جادو کی حقیقت !

August 23, 2013 at 5:08am

یہ روایت بخاری شریف سمیت ساری حدیث کی کتابوں میں آئی ھے،، اور راوی سارے ثقہ ھیں،، روایت کے لحاظ سے اس پر کوئی بات نہیں کی جا سکتی ،مگر اس پر کچھ سوال وارد ھوتے ھیں جن کا جواب تو کوئی دیتا نہیں، مگر راویوں کے پیچھے چھپنے کی کوشش ضرور کی جاتی ھے ! ایک تھے ھشام ابن عروہ ابن زبیرؓ،، جنہوں نے  اپنی عمر کے آخری ایام میں عراق میں جا کر اس حدیث کو140ھ میں  بیان کیا،، ان کے ماضی کی اتھارٹی پر امام بخاری نے اس حدیث کو لے لیا،،اور ان کی آخری کیفیت کو نہیں دیکھا،،جب کہ وہ سٹھیا گئے تھے – اب امام بخاریؒ کے بعد تو پھر دوسرے محدثین ان کی روایت پر ٹوٹ پڑے،جب کہ امام مالک اور امام ابوحنیفہ نے جو براہ راست ان کے شاگرد تھے ان دونوں نے ان سے جادو کی حدیث نہیں لی،، بلکہ امام مالک نے تو صاف کہہ دیا کہ ھشام کی عراقی روایات سے بُو آتی ھے،، امام ابو حنیفہ کے اصولِ حدیث میں یہ بات طے شدہ ھے اور امام ابوحنیفہ کا حدیث لینے کے معاملے میں رویہ تمام ائمہ سے زیادہ سخت اور لاجیکل ھے،، آپ فرماتے ھیں کہ جو واقعہ عقلاً اپنے وقوع پر بہت سارے افراد کا مطالبہ کرتا ھے،، اس کو کوئی ایک آدھ بندہ روایت کرے تو وہ حدیث مشکوک ھو گی،، اب آپ غور فرمایئے کہ ںبی پر جادو ھوا،، 6 ماہ رھا،،بعض روایات میں ایک سال رھا،، اور کیفیت یہ بیان کی گئی ھے کہ ،،کان یدورُ و یدورُ لا یدری ما اصابہ او ما بہ،، آپ چکر پر چکر کاٹتے مگر آپ کو سمجھ نہ لگتی کہ آپ کو ھوا کیا ھے،، بعض دفعہ آپ اپنی بیویوں کے پاس نہ گئے ھوتے مگر آپ کو خیال ھوتا کہ آپ گئے تھے،، اور بعض دفعہ دیگر معاملات میں بھی اس قسم کا مغالطہ لگا،، اب سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ اس وقت نبی کی 9 بیویوں تھیں،، اگر یہ معاملہ اس حد تک خراب تھا تو یہ سب بیویوں کی طرف سے آنا چاھئے تھے،، جب کہ یہ صرف ایک بیوی حضرت عائشہؓ کی طرف منسوب ھے،، اگر یہ واقعہ ایسے ھی تھا تو عقل کہتی ھے کہ حضرت عائشہؓ کو سب سے پہلے اپنے والد کو خبردار کرنا چاھیئے تھا کہ آپ کے خلیل کے ساتھ یہ ھو گیا ھے،یوں یہ تمام صحابہ میں مشہور ھو جانا چاھئے تھا،،نبی پر جادو قیامت تھی کوئی معمولی زکام کا واقعہ نہیں تھا،، نبوت اور وحی داؤ پر لگی ھوئی تھی،،مگر یہ نہیں ھوا، خیر حضرت عائشہؓ کو دوسرے نمبر پر اپنی سوکنوں کے ساتھ اس کو شیئر کرنا چاھئے تھا اور ان سے بھی تصدیق کرنی تھی کہ کیا ان کو بھی نبی کی ذات میں کوئی غیر معمولی تبدیلی نظر آئی ھے،، وہ بھی نہیں ھوا ، حضرت عائشہؓ نے ذکر بھی کیا تو صرف ایک بندے سے یعنی اپنے بھانجے عروہ سے،، عروہ نے بھی اسے چھپائے رکھا اور کسی سے ذکر نہیں کیا سوائے اپنے ایک بیٹے کے،، وہ بیٹا بھی اسے 70 سال سینے سے لگائے رھا اور جب حضرت عائشہؓ سمیت کوئی صحابی اس کی تصدیق کرنے والا نہ رھا تو 90 سال کی عمر میں عراق جا کر یہ واقعہ بیان کیا،، اور مدینے والوں کو عراق سے خبر آئی کہ نبی پر جادو بھی ھوا تھا،،اب اس پر میں اپنی زبان میں تو کچھ نہیں کہتا مگرفقہ حنفی کے امام ابوبکر جصاص رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی احکام القرآن میں اس پر جو تبصرہ کیا ھے اسی پر کفایت کرتا ھوں ” کہ اس حدیث کو زندیقوں نے گھڑا ھے،، اللہ انہیں قتل کرے،، نبی پر ایمان اور اس حدیث پر یقین ایک سینے میں جمع نہیں ھو سکتے،، اگر آپ پر جادو ھو گیا ھے تو پھر نبوت پر سوالیہ نشان لگ جاتا ھے اور اگر نبی تھے تو پھر جادو کا امکان تک نہیں” افسوس یہ ھے کہ امام ابوحنیفہ کے اس حدیث کو مسترد کر دینے اور امام ابوبکر الجصاص کے انکار کے باوجود ،ماشاء اللہ احناف ھی اسے اولمپک کی مشعلکی طرح لئے دوڑ رھے ھیں ،کیونکہ اس سے ان کی روٹیاں جُڑی ھیں،، یہ کالے کے مقابلے میں چٹا جادو کر کے کماتے ھیں،، اور یوں کالے اور چٹے جادو کے تال میل سے جادو کی سائیکل کے یہ دو پیڈل چل رھے ھیں،، یہ ایک بہت بڑا سوال ھے کہ شرک کے یہ اڈے جو زیادہ تر زندیقوں کے قبضے میں ھیں،، عیسائی جادوگر اور شیعہ عامل اپنی دکانیں اسی حدیث اور ھمارے بزرگوں کے تعاون سے ھی چلا رھے ھیں،، جہاں نہ صرف ایمان لٹتا ھے بلکہ مال کے ساتھ عصمتیں بھی بھینٹ چڑھتی ھیں،، ھم آخر لوگوں کو کیسے روکیں اور کیسے یقین دلائیں کے اللہ کے سوا کوئی نفع نقصان نہیں دے سکتا،، اس صحیح حدیث کو بھی ھم آنکھ میں آنکھ ڈال کر نہیں سنا سکتے کہ ” سارے زمین والے اور سارے آسمان والے، تیرے پچھلے جو مر گئے وہ بھی جو قیامت تک آنے والے ھیں وہ بھی ملکر تجھے کوئی نقصان پہنچانا چاھئیں تو نہیں پہنچا سکتے ،سوائے اس کے جو اللہ نے رحم مادر میں تیرے مقدر میں لکھ دیا تھا،، اور اگر یہ سارے تجھے نفع دینا چاھیئں تو رائی کے دانے کے برابر نفع نہیں دے سکتے سوائے اس کے جو رحم مادر میں اللہ نے تیرے لئے لکھ دیا ھے،، سیاھی خشک ھو گئی ھے اور قلم روک لیا گیا ھے،،، جو اللہ اپنے رسول کی ھی حفاظت نہیں کر سکتا،، اس پر کوئی کیسے توکل کرے ؟،، وہ جوسورہ جن میں  فرماتا ھے رسول کے آگے پیچھے نگران ھوتے ھیں جو اس کی حفاظت کرتے ھیں،، پتہ نہیں وہ محافظ جادو کے وقت لنچ بریک پر گئے ھوئے تھے،، بہرحال لوگ ایک جملہ کہہ کر سارے قرآن اور توکل والی احادیث پر پانی پھیر دیتے ھیں کہ
جی ” جادو تو نبیوں پر بھی ھو جاتا ھے” اور جادو تو برحق ھے،، اگر جادو برحق ھے تو پھر باطل کیا  ھے ،،؟
کاش ھم ضد چھوڑ کر  ایمان بالرسالت کا جائزہ لیں،کہیں یہ ویسا ھی ایمان تو نہیں ،،انا قتلنا المسیح عیسی ابن مریم رسول اللہ،، رسول اللہ تو وہ بھی مانتے تھے،مگر اس رسول  کے ساتھ انہوں نے  کیا سلوک کیا؟ ھم نے قتل کر دیا مسیح عیسی ابن  مریم اللہ کے رسول کو،،، اور ھم نے بدنام کر دیا محمد رسول اللہﷺ کو،، جادو کے غلبے کی دو صورتیں ھیں،، تیسری ممکن نہیں ! ایک یہ کہ شیاطین کے ذریعے کسی پر غلبہ پا لیا جائے،، اور جو سمجھتا ھے کہ شیطان نے نبی ﷺ پر غلبہ پا لیا تھا،، اس نے اللہ کی بھی تکذیب کی اور رسول ﷺ کی بھی ،،کیونکہ اللہ پاک کے دربار میں ابلیس نے جو باپ ھے شیاطین کا اس نے اعتراف کیا کہ ” لاُغوینھم اجمعین،، الا عبادک منھم المخلصین،، میں لازم اغوا کروں گا سب کو،، سوائے تیرے ان بندوں کے کہ جن کو تو خالص کر لے،،، اب کون سا شیطان نبی پر غلبہ پا سکتا تھا،، پھر اللہ کی تکذیب یوں کرتے اور راویوں کی پوجا کرتے ھے،،کہ اللہ پاک فرما رھا ھے کہ،، انَۜ عبادی لیس لک علیھم سلطان ،، میرے بندوں پر تیرا کوئی زور نہ چلے گا ،، اب دوسری صورت رہ گئی کسی کی قوت متخیلہ کا دوسرے کی قوت متخیلہ پر غالب آ جانا ،، یہ بھی نبیﷺ کی تکذیب اور لبید یہودی پر ایمان کے مترادف ھے،جس ھستی کا دل سوتے میں بھی رب کے ساتھ آن لائن رھتا تھا ان کے بارے میں یہ سوچنا کہ اس یہودی کی قوت متخیلہ نے ھمارے نبی ﷺ کی قوت متخیلہ پر غلبہ پا کر انہیں وہ سوچنے اور کرنے پر مجبور کر دیا جو وہ چاھتا تھا،،، اور یوں سال بھر نبیﷺ لبید اعصم یہودی کے رحم و کرم پر رھے،، جب وہ چاھتا نبیﷺ کو نماز پڑھتے اٹھا کر گھر بھیج دیتا اور صحابہ منہ دیکھتے رہ جاتے،، یہانتک کہ حضرت ذوالیدینؓ نے کنڈہ بجا کر کہا کہ سرکارﷺ ھمیں تو کسی طرف لگائیں،، دو رکعت پڑھ کر اٹھ آئے ھیں،، کیا نماز کم ھو گئی ھے یا آپ بھول گئے ھیں ؟؟، آپﷺ نے غصے کے عالم میں فرمایا نہ نماز کم ھوئی ھے اور نہ میں بھولا ھوں،،مگر ذوالیدیؓن نے اصرار کیا،جس پر آپ نے دیگر صحابہ کی طرف دیکھا اور انہوں نے بھی سر ھلا کر ذوالیدیؓن کی تصدیق کی تب نبی کریمﷺ نے جا کر باقی دو رکعت پوری کیں اور سلام پھیرا،، کبھی وہ خیال ڈالتا کہ آپ جنابﷺ اپنی فلاں زوجہ سے مل آئے ھیں مگر وہ زوجہ انکار کرتیں،، الغرض یہ ھے ھمارے آج کے فوٹو اسٹیٹ احناف کا موقف اور ایمان اپنے نبیﷺ کے بارے میں،،مگر پہلے احناف ایسے نہیں تھے،کیونکہ وہ سفید جادو کی دکانیں نہیں چلاتے تھے،، ابوبکر الجصاص جو محدث تھے اور علماء احناف میں مجتہد تھے،، علامہ شاہ اسماعیل شہید نے انہیں تنویر العینین میں ان کو مجتہد لکھا ھے،، الغرض وہ احکام القرآن میں اس حدیث پر بحث کرتے ھوئے لکھتے ھیں ” جو لوگ نبی پر جادو کی تصدیق کرتے ھیں بعید نہیں کہ وہ نبی کے معجزات کو بھی من قبیل السحر قرار دے دیں یا خود نبی کو ھی ساحر قرار دے دیں،، کتنی شرمناک بات ھے کہ ان لوگوں نے اس بات پر یقین کر لیا کہ ان کے نبیﷺ پر جادو کر دیا گیا،یہانتک آپﷺ کی طرف منسوب کیا جاتا ھے،،کہ میں نے کوئی کام نہیں کیا ھوتا تھا اور سمجھتا تھا کر لیا ھے،،اور کوئی بات نہیں کہی ھوتی تھی مگر سمجھتا تھا کہ میں نے کی ھے،، ۔۔۔۔۔۔۔ دراصل یہ حدیثیں ملحدوں کی وضع کردہ ھیں، جو رذیلوں اور اوباشوں کو اھمیت دیتے ھیں ،، جو بتدریج اس لئے گھڑی گئی ھیں کہ انبیاء کے معجزات کو باطل قرار دیا جائے اور ان میں شبہ ڈالا جائے اور لوگوں کو اس کا قائل کیا جائے کہ جادوگری اور معجزہ ایک ھی قسم سے تعلق رکھتے ھیں،،اس قسم کی روایات بیان کرنے والوں پر تعجب ھوتا ھے کہ ایک طرف تو وہ انبیاء کی تصدیق کرتے ھیں اور معجزات کو ثابت کرتے ھیں مگر دوسری طرف وہ اس کی بھی تصدیق کرتے ھیں کہ جادوگر بھی یہ کام کر سکتا ھے،، اب نبی پر ایمان اور جادو ایک سینے میں جمع نہیں ھو سکتے،، ” یہ ھے لہجہ امام المحدث ابو بکر جصاص کا،،منکرین حدیث کے فتوے داغنے والوں سے گزارش ھے کہ  سارے فتوؤں کا رخ پھیرئیے اپنے ان اکابر کی طرف تا کہ آپ کو فتوے دینے کا کوئی مزہ بھی آئےاس روایت پر تفصیلی نظر ڈالی جائے تو پہلی بات یہ ھے کہ 140 سال تک یہ روایت سینہ بسینہ ایک فرد سے ایک فرد تک منتقل ھوتی رھی، اسے دوسرا آدمی دیکھنا نصیب نہ ھوا، 7 ھجری سے 140 ھ تک اس کا صرف ایک راوی چلتا ھے،، یہ روایت ھشام سے سوائے عراقیوں کے اور کوئی روایت  نہیں کرتا،، حافظ عقیلی کے مطابق  132ھ  میں ھشام سٹھیا گئے تھے، اور کہتے تھے کہ انہوں نے اپنی بیوی سے 9 سال کی عمر میں شادی کی تھی،حالانکہ وہ ان سے 13 سال بڑی تھیں،، گویا جب وہ 9 سال کی تھیں تو ھشام کے پیدا ھونے میں بھی ابھی چار سال باقی تھے ، دماغ خراب ھونے کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ھو سکتا ھے،، اسی زمانے میں انہوں نے حضرت عائشہؓ کی شادی بھی چھ سال کی عمر میں اور رخصتی 9 سال کی عمر میں کرائی تھی، راوی اس کے بھی سارے عراقی ھیں اور وہ بھی 140 سال سینہ بسینہ چلتی ھوئی عراق سے مدینے آئی  تھی،،مدینے والوں کو نہ جادو کا پتہ تھا نہ چھ سال کی شادی کا،، امام مالک ھشام کے مشہور ترین شاگردوں میں سے ھیں مگر اس روایت کو چھوتے تک نہیں،، اوربھی  کوئی  مدنی محدث اس سے واقف نہیں،، اس روایت کے متن میں اتنا اضطراب ھے کہ یقین کرنا مشکل ھوتا ھے کہ یہ صحیح الدماغ آدمی کا بیان ھے،، جتنے آدمی ان سے ملتے ھیں ھر ایک کو ایک نیا آئیٹم پکڑا دیتے ھیں،، کسی میں تعویز نکالا جاتا ھے،،او
ر بالوں میں سے گرھیں کھولی جاتی ھیں،، یہ گرھیں مارنے ھی والے خوب جانتے ھیں کہ گرھیں کیسے کھولی جاتی ھیں،، ھمارا تجربہ تو یہ ھے کہ بال ٹوٹ جاتا ھے مگر اس کی گرہ کھلنی مشکل ھے،، کہیں کسی تانت میں گرہ مروائی جاتی ھے،،کہیں کہا جاتا ھے کہ نبی پاک
نے نکلوایا ھی نہیں تھا،،جب نکلوایا ھی نہیں تھا تو پھر گرھوں والی کہانی خود بخود جھوٹ ثابت ھو جاتی ھے،کیونکہ بخاری و مسلم تو گرھوں والی بات روایت ھی نہیں کرتے اور نہ جادو نکلوانے کی بات کرتے ھیں،، اب چونکہ سورہ فلق میں گرہ میں پھونک مارنے کا ذکر ھے،،اس لئے گرہ تو لگوانی ضروری تھی،،لہذا اگلے ایڈیشن میں جادو نکلوا کر گرھیں کھلوائیں گئیں،، مگر مکے کے ابتدائی سالوں مین نازل ھونے والی مکی معوذتین کو گرہ میں پھونکیں مارنے والیوں کے شر سے پناہ کا جملہ دیکھ کر انہیں 7 ھ کے واقعے میں جوڑا گیا،، امام ابو حنیفہ تو جادو کے قائل ھی نہیں،، ابو بکر بھی قائل نہیں،،مگر آج کے احناف اس کے ساتھ کچھ یوں چمٹ گئے ھیں گویا یہ فقہ حنفی کا ھی کوئی مسئلہ ھے،، عمل نہ کریں تو عبادات کے مسائل میں 90 ٪ بخاری پر نہ کریں تو دین کا کچھ نہیں بگڑتا،، اور عمل کرنے پہ آ جائیں تو جادو کو دین اور ایمان کا مسئلہ بنا دیں،، جو چاھے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے

مکھی کیسے نگلی جاتی ھے !

مکھی کیسے نگلی جاتی ھے !

March 24, 2013 at 9:57pm

بسم اللہ الرحمٰن الرۜحیم ! آپ جانتے ھیں کہ مکھی ایک مکروہ چیز ھے ،جس کا نام ھی کراھت کے لئے کافی ھے، مگر آج میں اپ کو وہ طریقہ بتاتا ھوں کہ مکھی کیسے نگلی جاتی ھے ،، ھمارے محدیثین کے نزدیک ایک ضعیف حدیث اگر تلقی بالقبول حاصل کر لے یعنی علماء میں مشہور و مقبول ھو جائے تو اسکی سند کو نہیں دیکھا جاتا اور اس کو قبول کر لیا جاتا ھے،، یہ ھے آسان طریقہ مکھی نگلنے کا،،اگر جھوٹ مشہور ھو جائے اور اس فیلڈ کے لوگ اس کو مان لیں تو سمجھ لیں کہ وہ سچ ھو جاتا ھے،،کتنا آسان نسخہ ھے باطل کو حق بنانے کا ! آج جتنی بدعات چل رھی اور پھیل رھی ھیں،، ان کو چلانے اور پھیلانے والے یہی علماء حضرات ھی ھیں،، کوئی سیاست دان نہیں،،اور یہ بدعات کچھ اس طرح معاشرے میں تلقی بالقبول پا چکی ھیں کہ بخاری کی قوی سے قوی حدیث بھی اس مقبولیت کے آگے پانی بھرتی نظر آتی ھے ،،

آگے چلئے ،، کتابوں میں جائیں تو جی چاھتا ھے کہ انسان دیوار سے سر ٹکرا دے،جب نبیﷺ کے حکم کو علماء اپنی رائے سے روند رھے ھوتے ھیں اور نبیﷺ کا فتوی آ جانے کے بعد اس پر تنقید کر رھے ھوتے ھیں،، یہانتک کہ قرآن کو بھی مشکوک بنا دیا گیا ھے،اور جس کی حفاظت پر اللہ ،رسولﷺ اور پوری امت کا اجماع ھے اس کو بھی غیر محفوظ بتایا جاتا ھے،یہ بات عموماً شیعہ کی طرف منسوب کی جاتی ھے مگر شیعہ اس معاملے میں ھمارے علماء کے آگے پانی بھرتے نظر اتے ھیں ،،

میرے قلیل مطالعے اور ناقص علم کے مطابق اجماع صرف اور صرف قرآن کی حفاظت اور نبیﷺ کی ختمِ نبوت پر ثابت ھے، اس کے علاوہ دین کی کسی بات پر امت میں اجماع نہیں ھے،،وہ نماز جو مکہ میں فرض ھوئی اور اسلامی فرائض میں سب سے پہلے فرض ھوئی ،اور پوری امت صدیوں سے اس کو دن میں کئی بار ادا کرتی ھے،،اگر اسکی ایک رکعت میں بھی اجماع نہیں ھو سکا تو پھر اور کس چیز پر اجماع ھو سکتا ھے،، تکبیرِ تحریمہ سے لے کر سلام تک ھر رکن اور فرض و واجب پر کئی قسم کے اختلاف ھیں، صحابہؓ کے اقوال میں بھی اور آئمہ کی رائے میں بھی اور اماموں کا وجود اس اختلاف کا بین ثبوت ھے،،امامت اصل میں نظریاتی اختلاف کا انسانی وجود ھے ،اگر اجماع ھوتا تو پھر ایک ھی امام ھوتا ،، وہ جو نبیوں اور رسولوں کا بھی امام ھے،،محمد الرسول اللہ ﷺ،،، تو جب نماز میں نیت سے لے کر سلام تک کسی بات پر اجماع ثابت نہیں تو پھر کسی اور بات میں اجماع کا دعوی عبث ھے !!

احکام شریعت میں قرآن اس وقت عملاً وھاں کھڑا ھے جہاں کبھی تورات ھوا کرتی تھی،، اور احادیث شریفات اور اقوالِ ائمہ حضرات ٹھیک وھی مقام پا چکے ھیں جو تلمود کو حاصل تھا اور خدائی اختیارات کا جو منظر کبھی یہود کے فریسیوں میں نظر آتا تھا،وہ ھمارے علماء میں بدرجہ اتم نظر آتا ھے ،،اس کی ایک مثال دیکھ لیجئے تا کہ آپ کی تسلی ھو جائے ،،،

امام بخاریؒ نے ایک حدیث روایت کی ھے کہ عُقبہ ابن الحارثؓ نے بیان کیا ھے کہ انہوں نے بنت ابی اھاب سے شادی کی ،،(یہ عقبہؓ مکے کے باسی تھے) ان کے پاس ایک عورت ائی ،جس نے یہ دعوی کیا کہ میں نے تم دونوں میاں بیوی کو دودھ پلایا ھوا ھے،، انہوں نے کہا کہ تم نے نہ تو مجھے پہلے بتایا اور نہ ھی مجھے پتہ ھے کہ تم نے دودھ پلایا ھے یا نہیں ! اس کے بعد یہ عقبہؓ مدینہ تشریف لائے اور نبی کریمﷺ سے فتوی پوچھا اور کہا کہ اے اللہ کے رسولﷺ وہ جھوٹی ھے ،، آپ ﷺ نے فرمایا جب وہ کہہ رھی ھے کہ اس نے تم کو بھائی اور بہن بنا دیا ھے تو پھر سوائے جدائی کے کوئی رستہ نہیں اور آپﷺ نے شہادت اور درمیانی انگلی سے قینچی کی طرح کاٹنے کا اشارہ کیا کہ،یہ رشتہ کٹ گیا،،،،

حدیث بہت واضح ھے کسی ایچ پیچ کی ضرورت نہیں ھے،جو وضاحت ھو سکتی تھی وہ عقبہؓ نے کر دی تھی،،مثلاً ایک روایت میں وہ کہتے ھیں کہ اس نے ھم سے کھانا مانگا تھا اور ھم نے انکار کر دیا تھا،،اگلی صبح اس نے ھمیں بہن،بھائی بنا دیا،یعنی انتقاماً یہ دعوی کیا،مگر نبی کریمﷺ نے یہ وضاحت قبول کرنے سے انکار کر دیا ،،اور فیصلہ دے دیا ،،

اب جن لوگوں کے دماغ میں عورت کی آدھی گواھی پھنسی ھوئی تھی،وہ اس کو کیسے قبول کر لیتے کہ "ایک نامعلوم عورت جس کے کردار کا بھی کوئی پتہ نہیں،،سوشل اسٹیٹس یہ ھے کہ کھانا مانگ کر کھاتی ھے گویا بھکاری ھے،،مگر اس ایک اکیلی عورت کی گواھی کو نبیﷺ نے اتنی وقعت دی کہ صحابی کا قول رد کردیا اور طلاق کروا دی،،،،

اب دیکھیں صحیح حدیث کی حلیم کیسے بنتی ھے !

کہا گیا کہ بھلا یہ کیسے ھو سکتا ھے؟(حالانکہ ھو چکا ھے) امام شافعی فرماتے ھیں کہ رضاعت کے لئے چار عورتوں کی گواھی درکار ھے،،اور امام مالک کے نزدیک 2 عورتوں کی گواھی سے بھی ثابت ھو جاتی ھے، امام ابو حنیفہ کے نزدیک وھی نصاب ھے سورہ بقرہ والا،2 مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں،،اور یہ یاد رکھیں کہ یہ ساری باتیں نبیﷺ کو یاد کروائی جا رھی ھیں کہ سرکارﷺ عورتیں تو بھولتی ھی بھولتی تھیں آپ بھی بھول گئے کہ بقرہ میں کیا نصاب شہادت ھے !

آگے چلئے ابھی بعد والے نائب امام کیا کرتے ھیں وہ بھی دیکھ لیجئے،،علامہ شبیر احمد عثمانی شیخ خیر الدین رملی صاحب کے حوالے سے لکھتے ھیں کہ البحر الرائق کے حاشیئے پر انہوں نے لکھا ھے کہ ایک عورت کی گواھی دیانتاً قبول ھے،قضاءً قبول نہیں،،یعنی نبیﷺ میں دو حیثیتیں مجتمع تھیں،،مفتی والی اور قاضی یا جج والی،،حضورﷺ نے یہ فتوی دیا تھا،، قاضی والا فیصلہ نہیں تھا(میں کہتا ھوں کعب بن اشرف کو مروانے کا فیصلہ چیف جسٹسﷺ کا تھا،،مولوی کا فتوی نہیں تھا،جس کو بنیاد بنا
کر ھر مولوی بندے مروا رھا ھے) گویا اب فیصلے کی جان نکالنے کے لئے مختلف دائیاں بلائی جا رھی ھیں،،مگر بات کہاں جا کر رکے گی ذرا دلچسپ صورتحال ھے ،، اگرچہ نبیﷺ نے کوئی تحقیق نہیں فرمائی کہ کتنا پلایا تھا اور کیسے پلایا تھا،، مگر !!

حضرت عائشہ صدیقہؓ کی حدیث لائے ھیں ،مسلم شریف سے کہ قرآن میں اللہ نے نازل فرمایا تھا کہ”عشر رضعات معلومات یحرمن” دس چُوسے مسلسل حرمت کو ثابت کرتے ھیں،، پھر بعد میں تبدیل ھو کہ نازل ھوا کہ ” پانچ مسلسل چُوسے حرمت کو ثابت کرتے ھیں اور جب نبیﷺ کا وصال ھوا تو ھم پانچ چُوسے ھی قرآن میں پڑھتے تھے،،،

اب میری اھلِ سنت والجماعت سے گزارش ھے کہ جب نبیﷺ کے وصال کے بعد تک پانچ چُوسے کی تلاوت کی جاتی تھی تو قرآن میں سے پانچ چُوسے کون چُرا کر لے گیا؟ اب ڈھونڈ ان کو چراغِ رخِ زیبا لے کر ،، کیا وہ بھی بکری کھا گئی ھے ؟ الزام شیعوں کو دیا جاتا ھے کہ وہ پورا قران نہیں مانتے ،،ایسی حدیث امام مسلم اور دیگر اصحابِ حدیث نے شامل کیسے کر لی اپنے مجموعے میں،کہ جس نے قران کے اجماع کی چُولیں ھلا کر رکھ دیں،، اور یہ بھی لکھا ھوا ،تفسیر ابن کثیر میں تفصیل دیکھ لیں کہ ،حضرت عائشہؓ کو جسے محرم بنانا ھوتا تھا،،اسے اپنی بہن حضرت اسماء کے پاس بھیجتی تھیں کہ "پانچ چوسے ” پی کر آئے،،

پچھلے دنوں ایک سعودی مفتی کا فتوی اسی حدیث کے مطابق جب آیا تھا کہ افس میٹ عورتیں اپنے ساتھ والوں کو اپنا یا اپنی کسی محرم کا دودھ پلائیں،،تو ساری دنیا چیخ اٹھی تھی اس کی نامعقولیت اور بے حیائی پر،، اور میں منتظر ھی رھا کہ کوئی اھلِ حدیث دفاع حدیث کا جھنڈا اٹھا کر کھڑا ھو گا کہ یہ تو مسلم شریف کی حدیث ھے،،مگر سارے سلفی دم سادھ کر بیٹھے رھے،،

دیکھنے ھم بھی گئے مگر تماشہ نہ ھوا’

گزارش ھے کہ کتابوں کے یہ سارے شریف مجموعے اتنے بھی شریف نہیں ھیں کہ قران کو منسوخ کر سکیں،اور مشکوک بنا سکیں،، ان میں سے وہ سب کچھ نظرثانی اور قران پر پیش کر کے نکالے جانے کے قابل ھے،جس نے اسلام کو چوں چوں کا مربع بنا کر رکھ دیا ھے

اسلام ،پاکستان اور موجودہ نظام !

April 16, 2013 at 7:15pm

پھر قریش کی دونوں شاخوں یعنی بنو امیہ اور بنو عباس نے خلافت کے نام پر جو گل کھلائے،،جس بے دردی سے علماء کو شہید کیا،، صحابؓہ کو شہید کیا، جس دھڑلے سے حرمین یعنی مکہ اور مدینہ کی بے حرمتی کی ،بیت اللہ کو منجنیقوں سے مسمار کیا،،آگ لگا دی،حضرت اسماعیل علیہ السلام کے زمانے کے تبرکات، تک جلا دیئےگے،حرم کا صحن جو کچا ریت والا تھا ،اس میں انسانی خون جب تک گھوڑوں کے سموں تک نہیں پہنچا حجاج قتل عام کرتا رھا کیوں کہ اس نے قسم کھائی تھی کہ جب تک میرے گھوڑے کے سُم خون مین نہیں ڈوبیں گے تب تک قتال نہیں روکوں گا،، علماء کو بلاتا اور ان کو پوچھتا کہ بتاؤ تمہیں کس طریقے سے قتل کروں،، خلافتِ عباسیہ میں مشہور خلیفہ یا بادشاہ ،منصور السفۜاح،سفاح اس کا لقب اس کی بے دردی کی وجہ سے پڑا تھا،یعنی خونخوار،بے رحم،اس کا بیٹا مہدی،پھرمہدی کے دو بیٹے،الھادی اور ھارون رشید،، اس ھادی کو لونڈی کے ذریعے یحی برمکی نے قتل کرایا،، یہی حال اسپین کی خلافت کا تھا،، ان خلیفوں کے آگے ،زرداری اور مشرف جیسے پانی بھرتے ھیں،،  آپ کوئی سی بھی تاریخ اسلام اٹھا لیجئے اور آج کے سیاستدانوں سے تقابل کر لیجئے! ایک خلیفہ صاحب نے تو ماشاء اللہ اپنی لونڈی کو حالتِ جنابت میں اپنا جبہ پہنا کر بھیج دیا تھا کہ عصر کی نماز پڑھا آئے!!

اب آیئے اپنے ملک پاکستان کی موجودہ صورتِحال کی طرف !

الحمدُللہ پاکستان دنیا کا انوکھا ملک ھے،،اس جیسا کوئی ملک نہین ھے، اس کی مثال دنیا مین نہیں ھے،، دنیا کا واحد ملک ھے،جس نےبحیثیت ملک کلمہ پڑھا ھے،، سعودیہ سمیت دنیا کے کسی اسلامی ملک کے آئین میں یہ نہیں لکھا ھوا کہ” اس ملک ِ خداداد میں کوئی قانون قرآن اور سنت کے خلاف نہیں بنایاجا سکتا(No legislation will be done repugnant to the Quran and theSunnah) اب یہ پاکستان کا لا الہ الا اللہ،محمدرسول اللہ ھے ، جس طرح ھم کلمہ پڑھ کے ڈھیر ساری خلاف ورزیاں کر رھے ھیں،،اسی طرح اس ملک سے بھی خلاف ورزیاں کروا رھے ھیں،، مگر یہ ملک ایک خاص مقام رکھتا ھے،اللہ کی قضاو قدر کے فیصلوں میں، اور اللہ ھی اس کو بچاتا چلا آرھا ھے،،اس کی زمین کو خزانوں سےبھر کے رکھ دیا ھے،، جو بات اس کے پانی میں ھے وہ کسی اور ملک کے پانی میں نہیں ھے،،وھی پانی انڈیا میں بہتا ھے تو اور ذائقہ رکھتا ھے مگر جب پاکستان میں داخل ھوتا ھےتو اس کے پھلوں مین وہ ذائقہ اور خوشبو بھر دیتا ھے، جو انڈیا والوں کو چکھاتا بھی نہیں،،،

 

پاکستان میں نظام کی درستگی اصل سوال ھے،اوراگر دینی جماعتیں چاھییں تو آسانی کے ساتھ ایک فلاحی ریاست قائم کر سکتی ھیں،، متناسب نمائندگی کا انتخابی قانون بنوا لیں،،ھر جماعت اپنے منشور میں اس کا ذکر کرتی ھے مگرمخلص نہیں ھے،،اس کے چند فائدے ھیں جو موجودہ جمہوریت کو ھی موعودہ خلافت میں تبدیل کر دیتی ھے،،موعودہ سے مراد وہ خلافت جس کا خواب علماء قوم کو 65 سال سے دکھا رھے ھیں!1= اس سے حلقہ بندیوں کے عذاب اور دھاندلی سے نجات مل جائے گی،،2= اس سے پورے ملک مین پڑنے والا ایک ووٹ بھی ضائع نہیں ھو گا!! 3-اس سے امیدواروں کی بلیک میلنگ سے نجات ملے گی کہ میں سیٹ وننگ امیدوار ھوں،،اور پارٹی گرفت مضبوط ھو گی جو امیدواروں کو بےلگام ھونے سے روکے گی،،اگر کوئی امیدوار گڑبڑ کرے گا تو پارٹی اسی وقت کان سے پکڑ کرباھر نکال دے گی اور بغیر ضمنی الیکشن کے اسی دن دوسرے بندے کو حلف دلا دے گی ،، یوں ضمنی الیکشن کے اخراجات سے بھی نجات ملے گی-4= پارٹیوں کی مجبوری ختم ھو جائے گی کہ وہ لازماً ایک کرپٹ مگر اثر و رسوخ والے امیدوارکو ٹکٹ دے،، ھر جماعت کو ملنے والے ووٹوں کے تناسب سے اسے سیٹیں ملیں گی اور وہ اپنی مرضی کے مطابق  لائق فائق بندے حلف کے لئے دے گی،، مثلاً جماعت اسلامی کو 30 سیٹیں ملتی ھیں تو ،جماعت کی شوری طے کرے گی کہ وہ 30 کون کون ھوں،،بحث ھو گی شوری میں، اور پھر طےھو گا،،یوں یہ گلہ بھی دور ھو جائے گا کہ جناب موچی اور چیف جسٹس کا ووٹ برابر ھے،”یہاں بندوں کو گنا کرتے ھیں تولا نہیں کرتے” والا کانسپٹ بھی مر جائے گا،، اب شوری تول کر فیصلہ کرے گی،، جن ممالک میں اسلامی حکومتیں آئی ھیں،سب میں متناسب نمائدگی والا نظام ھے،، ورنہ اسلامی جماعتوں کا ووٹ بینک سب سے زیادہ ھونے کے باوجود بے بس اور بے فائدہ ھو کر رہ جاتا ھے،، موجودہ نظام میں اگر یہ تبدیلی کر لی جائے تو یہ نظام اس اموی اور عباسی خلافت سے ھزار درجہ بہتر ھے،، جس کا خواب دیکھتے ھم بھی بوڑھے ھوگئے ھیں

آدھی عورت !

آدھی عورت !

March 25, 2013 at 8:38am

بسم اللہ الرحمٰن الرۜحیم،والصلوٰۃ والسلام علی اشرف الانبیاء والمرسلین وعلی الہ وصحبہ اجمعین،و من تبعھم باحسان الی یوم الدین،،امۜا بعد قرآن حکیم کی سورت البقرہ کی آیت 282 کو لے کر جس طرح عورت کی گواھی کا نصف نصاب بنا لیا گیا ،اس نے آگے چل کے ھمارے فقہاء اور علماء کے لئے جس طرح مسائل پیدا کئے اور پھر ان مسائل کو حل کرنے کے لئے علماء نے جسطرح دین میں تصرف فرمایا ،یہ ایک دردناک داستان ھے،اسکی ایک جھلک آپ دودھ پلانے والی کی شہادت کے ضمن میں نبی کریمﷺ کے فیصلے اور پھر اس فیصلے کو اپنے موقف کے خلاف دیکھتے ھوئے اس کی جان نکالنے کے لئے فقہاء کی کد و کاوش کو دیکھتے ھوئے ،پاکستانی حکومت کا وہ مشہورِ زمانہ احترام یاد آ جاتا ھے جو وہ عدالت کا کرتی ھے ،مگر الحمد للہ  اس زمانے میں بھی صحابہؓ کرام اور فقہاء میں وہ لوگ موجود تھے جو مسلسل کہتے رھے کہ ایک عورت کی گواھی بھی مکمل نصاب ھے، سوائے ایسی گواھی کے کہ جس میں انسان اپنے ھاتھوں گواھی کا بندوبست کرتا ھے،،وہ تمام واقعات و حوادث جو اچانک رونما ھوتے ھیں ،وہ اپنا گواہ خود چنتے ھیں،یعنی جو موقعے پر موجود ھو گا وہ گواھی دے گا،چاھے وہ مرد ھے یا عورت ایک ھے یا دو یا دس،،اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ،یہ بات سمجھنے کے لئے افلاطون ھونا ضروری نہیں کہ کوئی ایسا بندوبست کرنا نہ تو قرینِ قیاس ھے اور نہ عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق کہ انسان ایک مرد اور دو عورتوں کا بندوبست کر کے رکھے کہ ابھی یہاں ڈاکا پڑنے والا ھے،یا قتل ھونے والا ھے،اور گواھی کا نصاب پورا ھونا چاھئے،،جو موقعے پر ھو گا،مرد یا عورت یا بچہ وہ ھی گواھی دے گا

ڈاکومنٹری گواھی سے اسلام عورت کو دور ھی رکھنا چاھتا ھے،اور آج کے عدالتی نظام اور تاریخوں پر تاریخیں جسطرح دی جاتی ھیں اسی میں حکمت بھی ھے،دنیا میں آج بھی کروڑوں کی تعداد میں تیار کئے جانے والے معاھدوں میں عورتوں کی گواھی کی نسبت 2٪ سے بھی کم ھے، سورۃ البقرہ تو سیدھا سیدھا کہہ رھی ھے کہ کاغذی معاہدوں میں عورت کو گواہ کے طور پرشامل ھی مت کرو اگر بحالتِ مجبوری مرد میسر نہ ھو تو تیمم کے طور پر عورت کو گواہ بناؤ مگر پھر ایک عورت نہیں بلکہ دو عورتیں لو کیونکہ مردوں کی عدالت میں عورت کا پیش ھونا ایک غیرفطری امر ھے جس سے عورت کو کوفت اور وحشت ھوتی ھے،فطری حیا اور شرم کی بدولت وہ چُوک بھی سکتی ھے،اس صورت میں دو عورتوں کی موجودگی ان کے لئے ڈھارس کا سبب ھوگی، اور اگر ایک عورت اس صورتحال میں بدحواسی میں بھول چُوک کا شکار ھو جائے تو دوسری اس کو لقمہ دے سکے،اور اس کے لئے جو الفاظ اللہ پاک نے انتخاب فرمائے ھیں وہ ھی اس کی وضاحت کے لئے کافی ھیں،،اللہ نے لفظ ” تنسی ” یعنی بھولنے کا لفظ استعمال ھی نہیں فرمایا بلکہ "تضل” کا لفظ استعمال فرمایا ھے،جس کا مطلب چُوکنا ھے،جس کو پنجابی میں تھُڑک جانا کہتے ھیں،،اور ان دونوں میں زمین آسمان کا فرق ھے،کوئی چیز یاد ھوتے ھوئے چُوک جانا ممکن ھے،،جج فیصلہ لکھنے میں چُوک سکتا ھے،اور اللہ پاک نے یہ دونوں لفظ سورہ طہ کی آیت نمبر 52 میں ساتھ ساتھ استعمال فرمائے ھیں،،لایضلُ ربی ولا ینسی” میرا رب نہ بھولتا ھے اور نہ چُوکتا ھے، جب دو رکنی بنچ بنایا جاتا ھے تو اس کا مقصد یہ ھی ھوتا ھے کہ اگر ایک پہلو کسی جج کی نظر سے اوجھل ھو گیا ھو تو دوسرے کی نظر میں آ سکتا ھے،،کیا دو ججوں کے فیصلے کو آدھا فیصلہ اور چار رکنی بنچ کے فیصلے کو چوتھائی فیصلہ کہا جا سکتا ھے،،؟ اسی طرح دو عورتوں کی گواھی کو آدھی گواھی نہیں کہا جا سکتا،پھر جو صورت اس آیت 282 میں بیان کی گئی ھے،کیا وہ دنیا کی کسی عدالت میں قابلِ قبول ھے،؟ کہیں بھی ایک گواہ دوسرے کو یا وکیل اپنے موکل کو گواھی  کے دوران لقمہ  دے سکتا ھے؟،،ایسی صورت میں گواھی مسترد ھو جاتی ھے ، مگر یہ میرے رب کی کریمی ھے کہ عورت کو آؤٹ آف وئے جا کر سہولت دی کہ اگر صورتحال کی نزاکت اور اپنی حیادار فطرت کی وجہ سے عورت بوکھلا جائے اور گواھی گڈ مڈ ھو جائے تو دوسری اسے سیدھے رستے پر لگا دے،اب اس مہربانی کو کچھ لوگوں نے زیادتی میں تبدیل کر دیا اور ھر معاملے میں عورت کی گواھی کو آدھا قرار دے کر ایک اصول بنا دیا اور پھر نبیﷺ کو بھی اس اصول کا پابند بنا رھے ھیں اور نبیﷺ کے دئے گئے فیصلوں کو اس اصول پر پیش کر کے رد کر رھے ھیں گویا کہ یہ اصول قرآن ھے،،اس کے لئے مسلم کی ایک حدیث پیش کی جاتی ھے کہ” نبی کریمﷺ نے عورتوں سے فرمایا کہ تم ناقص العقل اور ناقص الدین ھو” ناقص العقل اس لئے کہ تم بھول جاتی ھو اور تمہاری گواھی آدھی ھے،اور ناقص الدین اس لئے کہ ماھواری میں تم نماز نہیں پڑھ سکتیں” اب سوال یہ ھے کہ اللہ نے یہ تو فرمایا نہیں کہ للرجلِ شہادۃُ انثییں،،ایک مرد کی گواھی دو عورتوں کے برابر ھے،،، دوسرا کیا نبی کریمﷺ نہیں بھولے؟ ھر روز کئی بار پڑھی جانے والی نماز میں کبھی 4 رکعت کی بجائے 2 کے بعد سلام پھیر دیا اور اعتراض کرنے والے کو غصۜے سے ڈانٹ بھی دیا کہ نہ میں بھُولا ھوں اور نہ نماز کم ھوئی ھے،آخر صحابہؓ کی گواھی پر دوبارہ نماز پڑھائی ھے،،اور کبھی درمیان والی التحیات ھی بھول گئے اور تیسری رکعت کے لئے کھڑے ھو گئے،،پھر آپﷺ یہ بات کیسے کہہ سکتے تھے؟ رہ گئی دوسری بات کہ عورت کی عبادت چھوٹ جاتی ھے تو اس کا جواب اپنے آپ سے لے لیں کہ ایک آدمی 30 دن کام کر کے 2000 درھم تنخواہ لیتا ھے اور دوسرا 20 دن کام کر کے 2000 درھم تنخواہ لیتا ھےتو افضل کون ھے،عورت ان دنوں نماز نہ پڑھ کے ثواب لے رھی ھوتی ھے کیونکہ اللہ کا حکم مان رھی ھوتی ھے،ناقص الدین کیسے ھوگئ ؟ ثواب میں دونوں برابر ھیں نیز عورت ان معنوں میں افضل ھے کہ اسکی ان دنوں کی نمازیں پڑھے بغیر مقبول ھیں جبکہ جو باقی دنوں میں پڑھتی ھے اس کا فیصلہ قیامت کو ھو گا کہ قبول ھوئیں یا رد اور قبول ھوئیں تو کتنے فیصد !! دودھ کی گواھی میں آپ کو عورت کی گواھی کی قوت کا اندازہ تو ھو گیا ھو گا نیز کیا اپنے اسلام کے بارے میں کسی عورت کی شہادت قبول ھے یا وہ بھی دو عورتوں کو مل کر کہنا پڑے گا،،اشھدُ ان لا الہ الاۜ اللہ؟

اھل سنت والجماعت میرا مسلک !

August 14, 2013 at 3:35pm

بسم اللہ والحمدُ للہ والصلوۃ والسلام علی رسول اللہ !

اما بعد ! اللہ پاک نے جو بھی نبی مبعوث فرمایا اس کی امت کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ عبادات میں اپنے نبی کا اتباع کریں،،فأتبعونی و اطیعوا امری،، ان کے عمل کا اتباع اور حکم کی اطاعت،، اس لئے کہ اطاعت حکم کے بغیر ناممکن ھے اور اتباع عمل کے بغیر ناممکن، اللہ پاک کے لئے ھمیشہ طاعت کا صیغہ استعمال کیا گیا ھے، اللہ کا اتباع ممکن نہیں کیونکہ ھم اللہ پاک کو دیکھ نہیں سکتے اور دیکھے بغیر اتباع ممکن نہیں ، یہی بیک گراؤنڈ ھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کا کہ صلوا کما رأیتمونی اُصلی – ظاھر ھے یہ حکم صحابہ رضوان اللہ علیہ اجمعین کو ھی دیا گیا ھے، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ سکتے تھے، پھر بعد والوں کے لئے بھی نبی کریمﷺ کے اتباع کا ھی حکم ھے مگر یہ اتباع اب صحابہ رضوان اللہ علیہ اجمعین کو دیکھ کر ھو گا اور دیکھنے والے تابعین اتباع کی وجہ سے ھی کہلائے،، پھر تبع تابعین ، جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع پر بشارت تھی وھی بشارت صحابہ میں سے سابقون الاولون  کے اتباع پر بھی دی گئی ھے، والسابقون الاولون من المہاجرین والانصار والذین اتبعوھم باحسانٍ رضی اللہ عنھم ،ورضوا عنہ و اعد لھم جناتٍ تجری تحتھاالانہارُ خالدین فیہا ابداً  ذالک الفوز العظیم (توبہ100) پہلوں میں سے پہلے مہاجرین میں سے اور انصار میں سے اور جنہوں نے اتباع کیا ان کا اچھے طریقے سے ،اللہ راضی ھو گیا ان سے اور وہ راضی ھوئے اس سے اور تیار کی ان کے لئے جنتیں جن کے نیچے سے نہریں بہتی ھیں، وہ ھمیشہ رھیں گے  ان میں اور یہ بہت بڑی کامیابی ھے،، یہی ایک فطری طریقہ ھے سنت کی بقا اور دوام کا جس کے لئے نہ کاغذ کی ضرورت ھے نہ سیاھی اور دوات کی،، اسی طریقے سے ھمیشہ نبیوں کی سنت اور عبادات کے مناسک کی حفاظت کی گئی،، امتوں میں کجی ھمیشہ عقائد کے رستے داخل ھوئی اور ان کی توحید کو گھن کی طرح کھا گئی،، اللہ کی کتاب سے دوری نے ان کو رانده درگاہ بنا دیا،، جب انسان اپنی ضرورتوں کے لئے رب کی بجائے کہیں اور رجوع کرتا ھے تو اس کا رابطہ اپنے رب سے ٹوٹ جاتا ھے جس کا پہلا اثر کتاب اللہ سے ان کے تعلق پر پڑتا ھے،کتاب اللہ ان کے لئے اھمیت کھو دیتی ھے اور اپنے عمل کے لئے وہ ریفرنس اور کمانڈ کہیں اور سے لیتے ھیں،، نتیجے کے طور پر علماء اور پیر خدا کی جگہ لے لیتے ھیں،، اور اتخذوا احبارھم و رھبانھم ارباباً من دون اللہ کا مصداق قرار پاتے ھیں،، کتاب اللہ بس ایک لکھی ھوئی رسم کے طور پر رہ جاتی ھے جسے تلاوت کر کے ثواب کی بھٹی چلائی جاتی ھے،، مگر روزمرہ زندگی سے کتاب اللہ کا تعلق دور دور تک نظر نہیں آتا،، لم یبقی من القرآنِ الا رسمہ ولم یبقی من الاسلامِ الا اسمہ،، قرآن کی صورت کے سوا کچھ نہیں بچے گا  اور اسلام کے نام کے سوا کچھ بھی نہیں ھوگا،، اس طرح امتیں اتباع کی وجہ سے مناسک سے تو جڑی رھیں ،مگر کتاب اللہ سے دوری نے ان میں نظری اور فکری کجی پیدا کر دی جس کی وجہ سے نیا نبی مبعوث ھوتا رھا اور ھر آنے والے رسول نے ان سے توحید کی طرف پلٹنے کا مطالبہ کیا –ان سے نماز روزے کے مسائل پر کوئی بات نہیں کی،، ان کی عملی اور سماجی برائیوں کو موضوع بنایا، انکی عبادات میں کسی کمی بیشی کا اشارہ تک نہیں کیا،،کیونکہ عبادات  اپنے تتبع کی وجہ سے محفوظ و مامون چل رھیں تھیں اور یہی سبب تھا کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان سمجھ رھے تھے اور اپنے نبی کو گمراہ جانتے تھے جس کے لئے وہ لفظ صابی استعمال کرتے تھے،اور بڑے یقین سے سمجھتے تھے کہ اللہ ھمارے ساتھ ھے، بنی اسرائیل میں مبعوث ھونے والے آخری نبی عیسی علیہ السلام نے اپنی پوری زندگی ایک حرف بھی یہود کے مناسک نماز و روزہ کے بارے میں نہیں کہا ،،بلکہ ان کی نمازوں اور زاھدوں جیسی شکل و صورت اور پھر عقائد اور سماجی کاموں میں ان کی حرام خوری کا تقابل کر کے انہیں شرمندہ کیا ، اللہ پاک نے نبی کریم ﷺ کو  سورہ حج میں  جو سورہ مناسک بھی ھے جس میں حج کے مناسک کی تعلیم دی گئی ھے، دو جگہ ارشاد فرمایا ھے کہ ھم نے جو مناسک ان کے لئے طے کیئے تھے،یہ لوگ ان مناسک کو اسی طرح ادا کر رھے ھیں اور ان پر چل رھے ھیں ، آپ مناسک پر اعتراض مت کیجئے اور ان کو موضوعِ تبلیغ مت بنائیے بلکہ توحید کی طرف دعوت دیجئے جس سے یہ لوگ ھٹ گئے ھیں، لکل امۃٍ جعلنا منسکاً ” ھم ناسکوہ” فلا ینازعنک فی الامر ، وادع الی ربک – انک لعلی ھدیً مستقیم ( الحج67 ) ھر امت کے لئے ھم نے مناسک طے کئے ھیں جن پر وہ چلے جا رھے ھیں،سو  اس امر کو آپ موضوع تنازعہ نہ بنائیں اور دعوت دیں اپنے رب کی طرف،آپ یقیناً سیدھی راہِ ھدایت پر ھیں،، گویا 2500 سال گزرنے کے باوجود اتباع کے تسلسل نے بنی اسرائیل میں عبادت کی حد تک کوئی کجی نہیں آئی تھی نیز آج بھی ان کی نمازیں اور دیگر مناسک 4000 سال بعد بھی اسی صواب کے ساتھ جاری و ساری ھیں،، فقہی تفصیلات اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ محفوظ ھیں،، کجی صرف عقائد میں پائی جاتی ھے،، اب یہ تعجب کی بات ھے کہ ابھی 22 سال نہیں گزرے تھے کہ اسلام کی نماز پر اعتراض وارد ھو گیا ، وہ اتباع جو بنی اسرائیل کی عبادت کو 2500 سال سے بچائے ھوئے تھا وہ ھمارے یہاں دو دہائیاں نہ نکال سکا،، تفصیل اس اجمال کی یہ ھے کہ نبی کریمﷺ نے ٹھیک رسولوں کے اسوئے کے مطابق اتباع کی راہ دکھائی اور صلوا کما رأیتمونی اصلی
کا حکم دے دیا،، نماز پڑھ کے سکھائی،، اور آپ کو دیکھنے والوں کو دیکھ کر بعد والوں نے سیکھی اور یہ دیکھ کر سیکھنے کا فطری رستہ جو ھر شخص کے گھر اور اس کی اولاد میں سے ھو کر نکلتا تھا،ایک محفوظ و مامون رستہ تھا،جو اسلام میں نئے نئے داخل ھونے والوں کے لئے بھی باعثِ اطمینان تھا مگر بعد میں احادیث کو سنت سمجھنے والوں نے اتباع کو ایک طرف رکھتے ھوئے ،احادیث سے عبادات کو ثابت کرنا شروع کیا،، اور احادیث متضاد اور متفرق ھیں،، نتیجہ یہ ھوا کہ وہ افتراق نہ صرف امت میں باعثِ تفرقہ ثابت ھوا بلکہ نئے مسلمان ھونے والوں کو بھی شش و پنج میں ڈال گیا،، جن کے یہاں ایک دن میں پانچ بار پریکٹس میں آنے والی عبادت ھی محفوظ نہیں رھی ، انہوں نے باقی کیا کچھ محفوظ رکھا ھو گا ؟ یہ وہ خدشہ تھا جس کو مد نظر رکھتے ھوئے نبی کریمﷺ خود بھی خلش کا شکار تھے اور آپ نے سوائے قران کے کسی بات کو لکھنے کی ممناعت ھی نہیں کی بلکہ لکھا ھوا مٹانے کا حکم بھی دیا،اور لکھائی کو قرآن کے لئے مخصوص کرتے ھوئے عبادات کو اتباع کی طرف ریفر کر دیا،، بعد میں آپ نے چند مخصوص لوگوں کو ھی لکھنے کی اجازت دی،، پھر ابوبکر صدیق
رضی اللہ عنہ نے ایک ماہ استخارہ کرنے کے بعد اپنا مرتب کردہ مجموعہ احادیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اگ منگوا کر جلا ڈالا اور یہی وجہ بیان کی کہ میں کل کسی اختلاف کا بوجھ اپنی زات پر لینے کو تیار نہیں ھوں، ( کیا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر منکر حدیث ھونے کا فتوی لگایا جا سکتا ھے؟) حدیث کی بنیاد پر مسنون نماز پر پہلا اعتراض عمر الفاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں ھی سامنے آ گیا تھا،، کوئی صحابی عراق  گئے اور وھاں نماز کے بارے میں کوئی حدیث بیان کی کہ نبیﷺ یوں نماز پڑھا کرتے تھے،،اس حدیث کی روشنی میں لوگوں نے چیک کیا کہ ان کے گورنر تو خلافِ سنت نماز پڑھتے ھیں، اور یہ اعتراض مدینہ پہنچا دیا گیا،، حضرت عمرؓ نے اپنے گورنر سعد بن اب وقاصؓ کو مدینہ طلب کر لیا،، اور ان کے سامنے نماز پر اعتراض کو پیش کیا،،جس پر جناب سعد بن ابی وقاصؓ نے جو مستجاب الدعا صحابی اور نبی کے رشتے کے ماموں تھے فرمایا ” اسلام میں سب سے پہلا تیر میں نے چلایا اور پہلا خون میرا بہا نبی ﷺ کے ساتھ دن رات رھتے ھوئے اپنی جانوں پر کھیل کر اگر میں نے نماز بھی نہیں سیکھی تو پھر خسر الدنیا والآخرہ،، ھماری دنیا بھی گئی اور آخرت بھی گئی،، اس پر عمر فاروقؓ نے انکی نماز کی تفصیل پوچھی اور فرمایا  نماز تو ھم بھی اسی طرح پڑھتے ھیں،، اور انہیں دوبارہ عراق جانے کی تلقین کی مگر سعد بن ابی وقاصؓ نے ان فتنہ پرور لوگوں میں واپس جانے کی بجائے گورنر شپ سے استعفی دے دیا،،  احادیث سے اذکار اور ادعیہ سیکھے جا سکتے ھیں،، اعمال کے فضائل اور درجات متعین کیئے جا سکتے ھیں،، نبی کریمﷺ کی حیات طیبہ کے شب و روز سے واقفیت حاصل کی جا سکتی ھے،جنگوں کے آحوال اور فئے اور غنائم کی تقسیم کے قوانین معلوم کئے جا سکتے ھیں، مگر نماز اور دیگر تعبدی مناسک صرف اتباع ھی کے رستے سے امت کی وحدت کی بنیاد بن سکتے ھیں،کیونکہ ان کے لئے نبیﷺ ایک جماعت چھوڑ کر گئے ھیں،جن کو آپ نماز میں نام لے لے کر بلا کر اپنے پیچھے کھڑا کرتے تھے اور فرماتے تھے،میرے پیچھے دانش مند (اولوالنہی) کھڑے ھوا کریں،، ان میں سے ھی ابوبکرؓ تھے کہ جن کو نبی ﷺ سے نبوت کے سوا نبی کی ھرحیثیت منتقل ھوئی تھی اور سنت کا نبوی ورژن وھی ھے جو ان خلفاء کے ذریعے منتقل ھوا اور اس انتقال میں ایک دن کا خلل بھی واقع نہیں ھوا،، جو رستہ کٹ جائے وہ صراطِ مستقیم نہیں کہلاتا ،،اور ھم ھر نماز میں اس صراطِ مستقیم کی دعا کرتے ھیں جو ان انعام یافتہ ھستیوں کے ذریعے ھم تک پہنچا،، اللہ نے ان کے اتباع کا حکم سورہ توبہ کی آیت میں نمبر 100 میں دیا تو نبیﷺ نے اپنی سنت کو ان کی سنت کے ساتھ ملا کر پکڑنے کا حکم دیا،علیکم بسنتی و سنۃ خلفاء الراشدین المھدیین من بعدی، عضوا علیہا النواجذ، اور اسے داڑھوں سے پکڑنے کا حکم دیا،، جس طرح جمہوریت کا المیہ یہ ھے کہ اس میں دودھ بیچنے والے گوالے اور چیف جسٹس کا ووٹ برابر ھے،اسی طرح علم الحدیث کے اصول کے مطابق صحابی سارے برابر ھیں چاھے کسی نے نبیﷺ کے ساتھ 23 سال شب و روز نمازیں پڑھی ھوں یا صرف دو بار نماز پڑھی ھو،، روایت کی دنیا میں روایت کو دیکھا جاتا ھے،، عقل و فہم کی کی کوئی مارکیٹ نہیں،، حالانکہ ھر معاشرے کی طرح اس وقت بھی لوگوں کی مختلف ذھنی اور فکری صلاحیتیں تھیں،، اور ھر بندہ اپنے شعور کی سطح کے مطابق الفاظ کا انتخاب کرتا تھا،، اور یہی الفاظ اگے چل کر دیواریں بنے،، فقہ کی دنیا مین راوی تولا جاتا ھے اور روایت کی قیمت راوی کے شعوری اور عقلی مقام کے مطابق طے کی جاتی ھے،، فقیہہ ڈاکٹر ھوتا ھے جب کہ محدث فارماسسٹ ھوتا ھے، بقول امام الاعمش، یا معشر فقہاء انتم الاطباءُ و نحن الصیادلہ،،اے فقہیوں کے گروہ تم لوگ طبیب ھو جو دوا تجویز کرتے ھو اور ھم فارماسسٹ ھیں جو دوا فراھم کرتے ھیں۔۔، مگر فساد تب بپا ھوا جب فارماسسٹ کو ھی لوگ ڈاکٹر بنا بیٹھے اور ڈاکٹروں کی مذمت کتابیں تصنیف کی جانے لگیں،، نتیجہ آپس کی نفرت اور عداوت کے سوا کچھ نہ نکلا اور مساجد تک تقسیم ھو کر رجسرڈ ھو گئیں،، انا للہ و انا الیہ راجعون،، بنگلہ دیش الگ ھوا تھا تو ھزاروں فسانے بنے تھے اور لوگ خون کے آنسو روئے تھے،مگر جب اللہ کے گھر تقسیم ھوئے تو ھمارے علماء نے سکھ کا سانس لیا کہ ھماری مسجد بچ گئی،، اسی طرح جس طرح ملٹری ایک
شن پر بھٹو صاحب نے ائیر پورٹ پر بیان دیا تھا،،” اللہ کا شکر ھے پاکستان بچ گیا "

حدیث کی دنیا میں ایک اصطلاح مرفوعِ حکمی کی بھی ھے جسے عام لوگ نہیں جانتے، کہ صحابیؓ اگرچہ اپنے عمل کا ریفرنس نہ دے،نبیﷺ کا حوالہ نہ دے مگر اس کے فعل کو  نبیﷺ کا عمل ھی سمجھا جائے گا جسے اس نے اپنے عمل سے نبی کی طرف مرفوع کیا ھے، گویا خلفاء کے اعمال و افعال مرفوع حدیث  کا درجہ رکھتے ھیں، میں اسی جماعت کے ساتھ رھنا ،مرنا ،دوبارہ  اٹھنا اور ان ھی کے ساتھ  اپنا حشر چاھتا ھوں جن پر رب راضی ھوا، نبیﷺ نے ان کی سنت کو اپنی سنت میں ضم کر کے بیان کیا ،اس عقیدے کو کوئی اور کچھ  بھی نام دے سکتا ھے مگر میں اسے اھل السنت والجماعت کا نام دیتا ھوں، علیکم بالجماعۃِ والسمعِ والطاعۃِ والہجرۃ، والجہادِ فی سبیل اللہ ! احادیث میں دلوں کو نرم کر دینے والی ،اور رقت سے بھر دینے والی نبی کی دعائیں بھی ھیں اور عقائد کی تفصیلات بھی ھیں،، اللہ سے جوڑ دینے والے دانش بھرے خطاب بھی ھیں اور سابقہ امم کے سبق آموز واقعات بھی ھیں، ھم ان سب کو مانتے اور تسلیم کرتے ھیں،، مگر سنت جس کا نام ھے وہ وھی ھے جو کرتے دیکھ کر کرتے کرتے پہنچا ھے،اور کرتے کرتے پہنچانے کا حکم ھے،،           

تعویذ کی شرعی حیثیت !

تعویذ کی شرعی حیثیت !

May 8, 2013 at 5:48pm

تعويذ كي شرعي حيثيت ██▒██▒

تعويذ عربي زبان كالفظ هے ۔جس كا لفظي مطلب ’’پناه طلب كرنا‘‘هے۔ اورتعوذ بھی ان ھی معنوں میں استعمال ھوتا ھے،،تعوذ الفاظ کے ذریعے پناہ کے لئے استعمال ھوتا ھے اور تعویذ تحریر کے ذریعے پناۃ طلب کرنے کے لئے استعمال ھوتا ھے،یعنی تحریری پناہ مانگنا ،،همارے معاشرے ميں اس سے مراد كاغذپر چند اعداديا اسماء وغيره كو لكھ كرگلے ميں لٹكانا هے۔جس سے يه تاثر ليا جاتا هے كه يه كاغذكا ٹكڑا انسان كو مصائب اور تكاليف سے نجات ديتا هے۔اسے غموں سے نجات دلانے اور كاروبار ميں وسعت كے ليےيه كارآمد نسخه سمجھا جاتاهے۔ذيل ميں قرآن اور صحيح آحاديث كي روشني ميں اس بات كي وضاحت پيش كرنا چاهتے هيں تاكه اس مسئلے كےبارے لوگوں ميں شكوك وشبهات كو تاريخي اور اسلامي تناظر ميں پيش كر كے اس كا حل تلاش كيا جائے۔
دم اور تعويذ ميں فرق:
تعويذ سے مراد هر وه چيز هے جس كے ذريعے پناه طلب كي جاتي هے ۔جيسا كه اس كے معني سے عياں هے۔۔جو تعويذ بول كركيا جائےاسے دم،جھاڑ پھونك،رقيه يا منتر كها جاتاهے۔ليكن عموماً تعويذ سے مراد كوئي مادي (لٹكانے ،پينے يا باندھنے والي )چيز هي لي جاتي هے۔اكثر احاديث ميں چونكه دم اور تعويذ كا اكٹھے ذكر آيا هے اس ليے ان كے فرق كوسمجھنا ضروري هے۔دوسرے لفظوں ميں آپ يوں سمجھ سكتے هيں كه دم كي مثال دعا كي سي هے۔(جيسا كه آگے مذكور هے۔)جبكه تعويذ ايك مادي عمل هے۔
همارے معاشرے میں چند ايسے كام جن كے ليے تعويذ كيے جاتےهيں۔
• بيماري سے نجات كے ليے(جس ميں سردرد سے لے كر كينسركي بيماري تك شامل هے)
• نافرمان اولاد كے ليے
• كاروبار كي بندش ختم كرنے كے ليے
• پڑھائي ميں كاميابي كے ليے
• اس كے علاوه هر مشكل ،تكليف،پريشاني اور مصيبت سےنجات كے ليے۔
آئيے اس مسئلے كي شرعي حيثيت كا تعين كرتے هيں۔
كسي بھي مسئلے كي تحقيق كے ليے هم اس پر هر دو طرح سےسوچ كر اس كي حقيقت تك پررسائي حاصل كر سكتے هيں۔
1. نقلي طريقه(قرآن وحديث سے دلائل اكٹھے كرنا)
2. عقلي طريقه (مسئلے كو عقلي وسائنسي معيار پرپركھنا)
اگر كسي موضوع كے بارے قرآن وسنت سے واضح اور واشگاف دلائل ميسر آجائيں تو اس بارے میں بلا تردد و حيل وحجت اس كے مستحسن اور مسنون هونے كےبارے ميں گواهي دي جاسكتي هے۔ اور اس كو بلا چوں چراں تسليم كرلينا ايك كامل مسلم كا طريقه اور فرضِ عين هے وه اس كے سامنے نه اپني مرضي اور خواهش كو پيش كر سكتاهے اور نه هي عقل كو(بلكه قرآن وسنت كا كوئي مسئله عقل كے خلاف هے هي نهيں يه الگ بات هے كه وه مسئله هماري عقل ميں نه آتا هو ،عقل كے خلاف نهيں هو سكتا كيونكه اسلام دينِ فطرت اور عقل سليم سے مطابقت ركھتاهے۔)
ا :

ابتدائے آفرينش سے انسانيت كا جوسلسله حضرت آدم عليه السلام سے شروع هوا تو اس كے ساتھ هي الله رب العزت نے انسان كي هدايت كے ليے ازخود انبياء ورسل اور كتب وصحائف كا نزول فرما كر انسان كو گمراه هونے سے بچانے كا پورا پورابندوبست فرمايا۔مگر چونكه مرورِ ايام سے هر چيز تغير وتبدل كا شكار هو جاتي هے اسي طرح هر قوم كے امراء وروساء اور مذهبي پيشواؤں نے ذاتي مفاد اور حرص وھوس كي خاطر وحي الٰهي ميں تبدل و تحرف كر كے دين كو مذهب ميں بدل كراس كو جامد وساكن بنا ديا۔اسي كي تجديد وتنظيف كے خاطر ايك نبي كے بعد دوسرا نبي آتا اور بعض اوقات اپنےساتھ كتاب يا صحف بھی لےكر آتا ،تا آنكه پيارے پيغمبر حضرت محمد رسول الله صليالله عليه وسلم كي بعثت مبارك هوئي۔
انسان گمراه كيسے هوا ؟

:
دنيا كے پہلے انسان حضرت آدم عليه السلام كے بعد جب انسان شيطان كے بہكاوے ميں آكر آهسته آهسته توحيد كا درس بھولنے لگا تو ايك خدا سے ڈرنے كي بجائے اس نے هر اس چيز سے ڈرنا شروع كر ديا جس كے مقابلے ميں وه بےبس،كمزور،ناتواں اور نہتا هوتا۔هر طرف فلك بوس پهاڑ،بھيانك چٹانيں،آتشيں زلزلے،لرزه خيز گرج وچمك،عظيم الجثه حيوانات، خونخوار درندے، دهشت انگيز تلاطم،بحرِ بے كراں،مهيب جنگلات ،دهكتا هوا سورج،رات كو روشن چاند، ستاروں كي چمك،هاتھي كا چنگاڑنا، شير كا دھاڑنا، يه تمام قوائے فطرت گزرتے وقت كے ساتھ نه صرف انسان كي مرعوبيت كا منبع ثابت هوئے بلكه انسان كي عبادت كے مراكز بھی بن گے۔ اورانسان كی كيفيت يه هوگی كه علي الصبح جب مشرق سے سورج طلوع هوا تو اس كے سامنے سجده ريز هوگيا، بجلي كي چمك اور رعد كي كڑك روح فرسا هوئي تو اس كے سامنے سر نگوں هوا، شير كي دل دوز آواز سني تو اسے ديوتا بنا ليا، آگ كو جلتے ديكھاتو اسے’’اگني ديوي‘‘ كا نام دے كر پوجنا شروع كر ديا،حتی كه اس نے اپنے ھی جيسے  ظالم وجابر انسان(بادشاه)کے سامنے بھی سجده ريز هونے ميں  عار محسوس نه کیا۔جس كي واضح مثال فرعون اور نمرود هيں ۔
اس كے علاوه وه بزرگ بھي اس كے معبود و مسجود كہلائےجن كو يه اپنے سے زياده نيك پرهيز گار اور متقي سمجھتا تھا ۔پہلے پہل انسان نے ان بزرگوں كے وسيلے سے اور بعد ميں ان هي سے سب كچھ مانگنا شروع كر ديا اور ان كي عبادت ورياضيت ميں اتنا متشدد هوگيا كه پيغمبر وقت كے سامنے كھلے لفظوں اپنے ان معبودوں كو نه چھوڑنے كا عزم ظاهر كيا۔ تكليف ،پريشاني اورمصيبت ميں انسان اپنےخالقِ حقيقي كو بھول كر ان هي معبودانِ باطل كي طرف رجوع كرنے لگا اور ان سے پناه اور امان كا متمني بنا۔

انسان پناه كيوں طلب كرتا هے؟

جب انسان زندگي كے كسي موڑ پر اپنے آپ كو كمزورسمجھتا هے تو وه اپنے سے بڑي طاقت كي طرف رجوع كرتا هے ، جس كي پناه ميں آكر وه خود كو محفوظ مامون خيال تصور كرتا هے۔خدا كا تصور تو اس ميں موجود تھا ليكن اپنےعهدِ طفوليت كي وجه سے اپنے آپ كو اتنا كمزور سمجھتا تھا كه خدا تك پہنچنے كے ليے واسطے،وسيلے اور ذريعے ڈھونڈنے لگا اور بعد ميں يه واسطے هی اس كے معبود بن كر ره گئے ۔هر لمحه اس كي زبان پر ان هي كا نام اور ترانه هوتا۔تكليف اورمشكل وقت ميں انسان ان هي كو پكارتا اور پناه طلب كرتا۔ يه ھي پناه جب وه زبان سے طلب كرتا هے تواسے زمانه جاهليت ميں منتر كها جاتا تھا اور جب لكھ كر كسي ذات سے پناه طلب كرتاتو تعويذ كہلاتا۔اسلام ميں زبان سے پناه طلب كرنا دم كهلاتا هے جبكه لكھ كر پناه طلب كرنے(يعني تعويذ لكھنے،لٹكانےاور باندھنے) كا ثبوت قرآن وسنت سے نهيں ملتا۔

توهم پرستي اور تعويذ كا تعلق

:

تعويذ كي شرعي حيثيت سمجھنے سے پہلے توهم پرستي(ضعيف الاعتقادي) كے بارے ميں علم ضروري هے۔
بجز معجزے كے علت و معلول كے درميان جب كوئي مادي واسطه نه هو تو ايسی صورت توهم پرستي كہلاتي هے۔
مثلاً كسي عدد كو اپنے ليے منحوس سمجھنا (جبكه عدد اورنحوست كا آپس ميں كوئي واسطه نهيں)،منگل كے دن سفر كا آغاز نه كرنا(جبكه سفر اورمنگل كے دن كا آپس ميں كوئي تعلق نهيں)، مختلف موتيوں اور نگينوں كو انساني معاملات ميں موثر سمجھنا وغيره۔ان مثالوں ميں عدد كا نحوست كے ساتھ،منگل كا سفر كےساتھ،موتيوں اور نگينوں كا انسان زندگي كے ساتھ كوئي تعلق،واسطه اور رشته نہيں لهذا ان كے خواص واثرات كو ماننا توهم پرستي كہلائےگا۔اسلام ميں توهم پرستي حرام،ناجائز اور شرك هے۔بطورِ دليل صحيح مسلم شريف كي ايك حديث كا مفهوم

ملاحظه فرمائيں۔

ستاروں کے اثرات ؟

حضرت زيد بن خالد جهني رضي الله عنه بيان فرماتے هيں كه رسول الله ﷺ نے حديبيه ميں صبح كي نماز ادا كی اس رات بارش هوئی تھی آپﷺ نے پوچھا كيا تم جانتے هو تمهارا رب كيا كہتا هے؟صحابه نے عرض كي اے الله كے رسولﷺ ! الله اور اس كا رسول هي بہتر جانتے هيں۔آپ نے فرمايا تمهارا رب كہتا هے ۔آج صبح كئی بندے مومن اور كئی كافر هو گئے۔صحابه نے حيراني سے اس كا مفهوم دريافت فرمايا تو آپ ﷺنے فرمايا جس شخص نے يه كہا كه يه بارش فلاں ستارےكے اثرات كي وجه سے هوئی ھے  وه اللہ کا كافر  اور ستاروں  کا مومن هوا اور جس نے يه كہا كه بارش الله كے فضل ،كرم اور اذن سے هوئي وه اللہ کا مومن اور ستاروں کا کافر هو گيا

۔
كيا ستاروں كا انسانی زندگی پر كوئي اثر هوتا هے؟

چونكه ستاروں كے اثرات كو انسانی زندگی اور نظام فطرت میں مؤثر سمجھنا توهم پرستي هے لهذا آپ ﷺ نے اس كو كفر قرار ديا۔كيونكه ستارے كا بارش كے ساتھ كوئي تعلق نهيں هے۔(بارش كيسے هوتي هے اس بارے میں سائنس كی كوئی بنيادي كتاب يا قرآن مجيد كے درج ذيل مقامات كو ديكھ ليا جائے۔

)
شريعت نے جو ستاروں كو انساني زندگي پر مؤثر ماننےكي ممانعت كی هےاس كا يه مطلب نہيں كه ستارے انسانی زندگی كو متاثر تو كرتے هيں ليكن اس چيز پر يقين نہيں ركھنا چاهيے۔بلكه اسلام نے اس عقيده كي نفي فرمائی هے ،اس ليے كه ان كا اثر سرے سے هوتا هی نهيں هے ۔ يه جہالت(سابقه اقوام يونانيوں اور نمرديوں)سےچلتی هوئي عرب اور مختلف ممالك ميں پھيلتی چلی  گئ۔ نام نہاد جادو گروں اور قیافہ شناسوں نے اس عقيدے كو اور مضبوط كر ديا ۔ جب كبھي اتفاق سے ايسا هوجاتاتو ستاره پرستی كا يه عقيده اپنی جڑ مضبوط كر ليتا اور جب ايسا نه هوتا تو اپنےكسی عمل كو اس راه ميں ركاوٹ خيال كر ليا جاتا۔اقبال نے اسي ليے كہا تھا۔
ستاره ميري تقدير كي كيا خبر دے گا
وه خود فراخي افلاك ميں هے خوار و زبوں

بالكل جيسے ستارے نظامِ كائنات ميں كسي چيز پر اثرات مسلط نہيں كر سكتے اسی طرح كوئی بھی ايسی چيز انساني زندگي پر موثر نہيں هو سكتي جب تك شريعت اس بارے رهنمائي فراهم نه كردے يا پھر عقل ودانش اس كي تصديق نه كردے۔
یورپ اور ایشیا میں یہ خیال رائج تھا کہ ہفتے کے ہر دن پر ایک ستارے کی حکمرانی ہوتی ہے اور اسی مناسبت سے بعض ایام کو منحوس اور بعض کو متبرک سمجھا جاتا تھا۔اور دنوں كے ناموں كو بھی ستاروں كے ناموں سے منسلك كياجاتا۔توجه فرمائيے:
SUNDAY (سورج کادن)
MONDAY چاند کا دن(MOONکا مخفف)
TUESDAY (مریخ کا دن)(TUESفرانسیسی زبان میں مریخ کو کہتے ہیں۔)
WEDNESDAY (عطارد کا دن)(فرانسیسی میں بدھ وار کوMERCURAYDAYکہا جاتاہے)
THERSDAY (مشتری کا دن)
FRIDAY (زہرہ کا دن)
(قدیم لغت میں THURSمشتری کو اور FRIزہرہ کوکہا جاتاہے)SATURDAY (زحل کا دن)(SATURNانگریزی میں زحل کو کہتے ہیں۔

)
جبکہ اسلام نے مسلمانوں کو توہمات سے آزاد کرنے اورغلط فہمیوں سے بچانے کے لیے انہیں قمری سال دیا جس میں تاریخیں، دن اورموسم بدل بدل کر آتے ہیں اور ہفتے کے سات دنوں کو مخصوص غیر اسلامی ناموں سے آزاد کیاتاکہ مسلمان ستاروں سے ڈرتا نہ رہے۔ہفتے کے دنوں کے اسلامی نام یہ ہیں۔
عربی ترجمہ
یوم الاحد پہلا دن
یوم الاثنین دوسرا دن
یوم الثلاثاء تیسرا دن
یوم الاربعاء چوتھا دن
یوم الخمیس پانچواں دن
یوم الجمعہ جمعہ کا دن
لیکن اس کے باوجود اکثر مسلمان اس توہم پرستی کا شکارنظر آتے ہیں جبکہ یہ بات عقلی ونقلی ہر دو اعتبار سے غلط ،بے بنیاد اور لا یعنی ہے۔ہر روز اخبارات میں ”آپ کا دن کیسا رہے گا؟”کے نام سے اس فعل کا اعادہ کر کےمسلمان جاہلیت کا ثبوت دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔جبکہ مستقبل میں کیا ہونا ہے ،کسی کی تقدیر میں کیا لکھا ہے یہ صرف اللہ ہی جانتا ہے۔
مندرجه بالا تمهيد كے بعد هم يه بات كه سكتے هيں كه تعويذ توهم پرستی كا ردِ عمل اور بت پرستي كا شاخسانه هے۔

عرب اور تعويذ :

آپﷺ كي بعثت كے وقت بھي عرب كے لوگ نظر بد سے بچنے،بيماريوں سے محفوظ رهنے،سحر آسيب سے حفاظت،

حاسدوں كے حسد سے بچنے اور جان و مال كي حفاظت و بركت كے ليےمختلف قسم كے تعويذ (مثلاً هڈياں،مختلف قسم كي معدنيات،جانوروں كے كھُر اور كاغذ وغيره پر لكھ كر يا منتر پڑھ كر) اپنے گھروں كےدروازوں كي پيشانيوں ،ديواروں اورجسم كے مختلف حصوں پر لٹكاتے اور باندھتے تھے۔اوران كا يه عقيده بھی تھا كه مختلف ارواح(جن چڑيل وغيره)انسان ميں سرايت كر جاتي هيں جن كو نكالنے كے ليے وه جادوگروں اوركاهنوں كے پاس جاتے۔
يہاں يه بات بھي نوٹ كر لينی چاهيے سابقه اقوام اورعرب كے لوگوں ميں جو رسمِ تعويذ پائی جاتی تھي اس كے ساتھ ساتھ وه زبان كے ساتھ بھي تعويذ كرتے تھے جس كو منتر ،رقيه ،جھاڑ پھونك يا دم كها جاتا هے۔ليكن عموماً تعويذ سے مراد كوئي مادي چيز هي لي جاتي هے۔جيسا كه شروع ميں مذكور هے۔
تعويذلٹكانا ،باندھنا هر حال ميں حرام هے!
ذيل ميں پيغمبر دوعالم ﷺ اور صحابه كرام رضوان الله عليه اجمعين كي چند احاديث وآثار اور واقعات رقم كيے جاتے هيں جن سے تعويذ كي شرعي حيثيت از خود عياں هو جائے گي۔

آپﷺكی تعويذ سے نفرت

:
١۔حضرت عقبه بن عامر جهنيؓ بيان فرماتے هيں كه رسول اللهﷺ کی خدمت ميں  دس آدميوں كا ايک وفد بيعت كرنے آيا آپ نے ان دس ميں سے نو آدميوں سے بيعت لے لی اور ايک آدمي سے هاتھ كھينچ ليا يعني بيعت نه لي ۔صحابه ؓ نے استفسار فرمايا تو آپ ﷺگويا هوئے کہ اس نےاپنا رب گلے میں لٹکا رکھا ھے میں کس رب کے لئے اس کی بیعت لوں ؟یعنی اس نےتعويذ باندھا هوا هے ۔ آپﷺ نے يا اس آدمي نے هاتھ ڈال كر وه تعويذ كاٹ ڈالا تو آپﷺ نے اس كي بيعت لے لي اور فرمايا:
جس نے تعويذ لٹكايا اس نے شرك كيا۔

محبت كے تعويذ:
٢۔دم تعويذ اور محبت كے ٹوٹكے شرك هيں۔تعویز کے ذریعے مراد  طلب کرنے والے کے لئے نبیﷺ کی بد دعا !:
٣۔جس نے تعويذ لٹكايا الله اس کی مراد پوري نه كرے۔اورجس نے گھونگا لٹكايا الله اسے نه چھوڑے يعني تباه كردے۔

بازو پر دھاگه وغيره باندھناكيساهے؟

:
٤۔حضرت حذيفهؓ ايک بيمار كی عيادت كے ليے تشريف لےگئے تو كيا ديكھا كه اس نے بازو ميں ايک پٹا سا باندھا هوا هے حضرت حذيفه نے اسےكاٹ كر اتار پھينكا اور قرآن مجيد كي سورہ یوسف کی يه آيت تلاوت فرمائي:اوران ميں سے بہت سےلوگ الله پر ايمان تو ركھتے هيں مگر اس كے ساتھ ساتھ شرک  بھی كرتے هيں۔

جانوروں كے تعويذ

:
انسان تو انسان رسالتِ مآب ﷺ نے جانوروں تک كے گلے ميں تعويذ طرز كي كوئي چيز لٹكانے سے منع فرما ديا۔
٥۔حضرت عباد بن تميم ؓ سے روايت هے كه ابوبشير انصاريؓ نے انہيں بتايا كه وه رسول اللهﷺ كے ساتھ كسي سفر ميں تھے ۔تو آپﷺ نے قاصد كو بھيج كر لوگوں كو حكم فرمايا كه كسي اونٹ كي گردن ميں تانت كي مالا يا كسي قسم كي كوئي مالا باقي نه رهے بلكه كاٹ دي جائے۔

دم كيا هوا دھاگه گلے ميں باندھنا

:
٦۔حضرت عبد الله بن مسعود ؓ كي بيوي حضرت زينبؓ فرماتي هيں جب ميرے شوهر گھر آتے تو دروازے پر پہنچ كر كھنكھارتے اور تھوكتے تاكه  هم محتاط هو جائيں۔(گھر ميں داخل هونے اور مطلع كرنے كا ايك انداز هے)فرماتي هيں ايك دن وه آْئے اور حسبِ سابق كھنكھارا ،اس وقت ميرے پاس ايك بوڑھي عورت تھی جو مجھے حمره(ايك وبائي بيماري كا نام هے،جس میں آنکھ سرخ ھو جاتی ھے)كي وجه سے دم كر رهي تھي ،ميں نے عورت كو چار پائي كے نيچے چھپا ديا ،عبد الله ميرے پاس آئے اور ميرے بغل ميں بيٹھ گئے ،انهوں نے ميرے گلے ميں ايك دھاگا ديكھا ،پوچھا يه كيسا دھاگا هے؟ ميں نےكہا يه دھاگا هے جس ميں ميرے ليے دم كيا گيا هے ،وه كہتي هيں كه يه سن كر عبدالله نے اسے پكڑ كر كاٹ ديا اور كہا بے شك عبد الله كا خاندان شرك سے بے نياز هے، ميں نے رسول اللهﷺ كو سنا آپ فرما رهے تھے۔‘‘دم،تعويذ اور محبت كا منتر سب شرك هيں۔’’

تعويذپر بھروسا هو جاتاهے

:
٧۔عيسيٰ بن عبدالرحمن سے بيان فرماتے هيں كه هم عبدالله بن حكيم كے پاس عيادت كے ليے گئے ۔حالتِ علالت ميں جب ان سے كہا گيا كه آپ صحت يابي كے ليے كوئي چيز(تعويذ وغيره)پہن ليں۔تو انهوں نے كہا ۔ميں كوئي چيز پہن لوں ؟ حالانكه رسول اللهﷺ نے فرمايا:‘‘جس نے كوئي چيز لٹكائي وه اسي كے سپرد كر ديا گيا۔

’’
قرآني اور غير قرآني تعويذ

:
٨۔ابراهيم نخعي رحمه الله فرماتے هيں:صحابه كرام اورتابعين عظام هرطرح كے تعويذ مكرو ہجانتے تھے،خواه قرآن سے هوں يا غير قرآن سے۔
ابراهيم نخعي رحمه الله كي مراد عبدالله بن مسعود كےشاگرد هيں۔مثلاً
١۔علقمه ٢۔اسود ٣۔ابووائل ٤۔حارث بن سويد
٥۔عبيده سلماني ٦۔مسروق ٧۔ربيع بن خثيم
٨۔ سويد بن غفله وغيرھم
٩۔عامر اور سعيد بن جبير اور ان كے علاوه سے قرآني اور غير قرآني تعويذوں كي ممانعت منقول هے۔
حرمتِ تعويذ ميں چند مزيد باتيں

:
دم كي رخصت:

١۔تعويذ كي حرمت كا حكم عام هے۔جس ميں هر قسم كےتعويذ آجاتے هيں۔ورنه جس طرح دم كي اجازت آپﷺسے منقول هے اسي طرح قرآن تعويذ كي اجازت بھي آپﷺسے ثابت هوني چاهيے تھي مگر ايسا نهيں هے۔

اسوء حسنه

:
٢۔آپﷺنے اپني 63ساله زندگي ميں ايك تعويذ بھي نهيں لكھا،نه لكھوايا ،نه پيا، نه پلوايا،اور نه هي ايسا كرنے كا حكم ديااور نه اجازت بلكه اس كے برعكس اسے شرك قرارديا۔

صحابه اور تعويذ

:
٣۔صحابه كرامؓ ميں سے كسي ايك صحابي سے بسندِ صحيح نه تعويذ لكھنا منقول هے اور نه هي پينا ،پلانااور لٹكانا۔

تعويذ اور دورِ حاضر

:
٣۔دورِ حاضر ميں تعويذ كے نام پر عورتوں كا گھروں سےنكلنا،جھوٹے عاملوں،پيروں كا لوگوں كو لوٹنا اسي بات كا متقاضي هے كه تعويذكي حرمت كو ذاتي مفاد اور حرص ولالچ ميں مبتلا ھو کر حلت ميں نه بدلا جائے۔

تعويذ اور توكل

:
٤۔تعويذ سے جہاں انسان كا اللہ پر  توكل خراب هونے كا خدشه هے۔ وهاں  متاع ِ ایمان پر ڈاکا یوں پڑتا ھے کہ انسان الله كي ذات كي بجائے كاغذ وغيره كے ٹكرے پر بھروسا كرنے لگتاهے۔

قرآني تعويذ اور عامل

:
٥۔قرآني تعويذوں كي اجازت جعلي عاملوں اور پيروں كےليے راه هموار كرنے كے مترادف هے۔

تعويذ اورعلم الاعداد

:
٦۔تعويذ كو اكثر هندسوں اور غير معروف لكھائي ميں لكھا جاتا هےاورهمارے عوام ميں چونكه اكثر لوگ اس علم سے ناواقف هيں لهذا ممكن هےكه وه اپني طرف سے كسي قرآن تعويذ كرنے والے پاس جائيں جبكه عامل انهيں شيطاني تعويذ بنا كر دے دے۔

تعويذ اور قرآن كي بے حرمتي

:
٧۔تعويذ پر قرآني آيات لكھنے كے بعداكثر اوقات اسكي بے حرمتي كي جاتي هے۔كبھي بچے كے گلے ميں جس كو پاكي ناپاكي كا كوئي علم نهيں،اور كبھي انسان اسے پہنے هوئے هي بيت الخلاء چلا جاتاهے اور اسي طرح اسے بعض اوقات حالتِ جنابت ميں بھي قبل از وقت اتارنا ممكن نهيں۔مثلاًرات كوحالتِ نيند ميں اگر انسان جنبي هوجائے۔
لهذا تعويذ باندھنا ،لٹكانا،پينا هر حال ميں حرام اورناجائز هے۔
زمانه جاهليت ميں عرب تعويذ كے ساتھ ساتھ دم بھي كياكرتے تھے ۔جس كو هم اپني زبان ميں تعويذ پڑھنا كہہ سكتے هيں ۔ان كے تعويذوں اوردموں ميں بعض ايسے بھي تھے جن ميں شرك كي آميزش تھي۔چند نامعلوم ناموں كے لكھنےاور پڑھنے سے وه لوگ تعويذ كيا كرتے تھے لهذا آپﷺ نے تعويذ كے ساتھ ساتھ دم كو بھي حرام قرار دے ديا۔ليكن اس موضوع كےبارے جب تمام احاديث كو اكٹھا كيا جاتا هے تو هميں معلوم هوتا هے كه آپ نے بعض معاملات ميں دم كرنے كي اجازت دے دي مگر دم لكھنے(يعني تعويذ بنانے) كي اجازت مرحمت نهيں فرمائي۔

دم كرنا جائز هے بشرطيكه اس ميں شرك نه هو
دم ايك طرح كي دعا هے۔جيسے دعا كرنے كے بعد هاتھ پرهاتھ دھرے بيٹھ جانا لغو حركت هے۔بلكه دعا كے ساتھ ساتھ دوا بھي ضرور هےاسي طرح دم كے ساتھ ساتھ مادي اشياء (مثلاً ادويات ،جڑي بوٹياں اور ديگر طريقه علاج)سے بھي اپنا علاج كرانابھي ضروري هے۔مگر تعويذ اس كے برعكس ايك ايسي مادي چيز هے جس پر لامحاله انسان كا ذهن ٹھہر جاتا هے اور وه اسي ميں اپنے مسئلے كا حل سمجھنے لگتاهے۔شريعت نے اسي ليے تعويذ كو حرام اور دم كو جائز قرار ديا۔

غير شركيه دم

:
١۔عوف بن مالك اشجعيؓ كهتے هيں كه هم جاهليت كے زمانه ميں كچھ دم كيا كرتے تھے هم نے حضورﷺ سے عرض كيا كه آپ كا ان كے بارے كيا خيال هے توآپ ﷺنے فرمايا:‘‘اپنے دم ميرے سامنے پيش كرو ۔غير شركيه دم ميں كوئي حرج نهيں۔

نظر بد كا دم

:
٢۔رسول اللهﷺ نے دم كرنے كي رخصت عنايت فرمائي۔نظر بدلگ جانے ميں،ڈنگ ميں اور نمله يعني پسلي ميں دانے اور پھنسياں نكلنے كي صورت ميں۔
آپﷺكا دم:
٣۔حضرت عائشهؓ بيان فرماتي هيں كه رسول الله ﷺ يوں دم فرمايا كرتے تھے۔
بِسْمِ اللَّهِ، تُرْبَةُ أَرْضِنَا، بِرِيقَةِبَعْضِنَا، يُشْفَى سَقِيمُنَا، بِإِذْنِ رَبِّنَا

بچھو كے كاٹنے كا دم

:
٤۔حضرت جابر ؓ بيان فرماتے هيں كه رسول اللهﷺنے دم كرنے سے منع فرما دياتو عمرو بن حزم كے خاندان والے آپﷺ كے پاس آئے تو انهوں نے كہا اے الله كے رسول همارے پاس ايك (منتر)دم هے جس كے ذريعے هم بچھو كے ڈسنے كا علاج كرتے هيں ليكن اب آپﷺ نے دم ناجائز قرار دے ديا هے(اس كے بعد)انهوں نے اپنا دم آپﷺ كو پڑھ كر سناياتو آپ نے فرمايا ميں اس دم ميں كوئي برائي(شرك)نهيں ديكھتا پس تم ميں سے جو اپنے بھائي كو نفع پهنچانا چاهے تو اسے چاهيےكه ضرور نفع پهنچائے۔

معوذتين سے دم

:
٥۔حضرت عليؓ بيان فرماتے هيں كه ايك رات دورانِ نمازحضور ﷺ كي انگلي پر بچھو نے كاٹ ليا تو آپﷺنے اسے بحالتِ نماز اسے اپنے جوتے سے مارڈالا اور سلام پھيرنے كے بعد فرمايابچھو پر خدا كي مار يه نمازي كا لحاظ بھي نهيں كرتا۔(يا آپﷺ نے فرمايا يه نبي اور غير نبي كا لحاظ بھي نهيں كرتا۔)پھر آپﷺنے برتن ميں نمكين پاني منگواكر كاٹنے كي جگه پر ڈالا(يعني ٹكوركي)اور اس پر معوذات(قل اعوذبرب الفلق،قل اعوذ برب الناس)پڑھيں۔

سوتے وقت كا دم

:
٦۔حضرت عائشهؓ بيان فرماتي هيں كه نبيﷺ هررات جب اپنے بستر پر تشريف لے جاتے تو معوذاتين اور قل هو ا لله احد پڑھ كر اپنے دونوں هاتھوں كي هتھيليوں كو جمع كر انميں پھونك مارتےاور سارے بد ن پر جہاں تك هاتھ پہنچتا پھيرتے۔اس عمل كو بالترتيب سر چہرے اور بدن كے اگلے حصے سے شروع كرتے ۔ يه عمل تين دفعه دهراتے۔

سورت فاتحه سے دم

:
٧۔حضرت ابو سعيد خدريؓ فرماتے هيں هم لوگ ايك سفر كےدوران ايك عرب قبيلے كے پاس سے گزرےاور انهوں نے همارے درخوست کرنے كے باوجود هماري مہماني نه كي (يعني هم سے اچھا سلوك نه كيا) اتفاق سے ان كے سردار كو بچھو نے كاٹ ليا جب كوئي افاقه نه هوا تو وه همارے پاس آئے اور كوئي علاج دريافت كيا۔ميں نےكهاں هاں ميرے پاس اس كا علاج هے ميں دم كروں گا ليكن چونكه آپ نے همارے ساتھ اچھاسلوك نهيں كيا اس ليے ميں يه كام بلا معاوضه نہيں كروں گا۔چنانچه تيس بكريوں ميں معامله طے پايا۔ميں نےجاكر سورت فاتحه پڑھ كر اسے دم كيا جس كي بركت سے ان كاسردار صحت ياب هوگيا ۔ بكرياں لينے كے بعد هم ميں سے بعض نے كہا كه آو معاوضه تقسيم كرليں ميں نے كہا كه حضور ﷺ سے پوچھ كر كريں گے آپﷺ نے پورا واقعه سن كر فرمايا كه تجھے كيسے معلوم ھوا كه سورت فاتحه ميں يه بركت هے؟بہرحال تم نے ٹھيك كيا انهيں آپس ميں بانٹ لو اور ميرا حصه بھی نكالو اور ساتھ هي آپﷺنے تبسم فرمايا۔

كيا دم كرنے كا معاوضه ليا جاسكتا هے؟

بعض لوگ اس حديث سے دم كے معاوضے كا استدلال كرتے هيں جبكه حديث كا متن اور عرب كے حالات و واقعات اور تهذيب وتمدن اس كي نفي كرتےهيں۔اس ميں چند امور غور طلب هيں۔
صحابي رسول نے كن حالات ميں معاوضه كا مطالبه كيا؟جبكه وه مجبور تھے اور حالتِ سفر ميں تھے اور سفر بھي عرب كا جهاں دور دور تك پانيكا نام ونشان نه هوتا اور صحرا كي تپتي ريت اور آگ برساتا هوا سورج اوپر سے مسافتكا بوجھ ۔ايسي صورت ميں مهمان نوازي نه كرنے كا مطلب مسافر سے ظلم كي انتها تھي اوربعض اوقات اس ظلم سے مسافر موت كے منہ بھي جا سكتا تھا۔يہي وجه هے كه شريعت نےمسافركا بہر صورت خيال ركھا هے۔اگر ميزبان اس كي مہماني نه كرے تو بامر مجبوري وه ميزبان سے اپنا حق چھين بھي سكتا هے۔ لهذا صحابي نے مجبوراً ان كے ساتھ يه معامله طے كيا ۔ورنه اگر بات يہي هوتي جو آج يهاں همارے تعويذاور دم فروش باور كرواتےهيں تو صحابي نے تو اس مال كو پورے قافلے والوں ميں تقسيم كيا تھا ۔كيا كوئي دم كامعاوضه لينے والا ايسا كرے گا؟دوسري بات يه هے كه ايك لاكھ سے زائد صحابه ميں سےايك صحابي بھي ايسے نهيں جو لوگوں سے دم وغيره كا معاوضه وصول كركے اپنا پيٹ پالتےتھے ۔

دم كرنے كي تين شرطيں

كيونكه تعويذ بالواسطه انسان كے عقيدے پر اثرڈالتا هےاور توكل علي الله ميں خلل پيدا كرتاهے اس ليے اسے قطعي حرام قرار ديا اور اس كےساتھ ساتھ دم كرنے كي رخصت دي گئي ليكن دم ميں بھي اهل علم نے قرآن وسنت كي روشني ميں چند شرائط عائد كي هيں تاكه دم كرنے اور كروانے والے كا عقيده خراب نه هو۔

١۔دم صرف كلامِ الٰهي يا صفاتِ الٰهي سے كيا جائے ۔

٢۔دم عربي زبان ميں هو۔

٣۔يه عقيده هو كه دم بذاتِ خود كوئي فائده نهيں دےسكتا۔بلكه جو كچھ بھي هوگا باذن الله هوگا۔

بلا شبه دم جائز،مباح اور حلال هے ۔آپ ﷺنے خود دم فرمايا۔صحابه كرام رضوان الله عليه اجمعين كو اس كي اجازت دي اور امتِ مسلمه اس كےمسلّمه هونے پر متفق هے ۔باوجود ان تمام باتوں كے پھر بھي آپﷺنے ان لوگوں كو بے حساب جنت كي بشارت دي جو دم كرنے اور شگون لينےسے اجتناب كرتے هوںگے۔
پس ثابت هوا كه تعويذ كي اسلام ميں كوئي گنجائش نهيں نه قرآني اور نه هي غير قرآني تعويذ كي۔اس سے بچنا چاهيے ۔الله پر بھروسا ، توكل اور يقين ركھنا چاهيے۔
خلاصه كلام
تعويذ كي ابتداء شرك سے هوئي۔
تعويذ اور دم زمانه جاهليت كي رسوم هيں۔
قرآني وغير قرآني هر قسم كے تعويذ حرام هيں۔
دم كي رخصت صرف غير شركيه دم كي صورت ميں هے۔
تعويذ اور دم كا كاروبار غير شرعي هے۔
چا ند ستاروں كو انساني زندگي پر موثر سمجھنا كفر هے۔
هر حال ميں الله سے پناه مانگني چاهيے۔
كسي قسم كي بيماري ميں دھاگه ،چھلا ،منكا،گھونگا،نگينه،پٹا وغيره باندھنا،لٹكانا حرام هے۔يه سب تعويذ كي هي مختلف شكليں هيں۔
تعويذ توكل كے منافي هے۔
الله سے دعا هے كه هميں عقيده توحيد پر استقامت نصيبفرمائے اور اس كي راه ميں آنے والي ركاوٹوں سے اجتناب كرنے كي قوت عطافرمائے۔آمين۔

قرآن و حدیث ،، آمنے سامنے ! حصہ اول، دوم

قرآن و حدیث ،، آمنے سامنے ! حصہ اول، دوم

May 22, 2013 at 11:44pm

محترم جناب قاری صاحب،السلام علیکم اگرچہ میں اھلِ حدیث مکتبہ فکر سے تعلق رکھتا ھوں،مگر چند احادیث کے بارے میں مجھے بہت خلجان ھے،، کسی نہ کسی پیج پر ان احادیث کے بارے میں اعتراض موجود ھے،، مگر میں جب بھی گھر والوں سے یا کسی عالم سے بات کرتا ھوں تو وہ مجھے بجائے مطمئن کرنے کے یا میرے احساسات کو سمجھنے کے ،، یا تو مجھے منکرِ حدیث ھونے کا طعنہ دیتے ھیں،، یا چپ کر کے ان احادیث پر ایمان لانے کو کہتے ھیں – میں آپ سے ایک تو یہ پوچھنا چاھتا ھوں کہ کیا ھر حدیث پر ایمان لانا ضروری ھے،، یا کیا کسی حدیث کو اگر انسان کا دل نہیں مانتا یا کوئی اس کو دلیل سے مطمئن نہیں کرتا تو کیا وہ شخص اس حدیث کو نہ مانے تو منکرِ حدیث ھو جاتا ھے؟؟؟؟ میں بہت پریشان ھوں نہ تو نماز میں دل لگتا ھے نہ سکون ملتا ھے،، مگر کوئی میری کیفیت کو سمجھنے اور اس کا علاج کرنے کو تیار نہیں،،غیروں سے کیا گلہ کروں،،اپنے والد صاحب اور بھائی ھی دشمن بن گئے ھیں اور جس عالم کے پاس لے جاتے ھیں وہ بجائے میرے سوال کا جواب دینے کے ،ان کی باتیں سن کر مجھے ڈانٹنا شروع کر دیتے ھیں،، میری کوئی بات نہیں سنتے،، میں ابھی زیرِ تعلیم ھوں اور ان کا محتاج بھی، مگر میرا پڑھائی سے بھی دل اچاٹ ھو گیا ھے،ایسے لگتا ھے کہ جیسے مین پڑھائی کی خاطر نفاق کر کے ان کی باتیں برداشت کرتا ھوں- میں پاگل ھوتا جا رھا ھوں،،اگر آپ میرے سوال کا جواب دیں گے تو یہ ایک زندگی بچانے والی بات ھو گی،، ایک حدیث تو اللہ کا پاؤں جہنم میں ڈالنے والی ھے،، اور دوسری حضرت موسی علیہ السلام کا مجمعے کے سامنے مادر زاد ننگا ھونا ، دونوں بخاری شریف کی ھیں – ان کی حقیقت کیا ھے؟ 

 

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ،،والصلوۃ والسلام علی اشرف الانبیاءِ والمرسلین وعلی آلہ و صحبہ اجمعین و من تبعھم باحسانٍ الی یوم الدین،، امۜابعد !

یہ صرف ایک نوجوان کا مسئلہ نہیں بلکہ ھر دوسرے آدمی کا مسئلہ ھے،،جو بھی سوچ سمجھ رکھتا ھے اور آج کل کے میڈیا سے اس کا واسطہ پڑتا ھے، وہ اس قسم کے حالات سے گزرتا ھے،، جسطرح آج ھمارا نوجوان پریشان ھے ،اسی طرح کبھی یورپ کا نوجوان پریشان تھا،اور جو رویہ آج ھمارے علماء کا ھے وھی رویہ یورپ کے علماء کا تھا، پھر جو انجام یورپ میں دین کا ھوا،،کہ خدا خود اپنے گھر تک مقید ھو گیا،، اور سماج میں اس کا دخل مسترد کر دیا گیا،،یہی معاملہ ھم اپنے نوجوان کے ساتھ کر رھے ھیں،،کہ سوال کرے تو دھتکار دو،، مگر اس کے نتیجے میں نوجوان نسل دین سے غیر متعلق ھوتی جارھی ھے ،، اور بوڑھوں کے سہارے دین کب تک چل لے گا؟

آج بھی اگر آپ بغور جائزہ لیں تو آپ کو اندازہ ھو گا کہ دین صرف مساجد تک محدود ھو گیا ھے، اور ھم چند رسوم  ادا کر کے سمجھتے ھیں کہ ھم نے اللہ کا حق ادا کر دیا ،،اب اللہ ھمارے سماجی معاملات میں دخل نہ دے،،نتیجہ یہ ھے کہ ھم پانچ وقت کے نمازی اور سات وقتہ حرام خور ھیں ! ،،

اس وضاحت کے بعد میں آتا ھوں آپ کے سوالات کی طرف،، حدیث کی کسی کتاب کی ھر حدیث پر ایمان لانا ضروری نہیں،یہ صرف قرآن کا اعزاز ھے کہ اس کی ھر آیت اور ھر حرف پر ایمان لانا ضروری ھے،، احادیث کے ان مجموعوں کا مقام تو ان سابقہ کتابوں کے برابر بھی نہیں کہ جن کا وجود بھی باقی نہیں ،،کیونکہ قرآن نے ان پر ایمان لانے کا تقاضہ اسی شد و مد سے کیا ھے،،جسطرح وہ قرآن پر ایمان لانے کا تقاضہ کرتا ھے،، والذین یؤمنونَ بما اُنزل الیک وما انزلَ من قبلک ( البقرہ) احادیث کے ان مجموعوں میں ھر قسم کی احادیث موجود ھیں جن میں سے کچھ صریحاً قرآن کے خلاف ھیں اور انکی تاویل بھی ممکن نہیں،،سیدھا سیدھا یا تو قران کو مانو یا اس حدیث کو مانو،،بیک وقت دونوں پر یقین ممکن ھی نہیں،،،

مجھے لگتا کچھ یوں ھے کہ جنہوں نے ان احادیث کو اکٹھا کیا ھے،، انہوں نے کبھی ان کو قران پر پیش کرنے کی زحمت ھی گوارا نہیں کی اور آج جو شرح لکھ رھے ھیں،،وہ ادھر ادھر کی ھزار تاویلیں پیش کرتے ھیں،، مگر اس حدیث کو قران کی روشنی میں نہیں دیکھتے گویا قرآن نام کی کسی کتاب کا نہ کبھی نزول ھوا تھا،،نہ وہ اس سے واقف ھیں !!

ایمان کی بنیاد اور منبع اللہ کی کتاب،قرآنِ حکیم ھے،،یہ نبی کے ایمان کی بھی بنیاد ھے اور امت کے ایمان کی بھی ! احادیث ظنی چیز ھیں اور عقائد میں ظن کو کوئی دخل نہیں،ان الظنَۜ لا یغنی من الحقِ شیئاً،، نبی کریم سے خطاب فرماتے ھوئے اللہ پاک نے سورہ شوری میں واضح فرما دیا ھے،،ما کنتَ تدری ماالکتاب ولا الایمانُ ولٰکن جعلناہ نوراً نھدی بہ من نشاء من عبادِنا،،( الشوری 52 ) ائے نبی آپ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ھوتی ھے اور ایمان کیا ھوتا ھے،لیکن ھم نے اس(قرآن) کو وہ نور بنایا جس کے ذریعے ھم(آپ سمیت 

) اپنے بندوں میں سے جسے چاھتے ھیں ھدایت دیتے ھیں،،

آج جب سنت کا نام لیا جاتا ھے تو ھمارا ذھن فوراً بخاری اور مسلم کی طرف منتقل ھوتا ھے،، مگر سوچیں وہ پہلی تین صدیاں جو ان کتابوں کے بغیر گذریں،ان میں جب لفظ سنت بولا جاتا ھو گا تو ان لوگوں کا ذھن کس طرف منتقل ھوتا ھو گا؟ کیا اس وقت سنت تھی ھی نہیں؟ یا لوگ نماز ، روزہ، زکوۃ ،حج،شادی بیاہ،طلاق ،جنازہ، خرید و فروخت سنت کے علم کے بغیر کرتے تھے،، سنت کے بغیر دین کی تکمیل کیسے ھو گئی تھی؟ اس وقت لوگ سنت کے لفظ سے فوراً صحابہؓ کے عمل کی طرف دیکھتے تھے اور اس بات کا احساس صحابہؓ کو بھی تھا کہ ان کا عمل سنت کی نمائندگی کرتا ھے، اور خلفاء راشدین صحابہؓ کو بار بار اس بات کی یاد دھانی کرواتے رھتے تھے کہ تمہارا اختلاف سنت کا اختلاف کہلائے گا لہذا اختلاف کم سے کم کرو ،، یہی وجہ ھے کہ 23 سال نبی کے ساتھ گزارنے والے صاحبین( ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما) سے گنتی کی چند حدیثیں مروی ھیں ،،ان کا عمل ھی سنت کی سند ھے،،جس طرح کتاب والے روایت کو صحابی تک پہنچا کر مطمئن ھو جاتے ھیں کہ الصحابۃ کلھم عدول ،،اسی طرح اصحاب الآثار ،عمل کو اصحابؓ تک پہنچا کر مطمئن ھو جاتے ھیں کہ نبی کی سنت کے امین وھی ھیں،،سنت ان میں جاری ھو کر ھی سنت کہلائی،،جو جاری نہ ھو وہ سنت ھوتی بھی نہیں !! پھر حدیث کی کتابوں کی ضروت کیوں محسوس ھوئی اور جمع کرنے والے کس نیت سے جمع کر رھے تھے اور آج انہیں کس نیت سے استعمال کیا جا رھا ھے،،یہ ایک الگ موضوع ھے،جس پر میں ان شاء اللہ ضرور لکھوں گا ،،مگر حقیقت یہ ھے کہ حدیث کی ان کتابوں سے آپ کو شیعیت سمیت ھر فرقے کی بنیاد میسر ھو گی،، ان کے ذریعے قران کو بھی مشکوک ٹھہرایا جا سکتا ھے،،خود ذات ِ باری تعالی اور نبی کی نبوت پر سوال کھڑے کیئے جا سکتے ھیں،،اور کھڑے کیئے جا رھے ھیں، جن کی وجہ سے نوجوانوں مین اضطراب پایا جاتا ھے،، مگر اللہ رحم فرمائے بہت ھولناک رویہ ھے ھمارے علماء کا،، کاش کہ ان پر بھی اسی طرح تنقید کی جا سکتی جسطرح سیاستدانوں پر کی جاتی ھے تا کہ ان مقدس ھستیوں کا بھی احتساب ممکن ھوتا ،،

!!

 

اب آیئے آپ کی مذکورہ دونوں احادیث کی طرف دونوں احادیث بخاری شریف کی کتاب التفسیر میں پائی جاتی ھیں،، اللہ کو جہنم میں داخل کرنے والی سورہ ” ق "کی ایت نمبر( 30) کی تفسیر میں اور موسی علیہ السلام کو مجمعے میں ننگا کرنے والی سورہ الاحزاب کی آیت نمبر 69 کی تفسیر میں !!

علم ِ حدیث میں میرے استاد مولانا سلیم اللہ خان صاحب مد ظلہ العالی نے بخاری کی شرح”کشف الباری عما فی صحیح البخاری "کی 13 جلدیں لکھوائی ھیں جو ان کے دروس کی ریکارڈنگ سے مرتب کی گئی ھیں،، میرے علم کے مطابق علمِ حدیث میں مولانا سلیم اللہ خان صاحب کے پائے کا کوئی عالم پاک و ھند میں شاید ھی کوئی ھو،، اپنے تمام شیوخ کا علم ایک سمندر کی طرح آپ میں موجزن ھے،،میں ان کی شرح ھی کو استعمال کرتا ھوں کسی حدیث کی تحقیق کے لئے !!

حدیث کچھ یوں ھے کہ قیامت کے دن اللہ پاک جہنم سے پوچھیں گے کہ ‘” کیا تو بھر گئ ھے "اور وہ جواباً کہے گی ھل من مزید؟ یہاں تک کہ اللہ اپنا قدم اور دوسری حدیث میں اپنا پاؤں(رجل) اس میں رکھ دے گا ،،جس پر اس کے بعض حصے بعض پر چڑھ جائیں گے( جسطرح پسلیاں چڑھتی ھیں) اور وہ گھبرا کر بولے گی ،،بس ،،بس ،،

اب اس حدیث کی شرح میں وہ سب کچھ کہنے کے باوجود جو کہ کہنے لائق بھی نہیں تھا،،مولانا اخر فرماتے ھیں،،سوائے تفویض اور تسلیم کے کوئی رستہ نہیں،،یعنی بات سمجھ نہیں لگ رھی،، مگر ھتھیار ڈالنے اور اندھا دھند ماننے کے سوا چارہ نہیں،،

سابقہ شارحین کا قل نقل کرتے ھیں کہ قدم نام کی کوئی مخلوق اللہ پیدا فرمائے گا،جس کو جہنم میں بھیجے گا تو وہ بھر جائے گی،،پھر اس کو رد کر کے فرماتے ھیں کہ قدم کے علاوہ بخاری میں ھی لفظ رجل بھی استعمال ھوا ھے،،لہذا پاؤں مانے بغیر چارہ نہیں،، پھر ایک قول نقل کرتے ھیں کہ قدم سے مراد قدم صدق،مراد ھے یعنی حضور کو شفاعت کے لئے بھیجا جائے گا اور وہ کچھ بندے نکلوائیں گے تو جہنم چپ کر جائے گی،، یہ اس صورت میں سمجھا جا سکتا ھے جب جہنم بندوں کی زیادتی کا رونا رو رھی ھو،،مگر وہ تو پہلے ھی اور مانگ رھی ھے تو نکلوانے کا مطلب تو سوال گندم جواب چنے ھو گیا،، اس کو بھی رد کر دیتے ھیں،،کوشش کرتے ھیں کہ اللہ کو جہنم سے بچا لیا جائے اور حدیث بھی صحیح رہ جائے ،،مگر بات بن نہیں رھی،،پھر وھی حل کہ چپ کر کے بخاری کی کریڈیبیلٹی اور گڈ ول پر مان لو،، !! یہ ھے ھمارا رویہ حدیث کے بارے میں اور یہ ھے نتیجہ ھمارے علماء پر بخاری شریف کے رعب اور دبدبے کا،،، 

قرآن اور بخاری آمنے سامنے

!!

نہ تو امام بخاری اور نہ ان کے شارحین نے 12 صدیوں میں بخاری کی اس حدیث کو قران کی عدالت میں پیش کیا اور نہ مسئلہ حل ھوا،، میں پہلے عرض کر چکا ھوں کہ ارسطو نے کہا تھا کہ مرد کے 32 دانت ھوتے ھیں اور عورت کے 28 دانت ،، ارسطو کی 2 بیویاں تھیں،،نہ اس نے کبھی ان کے منہ میں انگلی پھیری اور نہ ارسطو کی ھیبت سے کسی اور نے انگلی پھیر کر گننے کی کوشش کی اور سو سال تک یہ  گپ اسی طرح ارسطو کے علم کے رعب اور بھرم پر چلتی رھی،، بخاری کے رعب مین کسی نے بخاری کی حدیثوں کو کبھی قرآن پر پیش کرنے کی جرأت ھی نہیں کی،،اور نہ ھی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو قرآن پر پیش کیا ،،قران عقائد کی شاہ کلید یا "ماسٹر کی ” ھے -اللہ کا جہنم میں جانا عقیدے کا معاملہ ھے،،اسے قرآن ھی سے حل کیا جا سکتا ھے،،،

 

سورہ الانبیاء کی آیت نمبر 98 اور 99 دیکھ لیجئے،، ان آیات میں اللہ پاک کافروں سے فرما رھے ھیں کہ تم اور جن کی تم عبادت کرتے ھو،، سب جہنم کا ایندھن ھو، تم سب اس میں جا کر رھو گے 98 ،، اگر یہ الہ ھوتے تو کبھی جہنم میں نہ جاتے اور وہ اس میں ھمیشہ رھیں گے،99 ( انکم وما تعبدون من دون اللہ حصبُ جہنم،انتم لھا واردون 98،،لو کانَ ھؤلاءِ آلہۃً ما وردوھا ،و ھم فیھا خالدون ،،الانبیاء 99 ) لو جی اللہ پاک بڑے چیلنج کے ساتھ دعوی کر رھا ھے کہ اگر یہ الہ ھوتے تو جہنم میں نہ جاتے ،، اور اگر جہنم پر وارد ھوئے ھیں تو الہ نہیں ھیں،،اب اس فارمولے کو اللہ پر ایپلائی کیجئے ” اگر اللہ جہنم میں جائے گا تو الہ نہیں ھے ،،اور اگر الہ ھے تو جہنم میں نہیں جائے گا،، سارا مسئلہ حل ھو گیا،، بخاری کی حدیث مانو تو اللہ الہ نہیں ھے کیونکہ جہنم میں جائے گا،، قران کی مانو تو کافروں کے معبود تو جہنم جائیں گے کیونکہ یہ ان کے الہ نہ ھونے کی دلیل ھے،، اور انبیاء کو جہنم کے پل پر سے گزار کر جنت میں داخل کیا جائے گا تا کہ ان کی الوھیت کی بھی نفی ھو جائے،، مجرد جہنم پر وارد ھونا بھی الوھیت کی نفی ھے،کجا کہ جہنم میں داخل ھو کر اس کو بھر دینا،، پھر اللہ واحد بھی ھے،،عدد کے لحاظ سے اور احد بھی ھے ھستی کے لحاظ سے یعنی وہ ھماری طرح اجزاء یا پارٹس میں نہیں بنا،، اسکی پوری ھستی ایک جزء ھے،،گویا جائے گا تو پورا جائے گا،،نہیں جائے گا تو پورا نہیں جائے گا،، اگر امام بخاری اس حدیث کو قران پر پیش کرتے تو کبھی اس کو اپنی تصنیف میں شامل نہ فرماتے اور اگر شارحین اس کو قران پر پیش کرتے تو کب کا نکال کر سائڈ پر رکھ چکے ھوتے،،سب نے کچھ یوں کیا ھے گویا کتاب اللہ نام کی کوئی چیز اس امت میں پائی ھی نہیں جاتی ،، اور راویوں کے سلسلے ھی جوڑتے رھے ھیں !

تفسیر میں مودودی صاحب دونوں جگہ دامن بچا کر نکل گئے ھیں ،، ایسا لگتا ھے جیسے ان آیات کی تفسیر میں کوئی حدیث ھی ںہیں،، میں ان کی مجبوری کو سمجھتا ھوں،،وہ پہلے ھی فتوؤں کی زد میں تھے،،منکرینِ حدیث کا ٹھپہ لگوانا نہیں چاھتے تھے ! اصل میں ھوا کیا ھے ؟یہ حدیث موقوف ھے یعنی بات حضرت ابو ھریرہؓ پر آ کر ختم ھوگئی ھے ،اب انہوں نے کس سے سنا ھے یہ واضح نہیں ھے،، اس قسم کی کہانیاں اسرائیلیات میں سے ھیں،، جو لوگ یہود میں سے مسلمان ھو گئے تھے،جیسے حضرت عبداللہ ابن سلام وغیرہ وہ ساتھ اسرائیلیات کے ٹوکرے بھی بھر لائے تھے، اور جب وہ مسلمانوں میں بیٹھے ھوتے تو دین سے متعلق گفتگو میں اپنا پرانا موقف اور مذھبی کہہانیاں بیان کرتے، عام مسلمانوں کے لئے وہ عجیب مگر دلچسپ کہانیاں ھوتی تھیں،، اور یوں وہ ھمارے واعظ مولویوں سے ھوتی ھوئیں ھماری مذھبی کتابوں اور پھر حدیث کی کتب میں جگہ پا گئیں،، حضرت ابو ھریرہؓ جو سنتے تھے بیان کر دیتے تھے،، ،،جید صحابہؓ،حضرت علیؓ ،حضرت عمرؓ حضرت عائشہؓ ان کو ٹوکتے رھتے تھے اور عمرؓ فاروق نے تو ان کو دھمکی بھی دی تھی کہ اگر اپ نے یہ سلسلہ بند نہ کیا تو میں اپ کو قبیلہ دوس میں واپس پھنکوا دوں گا ! کتاب الصلوۃ میں سجدہ سہو کے بیان میں ایک بڑی مشہور حدیث ھے بخاری شریف کی،، اس میں راوی ھیں حضرت ابو ھریرہؓ ،،فرماتے ھیں کہ نبی اللہﷺ نے ھمیں ظہر یا عصر کی نماز پڑھائی اور دو رکعت کے بعد سلام پھیر دیا،،تو ذوالیدین اٹھا ،،اور ،،،،،  اب یہ ذوالیدین حضرت ابو ھریرہؓ کے اسلام قبول کرنے سے بھی بہت پہلے شہید ھو چکے تھے،غالباً غزوہ احد مین،،جبکہ ابو ھریرہؓ ایمان لائے ھیں صلح حدیبیہ کے بعد،،  مگر حدیث میں یوں ظاھر کر رھے ھیں کہ گویا یہ ان کی موجودگی میں واقعہ ھوا،، اس پر تعجب تو سارے محدثین کرتے ھیں،،مگر،، ظاھر ھے یہ بات ان کو کسی اور صحابی نے بتائی ھے کیونکہ واقعہ سچا ھے،، مگر یہ اس بندے کا نام نہیں بتاتے کہ ان کو کس نے بتایا ھے،، یہ تدلیس کہلاتا ھے کہ آپ درمیان والا واسطہ چبا جائیں،، تو اسی طرح وہ اس جہنم والی حدیث میں اگر وہ بندہ بتا دیں تو پتہ چل جائے کہ وہ ھیرو کون تھا جو اللہ کو بھی جہنم میں لے جانے پر تلا ھوا تھا،، بائبل بھری پڑی ھے یہودیوں کے ان عقائد سے،،اللہ کا زمین پر آنا ،یعقوب علیہ السلام سے ساری رات کشتی کرنا پھر ھار جانا اور منتیں کرنا کہ مجھے آسمان پر واپس جانے دو مگر یعقوب کا آرم لاک لگا کر مطالبہ کرنا کہ پہلے مجھے اور میری اولاد کو برکت دو پھر جانے دوں گا،،یہ جہنم والا واقعہ اور موسی علیہ السلام کا ننگا کرنا بھی اسرائیلی کتب کا مواد ھے جو یہاں امپورٹ ھوا ھے،، اور اس حدیث کے راوی بھی ابو ھریرہؓ ھی ھیں،،ا ،، 

اب آئیے دوسری حدیث کی طرف یہ حدیث بھی کتاب التفسیر میں ھے اور حدیث نمبر4521 ھے، اس میں بتایا یہ گیا ھے کہ موسی علیہ اسلام ایک حیادار انسان تھے ،بنی اسرائیل عموماً تالابوں میں ننگے نہایا کرتے تھے ،جیا کہ ھمارے دیہات میں رواج ھے،،مگر موسی علیہ اسلام ھمیشہ الگ سے نہایا کرتے تھے کہ کوئی ان کو دیکھ نہ پائے،، اس پر بنی اسرائیل نے یہ چہ میگویاں شروع کر دیں کہ ان میں عیب ھے،بعض کے نزدیک ان کے خصیوں میں ھوا بھر گئی ھے( ھرنیا ھو گیا ھے) بعض کے نزدیک وہ نامرد ھیں،عنین ھیں وغیرہ وغیرہ،،جس پر اللہ نے ارادہ فرمایا کہ موسی  پر سے اس الزام کو ھٹایا جائے،،اس کا بندوبست یہ کیا گیا کہ موسی علیہ اسلام کپڑے اتار کر نہانے لگے اور کپڑے ایک پتھر پر رکھے،پتھر کپڑے لے کر بھاگ پڑا،،موسی علیہ السلام عصا لے کر اس کے پیچھے دوڑے اور میرے کپڑے میرے کپڑے کہتے جاتے اور پتھر کو مارتے بھی جاتے،یہان تک کہ پتھر اسرائیلیوں کے مجمعے میں جا کر کھڑا ھو گیا، موسی علیہ السلام نے باقی کسر وھاں نکالی اور پتھر کو خوب مارا،،اس دوران بنی اسرائیل نے خوب دیکھ لیا کہ موسی میں کوئی خفیہ امراض نہیں ھیں بلکہ بالکل ٹھیک ٹھاک ھیں،، یہ ھے اس حدیث کا خلاصہ!

پہلے تو عم فہم سے سوچیں کہ یہ واقعہ موسی علیہ السلام کی رسالت کے بعد کا ھے کیونکہ وہ مصر میں شاھی محل میں رھتے اور شاھی حمام میں نہاتے تھے،، مدین سے واپسی کے بعد وہ بنی اسرائیل میں رھنا شروع ھوئے،،  جب آپ مدین سے بیوی ساتھ لے کر آئے تو بچہ بھی ساتھ تھا،یہ وھی بچہ تھا جو وادی مقدس میں پیدا ھوا تھا – بچے کی موجودگی میں کسی کے نامرد ھونے کی افواہ کیسے اڑائی جا سکتی ھے؟ ھر شخص جانتا ھے کہ کچھ لوگ ھر سوسائٹی میں ایسے ھوتے ھیں جو  مجمعے میں ننگا نہانا پسند نہیں کرتے، پھر بجائے اس کے کہ اللہ بے حیاؤں کو سزا دیتا ،،اس نے سزا دی بھی تو حیا دار کو کہ اسے مجمعے میں ننگا کر دیا ،، موسی علیہ السلام کو اتنا مغلوب الغضب دکھایا گیا ھے کہ غصے میں ان کو اگے پیچھے کا ھوش نہیں رھتا تھا ،، ذرا اپنے اوپر لاگو کر  کے دیکھئے کہ کوئی حمام سے آپ کے کپڑے اٹھا کر لے جا رھا ھو تو کیا اپ سوچ سکتے ھیں کہ اپ ننگے اس کے پیچھے دوڑ پڑیں گے؟ کیا عقلِ انسانی نام  کی کوئی چیز نہیں،؟،جب تک یہ قصے مدرسوں میں ھی پڑھا کر دفنا دیئے جاتے تھے ،،سب خیریت تھی مگر اب یہ سب کچھ عام عوام کے ھاتھ لگ گیا ھے،، اب تو جواب دے کے جیو والا معاملہ ھے،، اور یہ صرف ھمارے دین کا نہیں سارے مذاھب کو یہ ھی مصیبت پڑی ھوئی ھے کہ ان کا مذھبی لٹریچر عام ادمی کے ھاتھ لگ گیا ھے،جس کا فیوز مدرسے میں نکالا نہیں جا سکا ،،وہ پلٹ پلٹ کر سوال کرتا ھے  ! پھر ذرا سوچئے کیا کسی کو ننگا کرنا مقصود ھو تو بس اتنا کافی ھے کہ کوئی مشہور کر دے کہ شیخ الحدیث صاحب کو ھرنیا ھے اور شیخ الحدیث بھی اھلِ حدیث ھوں اور وہ تہبند   اٹھا کر سارے  طالبِ علموں کی تسلی کرا دیں کہ یہ ھوائی کسی دشمن نے اڑائی ھو گی؟ اگر یہ بات کسی شیخ الحدیث سے روا نہیں ھے اور ان کے شایانِ شان نہیں ھے تو اللہ کے اولوالعزم رسول،جس کی شریعت پر دنیا 2500 سال تک چلتی رھی اور ھزاروں نبی اس کی شریعت میں مبعوث ھوئے ،اس رسول سے کیسے روا مان لی گئی؟ اور کیا ایک نبی کو ننگا کرنا سارے نبیوں کو ننگا کرنے والی بات نہیں؟ پھر کیا جسمانی بیماری سے کسی کے رتبے میں کوئی فرق پڑتا   ھے ؟ کیا نبی کریمﷺ کو جوڑوں کا درد نہیں تھا؟ اس سے آپکے مقام اور رسالت پر کیا فرق پڑتا ھے،کہ کسی جسمانی بیماری سے دامن صاف کرنے کے لئے رسول کو ننگا ھی کر دیا جائے؟؟ اب آئیے قران کی طرف جو بتاتا ھے کہ حیا انسان کا حقیقی جوھر ھے اور یہ تمدن سے نہیں بلکہ انسانی تخلیق کا جوھر ھے،، اللہ پاک نے جہاں بھی آدم و حوا علہیماالسلام کو وقعہ بیان فرمایا ھے،خصوصی ذکر کیا ھے انکی اس ادا کا کہ انہوں نے شرم سے جنت کے پتوں کو لپیٹنا شروع کر دیا،،پھر اگلی آیت میں خبرادر کیا کہ آدم کی اولاد شیطان تمہیں بھی پھسلا کر تمہارے کپڑے نہ اتروا دے،، پھر فرمایا کچھ لوگ بے حیائی کر کے کہتے ھیں کہ یہ تو ھمارے باپ دادا کرتے چلے آ رھے تھے، اور اگر یہ بے حیائی ھے تو اس کا حکم ھم کو اللہ نے دیا ھے،،اس کے بعد فرمایا،قل انۜ اللہ لا یأمرُ بالفحشاء-أتقولونَ علی اللہ ما لا تعلمون(الأعراف 28) تو اللہ پاک تو فرما رھا ھے کہ وہ بے حیائی کا حکم نہیں دیتا،،یہاں تو بے حیائی کروا کر رکھ دی،، قران کے ساتھ کھلا تضاد ھے یا نہیں؟ پھر آپ قرآن میں بار بار پڑھتے ھیں کہ شیطان نے تقشِ قدم کی پیروی مت کرو، اگر تم نے شیطان کی بات مانی تو وہ تو  بے حیائی کا اور برائی کا حکم دیتا ھے،،یہاں بے حیائی کا حکم شیطان کی طرف سے نہیں اللہ کی طرف سے ثابت کیا گیا ھے،،لہٰذا قران کی مخالفت کی وجہ سے اس حدیث کو نہیں مانا جائے گا،،اور  اس کو ماننا مسلمان ھونے کے لئے ضروری بھی نہیں ھے، اور اس کے نہ ماننے سے بندہ منکرِ حدیث بھی نہیں ھوتا ،جب تک کہ حدیث کے شرعی طور پر ذریعہ قانون سازی ھونے کا انکار نہ کرے !   

اسلام میں جرم و سزا کا قانون !

اسلام میں جرم و سزا کا قانون !

June 6, 2013 at 1:51am

ضیاء الحق کا زمانہ تھا، حدود آرڈی نینس اپنے تخلیقی مراحل میں تھا، ضیاء صاحب سنگساری کی سزا کو جاری نہیں کرنا چاھتے تھے اور صرف سزائے موت کے مبہم لفظ سے کام چلانا چاھتے تھے ،،مگر پاکستانی علماء تھے کہ سنگساری سے کم کچھ قبول کرنے کو تیار نہ تھے،، ضیاء الحق صاحب کو ان کے اسلامی امور کے مشیر  جناب مولانا راجہ ظفر الحق نے مشورہ دیا کہ عرب علماء کو انوالو کر لیا جائے تو پاکستانی علماء پریشر میں آ کر مان لیں گے،، حکومتی خرچے پر جناب شیخ الازھر طنطاوی صاحب کو بلوایا گیا ،،اور انہوں نے پیسے حلال کرتے ھوئے ایئر پورٹ پر ھی بیان داغ دیا کہ اسلام کا مقصد سزائے موت دینا ھے، چاھے کسی طریقے سے بھی دے دی جائے،، مفتی محمود رحمۃ اللہ علیہ سی ایم ایچ راولپنڈی میں داخل تھے،، آپ نے بھی طنطاوی کا طنطنے سے بھرا بیان پڑھا، اور اس کا انتظار کرنے لگے،، طنطاوی صاحب مفتی صاحب کی عیادت کو آئے یا لائے گئے تا کہ وہ مفتی صاحب کو قائل کریں ! ابتدائی سلام دعا کے بعد مفتی صاحب نے طنطاوی سے فرمایا،، میں نے اپ کا ائیرپورٹ والا بیان پڑھا ھے،کہ اسلام بندے کو مارنا چاھتا ھے،،طریقہ کوئی سا بھی اختیار کیا جا سکتا ھے،، طنطاوی سنتا رھا،، آپ نے فرمایا یہ سوچ کا فرق ھے،جو ھمارے موقف کا فرق بن گیا ھے،،اسلام بندے کو مارنا نہیں چاھتا،،بندے کو بچانا چاھتا ھے،مارنا ھوتا تو تلوار اس وقت بھی موجود تھی،ایک وار سے سر اڑایا جا سکتا تھا،،پھر کیا وجہ ھے کہ ایک رحیم اور کریم ھستی سنگسار پر اصرار کرتی ھے؟ بات کو جاری رکھتے ھوئے مفتی صاحب نے تفصیل بیان کی،، کہ شیخ صاحب، اگر جھوٹے گواہ تیار کر لیئے گئے، یا جج کو خرید لیا گیا،، پھر جب سزا کے نفاذ کا وقت آئے تو اسلام گواھوں کی موجودگی اور جج کے پہلا پتھر مارنے پر اصرار کیوں کرتا ھے،، تا کہ موقعے پر اس اذیت ناک صورتِ حال میں گواھوں میں سے کوئی اللہ کے ڈر سے کانپ جائے گا اور وہ چیخ اٹھے گا کہ بس کرو یہ بیگناہ ھے،، یا جج کا ضمیر جاگ جائے اور وہ سزا رکوا دے،کہ یہ بندہ بے گناہ ھے،میں نے جان بوجھ کر سزا دی ھے،، اب جناب شیخ صاحب دو چار ،یا دس بارہ پتھروں کے بعد گواھوں میں سے کسی ایک کے مکر جانے پر سزا روک دی جائے گی اور بندہ بچ جائے گا،، لیکن اگر آپ والی گولی مار دی گئی یا سر اڑا دیا گیا ، یا پھندے پر لٹکا دیا گیا،، تو کیا گواھوں کے مکرنے کا کوئی فائدہ اس مقتول کو ھوا،،؟ محفوظ ترین اور فول پروف طریقہ نبیﷺ کا ھے یا آپ لوگوں کا؟ بس اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رھی،طنطاوی صاحب بھی مفتی صاحب کے ھم خیال بن گئے اور شام کی فلائٹ سے واپس روانہ ھو گئے

!

اس مثال کو سامنے رکھ کر آپ ابھی سے کوئی رائے مت قائم کریں خاص کر مزارِ قائد گینگ ریپ کے سلسلے میں ! موجودہ چپقلش جو علماء ھی کے طبقے میں شروع ھوئی ھے، کہ کسی کو سنگسار کی سزا دینے کے لئے چار گواھوں کی ضرورت ھے یا یہ کام ڈی این اے سے بھی چل سکتا ھے،یہ ایک نیا اور الگ موضوع ھے،، میں چاھتا ھوں کہ سلیس انداز میں عوام کو بھی مطلع کیا جائے کہ اسلام میں سزاؤں کا پسِ منظر اور پیش منظر کیا ھے ؟ اور علماء اپنے اپنے موقف پر کیوں ڈٹے ھوئے ھیں،،اگر یہ حضرات ایک دوسرے کے پاس خلوصِ نیت اور صدقِ دل سے بیٹھ جائیں، اور اپنی اپنی بات ایک دوسرے کے سامنے رکھ کر بات کریں تو امید ھے کہ دونوں کسی متفقہ حل تک پہنچ سکتے ھیں، مگر کہیں نہ کہیں،،میں بڑا،میں بڑا  والی بات پسِ منظر میں ھے،عوام سمجھیں یا نہ سمجھیں علماء کو مغالطہ نہیں لگ سکتا،، یہ کیسے ممکن ھے کہ ڈرائیور ،ڈرائیور کو لوکیشن سمجھائے اور دوسرے ڈرائیور کو سمجھ نہ لگے؟

اسلام میں جرم و سزا،

اسلام سب سے پہلے اپنی اخلاقی اور انتظامی ھیئت سے ایک ایسا صالح معاشرہ تشکیل دیتا ھے جس میں جرم ایک استثنائ صورت رہ جاتی ھے،جو کبھی کبھار ظہور پذیر ھوتی ھے،اور اسلام اس کا سدِ باب کرتا ھے،، مثلاً اسلام اپنے معاشی نظام سے لوگوں کی بنیادی ضرورتوں کی کفالت کرتا ھے،،وہ روٹی ،کپڑا ،مکان، صحت، تعلیم کے اخراجات کا ضامن بنتا ھے،،جہاں وہ اضطرار وقوع پذیر ھی نہ ھو کہ کوئی چوری پر مجبور ھو،، اگر پھر بھی کوئی چوری کرتا ھے تو اسلام پھر بھی اس کا ھاتھ نہیں کاٹتا ،اس سے اس کیفیت کے متعلق دریافت کرتا ھے کہ اس نے کن حالات میں چوری کی اور اگر حالات اسے مجبور کر دیں تو اسلام اس کو معاف کر دیتا  ھے اور جس کا نقصان ھوا ھے وہ نقصان بیت المال سے پورا کرتا ھے،کیونکہ بیت المال ھی وہ پول ھے جس میں ھرشخص زکوۃ کی صورت میں اور مالِ غنیمت کی مد میں اپنا حصہ محفوظ کرتا ھے ،،

اسی طرح اسلام ستر وحجاب کے قوانین کے ذریعے ،اور مرد و زن کے مخلوط اجتماع کی ممانعت  کے ذریعے نیز قابلِ شادی نوجوانوں کے جلد از جلد کرا دینے کے حکم کے ذریعے فحاشی کو کنٹرول کرتا ھے، اس کے باوجود اگر کوئی کسی کے معاشقوں کی داستانیں اور افسانے سناتا ھے تو پھر اسلام اس سے چار معتبر اور صالح گواہ طلب کرتا ھے،تا کہ مجرم کو سزا ملے اور آئندہ کوئی اس جرم کا ارتکاب نہ کرے،یا اگر الزام لگانے والا جھوٹا ھے تو اسے بھی سزا ملے تا کہ آئندہ اس قسم کی افواہ سازی کی فیکٹری کو بند کیا جائے،، گواھوں سے فعل بد کی تفصیل لی جائے گی،،مجرد ایک کمرے مین دیکھا ،یا کمرے سے نکلتے دیکھا ،، یا بوس و کنار کرتے دیکھا،یا ننگے دیکھا ک
وئی گواھی نہیں ھے،، اور نہ اس پر کسی کو سنگسار کیا جائے گا،، جب فعل کا وقوع اس تفصیل سے بیان نہ کیا جائے،جو تفصیل حدیث میں موجود ھے،،  اس کے بعد الزام لگانے والا فاسق قرار دے کر آئندہ گواھی  کے نصاب سے خارج کر دیا جاتا ھے،،نہ وہ کسی نکاح میں اور نہ خرید و فروخت میں گواہ بن سکتا ھے، اور یہ ایسی رسوائی ھے کہ پھر کبھی کوئی افسانہ بازی کرنے کی کوشش نہیں کرے گا !

یہ صورت ، واقعہ افک میں پیش  آئی تھی اور اسی قسم کی صورتِ حال میں چار گواہ طلب کیئے گئے ھیں،،یعنی چار گواھوں والا قانون لاگو ھو گا کسی پر عشق معشوقی اور بدکاری کا الزام لگانے والے واقعے پر !

اس میں علماء کا موقف بالکل ٹھیک مگر غلط جگہ ایپلائی کیا جا رھا ھے،،گویا دردِ سر کی پٹی گھٹنے پر باندھی جا رھی ھے ،،

دوسری صورت یہ ھے کہ کوئی خود اپنی عصمت دری کی فریاد کرے ، اپنے مجرم کو پہچانے !!

یہ صورت بھی دورِ نبوی میں پیش آئی ھےجس کا ذکر بخاری سمیت صحاح ستہ کی ساری کتب میں موجود ھے، کہ فجر کی نماز پڑھنے جانے والی خاتون سے کسی نے زیادتی کی اور شور مچانے پر بھاگ نکلا ، جب ایک نمازی اس خاتون کے پاس آیا اور اس سے استفسار کیا تو اس نے بتایا کہ اس کے ساتھ زیادتی کی گئی ھے اور مجرم اس طرف بھاگا ھے،، وہ نمازی اس مجرم کے پیچھے بھاگا،، اتنی دیر میں اور لوگ بھی آ گئے اور عورت نے ان کو بھی واقعہ بتا کر اسی سمت دوڑا دیا،،وہ لوگ دوڑے اور اس پہلے نمازی  بے چارے کو پکڑ لائے جو اس عورت کے  بتانے پر سب سے پہلے بھاگا تھا،، اب عورت نے بھی کہہ دیا کہ ھاں یہی بندہ تھا،، اس بے چارے نے بہت فریاد کی کہ میں تو اس مجرم کو پکڑنے گیا تھا،تم لوگ مجھی کو پکڑ لائے ھو،،اب نبی کریم ﷺ  نے نہ تو اس خاتون کو یہ حکم دیا کہ چار گواہ لاؤ اور نہ ھی اسلامی ریاست میں کبھی کسی ایسی فریادی عورت سے چار گواہ طلب کئے ،، یہ وہ خلا ھمارے حدود آرڈی نینس میں کہ جو ھماری بدنامی کا باعث بنا ھوا ھے،، نبی کریم نے مجرد اس عورت کے قول پر اس شخص کو رجم کی سزا سنا دی ،، جب اسے رجم کیا جانے لگا تو اصلی مجرم جو مجمعے میں موجود تھا ،اللہ کے ڈر سے کانپ گیا کہ ایک تو جرم زنا کا کیا،اب یہ قتل بھی میرے ذمے لگ جائے گا،،وہ بے ساختہ پکارا اس عورت کا مجرم میں ھوں ائے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم،، آپ نے عورت کی طرف دیکھا اور فرمایا ” اللہ تجھے معاف کرے” اور اس کے بعد اقراری مجرم کو بھی بخش دیا،،، اس دل دھلا دینے والے واقعے کے بعد بھی آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ ائے مومنو ! آئندہ جب کوئی عورت اپنے ساتھ زیادتی کی فریاد لے کر آئے تو اس سے چار گواہ طلب کرو،کیونکہ ابھی ابھی میں ایک عورت کی غلطی کی وجہ سے ایک معصوم کی جان لینے لگا تھا!! یہ موقعہ تھا کہ اگر چار گواھوں کی شرط لگائی جا سکتی تھی تو لگائی جاتی ،، جب اللہ کے رسول نے یہ شرط نہیں لگائی تو پھر قیامت تک کوئی چھوٹا یا درمیانہ یا بڑا مفتی نہیں لگا سکتا،،چار گواھوں کی شرط جس موقع اور محل کے لئے ھے وہ اسی جگہ استعمال ھو سکتی ھے،،

یہ صورت حال تابع ھے سورۃ المائدہ کی آیت نمبر33 اور 34 کے ،،جو اسلامی سزاؤں کے ضمن میں ایک مرکزی حیثیت رکھتی ھے اور اسی آیت سے رجم کی سزا لی گئی ھے،،اگر اس آیت پر کما حقہ غور فرمایا جاتا تو خواہ مخواہ آیتِ رجم گھڑ کر قرآن کے ناقص ھونے کی بات نہ کی جاتی،، اس آیت میں ایک پورا پیکیج ھے سزاؤں کا،،جب کسی کو سخت ترین سزا دینی ھو تو اس پر اس آیت کی دفعہ لگائیں اور پھر چاھیں تو پورا پیکج اس پر نافذ کر دیں اور چاھیں تو کوئی ایک آدھ سزا چن لیں ،یہ قاضی کی صوابدید اور مجرم کے ڈھیٹ پن پر منحصر ھے، اس میں فساد فی الارض اور حرابہ کی دفعہ ذکر کی گئی ھے،، ڈاکہ زنی، رسہ گیری،عصمت دری،گینگ ریپ، وغیرہ اس کے تابع ھیں،، اس مٰن اپ چند باتیں نوٹ فرمائیں،،عصمت دری کا مجرم شادی شدہ ھو یا کنوارہ اسے قتل کیا جائے گا،، یہی وجہ ھے کہ جناب رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے  اس بات کی تحقیق نہیں فرمائی کہ وہ کنوارا ھے یا شادی شدہ،، اور نہ عورت  سے چار گواہ طلب کیئے،، نیز اگلی آیت 34 جو کہہ رھی ھے کہ ایسا مجرم اگر قانون کی گرفت میں آنے سے پہلے توبہ کر لے اور اپنے کو قانون کے ھوالے کر دے تو ریاست اس کے خلوص کو دیکھتے ھوئے اور دیگر ایسے لوگوں کو سرنڈر پر آمادہ کرنے کے لئے اس کو معاف کر سکتی ھے،،لہٰذا نبی کریم فداہ ابی و امی  نے دوسرے اعتراف کرنے والے کو اسی آیت 34 کے تحت معاف فرما دیا ، اور صحابہ کے استفسار پر فرمایا کہ اس نے وہ توبہ کی ھے جو پورے مدینے کے لئے کافی ھے،،گویا الاۜ الذین تابوا

من قبلِ ان تقدروا علیھم ،کا اطلاق فرمایا !! جو لوگ اس کو بہتان یا الزام کے تناظر مین دیکھ رھے ھیں وہ گواھوں کی بات کر رھے ھیں،،اور وہ غلط ھیں کیونکہ الزام کسی دوسرے فریق پر تیسرے فریق کے بارے میں لگایا جاتا ھے،،جیسے عبداللہ ابن ابئ نے حضرت عائشہؓ پر حضرت صفوان بن معطلؓ کے بارے میں لگایا تھا،،گویا تین فریق ھو گئے،،ایک ملزم دوسری ملزمہ اور تیسرا وہ فریق جو متاثرہ فریق ھی نہیں ھے،، جبکہ عصمت دری یا گینگ ریپ میں دو فریق ھیں،،ظالم اور مظلوم،، وہ متأثرہ فریق ھے،،آپ اس پر چار گواھوں کا بوجھ کیسے  ڈال سکتے ھیں؟

اب چلئے پاکستان کی عمومی صورت حال کی طرف،جہاں ننگے ناچ سارا دن کسی نہ کسی بہانے چلتے رھتے ھیں،، بےحیائی کا یہ عالم ھے کہ پورا ملک ایک کلب کا منظر پیش کرتا ھے،، انٹر نیٹ
نے تو لٹیا ھی ڈبو دی ھے،،دوسری طرف معاشی طور پر لوگ جان بچانے کے لئے چوری پر مجبور ھو گئے ھیں،، ان حالات مین اسلامی سزاؤں پر عملدرآمد بذاتِ خود ایک سوالیہ نشان ھے،، ان حالات میں ھاتھ کاٹنے کی سزاؤں کا نفاذ پاکستانیوں کا یہ حال کر دے گا ،کہ ان کو پاسپورٹ کی ضرورت ھی نہیں پڑے گی،،ان کا کٹا ھاتھ ھی بتا دیا کرے گا کہ بندہ پاکستانی ھے ! سب سے پہلے اپنی اخلاقی اور معاشی صورتحال کو اس سطح پر لے جائیں کہ جرم استثناء رہ جائے !!

بالجبر میں تو میں حدیث کا حوالہ دے چکا ھوں کہ نبیﷺ نے آدمی کے انکار کے باوجود نہ صرف اسے سنگسار کرنے کا حکم دیا بلکہ اس سے یہ تک پوچھنا گوارہ نہیں کیا کہ وہ شادی شدہ ھے یا غیر شادی شدہ ،، دوسری بات یہ کہ چار گواھوں کی نسبت ایک لیبارٹری ٹیکنیشن کو خریدنا آسان بھی ھے اور سستا بھی ،، ڈی این اے رپورٹ بدلی ھونے کا واقعہ میرے سامنے گزرا ھے،، لہٰذا اسلام عورت کی فطرت پر بھروسہ کرتا ھے،،فطرۃ اللہ التی فطر الناس علیہا ،کہ عورت عموماً اپنی عزت کے معاملے میں زیادہ حساس ھوتی ھے،،وہ اپنے اوپر الزام لگا کر کہ میرے ساتھ اتنے مردوں نے زیادتی کی ھے،اپنا مستقبل تاریک کیسے کر سکتی ھے؟ پھر اس کے ساتھ ساتھ اس کے والد اور بھائیوں،چچاؤں،الغرض پوری برادری کی غیرت کا معاملہ ھے،، تو گویا یہ ساری باتیں عورت کی گواہ ھیں، مجرد ان پر بھروسہ کیا جائے گا،،

زنا بالجبر اور زنا بالرضا میں زمین آسمان کا فرق ھے،، یہ فرد کا فرد سے تعلق ھے جبکہ دوسرا سوسائٹی پر حملہ ھے،،زنا بالرضا میں چھپانے کا حکم دیا گیا ھے کہ اگر ایک باپ اپنی بیٹی یا بیٹے سے اس جرم کے ارتکاب کا شاھد ھے،،تو کسی تیسرے کو اس کی خبر نہ دے،،بلکہ چھپا لے، خود نبی کریمﷺ کے زمانے مین ایک باپ نے اپنی بیٹی کا پردہ چاک کیا تو نبی پاکﷺ غصے اور غیرت سے سرخ ھو گئے اور فرمایا” تم بدترین باپ ھو،تمہاری بیٹی اس بات کی زیادہ حقدار تھی کہ تم بحیثیت باپ اس کے گناہ کو چھپاتے،، اس لئے زنا بالرضا اقرار سے ھی ثابت ھو سکتا ھے ورنہ گواہ ان تفصیلات و شرائط کو پورا کر ھی نہیں سکتے جو نبیﷺ نے اقرار کرنے والے سے پوچھی ھیں،، اچھا اس میں بھی اسلام کا یہ شرف ھے کہ وہ دوسرے پارٹنر کا نہیں پوچھتا ،،جس نے اقرار کیا ھے ،اسی کو سزا دیتا ھے،،اقرار والے کو بھی دوران سزا مکرنے کا حق حاصل رھتا ھے اور اس کا مکرنا گواہ کا مکرنا سمجھا جاتا ھے اور اس کو 80 کوڑے مار کر چھوڑ دیا جاتا ھے،،

جب علماء حضرات زنا بالجبر اور زنا بالرضا کو الگ سمجھتے ھی نہیں حالانکہ دونوں کے بارے میں اللہ کے نبیﷺ کا واضح طور پر الگ الگ رویہ ھے ! ایک کو سورہ نور کی روشنی میں دیکھتے ھیں،،جس میں گواھوں کی طلبی اصلاً افواہ سازوں کا منہ بند کرنے کے لئے ھے؟ ورنہ کوئی چار گواہ اس حالت میں کسی کو دیکھ سکتے ھی نہیں،جسطرح نبی ﷺ دیکھنا مانگتے ھیں؟ پھر سورہ نور کی اگلی ھی آیت میں فرمایا کہ تم نے سنتے ھی کیوں نہیں کہہ دیا کہ ،ھم تو اس موضوع پر بات کرنے کو ھی تیار نہیں،،اے اللہ تو پاک ھے،یہ تو بہت بڑا بہتان ھے،، جب کہ ریپ میں آپ نے نہ تو گواہ طلب کیئے اور نہ شادہ شدہ اور غیر شادی شدہ کی تحقیق فرمائی،، evidence ھمارے سامنے ھے ،، اس مواد سے اگر علماء کوئی اور نتیجہ نکالتے ھیں تو جی بسم اللہ ،،مگر ھم اس سے جو نتیجہ اخذ کر رھے ھیں،،اسے اسی قسم کے ثبوت سے ھی رد کیا جا سکتا ھے،،اسی لئے علماء کو قران میں رجم نہیں ملتا،کیونکہ رجم زنا کی سزا ھے ھی نہیں،،وہ تو قرآن بتا رھا ھے کہ 100 کوڑے ھے،، رجم کرنا،،یا سولی دینا،، یا امنے سامنے کے ھاتھ پاؤں کاٹنا،، قتِۜلواتقتیلاً کی عملی صورت ھے،، جس میں کوئی اور خوفناک اور دھشتناک سزا بھی شامل کی جا سکتی تھی،،، اگر آپ فساد فی الارض اور اللہ رسول سے جنگ کی دفعہ نہیں لگائیں گے تو ان میں سے کوئی بھی زنا کی سزا نہیں ھے،، نیز سود کے بارے میں جو فرمایا ھے کہ اعلان جنگ ھے اللہ اور رسول کی طرف سے،،تو المائدہ کی اسی آیت کی دھمکی دی گئی ھے کہ پھر وہ دفعہ” یحاربون اللہ و رسولہ والی لاگو کر دیں گے،، گویا اس ایت کی کوڈیفیکیشن مین سود کو بھی ڈالا جا سکتا ھے،، اور سودی کاروبار کرنے والو نیز،، کرپشن کو بھی عربی میں فساد المالی کہتے ھیں، اس کو بھی اس آیت کے ضمن میں رکھ کر ،ان کو یہ ھاتھ پاؤں کاٹںے والی یا چائنا کی طرح کرینوں سے لٹکایا جا سکتا ھے،،میں دیکھتا ھوں ایک ماہ میں کرپشن، سود ،اور ریپ ختم ھوتا ھے یا نہیں ! کریمینل جرائم کی سزا کے تعین میں سورہ المائدہ کی یہ آیت 33 اور 34 قانون سازی کی ماں ھے،،کاش حدود آرڈی نینس کے لکھنے والے اس پر کما حقہ غور فرما لیتے تو آج اس مخمصے کا شکار نہ ھوتے !

بات یہ ھے کہ گواہ صرف الزام لگانے والوں کا منہ بند کرنے کا ایک ذریعہ ھے،،! اسلامی دور میں یا تو سزا اقرار پر ھوئی ھے یا حمل پر ھوئی ھے،، گواہ اور وہ بھی چار اور جو معیار ھے، ؟ شاید پورے پاکستان میں چار ھی بندے ھوں گے اس اسٹنڈرڈ کے،،کیونکہ لفظ فاسق کے ساتھ گواھی رد کی گئی ھے۔کہ یہ فاسق ھیں ان کی گواھی قبول نہ کی جائے،، اب پہلے تو سارے مولوی کراچی سے خیبر تک اور مکہ سے جکارتہ تک اس پر تو اتفاق کریں کہ فاسق کون ھے،، علمائے دیوبند کے نزدیک چیف جسٹس چوھدری افتخار کی گواھی نا قابلِ قبول ھے،کیونکہ وہ فاسق ھیں ان کی داڑھی نہیں ھے ،،ھو بھی تو مشت سے چھوٹی ھو تو بھی فاسق ھے،،یہ ھی فتوی اھلِ حدیث کا ھے جس کی بیوی بے پردہ ھے ،فاسق ھے، جس کی بیوی کی آواز غیر مرد گھر
سے باھر سنیں وہ فاسق ھے،جو گانا سنتا ھے فاسق ھے،،جو نماز جماعت سے نہیں پڑھتا فاسق ھے،، اب کون دیانتدار بندے ڈھونڈ کر لائے گا کہ بھائی جان ذرا میرے گھر آنا وہ فلاں صاحب میری عزت لوٹیں گے تو اپ ذرا بغور مشاھدہ کرنا کیونکہ کل آپ کو گواھی مین تفصیل بھی بتانی ھے،، عصمت دری میں کسی گواھی کی ضرورت نہیں،،جس طرح بھی جج مطمئن ھو جائے کہ واقعی جرم ھوا ھے،،سزا سنا دے وہ سزا رجم بھی ھو سکتی ھے،، ھاتھ پاؤں کاٹنے کی بھی ھو سکتی ھے،، سولی پر چڑھا کر دو دن لاش لٹکتی بھی چھوڑی جا سکتی ھے،، اس لئے گواھوں کی بحث ریپ کیس میں ایک خلطِ مبحث کے سوا کچھ نہیں اس دھول کے پیچھے ھمارے علماء اس بلنڈر کو چھپانے کی کوشش کرتے ھیں جو حدود آرڈی نینس میں ان سے ھوا ھے،،بہتر یہ ھے کہ اس خامی کو دور کیا جائے،،جب چھوٹی چھوٹی باتوں کے لئے آئین میں ترمیم کی برسات لگی ھوئی ھے تو دین کو بدنامی سے بچانے کے لئے بھی ترمیم کر کے حرابہ میں زنا بالجبر کو بھی شامل کیا جائے ! مگر مجھے یہ بھی پتہ ھے کہ یہ ھو گا نہیں،،کیونکہ اسلام کی بدنامی اور نیک نامی سے علماء کو کچھ لینا دینا نہیں ھے،،ان کا اپنا ڈزنی لینڈ ھے،الگ دنیا ھے،جہاں راوی چین ھی چین لکھتا ھے اور سب کچھ بکتا ھے !

معراج کہاں سے شروع ھوئی ؟

معراج کہاں سے شروع ھوئی ؟

June 7, 2013 at 7:15am

معراج شریف کے سفر کے ابتدائی حصے سے متعلق جو کچھ ھمارے واعظ حضرات کہتے یا اخبارات مین لکھتے ھیں،وہ قرآن اور صحیح احادیث کے 180 ڈگری خلاف ھے، مگر قربان جایئے اس اھلسنت نام کے کہ اس نام کو ڈبل کلک کرتے ھی عقل نام کی چیز سب سے پہلے سو جاتی ھے اور پھر جو زھر  مرضی ھے اسے پلا دو،یہ سبحان اللہ کہہ کر پی جاتا ھے،، اخبارات کے لئے لکھنے والے مولویوں کی پیشہ ورانہ مجبوری ھوتی ھے کہ انہوں نے ھر سال کوئی نیا آئٹم ڈال کے دینا ھے تو مضمون بکنا ھے،، ھر فوت شدہ عالم کچھ زیادہ مقدس ھو جاتا ھے،اور پہلے پیسوں میں ھی اس کا لکھا ھر سال چھاپ دیا جاتا ھے،،ھمارے یہاں سارے قصے اور کہانیاں جو دین کے نام پر چل رھے ھیں وہ زیادہ تر تفسیر ابنِ عباس کے مین گیٹ سے داخل ھوئے ھیں حالانکہ یہ تفسیر کلبی نام کے مؤرخ اور مفسر کی لکھی ھوئی ھے،،مگر ھم ابنِ عباسؓ کا نام سنتے ھی ھپناٹائز ھو جاتے ھیں،جبکہ میرا مشورہ یہ ھے کہ تفسیر ابنِ عباس کا نام آتے ھی ھمیں فوراً الرٹ ھو جانا چاھئے ! قرآن اور بخاری و مسلم اس سفر کو حرم اور حرم کی بھی ایک مخصوص جگہ حطیم سے شروع کرتے ھیں،،مثلاً اللہ پاک کے یہ فرما دینے کے بعد کہ” سبحان الۜذی اسری بعبدہ لیلاً من المسجد الحرام الی المسجد الاقصی ،،( بنی اسرآئیل 1 ) مزید کسی کے کہنے کو کچھ باقی نہیں بچتا مگر ھمارے یہاں ایک قوالوں کا دین بھی پایا جاتا ھے،جو قوالیوں کے ذریعے ڈھول کی تھاپ پر کوٹ کوٹ کر بھرا جاتا ھے،اور عزیز میاں جب اپنے ھارمونیم پرگھٹنوں کے بل کھڑا ھو کر اوپر سے دباتا ھے تو ساری "چینجز سیو "ھو جاتی ھیں ! بخاری اور مسلم دونوں انس بن مالکؓ اور جناب مالکؓ بن صعصعہ کے حوالے سے تکرار کے ساتھ روایت کرتے ھیں کہ”انا فی البیت ” انا فی الحطیم ” اللہ اور رسولﷺکےاقوالکےبعدیہمعاملہطے ھو جانا چاھئے تھا،،اس میں شک قران میں شک ھے اور ایونٹ کی جگہ تبدیل کرنا قرآن میں تبدیلی کرنا ھے،، مگر واعظ حضرات بر سرِ منبر بیان کرتے اور عزیز میاں اچھل اچھل کے گاتا ھے،خوابِ راحت میں تھے امِۜ ھانی کے گھر،، یہ امِ ھانی کون ھیں؟ جن کے گھر جناب نبی کریم ﷺ اپنی چھوٹی چھوٹی بچیاں اکیلی چھوڑ کر رات کو خوابِ راحت کے مزے لے رھے تھے؟؟ یہ جناب ابو طالب کی دختر نیک اختر ھیں،اور جناب حیدر کرار حضرت علیؓ کی ھمشیرہ ھیں جن کا رشتہ نبی کریم نے چچا سے مانگا تھا،مگر چچا نے ٹکا سا جواب دے دیا ،، اور بیٹی کا رشتہ طائف کے سردار اور اپنے ماموں زاد ھبیرہ بن ابی وھب کو دے دیا، جب نبی کریمﷺنےگلہکیاتوچچانےانتہائیتوھین آمیز جواب دیا” بھتیجے ان لوگوں سے تو ھماری قرابتیں پہلے سے ھوتی آئی ھیں،، اور اشراف کا میل تو اشراف کے ساتھ ھی ھوتا ھے اور تُو تو ایک محتاج شخص ھے” (تاریخِ طبری-الاصابہ-طبقاتِ سعد ) تو جناب اس ھبیرہ کو پتہ تھا کہ نبی کریمﷺنےپہلےامھانیؓکارشتہمانگاتھااوریہکہآپﷺامھانیؓ سے محبت کرتے تھے، جذبہ رقابت کے تابع اس نے کبھی نبی کریمﷺکےساتھخیر سگالی کے تعلقات نہیں رکھے، بلکہ ھمیشہ آپ کا جانی دشمن رھا،، اعلانِ نبوت کے بعد نہ صرف وہ مسلمان نہ ھوا بلکہ حضور سے عداوت میں بھی سب سے آگے رھا،، فتح مکہ پر ام ھانؓی تو مسلمان ھو گئیں مگر یہ خبیث شخص بھاگ کر نجران اور پھر شام چلا گیا اور عیسائی ھو کر مرا ! ایک دشمنِ جان کے گھر رات تیسرے پہر اپنی بچیاں اکیلی چھوڑ کر ایک نا محرم عورت کے ساتھ جناب رسالت مآبﷺکیاکررھےتھے؟یہجوابانواعظینکےذمےھے! اب جو مولوی صاحب عقل ھیں اور جانتے ھیں کہ قران نے مسجدِ حرام کا ذکر کیا ھے،وہ پھر فرشتوں کے ذریعے ایک ٹارگیٹیڈ آپریشن کرواتے ھیں،جس میں فرشتے ام ھانی کے گھر کی چھت پھاڑ کر حضورﷺکوبازیابکراتےھیںاورپھرحطیممیںلاتے ھیں،،دروازے سے فرشتے نہیں جا سکتے تھے کیونکہ ان مولویوں سے ھی تعویذ لے کر ھبیرہ نے دروازے کی چوکھٹ میں دبا کر حصار قائم کیا ھوا تھا،لہٰذا فرشتوں کو مجبوراً رینجرز کی طرح چھت پھاڑ کر اندر جانا پڑا،، روایت کہتی ھے کہ ام ھانیؓ نے فرمایا کہ ھم نے نبیﷺکےپیچھےعشاء</sp an>اپنےگھرمیں پڑھی،،،نوٹ فرمایئے ابھی نماز فرض بھی نہیں ھوئی اور ام ھانیؓ نے مسلمان نہ ھونے کے باوجود جماعت کے ساتھ پڑھ لی ؟ اگر ام ھانی مسلمان ھوتی تو قران کے اس حکم کے بعد کہ لا ھنۜ حل لھم،(الممتحنہ) کہ مسلمان عورتیں کفار کے لئے حلال نہیں ھیں،،ھجرت کر کےمدینہ آجاتیں،، مگر وہ اپنے شوھر کے گھر بستی رھی تا آنکہ مکہ فتح ھوا اور شوھر بھاگ کر شام چلا گیا ،، مگر ھمارے راویوں کے صدقے ھر بار نفل ام ھانیؓ کے گھر ھی پڑھواتے ھیں،،معراج کی رات عشاء بھی ام ھانی کے ساتھ،، واپس آ کر فجر بھی ام ھانی کے ساتھ،، رات بھر کی بچیاں اکیلی چھوڑی ھوئی تھیں،،گھر جانے کی بجائے ام ھانی کے گھر ؟ پھر فتح مکہ کے نفل بھی ام ھانی کے گھر،،یہ ام ھانی کا گھر تھا یا اللہ کا گھر؟؟ ادھر قرآن نازل ھو چکا تھا،کہ اے نبی ﷺآپپراپنےچچاؤںاورپھوپھیوں کی صرف وہ ھی بیٹیاں حلال ھیں جنہوں نے تیری خاطر،تیرے ساتھ ھجرت کی ھے،، (الاحزاب 50 ) یوں میرے رب کی غیرت نے ام ھانیؓ کا پتہ ھی کاٹ دیا تھا،،لہٰذا یہ روایت بھی درست نہیں کہ فتح مکہ پر نبی کریمﷺنےدوبارہامھانیؓکوپیغام دیا ،،تو ام ھانی نے کہا کہ اب میں بال بچے دار ھوں،،جب اللہ پاک نے  ھجرت نہ کرنے والی چچا زاد کو حرام قرار دے دیا تھا تو حضورﷺدوبارہکیسےپرپوزکر کے اللہ کی نافرمانی کر سکتے تھے؟ روافض کی داڑھی میں تنکا ھے،اس لئے وہ اس قسم کی جعلی حدیثوں سے ابو طالب پر سے الزام کو صاف کر کے ام ھانیؓ سے کاشانہ نبوت کے قرب کو ظاھر کرنا چاھتے ھیں! جو بچے جناب ابو طالب کے زیرِ اثر رھے وہ ایمان نہیں لائے،، صرف حضرت علیؓ جن کو حضور ﷺنےپالاتھا اور جعفرؓ جن کو حضرت عباسؓ نے پالا تھا ایمان لائے تھے۔،،ام ھانیؓ فتح مکہ تک کافر رھیں،، عقیلؓ قتح مکہ تک کافر رھے،، اور بدر مین نبیﷺکےخلافلڑنے بھی آئے  اور قید ھوئے،نبیﷺنےانکیفدیہبھیحضرتعباسؓسےوصولکیا اور ان کو رھا کیا،، ابو طالب کا اصلی نام عبد مناف تھا ،جس بیٹے طالب کے نام پر کنیت ابو طالب رکھی گئی وہ بھی بدر میں لڑنے آیا تھا اور ابو جہل کے ساتھ ھی مارا گیا،، عقیل نے نبی کریمﷺکےمکانوںسمیتتمامجائدادپرقبضہ کر لیا تھا،،اور فتح مکہ پر اتنی مروت بھی نہ دکھائی کہ جھوٹے منہ ھی سہی،نبی ﷺکواپنےگھرچلنےکیدعوتدیھو،،بلکہنبیکریمکومکہمیںٹینٹ لگانا پڑا ،،اور جب صحابہؓ نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسولﷺآپاپنےگھر نہیں چلیں گے،،تو آپ ﷺنےنہایتافسردگیسےجوابدیا،” عقیلؓنےھماراکوئیگھر چھوڑا بھی ھے؟ یعنی نہ صرف حضرت خدیجؓہ والے مکان پر قبضہ کر لیا تھا،بلکہ نبی ﷺکےذاتیگھرپرجوکہاپکےوالدکیجائدادمیںسےتھاقبضہ کر لیا تھا،، یہ جنابِ عقیلؓ امیر معاویہؓ کے ساتھ دربار مین بیٹھا کرتے تھے اور جناب معاویہؓ ان کا تعارف کچھ اس طرح کرایا کرتے تھے کہ اگر میں ناحق ھوتا تو کیا علیؓ کا بھائی میرے ساتھ ھوتا؟ ادھر حضرت علیؓ حالتِ جنگ میں تھے،جب اپنے بھائی سے آپ نے گلہ کیا،تو حضرت عقیلؓ بن ابو طالب نے جواب دیا ” اپ میرے دین کے لئے بہتر ھیں اور معاویہؓ میری دنیا کے لئے بہتر ھیں،یہ ان عقیلؓ کے بیٹے مسلم بن عقیل تھے جن کو جناب حضرت حسینؓ نے کوفہ بھیجا تھا اور وہ وھاں مظلومانہ شہید کر دیئے گئے، مگر جاتے جاتے یہ پیغام بھیج گئے کہ آپ واپس چلے جائیں،،کوفہ والوں کے دل اپ کے ساتھ مگر تلوار ابنِ زیاد کے ساتھ ھے،، حضرت حسینؓ واپس جانا چاھتے تھے مگر مسلم بن عقیل کے بیٹوں نے پلٹنے نہ دیا کہ ھمارا باپ مروا کر اب اپ واپس نہیں جا سکتے، اب اپ کو بھی وھیں جانا ھو گا جہاں ھمارے والد گئے ھیں،، یہ ھے وہ بات جو مقتد
ی الصدر نے چند دن پہلے نجف میں کانفرنس سے خطاب کرتے ھوئے تسلیم کی تھی کہ امام حسینؓ کو تو شیعانِ علی مجبور کر کے کربلا لائے تھے اور شہید کروا دیا تھا !

سید کون ھیں ؟

سید کون ھیں ؟

June 13, 2013 at 5:55am

حضرت علیؓ کی حضرت فاطمہؓ سمیت 9 بیویاں تھیں، یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ھے ! اس کے علاوہ ان کی متعدد لونڈیاں بھی تھیں ،ان بیویوں اور لونڈیوں سے جناب شیرِ خدا کے 14 بیٹے اور 17 بیٹیاں تھیں! 1- لیلی بنت مسعود تمیمی ٓ ان سے عبیداللہ اور ابوبکر پیدا ھوئے ! 2-ام البنین بنت حزام – اان سے عباس-جعفر-عبداللہ-عثمان پیدا ھوئے ! 3-اسماء بنت عمیس — ان سے یحی -محمد اصغر پیدا ھوئے ! 4 صہباء بنت ربیعہ – ان سے عمر اور رقیہ پیدا ھوئے ! 5-امامہ بنت ابی العاص -( یہ حضرت زیبنب بنت رسول اللہ کی بیٹی تھیں) ان سے محمد اوسط پیدا ھوئے ! 6- خولہ بنت جعفرحنفیہ – ان سے محمد بن حنفیہ پیدا ھوئے ! 7- ام سعید بنت عروہ- ان سے ام الحسن- رملہ الکبری پیدا ھوئیں ! 8-محیاہ بنت امرا القیس – ان سے ایک بیٹی پیدا ھوئی جو بچپن میں ھی فوت ھوگئی! لونڈیوں میں سے جو اولاد ھوئی وہ کچھ اس طرح ھے ! 1 ام ھانی 2-میمونہ 3-زینب الصغری 4-رملہ الصغری 5-ام کلثوم صغری 6- فاطمہ 7- امامہ 8- خدیجہ 9-ام الکرام 10- ام سلمہ 11- ام جعفر 12 جمانہ 13- نفیسہ ! ! سوال یہ ھے کہ ابوبکر، عمر ،عثمان نام رکھنا یہ بتاتا ھے کہ ان لوگوں مٰں اپس میں کوئی عداوت نہ تھی،، شیعہ یہ نام کیوں نہیں رکھتے ؟ دوسرا سوال یہ ھے کہ نبیﷺ کی نسل اگر بیٹی سے چلی ھے تو سب بیٹیوں سے چلنی چاھئے تھی؟ تیسرا سوال یہ ھے کہ اگر حضرت علی سے پیدا ھونے والے سید ھیں تو پھر یہ ساری اولادیں اور ان کی نسلیں سید ھونی چاھییں تھیں،،پھر لوگ سید کے نام سے صرف حضرت فاطمہؓ اور علیؓ سے پیدا ھونے والے بچوں کی نسل کو ھی کیوں سمجھتے ھیں،، ؟ نتیجہ یہ ھے کہ سید کے ٹائٹل کے لئے یہ سارے آپس میں صدیوں سے لڑتے آئے ھیں،، اور بنو عباس نے جو مظالم آلِ علیؓ پر کیئے ان کے پیچھے بھی سیادت کی جنگ تھی ! فاطمی بار بار سیادت کا دعوی لے کر اٹھتے اور سختی کے ساتھ کچل دیئے جاتے ! جب یہ ھی طے نہ ھو سکا کہ سید کون ھیں تو زکوۃ اور صدقات کا کیسے طے ھو گا کہ کس کس پر حرام ھیں،، اس کا ایک ھی مصدقہ پیمانہ ھے،،جن جن کو خیبر کی جاگیر سے سالانہ کی بنیاد پر خرچ ملتا تھا جس کی وجہ سے ان کو زکوۃ کی ممانعت کر دی گئی تھی ،، وہ سارے سید ھیں ! ( ڈھونڈ ان کو اب چراغِ رُخِ زیبا لے کر )