اسلام سمیت ہر مذھب میں شرک کا سارا دھندہ سماعِ موتی پہ چلتا ہےـ یہ آج سے نہیں بلکہ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے سے قدیمی مرض ہے، لہذا اللہ پاک نے پورے قرآن میں اس سماعِ موتی کے نظریئے کے بخیئے ادھیڑ کر رکھ دیئے ہیں ، اس کے باوجود رشک آتا ہے اھل قرآن پر کہ کس بےشرمی کے ساتھ سماع موتی کے نام پر شرک کی فیکٹریوں کو خوب گرم رکھے ہوئے ہیں ـ
حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے کے مر کر بھی سننے والے اور بلائیں ٹالنے ، بارشیں برسانے والے غوث اور قطب بزرگ پانچ تھے ،
۱ـ ود
۲ـ سواع
۳ـ یغوث
۴ـ یعوق
۵ـ نسر
یہ بذات خود نیک انسان تھے، ان کی وفات کے بعد لوگوں نے ان کو اللہ کا مقرب سمجھ کر انہی سے مانگنا اور چڑھاوے چڑھانا شروع کر دیا ،، یہ نیک اور صالح لوگ اپنی قوم کے اس شرک کا قیامت کے دن انکار کر دیں گے کہ اللہ گواہ ہے ہمارے اور تمہارے درمیان کہ ہم تمہارے شرک سے غافل تھے،
جب ابراھیم علیہ السلام نے سماع موتی کے بارے میں اپنی قوم سے پوچھا کہ کیا وہ تمہاری دعاؤں کو سنتے ہیں جب تم ان کو پکارتے ہو؟ تو انہوں نے سیدھا سیدھا جواب دیا کہ ہمیں کنفرم نہیں کہ وہ سنتے ہیں یا نہیں ، مگر ہم نے باپ دادا کو انہیں پکارتے دیکھا ہے لہذا ہم بھی پکار رہے ہیں ، ،، اس لحاظ سے قومِ ابراھیم ہمارے حیاتی اور سلفی بھائیوں کی نسبت بہتر موقف پر تھی، یہ لوگ تو وحی کی موجودگی میں بخاری کو پیش کر کے درجنوں آیات کو رد کر کے مردوں کی سماعت کا عقیدہ ثابت کرتے ہیں ـ
قَالَ هَلْ يَسْمَعُونَكُمْ إِذْ تَدْعُونَ (72) أَوْ يَنفَعُونَكُمْ أَوْ يَضُرُّونَ (73) قَالُوا بَلْ وَجَدْنَا آبَاءَنَا كَذَٰلِكَ يَفْعَلُونَ (74) الشعراء
وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّن يَدْعُو مِن دُونِ اللَّهِ مَن لَّا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَن دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ (5)وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوا لَهُمْ أَعْدَاءً وَكَانُوا بِعِبَادَتِهِمْ كَافِرِينَ (6)
اس سے بڑھ کر کون گمراہ ہو سکتا ہے جو اللہ کے سوا ان کو پکارے جو اس کی پکار کو قیامت تک پورا کر سکیں ،جبکہ وہ ان کی دعاؤں سے غافل ہیں اور جس دن لوگ حشر میں اکٹھے کیئے جائیں گے تو وہ[ نیک لوگ جن کو یہ پکارا کرتے تھے] ان کے دشمن بن جائیں گے اور ان کی عبادت کا انکار کر دیں گے ـ
ان تمام آیات سے پتہ چلتا ہے کہ جن کو پکارا جا رہا تھا وہ مقدس ھستیاں تھیں ، بزرگانِ دین تھے ،جنہیں معلوم بھی نہیں تھا کہ پچھلوں نے ان کو خدا بنا لیا ہے، نہ وہ ان کی دعائیں سنتے تھے اور نہ ہی کوئی ان کو ھلا جلا کر بتانے والا تھا کہ سرکار آپ کے ماننے والوں نے چاند چڑھا رکھا ہے، حشر میں جب ان کا نام بار بار اچھلے گا تو وہ قسمیں کھا کھا کر اور اللہ کو گواہ بنا بنا کر اپنی بے گناھی کا رونا روئیں گے ، اگر وہ سنتے ہوتے تو اس دیدہ دلیری سے اللہ کو گواہ نہ بناتے ، آپ آیات کی لائن لگا دیجئے مگر ایک بخاری سارے قرآن پر بھاری ـ
وَيَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِينَ أَشْرَكُوا مَكَانَكُمْ أَنتُمْ وَشُرَكَاؤُكُمْ ۚ فَزَيَّلْنَا بَيْنَهُمْ ۖ وَقَالَ شُرَكَاؤُهُم مَّا كُنتُمْ إِيَّانَا تَعْبُدُونَ (28) فَكَفَىٰ بِاللَّهِ شَهِيدًا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ إِن كُنَّا عَنْ عِبَادَتِكُمْ لَغَافِلِينَ (29)
اور جس دن ہم اکٹھا کریں گے سب کو پھر ہم کہیں گے کہ اپنی اپنی جگہ کھڑے ہو جاؤ تم بھی اور جن شریکوں کی تم عبادت کیا کرتے تھے وہ بھی ـتو ان کے شریک کہیں گے کہ تم ہماری بندگی تو نہیں کیا کرتے تھے ،پس اللہ کافی ہے گواہ ہمارے اور تمہارے درمیان کہ ہم تمہاری عبادت سے غافل تھے، بےخبر تھے ـ
جس طرح لیبارٹری والے رپورٹ دیتے ہیں کہ آپ کو فلاں بیماری ہے اور پھر آگے ُ آپریشن اور اور سرجریاں ہوتی ہیں ، اسی طرح یہ توحیدیئے سلفی رپورٹ دیتے ہیں کہ مردے سنتے ہیں ، داتا سنتا ہے، دمڑیاں والی سرکار سنتی ہے، غریب نواز سنتا ہے ،، اس کے بعد لوگ سوزوکیاں اور کیری ڈبے بک کر کے فیملی سمیت مرادیں مانگنے چل پڑتے ہیں ، اور سلفی پھر بھی توحیدیئے رہتے ہیں جیسے دلال گاھک اندر کر کے سر پر ٹوپی رکھ لیتا ھے،