شیخ ناصر الدین البانی کی سلسلۃ الضعیفہ والموضوعہ کی چار جلدیں پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے خطیب اپنے خطبوں کو جن احادیث سے مزین فرماتے ہیں ان میں سے نناوے اعشاریہ نو فیصد ضعیف یا موضوع کہانیاں ہیں مگر شہرت اور تلقی بالقبول میں قرآن کو بھی معاذ اللہ پیچھے چھوڑ گئ ہیں۔ صرف پہلی جلد کی فہرست ہی دیکھ لیں، تسلی ہو جائے گی۔ میں نے 1982 میں مکہ مکرمہ میں یہ چار جلدیں خریدی تھیں، وہیں مطالعہ شروع کیا تھا، اور پہلی جلد پڑھ کر ہی ایسا بخار چڑھا کہ امارات پہنچ کر ہی افاقہ ہوا۔ یہ روایات قرآن کریم کے متوازی ایک مکمل دین پیش کرتی ہیں، اور قرآن کو سامنے رکھ کر نہایت بدنیتی کے ساتھ بطور مشن یہ کام کیا گیا ہے، ہمارے وقت اور صلاحیتوں پر جو حق قرآن کا تھا وہ یہ روایتیں کھا گئیں جس طرح کھیت کی مٹی اور کھاد پر جو حق فصل کا ہوتا ہے وہ پوہلی،پیازی اور باتھو کھا کر خود سرسبز و شاداب ہوتے جاتے ہیں اور فصل دن بدن کمزور اور زرد ہوتی جاتی ہے۔
قرآن کی نہایت واضح غیر مشتبہ آیات کو بھی تفسیر میں نہایت کمزور، موضوع اور واہی روایات سے سجا کر اس کی جان نکال دیتے ہیں مفسرین۔ امام ابنِ کثیر کی تفسیر کو دیکھ لیں کہ سورہ نساء کی آیت” این ما تکونوا یدرککم الموت ولوا کنتم فی بروج مشیدہ”تم جہاں کہیں بھی ہو تم تمہیں پا لے گی اگرچہ تم جڑے ہوئے(ساؤنڈ پروف ) برج میں بھی بیٹھے ہو۔۔یہ آیت ایک ایسی حقیقت کو بیان کر رہی ہے کہ جس کو کوئی کافر بھی مسترد نہیں کر سکتا۔ یہاں کسی قصے کہانی کو نتھی کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔ مگر یہاں ابنِ کثیر نے تقدیر ثابت کرنے کے لئے ایک لڑکی کی کہانی بیان کر دی کہ جس لڑکی کے مقدر میں سو زنا لکھے ہوئے تھے لہذا پیدا ہوتے ہی چھری پیٹ میں گھونپ دیئے جانے کے باوجود بھی اللہ اس لڑکی کو سو زنا کا کوٹہ پورا کرنے کے لئے بچا لیتا ہے۔ جب کہانیاں بیان کرنے کی لت پڑ جائے تو وہ انسان کی فطرت ثانیہ بن جاتی ہے۔ روایت کو قرآن پر پیش کریں، اگر نہیں کرتے تو گویا نہ صرف آپ نے قرآن کو اس کا حق نہ دیا بلکہ اس کو اس کے مقام سے بھی گرا دیا۔ کہانیاں سننے اور پڑھنے کی ایک عمر ہوتی ہے، اب تو بڑے ہو جاؤ یارو۔
قاری حنیف ڈار۔