جواب ھو سکیں گے،، اسلام کی دعوت جو ایک یہودی کو پیش کی جائے گی( اصل میں ملاقات کا وقت ھی اس بات پر دیا گیا تھا کہ ایک یہودی خاندان کا جوان آپ کے دست مبارک پر اسلام قبول کرنا چاھتا ھے ،مگر کچھ وضاحتیں درکار ھیں ) اسلام مین اختلافات کی حد اور عبادات کا فرق،، اجازت کے بعد داخلہ ھوا،، میری فائل جس میں میرے پاسپورٹ کی کاپی اور تفصیل درج تھی ان کو ایک دن پہلے پہنچا دی گئی تھی جو کہ ان کے سامنے موجود تھی،، نشست کا اھتمام نیچے قالین پر تھا اور بہت بارعب اور با ادب ماحول تھا،، سلام دعا ھوئی یزدانی میرا ترجمان تھا،وہ برطانوی لہجے میں انگلش بولتا تھا اور ایرانی لہجے میں فارسی،،میں آج تک فیصلہ نہیں کر پایا کہ یزدانی کی انگلش دلکش ھے یا فارسی،، فارسی اتنی میٹھی زبان ھے کہ نہ سمجھ آنے کے باوجود بھی یزدانی کے چہرے سے نظریں نہیں ھٹتیں،، آپ اسلام کی دعوت کیسے پیش کریں گے،یعنی مجھے مسلمان بنانے کے لئے کیا شرط پیش کریں گے؟ اللہ کی توحید کی شہادت محمد کی رسالت کی گواھی ،علی کی ولایت کی گواھی اور ان کے خلیفہ بلا فصل ھونے کا اقرار،، سوال- کیا محمد خود بھی ان ھی شرائط پر مسلمان کرتے تھے؟

  • جی نہیں !

  • وہ کس پیکیج پر اسلام قبول فرماتے تھے؟

  •   اللہ کی توحید اور محمد کی رسالت،،فرشتوں اور کتابوں پر ایمان، یوم آخرت پر ایمان، مرنے کے بعد دوبارہ زندگی پر ایمان!

  • پھر آپ نے یہ اضافی شرائط میرے ایمان کے لئے کیوں لگائی ھیں کیا اُتنا ھی کافی نہیں تھا جتنا نبی نے بتایا تھا ؟

  • یہاں اس ملک کے عرف کے مطابق یہ شرائط ھیں اگر آپ کو منظور نہیں تو آپ جا سکتے ھیں!

  •   آپ کے امام خمینی صاحب کے ساتھ اختلافات ھیں،، زیرِ حراست بھی رھتے ھیں،، گھر پر بھی نظربند کیا جاتا ھے اور نقل و حرکت تقریر و تحریر پر بھی پابندی ھے، یہانتک کہ جمعے کا خطبہ بھی نہیں دے سکتے،، ان سب اختلافات اور تنگیوں تکلیفوں کے باوجود آپ کے اور امام صاحب کے عقیدے میں کوئی فرق پڑا؟

  •   جی نہیں !

  • عبادت کے طریقے مختلف ھوئے ؟

  • بالکل نہیں ! یہ سیاسی اختلافات ھیں ان کا دین کے ساتھ کیا تعلق؟ اچھا جناب جب آپ کے سیاسی اختلافات آپکے عقیدے اور طریقہ عبادت پر اثر انداز نہیں ھوئے اور آپ دونوں اماموں کی اس سرپھٹول کے باوجود آپ دونوں کی امامت پر کوئی اثر نہیں پڑا تو صحابہ میں سیاسی اختلاف کی وجہ سے ان کی صحابیت میں کیوں کر فرق پڑ جاتا ھے اور صحابہ کرام کے سیاسی اختلافات کے اثرات ان کے عقیدے پر کیسے مرتب ھو گئے اور ان کے طریقِ عبادت میں اختلاف کیوں کر پیدا ھو سکتا ھے،،کیا ان میں آپ جتنا صبر اور شعور بھی نہیں تھا، ان کے سیاسی اور خاندانی جھگڑوں کی بنیاد پر دین کی تقسیم کیوں کی گئی؟ جیسا ابھی آپ نے مجھے کہا کہ مسلمان ھونے کے لئے علیؓ کی خلافت بلافصل کا اقرار کروں درآںحالیکہ وہ بلافصل قائم ھی نہیں ھوئی چوتھے مقام پر جا کر قائم ھوئی، گویا میں اپنے اسلام کی ابتدا ھی جھوٹ سے کروں !

  • جب حضرت امام حسین ؓ کا محاصرہ جاری تھا کربلا میں تو یزید کا لشکر حر سمیت سارے کا سارا امام حسینؓ کی امامت میں نمازیں پڑھتا رھا؟

  •   جی بالکل سات دن وہ لوگ امام معصوم کی اقتدا میں نماز پڑھتے رھے ! کیا آپ یہ تسلیم نہیں کر رھے کہ سیاسی اختلاف کے باوجود ان لوگوں کی نماز کا طریقہ اور اوقات ایک ھی تھے اور ان میں دین کا کوئی جھگڑا نہیں تھا ؟

  • یہاں انہوں نے پہلے اپنے سیکرٹری سے کچھ کہا جس نے میری فائل کھول کر ان کے سامنے کی جس کو انہوں نے دوبارہ غور سے دیکھا،پھر یزدانی سے فارسی میں کہا کہ کیا یہ پہلے مسلمان ھو چکا ھے ؟ یزدانی نے کہا کہ "مجھے اس نے اسلام قبول کرنے کو کہا تھا” مگر اس نے اسلام کو اچھی طرح پڑھا ھوا ھے،،

  •   کیا آپ اس قرآن کو حقیقی اور اصلی قرآن مانتے ھیں؟

  • بالکل ھم اس کو اللہ کا کلام مانتے ھیں اور نماز میں اس کی تلاوت کرتے ھیں،،مگر یہ پورا نہیں ھے،، اس کا کچھ حصہ مس ھے،،

  • وہ حصہ کہاں ھے ؟

  • ھمارے بارھویں امام کے پاس ھے جو غائب ھیں اور ھم منتظر! اس دوران جو لوگ دنیا میں پیدا ھو کر کافر مر رھے ھیں ان کا ذمہ دار کیا وہ امام نہیں جو قرآن لے کر ھی نہیں آ رھا تا کہ اتمام حجت ھو ؟

  • اتمام حجت موجودہ قرآن کے ساتھ بھی ھو جاتا ھے کیونکہ عقائد تمام اس میں بیان ھو گئے ھیں،کچھ سیاسی و انتظامی معاملات کے بارے میں حصہ کم ھے ،جو سیاسی غلبے کے بعد ھی امام نکلیں گے تو لاگو ھو گا !

  • تو کیا آپ میرا اسلام اللہ کی توحید اور نبی کی رسالت کی شہادت پر قبول نہیں کریں گے؟ جو سرٹیفیکیٹ ھم آپ کو دیں گے یہ پوری عبارت اس میں درج ھے اور اس کی عبارت میں کوئی تبدیلی کرنے کا میں مجاز نہیں ھوں،یہ مجلس بازرگان کا کام ھے، اگر آپ پوری عبارت سے اتفاق نہیں کرتے تو پھر ھم آپ سے معذرت خواہ ھیں،، اس کے ساتھ ھی مجلس برخواست ھوئی اور منتظری صاحب گھر کے اندر اور ھم ان کے دفتر سے باھر نکل آئے،، میرے انگلینڈ آنے کے بعد یزدانی بے چارے کو اتنا تنگ کیا گیا کہ اسے لندن میں سیاسی پنا لینی پڑی !

    • والد صاحب کا پیغام ملا فوراً واپس پلٹو ایمرجینسی ھے ! جھٹ پٹ ٹکٹ لیا اور طھران سے دبئ اور پھر لندن کو واپسی ھوئی، سارے پروگرام دھرے کے دھرے رہ گئے،گھر میں داخل ھوتی ھی ماحول میں اداسی کا احساس ھوا، پتہ چلا والدہ صاحبہ کو جگر کا کینسر ڈایگنوز ھوا ھے اور وہ بھی آخری اسٹیج پر، والدہ کی حالت دیکھی نہ جاتی تھی، میں جس طرح چھوڑ کر گیا تھا وزن اس سے آدھا ھو چکا تھا،رہ رہ کے خیال آتا شاید میرا اس طرح گھر سے چلے جانا ،اس داغِ جگر کا سبب نہ بنا ھو ! میرا دل چاھتا تھا کہ والدہ مسلمان ھو جائیں اور اسلام ھمارے خاندان کو ٹیک اوور کر لے،مگر والدہ کی تمنا ایک روایتی ماں والی تھی یعنی مرنے سے پہلے بیٹے کا سہرا دیکھنے کی، لڑکی ھمارے خاندان سے ھی تھی اور مذھب کے معاملے میں کسی حد تک میری ھم خیال بھی تھی کیونکہ ھم دونوں کلاس فیلو بھی تھے،، مجھے
    • والد صاحب کا پیغام ملا فوراً واپس پلٹ