قرآن کی سات قراتیں !

قرآن کی سات قراتیں !
عقل کی بتیاں گُل کر کے پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں ،، پہلے ذرا عقل کو لائٹ ھاؤس بنایئے ،، ایک معاملہ ھے جس میں اللہ پاک ، اس کا آخری رسول ﷺ روح القدس اور میکائیل شریک ھیں ،، اللہ کے رسولﷺ بار بار ضد کر رھے ھیں اور فریاد کر رھے ھیں کہ ان کی امت کی سہولت کے لئے قرآن کو سات حروف میں پڑھنے کی اجازت دی جائے ،یوں قرآن سات حروف پر اتارا گیا ، یعنی نازل کیا گیا ،،،،،،،، ابھی چند سال نہیں گزرے تھے کہ امت کی یہ آسانی امت کے گلے پڑ گئ اور وہ ایک دوسرے کا کافر کہنا شروع ھو گئے کیونکہ جو بھی دوسرے کو مخالف الفاظ میں قران پڑھتے سنتا وہ اس کو کافر قرار دے دیتا ، آخر کار خلفاء راشدین کو امت کے گلے سے یہ آسانی کی تختی نکال کر پھنکنی پڑ گئ ،، اور ڈنڈے کے زور پر لوگوں کو ایک قرأت پر مجبور کیا گیا ،،،،،،،،،،
1- کہاں گئ وہ نبی ﷺ کی نبوی بصیرت ؟
2- کہاں گئ اللہ پاک کی مستقبل بینی اور علام الغیوبی ؟ کیا وھی اپنے نبی ﷺ کو ان کی ضد کے مضمرات سے آگاہ نہیں کر سکا ؟
3- کیا صحابہؓ ،، اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے زیادہ صاحبِ بصیرت نہیں نکلے ؟
4- اگر قرآن سات حرفوں پہ نازل ھوا تھا اور اللہ نے قرآن کی سات حرفوں سمیت حفاظت کا ذمہ لیا تھا ،، تو کیا خلفاء راشدین قرآن کو منسوخ کرنے کا اختیار رکھتے تھے ؟
یقین جانیں یہ اللہ پر بھی تبرا ھے ،، نبی ﷺ پر بھی تبرا ھے ،، خلفاء راشدین پر بھی تبرا ھے ،،
اگر یہ آسانی تھی تو اب پھر خلفاء کے بعد پوری دنیا میں پھیل جانے والی امت اس آسانی کی زیادہ محتاج تھی کیونکہ صحابہ تو پھر بھی قبائل میں الگ تھے ، زبان تو ان کی عربی تھی ،، پنجابیوں ، پٹھانوں ، مالا باریوں ، بنگالیوں ، چینیوں ، ترکمانیوں ، جاپانیوں اور فرانسیسیوں کا زیادہ حق بنتا تھا کہ ان کو ان کے لہجے میں قرآن پڑھنے دیا جاتا ،،مگر افسوس خلفاء نے چھ کی چھ قرأتیں منسوخ کر کے ،، اللہ ، رسول ﷺ اور جبرائیل و میکائیل کی ساری محنت پہ پانی پھیر دیا ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
یہ تو اظہار کیا جاتا ھے کہ امت کا سات قرأتوں پر اجماع ھے ،،،
مگر جس چیز پر اجماع ھے نہ تو وہ چیز آج تک دنیا مین وجود رکھتی ھے ، اور نہ کسی زمانے میں بھی دکھائ جا سکی کہ آخر وہ کونسے سات حرف ھیں جن کی وجہ سے عمر فاروقؓ بھی اپنے ھم قبیلہ قریشی مکی شخص کو گلے سے پکڑ کر گھسیٹتے ھوئے نبیﷺ کے پاس لائے تھے ،، قرآن کی قرآنیت کو مشکوک کرنے کی اس سے بھونڈی جسارت کوئی نہیں ھو سکتی ،، جب سات حروف کی آسانی نے حضور ﷺ کی موجودگی میں انڈے بچے دینے شروع کر دیئے تھے ، عمرؓ کے دل میں بھی کفر پیدا ھو گیا اور ابئ ابن کعبؓ کے دل میں بھی زمانہ کفر سے بھی بدتر تکذیب پیدا ھو گئ ،،، تو کیا نبی ﷺ ھی اس آسانی کو واپس نہیں لے سکتے تھے ؟ اور کیا نبی ﷺ کی بصیرت ھی اس کا ادراک نہ کر سکی کہ ھر صحابی کو الگ الگ قسم کا قرآن جو وہ پڑھا رھے ھیں وہ کیا قیامت ڈھا رھا ھے ؟
جب حضور ﷺ نے آخری سال جبرئیل کے ساتھ قرآن کا دورہ فرمایا تھا تو کیا سات حرفوں پر 14 بار دورہ فرمایا تھا ،، یا بس ایک ھی قرأت پر دو دفعہ دور فرمایا تھا ؟
کیا قرآن سات حروف پر نازل ہوا؟
) روایات کے کمزور پہلو
) روایات میں تضاد
) سات حروف کی تاویل و توجیہ
) قریب المعنی الفاظ
) سات ابواب
) سات ابواب کا ایک اور معنی
) فصیح لغات
) قبیلہ مضر کی لغت
) قرأتوں میں اختلاف
) اختلاف قرأت کا ایک اور معنی
) اکائیوں کی کثرت
) سات قرأتیں
) مختلف لہجے
اہل سنت کی روایات بتاتی ہیں کہ قرآن سات حروف میں نازل کیا گیا ہے۔ بہتر ہے کہ پہلے ان روایات کو بیان کیا جائے اور پھر ان کے بارے میں اپنی تحقیق پیش کی جائے۔
١۔ طبری نے یونس اور ابی کریب سے انہوں نے ابی شہاب سے اور اس نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ رسول خدا(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا:
قال: ”أقرأنی جبرئیل علی حرف فراجعتہ، فلم أزل أستزیدہ فیزیدنی حتی انتھی الی سبعۃ أحرف،،
”مجھے جبرئیل نے ایک حرف میں پڑھایا۔ میں نے دوبارہ جبرئیل کی طرف رجوع کیا اور یہ سلسلہ سات حروف تک منتہی ہوا۔،،
اس روایت کومسلم نے حرملہ سے، حرملہ نے ابن وھب سے اور اس نے یونس سے نقل کیا ہے۔(١) بخاری نے دوسری سند سے یہ روایت بیان کی ہے اور اس کا مضمون ابن برقی اور ابن عباس کے ذریعے نقل کیا ہے۔(٢)
٢۔ ابی کریب نے عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ کی سند سے اس نے اپنے جد کی سند سے اور اس نے ابی ابن کعب کی سند سے روایت کی ہے۔ ابیّ کہتا ہے:
”کنت فی المسجد فدخل رجل یصلی فقرأ قراء ۃ أنکرتھا علیہ، ثم دخل رجل آخر فقرأ قراء ۃ غیر قراء ۃ صاحبہ، فدخلنا جمیعاً علی رسول اللہ قال: فقلت یا رسول اللہ ان ھذا قرأ قراء ۃ أنکرتھا علیہ، ثم دخل ھذا فقرأ قراء ۃ غیر قراء ۃ صاحبہ، فامرھما
”میں مسجد رسول میں بیٹھا ہوا تھا، اتنے میں ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا اور اس نے نماز پڑھنی شروع کی۔ اس نے ایک ایسی قرأت پڑھی جسے میں نہ جانتا تھا۔ اس اثنا میں دوسرا آدمی مسجد میں داخل ہوا اور اس نے ایک اور قرأت سے نماز شروع کی۔ پھر جب ہم سب نماز
———————————————————-
١) صحیح مسلم باب ان القرآن انزل علی سبعۃ أحرف، ج ٢، ص ٢٠٢، طبع محمد علی صبیح، مصر۔
٢) صحیح البخاری باب انزل القرآن علی سبعۃ أحرف،ج ٢، ص ١٠٠، مطبع عامرہ۔
رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) فقرأ ، فحسن رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) شأھما، فوقع فی نفسی من التکذیب، ولا اذ کنت فی الجاھلیۃ فلما رأی رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ما غشینی ضرب صدری، ففضت عرقا کأنما أنظر الی اللہ فرقا فقال لی: یاأبی أرسل الی ان اقرأ القرآن علی حرف، فرددت علیہ أن ھون علی أمتی، فرد علی فی الثانیۃ أن اقرأ القرآن علی حرف فرددت علیہ أن ھون علی أمتی، فرد علی فی الثالثۃ أن اقرأہ علی سبعۃ أحرف، و لک بکل ردۃ رددتھا مسألۃ تسألنیھا، فقلت: اللھم اغفر لأمتی۔ اللھم اغفر لأمتی، و اخرت الثالثہ لیوم یرغب فیہ الی الخلق کلھم حتی ابراھیم علیہ السلام،،؎
پڑھ چکے تو رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ میں نے آپ کی خدمت میں عرض کی کہ اس شخص نے ایسی قرأت سے نمام پڑھی کہ مجھے تعجب ہوا اور دوسرا آیا تو اس نے اس کے علاوہ ایک اور قرأت پڑھی۔ آپ نے ان دونوں کو دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم دیا۔ ان دونوں نے اسی طرح نماز پڑھی جس طرح پہلے پڑھی تھی، آپ نے دونوں کی نماز کو سراہا، اس سے میرے دل میں تکذیب آئی – ایسی تکذیب کہ جیسی زمانہ جاہلیت میں بھی نہیں تھی۔ جب رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے میری یہ کیفیت دیکھی تو میرے سینے پر ہاتھ مارا جس سے میں شرم کے مارے پسینہ سے شرابور ہوگیا اور یوں لگا جیسے میں اللہ کو دیکھ رہا ہوں۔ اس کے بعد پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا: اے اُبیّ! مجھے یہ حکم دیا گیا کہ قرآن کو ایک حرف میں پڑھوں۔ میں نے خالق کے دربار میں درخواست کی کہ میری امت پر اس فریضہ کو آسان فرما مجھے دوبارہ یہی حکم ملا کہ قرآن کو ایک حرف میں پڑھوں۔ میں نے پھر وہی درخواست دہرائی۔ اس دفعہ مجھے حکم دیا گیا کہ میری ہر دعا، جو قبول نہیں ہوئی، کے عوض ایک دعا قبول کی جائے گی۔ اس پر میں نے یہ دعا مانگی: پالنے والے! میری امت کو بخش دے۔ پالنے والے! میری اُمّت کو بخش دے اور تیسری دعا کو اس دن کے لیے محفوظ رکھا ہے جس دن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تک میری دعا کے محتاج ہوں گے۔،،
اس روایت کو مُسلم نے بھی معمولی اختلاف کے ساتھ بیان کیا ہے۔(١) طبری نے بھی ایک اور سند سے معمولی اختلاف کے ساتھ اس کو نقل کیا ہے اور تقریباً اسی مضمون کی یونس بن عبد الاعلیٰ اور محمد بن عبد الاعلیٰ اور محمد بن عبد الاعلیٰ صنعانی کے ذریعے اُبیّ بن کعب سے روایت کی گئی ہے۔
—————————–
١) صحیح مسلم، ج ٢، ص ٢٠٣۔
٣۔ ابی کریب نے سلیمان بن صرد کی سند سے اُبیّ بن کعب سے روایت کی ہے۔ اُبیّ بن کعب کہتے ھیں :
قال: ”رحت الی المسجد فسمعت رجلاً یقرأ۔ فقلت: من أقرأک؟ فقال: رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) فانطلقت بہ الی رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) فقلت: استقریئ ھذاں، فقرأ۔ فقال: أحسنت۔ قال: فقلت انک أقرأتنی کذا و کذا فقال: وأنت قد أحسنت۔ قال: فقلت قد أحسنت قد أحسنت۔ قال: فضرب بیدہ علی صدری، ثم قال: اللھم أذھب عن أبیّ الشک۔ قال: ففضت عرقاً و امتلأ جو فی فرقاً۔ ثم قالؐ: ان اللکین أتیانی۔ فقال أحدھما: اقرأ القرآن علی حرف، و قال الآخر: زدہ قال: فقلت زدنی۔ قال: اقرأہ علی حرفین حتی بلغ سبعۃ أحرف۔ فقال: اقرأ علی سبعۃ أحرف،،
”میں مسجد میں داخل ہوا تو ایک آدمی کی قرأت سُنی، میں نے اس سے دریافت کیا تمہیں یہ قرأت کس نے پڑھائی ہے، اس نے جواب دیا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے پڑھائی ہے چنانچہ میں اسے لے کر رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) اس کی قرأت سنیئے۔ اس شخص نے قرأت پڑھی اور سول اللہؐ نے سننے کے بعد فرمایا: عمدہ ہے۔ میں نے کہا: آپ نے تو مجھے اس طرح اور اس طرح قرأت پڑھائی تھی۔ آپ نے فرمایا: یقیناً تمہاری قرأت بہت اچھی ہے میں نے آپ کی نقل اتارتے ہوئے کہا: تمہاری قرأت بھی بہت اچھی ہے۔ آپ نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر مارا اور فرمایا: پالنے والے! اُبیّ کے دل شک دور فرما۔ میں (اُبیّ) خجالت کے مارے پسینے سے شرابور ہو گیا اور میری پورا وجود خوف سے لرزنے لگا۔ پھر آپ نے فرمایا: میرے پاس دو فرشتے نازل ہوئے ان میں سے ایک نے کہا: قرآن کو ایک حرف میں پڑھیئے۔ دوسرے فرشتے نے پہلے سے کہا: اس ایک حرف میں اضافہ کریں۔ میںؐ نے بھی فرشتے سے یہی کہا۔ فرشتے نے کہا: قرآن کو دو حرفوں میں پڑھیئے۔ فرشتہ حروف کی تعداد بڑھاتا گیا یہاں تک کہ فرشتے نے کہا قرآن کو سات حروف میں پڑھیئے۔،،
٤۔ ابو کریب نے عبد الرحمن بن ابی بکرہ کی سند سے اور اس نے اپنے باپ کی سند سے روایت کی ہے۔ ابو کریب کہتا ہے:
قال: ”قال رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم): قال جبرئیل: اقرأ القرآن علی حرف۔ فقال میکائیل استزدہ۔ فقال: علی حرفین، حتی بلغ ستۃ أو سبعۃ أحرف۔ و الشک من أبی کریب۔ فقال: کہھا شاف کاف۔ ما لم تختم آیۃ عذاب برحمۃ، أو آیۃ رحمۃ بعذاب کقولک: ھلم و تعال،،
”پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں: جبرئیل نے کہا قرآن کو ایک حرف میں پڑھیئے۔ میکائیل نے کہا کہ جبرئیل سے درخواست کریں کہ اسے بڑھا دے، میریؐ درخواست پر جبرئیل نے کہا دو حروف میں پڑھیئے۔ اس طرح حروف کو بڑھاتے گئے یہاں تک کہ چھ یا ست تک پہنچ گئے (چھ اور سات میں تردد ابی کریب کی طرف سے ہے) پھر آپ نے فرمایا: ان میں سے جس حرف میں بھی پڑھیں کافی ہے اور سب کا مطلب ایک ہے، جس طرح ”ھلم،، اور ”تعال،، دونوں کا معنی ہے ”آجاؤ،، بشرطیکہ رحمت کی آیہ عذاب میں اور عذاب کی آیہ رحمت میں تبدیل نہ ہو۔،،
٥۔ طبری نے احمد بن منصور کی سند سے اس نے عبد اللہ بن ابی طلحہ سے اس نے اپنے باپ سے اور اس نے اپنے باپ سے روایت بیان کی ہے:
قال: ”قرأ رجل عند عمرؓ بن الخطاب فغیر علیہ فقال: لقد قرأت علی رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) فلم یغیر علی قال: فاختصما عند النبیؐ فقال: یا رسول اللہ ألم تقرئنی آیۃ کذا و کذا؟ قال: بلی، فوقع فی صدر عمؓر شیئ فعرف النبیؐ ذلک فی وجھہ۔ قال: فضرب صدرہ۔ وقال: أبعد شیطاناً، قالھا ثلاثاً ثم قال: یا عمر ان القرآن کلہ سواء، ما لم تجعل رحمۃً عذاباً و عذاباً رحمۃ۔،،
”ایک شخص نے حضرت عمر بن خطاب کے سامنے قرآن پڑھا حضرت عمر بن خطاب نے اس پر اعتراض کیا اور اس کی اصلاح کی کوشش کی۔ اس شحص نے کہا: میں نے پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے سامنے بھی اسی طرح قرأت پڑھی تھی۔ لیکن آپ نے اعتراض نہیں کیا تھا۔ چنانچہ یہ دونوں فیصلے کے لیے رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس شخص نے کہا: یا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)! کیا آپ نے مجھے اس آیہ کی قرأت اس طرح نہیں پڑھائی تھی؟ آپ نے فرمایا: ہاں اسی طرح پڑھائی تھی؟ آپ نے فرمایا: ہاں اسی طرح پڑھائی تھی۔ حضرت عمر کے دل میں شکوک و شبہات پیدا ہوئے جنہیں رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے حضرت عمر کے چہرے پر نمایاں محسوس فرمایا۔ راوی کہتا ہے: رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے حضرت عمؓر کے سینے پر ہاتھ مارا اور تین مرتبہ فرمایا: شیطان کو اپنے آپ سے دور رکھو۔ اس کے بعد فرمایا: یہ سب قرآن ایک جیسے ہیں جب تک کسی رحمت کو عذاب میں اور عذاب کو رحمت میں تبدیل نہ کرو۔،،
طبری نے یونس بن عبد الاعلیٰ سے حضرت عمؓر اور ہشامؓ بن حکیم کا اسی قسم کا ایک واقعہ نقل کیا ہے جس کی سند خود حضرت عمؓر تک پہنچتی ہے۔
بخاری، مسلم اور ترمذی نے بھی حضرت عمؓر کا ہشامؓ کے ساتھ ایک واقعہ بیان کیا ہے جس کی سند اور حدیث کے الفاظ کچھ مختلف ہیں۔(١)
٦۔ طبری نے محمد بن مثنی سے اس نے ابن ابی لیلیٰ سے اور اس نے اُبیّ بن کعب سے روایت کی ہے:
قال: ”فأتاہ جبرئیل۔ فقال: ان اللہ یأمرک أن تقریئ أمّتک القرآن علی حرف۔ فقال: أسأل اللہ معافاتہ و مغفرتہ، و ان أمتی لا تطبق ذلک۔ قال: ثم أتاہ الثانیۃ۔ فقال: ان اللہ یأمرک أن تقریئ أمتک القرآن علی حرفین۔ فقال: أسأل اللہ معافاتہ و مغفرتہ، و ان أمتی لا تطبق ذلک، ثم جاء الثالثۃ۔ فقال: ان اللہ یأمرک أن تقری، امّتک القرآن علی ثلاثۃ أحرف۔ فقال: أسأل اللہ معافاتہ و مغفرتہ، و ان أمتی لاتطبق ذلک، ثم جاء الرابعۃ۔ فقال: ان اللہ یأمرک أن قری، أمّتک القرآن علی سبعۃ أحرف، فأنما حرف قرأوا علیہ فقد أصابوا،،۔
”رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) قبیلہ بنی غفار کے ہاں تھے، اس وقت جبرئیل نازل ہوئے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنی اُمّت کو ایک حرف میں قرآن پڑھایئے۔ آپ نے فرمایا: اللہ سے مغفرت اور عفو کی درخواست ہے کیونکہ میری امّت اس کی قدرت نہیں رکھتی۔ اُبیّ کہتا ہے: جبرئیل دوسری مرتبہ نازل ہوئے اور فرمایا: اپنی اُمّت کو دو حروف میں قرآن پڑھایئے۔ آپ نے فرمایا: اللہ سے مغفرت اور عفو کی درخوات ہے کیونکہ میری امت اس کی قدرت نہیں رکھتی۔ تیسری مرتبہ جبرئیل نازل ہوئے اور فرمایا: اپنی امت کو تین حروف میں قرآن پڑھایئے۔ آپ نے فرمایا: اللہ سے مغفرت اور عفو کی درخواست ہے کیونکہ میری امت اس کی قدرت نہیں رکھتی۔ جبرئیل پھر چوتھی مرتبہ نازل ہوئے اور فرمایا: اپنی امت کو سات حروف میں قرآن پڑھایئے، ان میں سے جس حرف پر بھی وہ قرآن پڑھے صحیح ہے۔،،
اس روایت کو مسلم نے اپنی صحیح (٢) میں بیان کیا ہے۔ نیز طبری نے اس روایت کے کچھ حصے احمد بن محمد طوقی سے، اس نے ابن ابی لیلیٰ سے اور اس نے اُبیّ بن کعؓب سے معمولی اختلاف سے بیان کئے ہیں۔ اس کے علاوہ طبری نے محمد بن مثنیٰ سے اور اس نے ابیّ بن ابی کعب سے روایت کی ہے۔
٧۔ طبری نے ابی کریب سے اس نے زر سے اور اس نے اُبیّ سے نقل کیا ہے:
قال: ”لقی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ جبرئیل عند أحجار المرائ۔ فقال: انی بعثت الی أمّۃ أمیین
”مقام”مراء احجار،، پر رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے جبرئیل کو دیکھا آپ نے فرمایا میں ایسی ان پڑھ قوم کی طرف بھیجا گیا ھوں جس میں غلام ،بوڑھے اور عورتیں شامل ھیں – جبرئیل نے فرمایا کہ آپ کی امت سات حروف پر قرآن پڑھے(منھم الغلام و الخادم، و فیھم الشیخ الفانی و العجوز فقال جبرئیل: فلیقرأوا القرآن علی سبعۃ أحرف،،(١))
٨۔ طبری نے عمرو بن عثمان عثمانی سے، اس نے مقبری سے اور اس نے ابوہریرہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا:
”قال رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم): ان ھذا القران انزل علی سبعۃ أحرف، فاقرأوا و لاحرج، و لکن لا تختموا طذکر رحمۃ بعذاب، ولا ذکر عذاب برحمۃ،،
”قرآن سات حروف میں نازل کیا گیا ہے۔ جس حرف میں چاہو اسے پڑھو، کوئی حرف نہیں۔ لیکن یہ خیال رکھو کہ رحمت کی آیہ کو عذاب کی آیہ میں اور عذاب کی آیہ کو رحمت کی آیہ میں بدل نہ دینا۔،،
٩۔ طبری نے عبید بن اسباط سے، اس نے ابی سلمہ سے اور اس نے ابوہریرہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا:
”قرآن چار حرفوں میں نازل کیا گیا ہے علیم، حکیم، غفور اور رحیم،،۔
اسی قسم کی روایت طبری نے ابی کریب سے اس نے ابی سلمہ سے اور اس نے ابوہریرہؓ سے نقل کی ہے۔
١٠۔ طبری سعید بن یحییٰ سے، اس نے عاصم کی سند سے، اس نے زر سے اور اس نے عبداللہ بن مسعود سے روایت کی ہے، عبد اللہ ابن مسعود کہتا ہے:
قال: ”تمارینا فی سورۃ من القرآن، فقلنا: خمس و ثلاثون، أوست و ثلاثون آیۃ، قال: فانطلقنا الی رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) فوجدنا علیاً یناجیہ۔ قال: فقلنا انما اختلفنا فی القراء ۃ۔ قال: فاحمر وجہ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) و قال: انما ھلک من کان قبلکم باختلافھم بینھم۔ قال: ثم أسرَّ الی علی شیأا۔ فقال لنا علی: ان رسول اللہ یأمرکم ان تقرأوا کما علّمتم،،
”قرآن کے کسی سورۃ کے بارے میں ہمارا اختلاف ہوا۔ بعض نے کہا اس کی آیئتیں پینتیس ہیں اور بعض نے کہا چھتیس ہیں۔ چنانچہ ہم رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی خدمت میں حاضر ہوئے دیکھا کہ آپ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے راز و نیاز میں مشغول ہیں۔ ابن مسعودؓ کہتے ھیں کہ ہم نے رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے عرض کیا: یا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)! قرأت کے بارے میں ہمارا آپس میں اختلاف ہو رہا ہے۔ ہماری بات سن کر آپ کا چہرہ مبارک غصّے سے سرخ ہوگیا آپ نے فرمایا: تم سے پہلے لوگ آپس کے اختلاف کی وجہ سے ہلاکت میں مبتلا ہوگئے
—————————————————-
١) اس روایت کو ترمذی نے بھی معمولی اختلاف کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ج ١١، ص ٦٢۔
پھر آپ نے آہستہ سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے کچھ فرمایا۔ اس کے بعد حضرت علیؓ نے ہم سے کہا: رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں کہ جس طرح تمہیں قرآن پڑھایا گیا ہے اسی طرح پڑھو۔،،(١)
١١۔ قرطبی نے اُبی داؤد سے اور اس نے اُبیّ بن کعب سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا: ”یا اُبیّ انی قرأت القرآن۔ فقیل لی: علی حرف أوحرفین۔ فقال الملک الذی معی: قل علی حرفین۔ فقیل لی: علی حرفین أو ثلاثۃ۔ فقال الملک الذی معی: قل علی ثلاثۃ، حتی بلغ سبعۃ أحرف، ثم قال: لیس منھا الا شاف کاف، ان قلت سمیعاً، علیماً، عزیزاً، حکیماً، مالم تخلط آیۃ عذاب برحمۃ، أو آیۃ رحمۃ بعذاب،،
”اے اُبی! میں نے قرآن کی تلاوت کی تو مجھ سے پوچھا گیا: آپ ایک حرف میں قرآن پڑھیں گے یا دو حرف میں؟ میرے ساتھ موجود فرشتے نے کہا: کہیئے دو حرف میں۔ فرشتے نے کہا: کہیئے تین حروف میں۔ اس طرح سات حروف تک سلسلہ جا پہنچا۔ اس کے بعد مجھ سے کہا گیا کہ ان سات حروف میں سے جس میں چاہیں پڑھیں، کافی ہے۔ چاہیں تو سمیعاً پڑھیں یا علیماً یا عزیزاً یا حکیماً پڑھیں البتہ عذاب کی آیہ کو رحمت کی آیہ سے اور رحمت کی آیہ کو عذاب کی آیہ سے خلط ملط نہ کردیں۔،،(٢)
١) یہ سب روایتیں تفسیر طبری، ج ١، ص ٩۔١٥ میں مذکور ہیں۔
٢) تفسیر قرطبی، ج ١، ص ٤٣۔
i۔ ان روایات کے کمزور پہلو
فضیل بن یسار نے حضرت ابا عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: یہ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن سات حروف میں نازل ہوا ہے۔ امام صاحب نے فرمایا:
”امام صاحب نے فرمایا کذبوا۔ أعداء اللہ۔ ولکنہ نزل علی حرف واحدمن عند الواحد،،
”یہ دشمنان خدا جھوٹ بولتے ہیں۔ قرآن کو صرف ایک حرف میں اور ایک ذات کی طرف سے نازل کیا گیا۔،،(١)
ii۔ روایات میں تضاد
تضاد کا ایک نمونہ یہ ہے کہ بعض روایات کے مطابق جبرئیل نے رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کو ایک حرف میں قرآن پڑھایا اور آپ نے مزید حروف کی درخواست کی یہاں تک کہ یہ سلسلہ سات حروف تک منتہی ہوا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حروف میں اضافہ تدریجاً ہوا ہے بعض روایات کے مطابق یہ اضافہ ایک ہی نشست میں ہوا اور آپ نے ان میں اضافے کا مطالبہ میکائیل کی ہدایت پر کیا اور جبرئیل نے سات حرف تک اضافہ کردیا اور بعض روایات کے مطابق میکائیل کی رہنمائی اور رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی درخواست کے بغیر ہی جبرئیل آسمان پر جاتے اور نازل ہوتے تھے حتیٰ کہ سات حروف مکمل ہوئے۔
تضاد کا تیسرا نمونہ یہ ہے کہ بعض روایات کہتی ہیں کہ اُبیّ بن کعب مسجد میں داخل ہوا اور کسی کو اپنی قرأت کے خلاف قرآن پڑھتے سنا اور بعض روایات یہ کہتی ہیں کہ اُبیّ بن کعب پہلے سے مسجد میں موجود تھے اور بعد میں دو آدمیوں نے مسجد میں داخل ہو کر ان کی قرأت کے خلاف قرآن پڑھا۔ اس کے علاوہ ان روایات میں وہ کلام بھی مختلف طریقے سے مذکور ہے جو آنحضرت(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے اُبیّ سے فرمایا۔
سوال و جواب میں مناسبت نہ ہونے کا نمونہ ابن مسعود کی روایت میں حضرت علیؓ کا یہ فرمانا ہے کہ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں: جس طرح تمہیں پڑھایا گیا ہے اسی طرح پڑھو۔ یہ جواب سائل کے سوال سے مطابقت نہیں رکھتا کیونکہ ابن مسعوؓد نے آیتوں کی تعدادکے بارے میں پوچھاتھا آیہ کی کیفیت اور قرأت کے بارے میں نہیں۔
ان تمام اشکالات کے علاوہ بھی قرآن کے سات حروف میں نازل ہونے کا کوئی معنی نہیں بنتا اور کوئی صاحب فکر و نظر کسی صحیح نتیجے تک نہیں پہنچ سکتا۔
سات حروف کی تاویل و توجیہ !
سات حروف کی تاویل و توجیہ میں چند اقوال ذکر کیے گئے ہیں۔ ذیل میں ہم ان میں سے اہم اقوال اور ان میں موجود سقم اور اشکال بیان کریں گے:
١۔ قریب المعنی الفاظ
سات حروف کی پہلی توجیہ اور تاویل یہ کی گئی ہے کہ الفاظ مختلف ہیں اور ان کے معانی قریب قریب ہیں، جس طرح عجل اسرع اور اسع ہیں۔ ان تینوں الفاظ کا معنی ہے۔ ”جلدی کرو،، یہ حروف حضرت عثمان کے زمانے تک موجود تھے۔ اس کے بعد حضرت عثمان نے ان حروف کو ایک حرف میں منحصر کردیا اور باقی چھ حروف پر مشتمل قرآنوں کو نذر آتش کرنے کا حکم دے دیا۔
اس تاویل کو طبری اور علماء کی ایک جماعت نے بھی اختیار کیا ہے(١) قرطبی کا کہنا ہے کہ اکثر اہل علم کا یہی نظریہ ہے (٢) اور ابو عمرو بن عبد البر کی رائے بھی یہی ہے(٣)۔
اس تاویل پر ابن ابی بکرہ اور ابی داؤد کی روایت کے علاوہ یونس کی روایت سے استدلال کیا جاتا ہے جو ابن شہاب سے منقول ہے، اس میں انہوں نے کہا ہے:
سعید بن المسیب نے مجھے خبر دی ے کہ جس شخص کی طرف خدا نے آیہ کریمہ ”انما یعلمہ بشر ١٦:١٠٣،،
یعنی اس (رسول) کو تو ایک بشر قرآن سکھاتا ہے،، میں نے جس کی طرف اشارہ فرمایا ہے وہ ایک کاتب وحی تھا جو اس لیے شک و شبہ میں مبتلا ہوگیا کہ آپ اس سے آیتوں کے آحر میں سمیع علیم یا عزیز حکیم لکھواتے تھے پھر آپ سے پوچھتا: یا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)! عزیز حکیم لکھوں یا سمیع علیم یا عزیز علیم؟ آپ فرماتے:
ان میں سے جو بھی لکھو صحیح ہے۔ اس بات سے یہ شخص اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگیا کہ محمدؐ نے قرآن میرے سپرد کرد یا ہے، میں جو چاہے لکھوں۔،،
نیز یونس کی اس قرأت سے بھی استدلال کیا گیا ہے: ”ان ناشئۃ اللیل ھی اشد وطا و اصوب قیلا۔،،(١) کچھ لوگوں نے یونس پر اعتراض کیا: اے ابو حمزہ قرآن میں تو ”اقوم،، ہے۔ یونس نے جواب دیا: اقوم اصوب اور اھدی کا معنی ایک ہی ہے۔
١) تفسیر طبری، ج ١، ص ١٥۔
٢) تفسیر قرطبی، ج ١، ص ٤٢۔
٣) التبیان، ص ٣٩۔
اسی طرح ابن مسعودؓ کی قرأت ”ان کانت الا زقیۃ واحدۃ،، سے استدلال کیا گیا ہے۔ اس نے ”ان کانت صیحۃ واحدۃ،، کی بجائے ”ان کانت الا ذقیۃ واحدۃ،، پڑھا ہے۔ اس لیے کہ ”صیحۃ،، اور”زقیۃ،، کا معنی ایک ہے۔(١)
اس کے علاوہ طبری کی یہ روایت بھی بطور دلیل پیش کی جاتی ہے۔ طبری نے محمد بن بشار اور ابی السائب اور انہوں نے ہمام سے روایت کی ہے:
”ابو الدرداء ایک شخص کو آیہئ کریمہ، ”ان شجرۃ الزقوم طعام الأثیم،، (٤٤:٤٤) پڑھ رہا تھا اس سے یہ آیہ نہیں پڑھی جارہی تھی اور وہ بار بار بتانے کے باوجوداس شخص سے ”طعام الاثیم،، نہیں پڑھا گیا تو ابو الدرداء نے اس سے کہا کہ اس کی جگہ پڑھو”ان شجرۃ الزقوم طعام الفاجر،، اس لیے کہ ”اثیم،، اور ”فاجر،، کا معنی ایک ہے۔،،(٢)
اس کے علاوہ اس تاویل کی دلیل میں ان روایات کو پیش کیا جاتا ہے جن میں یہ کہہ کر قرأت میں کافی گنجائش رکھی ہے:
ما لم تختم اٰیۃ رحمۃ بعذاب او اٰیۃ عذاب برحمۃ (یعنی) قرآن میں اتنی تبدیلی کرسکتے ہو کہ رحمت کی آیہ عذاب کی آیہ میں اور عذاب کی آیہ رحمت کی آیہ میں تبدیل نہ ہوجائے۔
اس حد بندی کی یہی معنی ہوسکتا ہے کہ سات حروف سے مراد سات کلمات میں سے بعض کو بعض کی جگہ استعمال کرنا ہے۔ البتہ اس سے صرف اس صورت کو مستثنیٰ قرار دیا گیا جس سے رحمت کی کوئی آیہ عذاب کی آیہ میں اور عذاب کی آیہ رحمت کی آیہ میں تبدیل ہوجائے۔ بنابرایں ان روایات میں سے مجمل (٣) روایات کی مبین (٤) روایات پر محمول کرنے کے بعد ان سے وہی معنی مراد لیے جائیں جو ہم نے بیان کئے ہیں۔
مؤلف: سات حروف کے بارے میں جتنی بھی تاویلیں کی گئی ہیں ان میں سے کوئی بھی روایت سے سازگار نہیں، چانچہ اسکے بارے میں آئندہ بیان کیا جائے گا۔ بنابرایں یہ تمام روایات ناقابل قبول ہیں کیونکہ ان کے مفہوم کو اپنانا اور ان پر عمل کرنا ناممکن ہے، اس لیے کہ:
اولا: یہ تاویل، قرآن کے بعض معانی پر منطبق ہوسکتی ہے جس کی سات حروف سے تعبیر ہوسکتی ہو۔ اور یہ بدیہی امر ہے کہ قرآن میں اکثریت ان معانی کی ہے جنہیں مختلف الفاظ سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا تو پھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ قرآن ان سات حروف میں نازل ہوا ہے۔
ثانیاً: اگر اس تاویل سے مراد یہ ہو کہ خود رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے بعض الفاظ جن کے معنی ملتے جلتے ہوں، میں تبدیل کرنے کی اجازت دی ے اور گذشتہ روایات کو اس کے ثبوت میں پیش کیا جائے تو یہ احتمال، اس قرآن کی بنیاد کو منہدم کرنے کا باعث بنے گا جو ایک ابدی معجزہ اور پوری انسانیت پر خدا کی طرف سے حجّت ہے، اور کسی بھی عاقل کو اس بات میں شک نہیں ہوگا کہ یہ احتمال حقیقی قرآن کے متروک اور اس کے بے وقعت ہوے کا متقاضی ہے۔
١) تفسیر طبری، ج١،ص ١٨۔
٢) ایضاً، ج ٢٥، ص ٧٨۔ آیہئ مبارکہ کی تفسیر کے ذیل میں۔
٣) ایسا کلام جس کا معنی واضح نہ ہو۔
٤) ایسا کلام جس کا معنی واضح ہو۔
کوئی عاقل یہ سوچ سکتا ہے کہ پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے سورہ یٰس میں موجود آیات کی جگہ ان الفاظ کی تلاوت کی اجازت دی ہو: ”یٰس والذکر العظیم، انک لمن الانبیآءِ، علی طریق سویّ، انزال الحمید الکریم، التخوف قوماً خوف اسلافھم فھم ساھون۔
ہم تو کہیں گے ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں جو اسے جائز سمجھتے ہیں اللھمّ ان ھٰذا الا بھتان عظیم، پالنے والے! تو جانتا ہے کہ یہ تیرے رسول ﷺ پر بہتان عظیم ہے۔ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے:
قل ما یکون لی ان ابدلہ من تلقاء نفسی ان اتبع الا ما یوحی الی ١٠:١٥
”(اے رسول) تم کہہ دو کہ مجھے یہ اختیار نہیں کہ میں اسے اپنے جی سے بدل ڈالوں میں تو بس اسی کا پابند ہوں جو میری طرف وحی کی گئی ہے۔،،
جب رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کو قرآن میں اپنی طرف سے کسی قسم کی تبدیلی کا اختیار نہیں ہے تو آپ دوسروں کو کیسے اس کی اجازت دے سکتے ہیں۔
رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے براء بن عازب کو ایک دعا کی تعلیم فرمائی تھی جس میں یہ جملہ بھی شامل تھا: ”و نبیک الذی ارسلت،، اس کو براء نے ”و رسولک الذی ارسلت،، پڑھا تو آپ نے براء کو ٹوکا اور فرمایا ”نبی،، کی جگہ ”رسول،، مت پڑھو۔(١)
———————————
١) التبیان، ص ٥٨۔
جب دعا کی یہ شان اور اہمیت ہے تو قرآن کی اہمیت کتنی زیادہ ہوگی۔
اگر اس تاویل سے مراد یہ ہو کہ خود رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے سات حروف کے مطابق قرآن پڑھا ہے اور ان روایات کو اس کے ثبوت میں پیش کیا جائے توپھر مدعی کو ان سات حروف کی ٹھیک ٹھیک نشاندہی کرنی چاہیے جن کے مطابق رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے قرآن پڑھا ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے:
انا نحن نزلنا الذکر و انا لہ لحافظون ١٥:٩
”بیشک ہم ہی نے قرآن نازل کیا اور ہم ہی تو اس کے نگہبان بھی ہیں۔،،
ثالثاً: گذشتہ روایات میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ قرآن کو سات حروف میں نازل کرنے کی حکمت، اُمّت کی سہولت اور آسانی ہے، اس لیے کہ اُمّت ایک حرف میں قرأت کی استطاعت نہیں رکھتی اور اسی غرض سے رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے سات حروف تک اضافہ کرنے کی درخواست کی تھی۔
لیکن آپ نے دیکھا کہ قرأتوں میں اختلاف باعث بنا کہ مسلمان ایک دوسرے کو کافر گردانیں، حتیٰ کہ حضرت عثمان نے قرأت کو ایک حرف میں منحصر کردیا اور باقی قرآنوں کو نذر آتش کردیا۔
اس سے ہم درج ذیل نتائج تک پہنچتے ہیں:
١۔ قرأتوں میں اختلاف اُمّت کے لیے ایک عذاب تھا حضرت عثمان کے دور میں ظاہر ہوا۔ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) خدا سے ایسی چیز کا مطالبہ کس طرح کرسکتے تھے۔ جس میں اُمّت کا فساد و نقصان ہو اور کیا یہ صحیح ہے کہ خدا ایسی درخواست منطور فرمالے؟ جبکہ بہت سی روایات میں اختلاف سے روکا گیا ہے اور اختلاف کو امّت کی ہلاکت کا باعث قرار دیا گیا ہے۔ بعض روایات تو یہاں تک کہتی ہیں کہ جب آپ نے قرأتوں میں اختلاف کی بات سنی تو غصے سے آپ کا چہرہ مبارک سُرخ ہوگیا۔ ان میں س کچھ روایات کا ذکر ہو چکا ہے اور کچھ روایات کا ذکر بعد میں کیا جائے گا۔
٢۔ گذشتہ روایات کا مفہوم یہ تھا کہ نبی اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا: میری اُمّت ایک حرف میں قرآن پڑھنے کی استطاعت نہیں رکھتی اور یہ صریحاً جھوٹ ہے۔ عقل اس کو نبی کریمؐ کی طرف نسبت دینے کی اجازت نہیں دیتی۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عثمان کے بعد اُمّت پیغمبر، جس میں مختلف عناصر قبیلے اور مختلف زبانوں والے شامل تھے، قرآن کو ایک حرف میں پڑھنے پر قادر تھی۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے زمانے میں ایک قرأت پر اتفاق کرنا کوئی مشکل تھا جبکہ اس وقت امّت پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) فصیح عربوں پر مشتمل تھی۔
٣۔ قرأتوں میں اختلاف، جس کی بنیاد پر حضرت عثمان نے قرأتوں کو ایک حرف میں منحصر کیا، خود پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے زمانے میں بھی تھا۔ آپ نے ہر قاری کی تائید بھی فرمائی تھی اور مسلمانوں کو حکم دیا تھا کہ وہ ان تمام قرأتوں کو تسلیم کرلیں اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ قرأتوں میں اختلاف خدا کی طرف سے رحمت ہے۔
اب حضرت عثمانؓ اور ان کے تابعین کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ رحمت کے دروازے بند کردیں؟ جبکہ رسول اعظمؐ نے قرأت قرآن روکنے سے ممانعت فرمائی تھی۔
مسلمانوں کے پاس کیا جواز تھا کہ وہ رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے قول کو تو ٹھکرا دیں اور حضرت عثمانؓ کی بات مان کر اس پر عمل کریں؟
کیا مسلمانوں کی نظر میں حضرت عثمان، رحمۃ العالمین سے زیادہ مہربان اور ہمدرد تھے؟
معاذ اللہ کیا حضرت عثمان کے پیش نظر ایسی حکمت اور مصلحت تھی جس سے رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) بے خبر تھے؟
یا حاشا وکلا حضرت عثمان پر ان حروف کے منسوخ ہونے کی وحی نازل ہوئی تھی؟!
اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ سات حروف سے متعلق روایات کی یہ بدنما تاویل اس قابل نہیں ہے کہ اسے ردّ بھی کیا جائے۔ اسی وجہ سے علمائے اہل سُنّت میں سے متاخرین نے اس تاویل کو ٹھکرا دیا ہے اور ابو جعفر محمد بن سعد ان النحوی اور حافظ جلال الدین سیوطی ان روایات کو مشکل اور متشابہ قرار دینے پر مجبور ہوگئے۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ ان روایات کا کوئی مفہوم واضح نہیں ہے۔(١) حالانکہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ ان روایات کا مفہوم واضح ہے اور جو بھی ان روایات کا بنظر غائر مطالعہ کرے، اس کے لیے کوئی شک و تردد باقی نہیں رہتا۔
٢۔ سات ابواب
سات حروف کی تفسیر و تاویل کے سلسلے میں دوسری رائے یہ ہے کہ ان سے مراد سات ابواب ہیں اور قرآن ان سات ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے ان کے عنوان یہ ہیں:
i۔ آیات زجر (نہی)۔
ii۔ آیات امر۔
iii۔ آیات حلال۔
iv۔ آیات حرام۔
v۔ آیات محکم۔
vi۔ آیات متشابہ۔
vii۔ آیات امثال۔
اس نظریہ پر یونس کی روایت سے استدلال کیا گیا ہے، جسے اس نے ابن مسعود کی سند سے پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے نقل کیا ہے۔ آپ نے فرمایا:
————————————–
١) التبیان، ص ٦١۔
انہ قال: ”کان الکتاب الأول نزل من باب واحد علی حرف واحد، و نزل القرآن من سبعۃ أبواب، و علی سبعۃ أحرف: زجر، و أمر، و حلال، و حرام، و محکم، و متشابہ، و أمثال۔ فأحلّوا حلالہ، و حرّموا واعتبروا بأمثالہ، و اعملوا بمحکمہ، و آمنوا بمتشابہہ، و قولوا آمنا بہ کل من عند ربنا،،
”پہلی آسمانی کتاب کا ایک ہی باب تھا اور وہ ایک ہی حرف پر نازل کی گئی تھی۔ قرآن مجید سات ابواب اور سات حروف میں نازل کیا گیاہے۔ زجر، امر، حلال، حرام، محکم، متشابہ اور امثال۔ حلال خدا کو حلا ل اور حرام خدا کو حرام سجھو، جس چیز کا تمہیں حکم دیا جائے اسے انجام دو اور جس چیز سے تمہیں منع کیا جائے اس سے باز آجاؤ، قرآن کی مثالوں سے عبرت حاصل کرو، محکم آیات پر عمل کرو اور متشابہ آیات پر ایمان لے آؤ اور کہو ہم اس پر ایمان لے آئے یہ سب کچھ ہمارے ربّ کی طرف سے ہے۔،،(١)
اس نظریہ پر بھی چند اعتراضات ہیں:
١۔ اس روایت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ سات حروف، جن میں قرآن نازل ہوا ہے اور ہیں، اور سات ابواب، جن میں قرآن تقسیم ہوا ہے اور ہیں، لہذا اس روایت کو ان مجمل روایات کی تفسیر قرار نہیں دیا جاسکتا۔
٢۔ یہ روایت ابو کریب کی روایت سے متصادم ہے، جو اس نے ابن مسعود سے نقل کی ہے اور جس میں کہا گیا ہے:
ان اللہ انزل القرآن علی خمسۃ احرفٍ۔ حلال و حرام و محکم و متشابہ و امثال۔ (٢) (یعنی) اللہ نے قرآن کو پانچ حروف ، حلال، حرام، محکم، متشابہ اور امثال میں نازل فرمایا ہے۔
٣۔ اس روایت کا مفہوم مضطرب و متزلزل ہے۔ کیونکہ ”زجر،، اور ”حرام،، ایک چیز ہے، اس طرح چھ ابواب ہو جائیں گے نہ کہ سات۔ اس کے علاوہ قرآن میں اور بہت سے موضوعات کا بھی ذکر ہے جو ان سات ابواب میں شامل نہیں ہیں۔جیسے: مبدائ، معاد، قصّے، احتجاجات ، دلائل اور علوم و معارف ہیں اور اگر اس تاویل کے قائل کا مقصد یہ ہے کہ باقی ماندہ موضوعات بھی محکم و متشابہ می داخل ہیں تو باقی پانچ ابواب، حلال، حرام، امر، زجر اور امثال کو بھی دوسرے موضوعات کی طرح محکم و متشابہ میں داخل ہونا چاہیے تھا۔ اس طرح قرآن دو حروف محکم و متشابہ میں منحصر ہو جاتا۔ اس لیے کہ قرآن میں جو کچھ ہے و محکم یا متشابہ ہے۔
٤۔ سات حروف کی تفسیر، سات ابواب کرنا گذشتہ روایات سے سازگار نہیں کیونکہ گذشتہ روایات میں قرآن کے سات حروف میں نازل ہونے کی وجہ امّت کی سہولت بیان کی گئی ہے۔ اس لیے کہ اُمّت ایک حرف پر قرآن پڑھنے کی قدرت نہیں رکھتی تھی۔
———————————-
١) تفسیر طبری، ج ١، ص ٣٢۔
٢) ایضاً، ج ١، ص ٢٤۔
٥۔ بعض گذشتہ روایات اس بات کی تصریح کرتی ہیں کہ سات حروف سے مراد قرأت کی قسمیں ہیں، جن میں قاریوں کا اختلاف ہے۔
فرض کیا اگر اس روایت کا معنی سات ابواب ہیں تب بھی اس ایک روایت کی وجہ سے ان متعدد روایات کے ظاہری معنی سے دستبردار نہیں ہوا جاسکتا اور نہ ہی یہ ایک روایت گذشتہ روایات کے ظاہری معنی کے خلاف کسی معنی کے لیے قرینہ اور علامت بن سکتی ہے۔
٣۔ سات ابواب کا ایک اور معنی
بعض حضرات کا خیال ہے کہ سات حروف سے مراد، امر، زجر، ترغیب، ترھیب، جدل ، قصّے اور مثالیں ہیں۔
اس احتمال پر محمد بن بشارکی روایت سے استدلال کیا گیا ہے جو ابو قلامہ سے منقول ہے، ابو قلامہ کہتا ہے:
”بلغنی أن النبیؐ قال: انزل القرآن علی سبعۃ أحرف: أمر، وزجر، و ترغیب، و ترھیب، و جدل، و قصص، و مثل،،
”میںنے سنا ہے کہ پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا:
قران سات حروف: امر، زجر، ترغیب، ترہیب، جدل، قصّوں اور مثالوں پر نازل کیا گیا ہے۔،،(١)
گذشتہ تاویل کے جواب سے اس تاویل کا جواب بھی واضح ہے۔
٤۔ فصیح لغات
بعض علماء کرام نے فرمایا ہے کہ سات حروف سے مراد سات فصیح عربی لغات ہیں اور یہ لغتیں قرآن میں مختلف مقامات پر بکھری ہوئی ہیں۔ وہ لغتیں یہ ہےں:
١۔ لغت قریش۔
٢۔ لغت ہذیل۔
٣۔ لغت ہوازن۔
٤۔ لغت یمن۔
٥۔ لغت کنانہ۔
٦۔ لغت تمیم۔
٧۔ لغت ثقیف۔
————————————–
١) تفسیر طبری، ج ١، ص ٢٤۔
یہ قول علماء کی ایک جماعت سے منسو ب ہے۔ جس میں بیہقی ابہری اور صاحب قاموس شامل ہیں۔ اس قول کے بھی چند جواب ہیں:
١۔ گذشتہ روایات نے سات حروف کے معنی و مفہوم کو بیان کردیا ہے۔ اس کے باوجود اس قسم کے معنی مراد لینا مقام و موقع روایت سے سازگار نہیں ہے۔
٢۔ سات حروف سے سات لغات مراد لینا حضرت عمر کی روایت کے منافی ہے، جس میں کہا گیا ہے: ”نزل القراٰن بلغۃ مضر،،(١) یعنی سارا قرآن قبیلہ مضر کی لغت میں نازل ہوا ہے۔
اس کے علاوہ حضرت عمر نے ابن مسعود کی اس قرأت پر اعتراض کیا جس میں وہ ”حتی حین،، کی بجائے ”عتی حین،، پڑھا کرتا تھا اور انہوں نے اس کی طرف یہ بھی لکھ بھیجا کہ قرآن ھذیل کی لغت میں نازل نہیں ہوا۔ ا سلیے لوگوں کو لغت قریش کے مطابق قرآن پڑھایا گرو، لغت ھذیل کے مطابق نہیں۔(٢)
اسی طرح یہ احتمال حضرت عثمانؓ کی روایت سے سازگار نہیں ہے جس میں وہ قریش کے تین گروہوں سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں: اگر قرآن کے بارے میں زید بن ثابت سے تمہارا اختلاف ہو تو اسے قریشی زبان میں لکھو کیوں کہ قرآن قریش ہی کی زبان میں نازل ہوا ہے۔(٣)
نیز یہ روایت بھی اس قول کے منافی ہے: ”سورۃ فرقان کی قرأت میں حضرت عمر اور ہشام بن حکیم میں اختلاف ہوا۔ جب رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے پاس جاکر ہشام نے قرأت پڑھی تو آپ نے فرمایا قرآن ایسے ہی نازل ہوا ہے جیسے تو پڑھ رہا ہے۔ اس کے بعد حضرت عمر نے تلاوت کی۔ آپ نے فرمایا: قرآن ایسے ہی نازل ہوا ہے۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: قرآن سات حروف میں نازل کیا گیا ہے۔،،
پوشیدہ نہ رہے کہ حضرت عمر اور ہشام دونوں کا تعلق قریش سے تھا۔ اس لیے ان میں اختلاف قرأت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ اختلاف حروف کی تفسیر اختلاف لغت کی صورت میں کی جائے۔ اس کے علاوہ سات حروف سے سات لغات مراد لینا کوئی عالمانہ بات نہیں ہے اور یہ ایک دعویٰ بلا دلیل ہے۔
٣۔ اگر اس قول کے قائل حضرات کا مقصد یہ ہے کہ قرآن ایسی لغات پر مشتمل ہے جن سے لغت قریش خالی ہے تو اس سے امت کی وہ سہولت ختم ہوجائے گی جس کی خاطر قرآن کو سات حروف میں نازل کیا گیا۔ بلکہ یہ بات خلاف حقیقت اور خلاف واقع ہے کیونکہ لغت قریش کو باقی لغات پر برتری حاصل ہے اور وہ تمام فصیح کلمات جو دوسری لغتوں میں ہیں وہ
———————————–
١) التبیان، ص ٦٤۔
٢) ایضاً، ص ٦٥۔
٣) صحیح بخاری، باب نزل القرآن بلسان قریش، ص ١٥٦۔
لغت قریش میں بھی ہیں۔ اسی لیے قریش عربیت کا معیار اور کسوٹی بن گئی ہے اور عربی قواعد کے لیے اسی لغت کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔
اگر ان کا مقصد یہ ہو کہ قرآن کچھ اور لغات پر بھی مشتمل ہے جو لغت قریش سے ملتی جلتی ہیں تو لغات کو سات میں منحصر کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی بلکہ قرآن میں پچاس لغات موجود ہیں۔ چنانچہ ابوبکر واسطتی کہتے ہیں: ”قرآن میں پچاس لغات موجود ہیں۔ مثلاً لغت قریش، ھذیل، کنانہ، خثعم، خزرج، اشعر، نمیر۔۔۔،،(١)
٥۔ قبیلہ مضر کی لُغت
بعض علمائے کرام کی رائے یہ ہے کہ سات حروف سے مراد قبیلہ مضر کے مختلف خاندانوں کی لغات ہیں جو پورے قرآن میں پھیلی ہوئی ہیں اور وہ لغات یہ ہیں:
لغت قریش، لغت اسد، لغت کنانہ، لغت ھذیل، لغت تمیم، لغت ضبّۃ، اور لغت قیس، اس احتمال پر بھی وہی اعتراضات ہیں جو چوتھے احتمال پر کئے گئے ہیں۔
٦۔ قرأتوں میں اختلاف
سات حروف سے مراد قرأت کی قسمیں ہیں۔ چنانچہ بعض ماہرین کا کہنا ہے: ہم نے قرآن کی قرأتوں کی بنظر غائر دیکھا ہے جو کہ سات سے زیادہ نہیں ہیں:
١۔ بعض قرأتیں ایسی ہیں کہ ان سے حرکت تو بدل جاتی ہے مگر کلمے کا معنی اور صورت نہیں بدلتی جیسے ”ھن اطھرلکم،، یا ”اطھرلکم،، پڑھا جائے۔ یعنی ”ر،، کو پیش اور زبر دیا جائے۔
٢۔ بعض قرأتیں ایسی ہیں کہ جن میں حرکت بدلنے سے کلمہ کا معنی اور صورت بدل جاتی ہے جیسے ”ربّنا باعد بین اسفارنا،، میں ”باعد،، کو صیغہ امر ”باعد،، اور صیغہ ماضی ”باعد،، پڑھا جائے۔
٣۔ ان کی بعض صورتوں میں کلمے کی صورت تو ویسی ہی رہتی ہے مگر حروف کے اختلاف سے معنی بدل جاتے ہیں، جیسے ”ننشرھا،، اور ”ننشزھا،، ‘را، اور ‘زا، کے ساتھ۔
٤۔ بعض میں صورت تو بدل جاتی ہے لیکن اس کامعنی نہیں بدلتا، جیسے ”کالعھن المنفوش،، اور”کالصوف المنفوش،،۔
٥۔ صورت اور معنی دونوں بدل جاتے ہیں، جیسے ”طلح منضود،، اور ”طلع منضود،،۔
٦۔ ان میں کلمات کو مقدم اور مؤخر کردیا جائے، جیسے ”وجاء ت سکرۃ الموت بالحق،، اور ”وجاء ت سکرۃ الحق
————————————–
١)الاتقان، ج ١، نوع ٣٧، ص ٢٣٠۔
بالموت۔،،
٧۔ ان میں کمی بیشی کی جائے، جیسے ”تسع و تسعون نعجۃ انثی،، میں ”انثیٰ،،۔ ”اما الغلام فکان کافراو کان أبواہ مؤمنین،، میں ”فکان کافرا،، اور ”فان اللہ بعد اکراھھن لھن غفور رحیم۔،، میں ”لھن،، بڑھا دیا گیا ہے۔
جواب:
١۔ یہ دعویٰ ہی ہے، اس پر کوئی دلیل نہیں ہے اور ان روایات میں جن لوگوں کو مخاطب کیا گیا ہے وہ قرأتوں کے اختلاف کو سمجھتے ہی نہ تھے۔
٢۔ ان سات صورتوں میں معنیٰ کے بدلنے اور نہ بدلنے کی دو صورتیں بنائی گئی ہیں حالانکہ معنی کے بدلنے اور نہ بدلنے سے دو قسمیں نہیں بنتیں۔ کیونکہ معنیٰ کے بدلنے سے لفظ پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اس لیے کہ قرأتوں میں اختلاف تلفظ کی بنیاد پر ہے نہ کہ معنی کے۔ لہذا ایسی دو قرأتیں، ایک قرأت ہونی چاہیے نہ کہ دو۔ اس طرح قرأتیں چھ بنتی ہیں نہ کہ سات۔ اسی وجہ سے ”طلح منضود،، اور ”کالعھن المنفوش،، ایک ہی قسم شمار ہوگی۔ دو قسمیں نہیں۔
٣۔ ان قسموں میں لفظ کی صورت کے باقی رہنے جیسے۔ ”ننشزھا۔ ننشرھا،، اور باقی نہ رہنے جیسے ”طلح۔طلع،، کو بھی دو قسمیں قرار دیا گیا ہے حالانکہ یہ بھی دو قسمیں نہیں بلکہ ایک قسم ہے۔ اس لیے کہ اگرچہ کتابت میں ”ننشزھا،، اور ننشرھا،، کی ایک ہی صورت میں لیک تلفظ میں تو مختلف ہے، اس طرح ”طلح،، اور ”طلع،، میں صورت بدلی ہوئی ہے اور ”ننشزھا،، اور ننشرھا،، میں بھی بدلی ہوئی ہے۔ کیونکہ قرآن مکتوب کا نہیں مقرّر (پڑھا جائے) کا نام ہے۔ آسمان سے لفظ نازل ہوا ہے۔ مکتوب ناز نہیں ہوا۔
٤۔ ان سات حروف سے متعلق روایات میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ شروع میں قرآن ایک حرف میں نازل کیا گیا اور یہ واضح ہے کہ اس واحد حرف سے مراد مذکورہ اختلاف کی قسموں میں سے کوئی قسم نہیں ہوسکتی۔ لہذا باقی چھ قسمیں بھی ان میں سے نہیں ہونگی۔ بنابرایں سات حروف سے مراد سات قرأتیں نہیں ہوسکتیں۔
٥۔ قرآن کی بہت سی آیات اور کلمات پر تمام قاریوں کا اتفاق ہے اور ان میں کسی کابھی اختلاف نہیں ہے۔ جب اس اتفاقی قرأت کا ان اخلاقی قرأتوں میں اضافہ کریں گے تو مجموعاً آٹھ قرأتیں بنیں گی اور اس کا مطلب یہ ہوگا کہ قرآن آٹھ حروف میں نازل ہوا ہے۔
٦۔ گذشتہ روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ قاریان قرآن، کلمات قرآن میں اختلاف کرتے تھے، جیسا کہ حضرت عمر کے واقعہ سے ظاہر ہے۔ ان کا یہ اختلاف قرآن کے سات حروف میں سے ایک ہی حرف پر تھا۔ اس اختلاف کو ختم کرنے کے لیے رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کو یہ عذر پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے تھی کہ قرآن سات حروف میں نازل ہوا ہے کیا یہ ممکن ہے کہ ان اختلاف کا مطلب ہم یہ لیں کہ جبرئیل نے پہلے قرآن ایک حرف میں نازل کیا پھر دو حرفوں میں اس کے بعد تین میں اور پھر سات حروف میں۔
جزائری نے انصاف سے کام لیا ہے ، وہ فرماتے ہیں: ”اس مسئلے، یعنی سات حروف میں بہت سے اقوال ہیں اور اکثر اقوال حق سے دور ہیں۔،،
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ اقوال اختیار کرنے والوں کو خبر ہی نہیں کہ سات حروف سے متعلق روایات کس موقع پر بیان کی گئی ہیں، بس جو دل چاہا کہہ دیا۔(١)
٧۔ اختلاف قرأت کا ایک اور معنی
ان روایات کی تفسیر و تاویل میں ساتواں قول یہ ہے کہ سات حروف سے مراد قرأتوں میں اختلاف ہے جو گذشتہ اختلاف قرأت سے کچھ مختلف ہے۔
اس قول کو زرقانی نے اختیار کیا ہے جسے ابو الفضل رازی نے لوائح میں نقل کیا ہے۔ زرقانی فرماتے ہیں:
”کوئی بھی کلام ہو، اس میں سات قسم کے اختلافات ہوسکتے ہیں:
١۔ اسموں کا مفرد، تثنیہ، جمع، مذکر اور مؤنث ہونے کے اعتبار سے،
٢۔ افعال میں تصریف او گردان کے اعتبار سے، جیسے ماضی ، مضارع اور امر ہے،
٣۔ اعراب اورحرکت کے اعتبار سے،
٤۔ کمی بیشی کے اعتبار سے،
٥۔ تقدیم و تاخیر کے اعتبار سے،
٦۔ کلمات کے ردّ و بدل کے لحاظ سے، اور
٧۔ لغتوں اورلہجوں کے اعتبار سے جیسے فتح امامہ ترقیق تفخیم اظہار ادغام وغیرہ ہیں۔،،
جواب:
چھٹی تاویل پر کئے جانے والے اعتراضات میں سے پہلا، چوتھا اور پانچواں اعتراض اس تاویل پر بھی وارد ہوتا ہے ان کے علاوہ اس پر یہ اعتراض بھی آتا ہے کہ اسماء میں۔ افراد تثنیہ کے اعتبار سے۔ اور افعال میں۔ تصریف کے اعتبار سے اختلاف ہیئت کے ذ یل میں آتا ہے۔ اس کو ایک مستقل قسم بنانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر اس تقسیم میں چھوٹی چھوٹی خصوصیات کا لحاظ کریں تو تثنیہ، جمع، مذکر، مؤنث، ماضی، مضارع اور امر ان سب کو مستقل قرار دینا پڑے گا پھر اس اختلاف کی قسمیں سات سے تجاوز کرجائیں گی۔ اس کے علاوہ ایک کلمہ میں ادغام، اظہار، روم، اشمام تخفیف اور تسہیل کے بعد بھی ایک ہی کلمہ شمار ہوتا ہے، زیادہ نہیں اور بقول زرقارنی، ابن قتیبہ نے اس بات کی تصریح کی ہے۔(٢)
———————————
١) التبیان، ص ٥٩۔
٢) مناہل العرفان، ص ١٥٤۔
حق تو یہ ہے کہ قرأت میں جتنے بھی اختلاف ہوسکتے ہیں ان سب کی بازگشت چھ قسموں کی طرف ہے۔
١۔ ہیئت و صورت میں اختلاف ہو مادہ (حروف) میں نہیں۔ جیسے ”باعد،، ماضی اور ”باعد،، امر یا ”امانٰتھم،، جمع اور ”امانتھم،، مفرد میں۔
٢۔ مادہئ (کلمہ) حروف مختلف ہوں۔ ھیئت اور صورت نہیں، جیسے ”ننشزھا،، اور ”ننشرھا،، میں۔
٣۔ مادہ اور ہیئت دونوں میں اختلاف ہو۔ جیسے ”عھن،، اور ”صوف،، میں ہے۔
٤۔ اعراب کی وجہ سے جملے کی ہیئت و صورت میں اختلاف ہو۔ جیسے ”ارجُلُکُم،، اور ”ارجُلَکُم،، میں ہے۔
٥۔ تقدیم و تاخیر کے اعتبار سے اختلاف ہو۔ اس کی مثال گزر چکی ہے۔
٦۔ کمی اور بیشی کی وجہ سے اختلاف ہو۔ اس کی مثال بھی گزر چکی ہے۔
٨۔ اکائیوں کی کثرت
سات حروف کی تاویل میں آٹھواں قول یہ ہے کےہ سات حروف سے سات کا عدد مراد نہیں ہے بلکہ اس سے اکائیوں کی کثرت کی طرف اشارہ ہے۔ بنابرایں سات حروف سے مراد حروف کی کثرت ہے۔ جیسا کہ ستر سے دھائیوں کی کثرت مراد لی جاتی ہے۔ ستر کا عدد نہیں۔ اسی طرح سات سو سے سینکڑوں کی کثرت مراد لی جاتی ہے، سات سو کا عدد نہیں۔ یہ قول قاضی عیاض اور اس کے پیروکاروں کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔
جواب:
یہ احتمال گذشتہ روایات کے ظاہری معنی کے خلاف ہے، بلکہ بعض روایات میں اس احتمال کے خلاف تصریح موجود ہے اس کے علاوہ آٹھویں تاویل گذشتہ سات تاویلات سے الگ کوئی مستقل تاویل نہیں ہے، اس لیے کہ اس میں صرف اتنا بتایا گیا ہے کہ سات سے مراد اکائیوں کی کثرت ہے، لیکن حروف کا کوئی معنی بیان نہیں کیا گیا۔ لہذا لا محالہ گذشتہ سات معانی میں سے کوئی معنی مراد ہوگا اور سات معنوں پر جو اعتراضات کئے گئے ہیں وہ اس پر بھی ہوں گے۔
٩۔ سات قرأتیں
سات حروف (موضوع بحث) کی نویں تاویل یہ ہے کہ ان سے مراد سات قرأتیں ہیں۔
جواب:
اگر ان سات قرأتوں سے مراد مشہور سات قرأتیں ہیں تو تواتر قرأت کی بحث میں اس کا بطلان ثابت کیا جاچکا ہے اور اگر سات قرأتوں سے مراد کوئی سی سات قرأتیں ہیں تو قرأتیں صرف سات نہیں ہیں۔
اس تاویل کی یہ توجیہ بھی صحیح نہیں ہے کہ اگرچہ مجموعی طور پر قرآن میں سات سے زیادہ قرأتیں ہیں لیکن اگر ایک ایک کلمہ کو دیکھاجائے تو اس میں سات سے زیادہ قرأتیں نہیں ہیں۔
یہ توجیہ اس لیے صحیح نہیں ہے کہ اگر ان کلمات سے مراد اکثر کلمات ہوں (یعنی ایسے اکثر کلمات جن میں سات قرأتیں پڑھی جاتی ہیں) تو یہ درست نہیں ہے کیونکہ بہت کم کلمات ایسے ہیں جن میں سات قرأتیں پڑھی جاتی ہیں۔
یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ ان سے چند کلمات مراد ہوں کیونکہ قرآن کے کچھ کلمے ایسے ہیں جن میں سات سے زیادہ قرأتیں پڑھی جاتی ہیں۔ مثلاً، ”وعبد الطاغوت،، بائیس طریقوں سے پڑھا گیا ہے اور لفظ ”اُفّ،، کو تیس سے زیادہ طریقوں سے پڑھا گیا ہے۔
ان سب کے علاوہ تاویل کی یہ وجہ سات حروف کی روایات کے شان ورود سے بھی ساز گار نہیں ہے۔
١٠۔ مختلف لہجے
دسویں تاویل یہ ہے کہ روایات میں سے سات حروف سے مراد ایک ہی لفظ کے مختلف لہجے ہیں۔ اس قول کو رافعی نے اپنی کتاب ”اعجاز القرآن،، میں اختیار کیا ہے۔(١)
اس قول کی وضاحت: کلمات کی ادائیگی میں عرب کی ہر قوم و قبیلے کا ایک مخصوص لہجہ ہے۔ اسی لیے ہم عربوں کو سنتے ہیں کہ وہ ایک ہی لفظ مختلف لہجوں میں استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً ،یقول کے ”قاف،، کو عراق کے عرب ”گاف،، سے تلفظ کرتے ہیں اور شامی ”ہمزہ،، سے۔ چونکہ تمام قوموں اور قبیلوں کو ایک ہی لہجے کا پابند بنانا جس سے وہ نامانوس ہوں، ایک قسم کی سختی سے اس لیے عربوں کی سہولت اور آسانی کی خاطر متعدد لہجوں میں ادائیگی کی اجازت دی گئی ہے اور سات کا خصوصیت سے ذکر کرنے کا مقصد صرف قرأتوں کی کثرت کی طرف اشارہ کرنا ہے۔ لہذا قرأتوں کا سات سے زیادہ ہونا سات حروف کی روایات کے منافی نہیں ہے۔
جواب:
اگرچہ یہ تاویل باقی نو تاویلوں کی نسبت بہتر ہے۔ مگر پھر بھی نامکمل اور قابل اشکال ہے۔ کیونکہ:
١۔ یہ تاویل حضرت عمؓر اور حضرت عثماؓن کی روایت سے منافات رکھتی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ قرآن قریش کی لغت میں نازل ہوا ہے اور یہ کہ حضرت عمر نے ابن مسعود کی لغت ہذیل کے مطابق ”حتی حین،، کی بجائے ”عتی حین،، پڑھنےسے منع کردیا تھا۔
٢۔ یہ تاویل حضرت عمر اور ہشام کے اختلاف کے بھی منافی ہے کیونکہ دونوں کا تعلق قریش سے تھا۔
٣۔ یہ تاویل روایت موقع اور شان ورود کے منافی ہے بلکہ بعض روایات میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ اختلاف لہجوں یا ادائیگی کی کیفیت کا نہیں ہے بلکہ اصل لفظ کا ہے اور مختلف الفاظ ہی وہ حروف ہیں جن میں قرآن نازل کیا گی اہے۔
———————————-
١) اعجاز القرآن، ص ٧٠۔
٤۔ لفظ ”سات،، سے کثرت مراد لینا، ظاہر روایت کے خلاف ہے بلکہ بعض روایتوں میں موجود صراحت کے خلاف ہے۔
٥۔ اس تاویل کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اب بھی قرآن کا مختلف لہجوں میں پڑھاجانا صحیح ہو۔ حالانکہ یہ بات تمام مسلمانوں کی سیرت کے خلاف ہے اور یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ پہلے تو مختلف لہجوں میں پڑھنا جائز تھا مگر بعد میں یہ بات منسوخ ہوگئی، کیونکہ یہ ایک دعویٰ بلادلیل ہے۔
یہ بھی ممکن کہ مشہور اور ایک لہجے کے مطابق پڑھے جانے پر جو اجماع قطعی و یقینی قائم ہے اس کو نسخ کی دلیل قرار دیا جائے، کیونکہ اس اجماع کا واحد مأخذ و مدرک یہ ہے کہ قرآن کا مختلف لہجوں میں نازل ہونا ثابت نہیں اور اگر مختلف لہجوں میں قرآن کی قرأت کا جواز ثابت ہو جیسا کہ آخری تاویل میں دعویٰ کیا گیا ہے تو اس اجماع و اتفاق کی بنیاد منہدم ہو جائیگی۔
اس کے علاوہ نسخ کا احتمال اس لیے بھی درست نہیں کہ رسول اسلامؐ کی متعدد بار درخواست پر قرآن سات حروف میں اس غرض سے نازل کیا گیا تاکہ امت کے لئے سہولت رہے۔ اب یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ یہ سہولت نزول قرآن کے کچھ عرصے تک ہی حاصل رہے اور پھر سلب کرلی جائے اور اس پر اجماع علماء بھی قائم ہو جائے؟
یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ امت محمدیؐ پہلے کی نسبت آج کے دور میں زیادہ رعائت و سہولت کی محتاج ہے۔ کیونکہ صدر اسلام میں اسلام کے پیروکاروں کی تعداد کم تھی اور قرآن کے ایک لہجے پر سب کا اتفاق ہوسکتا تھا، لیکن بعد میں یہ کام مشکل ہے۔
سات حروف کے بارے میں اتنے اقوال پر ہی اکتفا کرتے ہیں اور باقی اقوال کا ذکر کرنے اور ان کا جواب دینے سے احتراز کرتے ہیں۔
گذشتہ تمام بحث کاخلاصہ یہ ہے کہ قرآن کا سات حروف میں نازل ہونا کوئی صحیح معنی نہیں رکھتا، لہٰذا ان تمام راویتوں کو جو سات حروف پر دلالت کرتی ہیں رد کرنا ضروری ہے۔ خصوصاً اھل بیت کی احادیث بھی اس کی تکذیب کریں اور یہ ثابت کریں کہ قرآن صرف ایک حرف میں نازل ہوا ہے اور اختلاف راویوں کاایجاد کردہ ہے۔
١) صحیح مسلم، ج ٢، ص ٢٠٢۔ صحیح بخاری، ج ٣، ص ٩٠ اور ج ٦، ص ١٠٠،١١١، ج ٨، ص ٥٣۔٢١٥۔ صحیح ترمذی، بشرح ابن العربی باب ما جاء انزل القرآن علی سبعۃ أحرف، ج ١١، ص ٦٠۔
٢) صحیح مسلم ، ج ٢، ص ٢٠٣۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روایت میں ضعیف راوی "عاصم اور حفص” قرآن کے کھاتے میں ڈال دئیے گئے، حفص کی قرات اور ابن عامر شامی کی قرآءت ۔ سبعہ قراءت والی بے سر و پا روایت کی کمزوریوں کو دور کرنے کے لئے بطور کشتہ تجویز کیئے گئے۔ مگر سات قراءتیں پھر بھی ثابت نہ کر سکے۔جو قراءتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل کو بار بار چکر لگوا کر اللہ سے منظور کروائیں،خلفائے راشدین نے ابتدا میں ہی ان کو منسوخ کیسے کر دیا؟ اور جب حضرت عثمان نے قریش کی ایک ہی قرآت پر سب کو متفق کر دیا تھا کہ جس کے بارے میں اللہ پاک نے قرآن مجید میں گارنٹی دی تھی کہ وحی نبی کی قوم اور قبیلے کی زبان میں کی جاتی ہے( سات سات لہجوں میں نہیں ) سب سے زیادہ قبائلی اختلاف بنی اسرائیل میں تھا مگر تورات موسی علیہ السلام کے قبیلے کی زبان میں نازل کی گئی بارہ قبیلوں کی زبان اور لہجے میں نہیں، جب عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے اصلی صحیفہ منگوا کر قریش کی قرات پر مصحف تیار کروا کر تمام صوبوں کے دارالحکومتوں میں بھیج دیئے تھے تو پھر یہ ورش ،اور عاصم و حفص و ابن عامر کی قراتوں کی گپ کس نے چھوڑی؟؟ یہ روایت پرستوں کا کارنامہ تھا تا کہ قرآن کے بارے میں بھی وہی کنفیوژن پیدا کیاجائے جو روایتوں کے بارے میں ہے۔