آخر کفر کی اتنی سخت سزا کیوں !
June 4, 2013 at 10:37pm
سوال: ہمارا عقیدہ ہے کہ اگر ایمان کی حالت میں موت آ جائے تو صحیح ہے، ورنہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم ہے۔ جبکہ انسان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اتناروایت پسندہے کہ اگر عیسائی کے ہاں پیدا ہوتا ہے تو ساری عمر عیسائی ہی رہتا ہے، اور اگر ہندو کے ہاں پیدا ہوتا ہے تو ساری عمر ہندو ہی رہتا ہے اور کسی دوسرے کے ایمان و عقیدے کی طرف نہیں دیکھتا۔ جب انسان اتنا روایت پسند ہے تو پھر اتنی سخت سزا کیوں رکھی گئی ہے کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں جائے گا؟ جواب: آخرت میں جس بنیاد پر مواخذہ ہو گا وہ یہ ہے کہ ایک مسیحی ، ہندو یا مسلمان جس چیز پر اپنی زندگی بسر کر رہا تھا جو اس نے اپنے والدین سے پائی تھی تو کسی خاص موقع پر اس کی عقل یا اس کے علم نے اس کے سامنے ایک سوال رکھ دیا تو اس نے اس موقع پر کیا رد عمل ظاہر کیا؟اسی طرح سے اگر کوئی دعوت یا کوئی پیغام ،کوئی نئی بات اس تک پہنچی، دین اور مذہب کے بارے میں کوئی حقیقت اس کے سامنے آئی تو اس نے کیا رد عمل ظاہر کیا؟ یہ ہے وہ بنیاد جس پر اللہ تعالیٰ مواخذہ کریں گے۔قرآ ن نے بڑے مذاہب کا نام لے کر یہ اعلان کر دیا ہے کہ اگر لوگوں کا اللہ پر سچا ایمان ہے، وہ قیامت کی جواب دہی کے احساس کے ساتھ جی رہے ہیں اور اچھا عمل کر رہے ہیں تو اللہ کے لیے ان کے ہاں نجات کی ضمانت ہے بشرطیکہ انھوں نے کسی بڑے جرم کا ارتکاب نہ کیا ہو ۔جس طرح قتل ایک بڑا جرم ہے، بدکاری کو زندگی کا وطیرہ بنا لینا ایک بڑا جرم ہے۔ اسی طرح ایک بہت بڑا جرم یہ ہے کہ ایک پیغمبر کے بارے میں جب آپ پر واضح ہو گیا کہ وہ خدا کا سچا پیغمبر ہے اور آپ نے اسے ماننے سے انکار کر دیا۔یعنی جب آپ پر یہ بات واضح ہو گئی کہ مسیح علیہ السلام خدا کے سچے پیغمبر ہیں، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے سچے پیغمبر ہیں، پھر بھی آپ نے جانتے بوجھتے ، ضد کی وجہ سے ان کو ماننے سے انکار کر دیا تو تب آپ مواخذے میں آئیں گے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ دنیا کے تمام لوگوں سے جتنی حقیقت ان تک پہنچی ہے، اس کی بنیاد پر مواخذہ (جواب دہی)کریں گے۔اس کو قرآن اس طرح بیان کرتا ہے کہ جس کو جتنا علم ملا ہے، اس کی بنیاد پر خدا اس سے پوچھے گا۔
یہ سوال اور اس پر غامدی صاحب کا جواب ملاحظہ فرما لیجئے،یہ ایسا جواب ھے جس سے ملحد بھی شادکام ھو سکتا ھے اور مومن بھی خوش گمان ! حالانکہ غامدی صاحب پنجابی ھیں مگر ان میں پنجابیوں کی سی دو ٹوک بات کرنا ناپید ھے، لکھنؤ والوں کی طرح اتنے اگر مگر لگا دیتے ھیں کہ ھر ذھن کا بندہ یہ گمان کرتا ھے کہ یہ میرے موقف کی تائید کر رھے ھیں،، عقیدے میں کوئی اگر مگر اللہ نے نہیں لگائے اور نہ ھی عقیدے کے معاملے کو مبہم چھوڑ کر سلسلہ نبوت کو ختم کیا ھے،،قرآن اور اسلام میں اگر کوئی چیز روزِ روشن کی طرح واضح ھے تو وہ عقیدہ ھی ھے، جس کے بارے میں نبی کریمﷺ کا ارشاد
گرامی ھے کہ اس کی راتیں بھی اتنی ھی روشن ھیں جتنا دن روشن ھوتا ھے،، دوسرا مسئلہ جو غامدی صاحب کو درپیش ھے وہ ان کا حافظِ قرآن نہ ھونا ھے،،اگر وہ حافظِ قرآن ھوتے اور پورا قرآن ان کے سامنے کھلا ھوتا تو کسی ایک آدھ آیت پر اپنے موقف کی عمارت تعمیر نہ کرتے !
جیسا کہ میں عرض کر چکا ھوں کہ قران میں عبادات تو بالکل واضح نہیں ھیں اور ان کی تفصیل نبی ﷺ کے حوالے کر دی گئی ھے،،مگر عقیدے کے ھر اس پہلو کو بڑی تفصیل سے واضح کیا گیا ھے جہاں قیامت تک کوئی ٹھوکر کھا سکتا تھا،، انسان کے روایت پسند ھونے کی بھی بات بھی ایک لطیفے سے کم نہیں،، اگر انسان روایت پسند ھوتا اور اپنے عقل کو استعمال نہ کر سکنے والا ھوتا تو،،پھر قومیں پیشوں کی بنیاد پر بنا کرتیں،،ایک نائی کی ساری نسلیں قیامت تک نائیوں کا کام ھی کرتی رھتیں اور ایک موچی کی نسلیں ساری زندگی موچی،، کسان کا بیٹا کبھی پروفیسر نہ بنتا اور نہ بزنس مین کا بیٹا ڈاکٹر ،، آخر یہ کیا ھے کہ باپ کی کچے گارے کی کٹیا تھی اور روایت پسند بیٹا کروڑوں کی کوٹھی بنا کر گھاس بھی اٹلی سے منگوا کر لگا بیٹھا ھے،دنیاوی معاملات میں وہ معصوم روایت پسندی کہاں چلی جاتی ھے،جس کا سہارا لے کر ایمان سے جان چھڑائی جا رھی ھے،، ؟؟ اصل حقیقت یہ ھے کہ انسان دین کو کوئی خاص اھمیت نہیں دیتے، کیونکہ اس سے کسی کا بگڑتا کچھ نہیں ھے،،ایک ھندو یہ دیکھتا ھے کہ اگر مسلمان ھو کر بھی شراب پینی ھے، ناپ تول میں کمی بیشی کرنی ھے،لین دین میں بے ایمانی کرنی ھے تو پھر عقیدہ بدل کر نئی ٹینشن کون پالے،،اخر مسلمان ،مسلم ھو کر بھی کرپٹ ممالک میں ٹاپ پر آتے ھیں تو جو ھو رھا ھے وہ ھوتا جائے،، جوں جوں انسان کی مصروفیات گوناں گوں ھوتی جارھی ھیں،،اللہ پاک نے علم کے ذرائع بھی اتنے ھی زیادہ کر دئیے ھیں،، آپ اپنے پسندیدہ مولوی کو سننے کے لئے لنک پر جاتے ھیں مگر اسی لنگ پر ٹیگ کیئے گئے آپ کے مخالف مولوی اور عقیدے کے لوگ بھی ڈسپلے ھو جاتے ھیں،، آپ موت یا زندگی، یا قیامت کچھ بھی ٹائپ کر دیکھیں،، سب مزاھب کا نقطہ نظر آ جاتا ھے،،لہٰذا یہ کوئی دلیل نہیں ھے کہ کسی کو پتہ ھی نہیں چلا کہ اسلام کیا ھے ! رہ گئے وہ علاقے جہاں کوئی ذریعہ ھی نہیں تعلیم کا جیسے افریقہ کے جنگل ،،تو ان کا معاملہ ان کے ضمیر کے مطابق ھو جائے گا،،یہ سوال کرنے والے کا اپنا پرابلم نہیں ھے،،ڈاکٹر بھی حقیقی مریض کو انٹرٹین کرتا ھے نہ کہ خیالی مریض کو !!
ایمان اور آخرت !
سوال یہ اٹھایا گیا ھے کہ جناب بندہ گناہ تو کرے ساٹھ ،ستر، سال اور جہنم میں جلے اربوں کھربوں سال؟ انسان نیکی تو کرے ساٹھ ، سترسال مگر جنت میں رھے اربوں کھربوں سال؟ جواب کچھ اسطرح سے ھے کہ مومن جنت کا شہری ھے،اپنے ایمان اور نیت کی بدولت ،، اور کافر جہنم کا شہری ھے اپنی بے ایمانی اور نیت کی بدولت،، کافر کے اعمال چاھے وہ نیک ھوں یا بد وہ تو زیرِ بحث ھی نہیں آئیں گے،اولٰئک الذین کفروا بآیاتِ ربھم و لقائہ فحبطت اعمالھم ،فلا تقیم لھم یوم القیامۃ وزناً( الکہف105 ) گویا کافر اپنے اعمال کی بدولت جہنم میں نہیں جائے گا کیونکہ وہ تو تولے ھی نہیں جائیں گے،انکی تو ڈائریکٹ فلائٹ ھو گی،لہٰذا یہ سوال کہ گناہ ساٹھ سال کرے اور جہنم میں اتنا عرصہ رھے،،چونکہ اس کی نیت سدا کافر رھنے کی اس لئے اپنی نیت کے عوض سدا جہنم میں رھے گا اور مومن کی نیت چونکہ ھمیشہ مومن رھنے کی تھی لہٰذا اپنی نیت کی بدولت سدا جنت میں رھے گا،،، اصلا ً وہ اپنے عمل کی وجہ سے جنت کا باسی نہیں ھے بلکہ نیت اور ایمانن کی وجہ سے ھے،،عمل میں کمی بیشی جنت کے درجات میں کمی بیشی کا سبب ھو گی،،جسطرح دنیا بھر میں کوئی بھی پاکستان جب سزا کاٹ کر ڈی پورٹ کیا جاتا ھے تو پاکستان ھی ڈی پورٹ کیا جاتا ھے،،اسی طرح مومن جہنم سے سزا کاٹ کر جب بھی ڈی پورٹ ھو گا ، جنت کو ھی ڈی پورٹ کیا جائے گا کیونکہ وہ ایمان کی بدولت جنت کا شہری ھے،،یہ مضمون قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر آیا ھے،، من کان یرید الحیوۃ الدنیا نؤتہ منھا وما لہ فی الاخرۃ من نصیب (شوری 20 )من کان یرید العاجلۃ عجلنا لہ ما نشاء لمن نرید ثمہ جعلنا لہ جھنم،(،الاسراء 18) و من اراد الاخرۃ و سعی لھا سعیھا ” و ھو مومن” فاولئک کان سعیھم مشکورا ( الاسراء 19 ) نیز سورہ آل عمران آیات 21،22،77، 91) اور قرآن میں واضح طور پر بتا دیا گیا ھے کہ ان لوگوں سے زمین کے برابر یا اس جتنا اورسونا بھی اگر پیش کریں گے تو سونا وہ سونا ان کے کفر کے عوض قبول نہیں کیا جائے گا،،
ایمان اور بے عملی
اصولاً تو ایک مسلمان کو اپنے ایمان کے مطابق اعمال کرنے چاھئیں ،مگر عملاً ھم دیکھتے ھیں کہ ایسا عموماً ھوتا نہیں ھے، اور یہ ایک فطری بات ھے،کسی بھی محکمے کے ملازموں کو وھاں 100٪ ذمہ داری اور دیانت داری سے کام کرنا چاھئے مگر یہ کسی محمکمے مین بھی ھوتا نہیں ھے،،مگر ھر محکمے نے اپنے کچھ اصول و ضوابط بنا رکھے ھیں کہ یہاں تک تو قابلِ برداشت ھے،مگر اس سے آگے بڑھا تو فارغ کر دیا جائے گا،، اگر آپ کی سم رجسٹرڈ ھے تو بعض دفعہ بیلنس ختم ھو جانے سے،سہولت تو واپس لے لی جاتی ھے ،مگر اپکی رجسٹریشن برقرار رھتی ھے، اور ری چارج پر واپس مل جاتی ھے،یہ اس شخص سے مختلف حالت ھے،جس کی سم رجسٹرڈ ھی نہیں ھے،، آپ کوتاھی پر محکمانہ سرزنش ھوتی ھے، معطلی بھی ھو جاتی ھے مگر برخواستگی نہیں ھوتی،، اگر آپ کے پاس ڈرائیونگ لائسنس ھے تو آپ سے غلطیاں بھی ھوتی ھیں اور آپ کو چالان بھی بھرنے پڑتے ھیں،مگر اس سے آپ کے لائسنس یافتہ ھونے کی سہولت واپس نہیں لی جاتی،،یہانتک کہ اگر آپ سے حادثے میں انسان مر بھی جائے تب بھی نہ تو آپ پر قتل کا مقدمہ بنتا ھے اور نہ ھی لائسنس ضبط ھوتا ھے، اور ایک شخص جس کے پاس ڈرائیونگ لائسنس نہیں ھے ،اگر اس سے بندہ مر جاتا ھے،،تو اگرچہ غلطی اس مرنے والے کی ھو، قتل کا مقدمہ بے لائسنس ڈرائیور پر ھی بنتا ھے ،،اس لئے مومن کے گناھوں کا تقابل غیر مسلم کے گناھوں سے بھی نہیں کیا جا سکتا،، یہ ھے وہ بات جو ھم نماز جنازہ میں کہتے ھیں، و من توفیتہ منا فتوفہ علی الایمان،،ایمان پر وفات ھو گئی تو چالان بھی بھرے جا سکتے ھیں اور معافی کی درخواست پر غور کی بھی سہولت ھے ! جبکہ کفر کی حالت میں مرنے پر کوئی نیکی زیرِ بحث ھی نہیں آئے گی !باقی رہ گیا مسئلہ کہ کتنے فیصد مسلمانوں نے یہودیت یا عیسائیت کا مطالعہ کیا ھے ،،تو مسلمان کو کبھی وہ سوال درپیش ھی نہیں آیا جس کا جواب اس کے اپنے مذھب نے نہ دیا ھو،اور اسے کسی اور مذھب کی کتابوں کو اسٹڈی کرنا پڑے،، اپنے گھر دودھ والی بھینس باندھ کر دودھ لینے دکان پر کوئی پاگل ھی جائے گا،،اگر آپ ایک کتاب” ھم مسلمان کیوں ھوئے ” پڑھ لیں تو آپ کو سمجھ لگ جائے گی کہ کیسے کیسے تعلیم یافتہ انسانوں کو کس کس قسم کے سوالات نے پریشان کر رکھا ھے،، یہ وہ سوال ھیں جو کبھی ھمارے بکریں چرانے والے کو بھی پریشان نہیں کرتے،، اللہ پاک قرآن میں سوال کرتے ھیں،، فماذا بعد الحقِ الا الضلال؟ آخر حق کو پالینے کے بعد کسی کی جستجو اسے سوائے گمراھی کے اور کس منزل تک پہنچا سکتی ھے؟ جو بندہ پنڈی پہنچ کر بھی پنڈی کی تلاش میں سفر جاری رکھے ،اسے کبھی پنڈی نہیں مل سکتی ،یہ بات بھی ان مغالطوں میں شامل ھے جو محترم غامدی صاحب کو لگے ھیں،، قران کی موجودگی میں عقیدے کے معاملے میں رسول کی موجودگی اور عدم موجودگی کوئی اھمیت نہیں رکھتی کیونکہ عقیدہ نبیﷺ نے نہیں دیا،،بلکہ نبیﷺ کو بھی عقیدہ قرآن نے دیا ھے( الشوری 52 ) البتہ قوموں کی عذاب میں ھلاکت رسول کی عدم موجودگی کی وجہ سے نہیں ھوتی !- —