قاری حنیف ڈار کا مسئلہ کیا ہے؟ نامی ایک تحریر پر ردعمل
ہماری ایک مسخ شدہ سوچ ہے جو ہمارا ایمان بن چکی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے یعنی صرف مسلمانوں کے رسول اور ہماری ملکیت اور پرسنل پراپرٹی ہیں،جن کے بارے میں ہم جو چاہیں لکھیں جیسا چاہیں لکھیں کسی اور فرد یا گروہ کو اس بارے میں کچھ بھی سوچنے یا کہنے کا حق نہیں , یہ سوچ عوام کی نہیں بلکہ بڑے بڑے مفتی جفتی، علماء اور مشائخِ۔محدثین اور شارحین و مفسرین کی بھی ہے۔ جبکہ یہ اس کائنات کا سب سےبڑا جھوٹ اور قرآن کے خلاف عقیدہ ہے۔
قرآن بار بار یہ اعلان کرتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کراتا ہے کہ اے نوع انسانیت میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول۔
قل یا ایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا۔
وما ارسلناک الا کآفۃ للناس بشیرا و نذیرا۔
یا ایھا الناس قد جاءکم رسولنا ۔۔
یہ سب قرآن کے اعلانات ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تمام انسانیت کی امانت ہیں، ہمیں اس امانت کو اسی طرح صاف ستھرا اس دنیا کے آخری پیدا ہوئے والے انسان تک پہنچانا ہے، جیسا کہ قرآن نے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی کو بطور معجزہ انسانوں کے سامنے پیش کیا ہے۔
ہمیں کوئی حق نہیں کہ ہم اس امانت کو اپنی ملکیت سمجھ کر جو ہمارے جی میں آئے ان کے بارے میں کہتے اور لکھنے پھریں اور لوگوں کے لئے ناقابل قبول شخصیت بنا کر رکھ دیں۔ یہاںتک کہ لوگ ہمارے لکھنے کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نفرت کرنا شروع کر دیں یا آپ کا مذاق اڑانا شروع کر دیں۔ قرآن صرف مسلمانوں کی ملکیت نہیں بلکہ ساری انسانیت کی طرف اللہ کا آخری پیغام اور انسانوں سے اللہ کا آخری خطاب ہے۔ مسلمانوں کے لئے مناسک اور عبادات اور اس سماجی معاملات کے بارے میں چار یا ساڑھے چار سو آیات ہیں۔ چھ ھزار دو سو چھتیس آیات میں سے باقی سب تمام انسانوں سے اللہ کا خطاب ہے,،انہی کے سوالوں کے جوابات ہیں انہی کو دعوت ہے۔انہی کو دلاسہ ہے اور انہی کے لئے ھدایت ہے۔ ہم کسی بھی انسان کو قرآن کو چھونے اور پڑھنے سے نہیں روک سکتے اور اگر روکا تو ان کے کفر و شرک کا سارا وبال مسلمانوں کے سر ہو گا جو اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان رکاوٹ بن گئے۔ لوگوں کو قرآن پڑھنے دیں وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی سیرت اس کتاب سے پا لیں گے۔ آج تک جو بھی مسلمان ہوا ہے وہ اس قرآن کو پڑھ کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لایا ہے۔ یہ میرا مشن ہے۔اور اس راہ میں میری جان بھی چلی جائے تو میں اس کو اللہ کا فضل اور احسان سمجھوں گا۔۔باقی یہ بات کہ بعد والے پچھلوں پر تنقید کریں تو زلزلے آئیں گے اور لوگ زمین میں دھنس جائیں گے اور ان کی صورتیں بگڑ جائیں گی تو شاید پہلؤں کی داڑھی میں تنکا ہو گا جس کی وجہ سے ان کے ضمیر میں خلش ہو گی کہ بعد والے ہمارا پنکچر پکڑ لیں گے۔ امام مالک امام شافعی کے پچھلے تھے اور امام شافعی امام احمد کے پچھلے تھے۔ امام ابوحنیفہ۔ امام محمد اور امام یوسف کے پچھلے تھے، ہم بھی آنے والوں کے پچھلے ہونگے،ہمیں بھی یہ روایتی تحفظ دستیاب ہو جائے گا۔ہمارے بارے میں بھی شکایت کرنے والوں پر زلزلے آئیں گے۔